سائبرٹیریرسٹ
پاکستان بین الاقوامی میڈیا میں زیادہ تر غلط خبروں کی وجہ سے رہتا ہے، بن لادن بنا بات کے یک دم نہ جانے...
پاکستان بین الاقوامی میڈیا میں زیادہ تر غلط خبروں کی وجہ سے رہتا ہے، بن لادن بنا بات کے یک دم نہ جانے کہاں سے پاکستان میںنمودار ہوگئے اور پھر کب کہاں کیسے انھیں بنا کسی جانچ کے مار بھی دیا گیا۔ پتہ ہی نہیں چلا جب کہ بن لادن کو پکڑنے والے آپریشن کے وقت پوری پاکستانی قوم سو رہی تھی پھر بھی آخر میں بدنام ہوئے ہم۔
پاکستان سے بن لادن کے بارے میں سیکڑوں سوالات۔۔۔۔ارے بھئی! جب ہم کو پتہ ہی نہیں تھا کہ بن لادن کہاں ہے تو انٹرنیشنل میڈیا کے اٹھائے ہزاروں سوالوں کے جواب کیسے دیں؟
امریکا ہرچیز میں بال کی کھال نکالتا ہے کسی کی بلی بھی آدھے گھنٹے کو گم ہوجائے تو بلی کے واپس آجانے پر پولیس اس کے درجن بھر ڈی این اے ٹیسٹ کرلیتی ہے یہ کنفرم کرنے کے لیے کہ یہ بلی مالک کی ہے یا کوئی اور؟ لیکن مل جانے پر بن لادن کے ساتھ کھوئی ہوئی بلی سے بھی زیادہ برا سلوک کیا گیا۔علی ظفر کی فلم تیرے بن لادن سے لے کر گلی محلے میں اسامہ بن لادن کی شکل سے ملتے جلتے سیکڑوں لوگ پاکستان میں گھوم رہے ہیں لیکن امریکا نے چھپ چھپا کر ایبٹ آباد میں جس شخص کو مارا اور بہا دیا اس کے ''اسامہ'' ہونے کی کوئی جانچ نہیں کی گئی لیکن کیا ہم نے امریکا سے پوچھا کہ ڈی این اے کیوں نہیں ہوا؟
سامنے کھڑے شخص کو دو سیکنڈ کے اندر دیکھ کر کیسے اندھیرے میں فیصلہ کرلیا گیا کہ یہ بن لادن ہی ہے۔ امریکا سے سوال کرنے کے بجائے ہم نے تو خود ہی اپنے لوگوں کو امریکا کی مدد کرنے پر سزا دینی شروع کردی۔
کچھ دن پہلے پاکستان کی بن لادن پر آئی رپورٹ سے ہم پھر میڈیا کا نشانہ بن گئے، رپورٹ کے مطابق اسامہ 2002 پاکستان میں ہی تھے اور حیرت انگیز طور پر 2002 میں ہی ان کی گاڑی اسپیڈنگ کرتے ہوئے پکڑی بھی گئی تھی۔۔۔۔مگر چھوڑ دی گئی تھی، میڈیا اس بات پر حیران ہے کہ ہم نے اسامہ کی گاڑی روک کر بھی کیسے جانے دیا؟تو ہم میڈیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں روکی ہر گاڑی کو چھوڑ دیا جاتا ہے چاہے اس میں دو بندوں کو مارنے والے ریمنڈ ڈیوس بیٹھے ہوں یا اسامہ بن لادن لیکن ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑے جانے پر انٹرنیشنل میڈیا نے کیوں چھوڑ دیا؟ والے ہزاروں سوال نہیں کیے۔
چلیے اسامہ کی کہانی تو آپ کو پتہ ہے آج کل ہم ایک نئی طرح کی دہشت گردی کی خبروں میں نظر آرہے ہیں اور وہ ہے ''سائبرٹیریرازم'' یعنی انٹرنیٹ پر ٹیریرازم پھیلانا۔
پاکستان سے بیشتر بڑی بڑی انٹرنیٹ کمپنیوں کو دلچسپی نہیں اس لیے یوٹیوب جیسی بڑی کمپنی نے پچھلے سال ستمبر میں مسلمانوں کے خلاف آئی ویڈیو کو سعودی عرب اور انڈیا میں تو BAN کردیا لیکن پاکستان میں نہیں کیا ان کے مطابق پاکستان میں ان کے لوکل دفاتر نہیں ہیں ورنہ وہ ان ویڈیوز کو پاکستان میں بھی بین کردیتے۔ پاکستانی کورٹس کو انٹرنیٹ سروس پرووائڈرز کو باقاعدہ ہدایت دینی پڑی کہ وہ یو ٹیوب کو ملک بھر سے بین کریں ۔
