آسام میں مسلمانوں کے سوا تمام اقلیتی مہاجرین کو شہریت دینے کا بل منظور
متنازع بل کی منظوری مودی سرکار کی ہندو ووٹرز کی ہمدردی حاصل کرنے اور عصبیت و نفرت کو ہوا دینے کی کوشش ہے، مظاہرین
بھارتی ریاست آسام کی لوک سبھا نے تمام اقلیتی مہاجرین کو شہریت دینے کا بل منظور کرلیا ہے جس میں مسلمان مہاجرین کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کی لوک سبھا نے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر قانونی طور پر آنے والے ہندو، سکھ، جین، پارسی اور دیگر اقلیتی مذہبی گروہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کو شہریت دینے کا بل منظور کرلیا۔
انسانی حقوق سے متعلق سے اس اہم مسئلے پر بھی بھارت نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکار کردیا ہے جس پر آسام میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
لوک سبھا کے بعد ' شہریت سے متعلق ترمیمی بل 2019' راجیہ سبھا منظوری کے لیے بھیجا جائے گا جہاں یہ بل منظور ہوگیا تو فوری طور پرنافذ العمل ہوگا بصورت دیگر مسترد سمجھا جائے گا۔ مودی سرکار ہندو ووٹرز کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے بل منظور کرانے کی پوری کوشش میں مصروف ہے۔
واضح رہے کہ آسام میں گزشتہ برس قائم کیے گئے رجسٹریشن دفتر نے 33 ملین افراد سے 1971 سے قبل آسام میں سکونت اختیار کرنے کے ثبوت مانگے تھے اور عدم فراہمی پر 40 لاکھ باشندوں کو شہریت دینے سے انکار کردیا تھا۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کی لوک سبھا نے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر قانونی طور پر آنے والے ہندو، سکھ، جین، پارسی اور دیگر اقلیتی مذہبی گروہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کو شہریت دینے کا بل منظور کرلیا۔
انسانی حقوق سے متعلق سے اس اہم مسئلے پر بھی بھارت نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکار کردیا ہے جس پر آسام میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
لوک سبھا کے بعد ' شہریت سے متعلق ترمیمی بل 2019' راجیہ سبھا منظوری کے لیے بھیجا جائے گا جہاں یہ بل منظور ہوگیا تو فوری طور پرنافذ العمل ہوگا بصورت دیگر مسترد سمجھا جائے گا۔ مودی سرکار ہندو ووٹرز کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے بل منظور کرانے کی پوری کوشش میں مصروف ہے۔
واضح رہے کہ آسام میں گزشتہ برس قائم کیے گئے رجسٹریشن دفتر نے 33 ملین افراد سے 1971 سے قبل آسام میں سکونت اختیار کرنے کے ثبوت مانگے تھے اور عدم فراہمی پر 40 لاکھ باشندوں کو شہریت دینے سے انکار کردیا تھا۔