انٹرنیٹ کمپنیوں کا پاکستان میں بزنس نہ پھیلانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے حساب سے پاکستانی آج دنیا میں سب سے زیادہ ہیکنگ کرتے ہیںیعنی کسی اور کی کمپنی یا حکومت کی سائٹ کو بریک کرکے بنا اجازت اس میں گھس جانا اور وائرس ڈالنا یا پھر ان کا پرسنل ڈیٹا چرانا۔
پچھلے سال بہت سے اداروں یہاں تک کہ ایک اخبار کی سائٹ بھی پاکستانی ہیکرز نے چرالی تھی اور اسی طرح کچھ دن پہلے پاکستانی ہیکرز نے انڈین شہر گوا کی گورنمنٹ کی تیرہ سائٹس ہیک کرلیں، انڈیا میں باقاعدہ پولیس سائبرسیل میں پاکستانی ہیکر کے خلاف شکایت درج ہوئی اور تفتیش جاری ہے۔ یہ وہی ہیکر ہیں جنھوں نے دو سال پہلے بھی انڈیا کی اسٹیٹ اور پبلسٹی ویب سائٹ پر ہیک کرکے پاکستان زندہ باد جیسے جملے لکھے دیے تھے۔ ٹیکنالوجی والی خبروں کے اخبارات اور ویب سائٹ اس ہیکنگ کی بات سے ایسی خبریں بنا رہے ہیں جیسے پاکستان کے انٹرنیٹ میں بھی کوئی بن لادن چھپا ہوا تھا اور اب وہ کسی آئی پی ایڈریس ہمارا مطلب ہے کسی پاکستانی ویب سائٹ سے پکڑا گیا۔
بیشتر ٹیکنالوجی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں ٹیکنالوجی کا مستقبل تاریک ہے لیکن وہ شاید ہمارے ڈیموگرافکس اور کلچرل ٹرینڈز کو دیکھے بغیر بات کر رہے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے 70 فیصد لوگ جوان ہیں یعنی بھاری اکثریت تیس سال کی عمر سے کم ہے۔۔۔۔پاکستان میں سوشل نیٹ ورکنگ اس وقت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ساتھ ہی پاکستان میں کمپیوٹرز اور فون سیلز اس وقت سب سے زیادہ بک رہے ہیں جیسے امریکا میں بیس اور تیس سال کی عمر کے کمانے والے لوگ زیادہ تر اپنے پیسے دوستوں کے ساتھ شراب اور کھانے میں خرچ کردیتے ہیں وہیں پاکستانی نوجوان اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ فون، سم کارڈ اور کمپیوٹر جیسی چیزوں کے لیے بچاتا اور خرچ کرتا ہے، امریکا میں ہر شخص کے پاس موبائل فون نہیں ہے لیکن پاکستان میں بھکاری تک ''اچھا میں فون رکھتا ہوں۔۔۔۔بھیک مانگنے کا وقت ہوگیا ہے'' کہہ کر اپنے دن کا آغاز کرتا ہے۔
پاکستان میں پچھلے سال جہاں صرف بارہ فیصد لوگ اپنے اسمارٹ فونز پر انٹرنیٹ استعمال کر رہے تھے اس سال بائیس فیصدی کر رہے ہیں۔ اگر خرچ کرنے کا تناسب دیکھا جائے تو پاکستانی نوجوان آج کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں ٹیکنالوجی پر زیادہ خرچ کر رہا ہے فون، ری فل کارڈز، ایکسسیریز طرح طرح کے ٹیبلٹس اسمارٹ فونز کمپیوٹرز وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں دیکھ کر اسے بدتمیز بچہ بناکر کلاس کے کونے میں بٹھادینے سے دنیا کو اس کی صلاحیتیں کبھی نظر نہیں آئیں گی۔ آج پاکستان میں ٹیکنالوجی کی ایک بہت بڑی مارکیٹ کا اسکوپ ہے وہ یوتھ جسے ٹیکنالوجی سے اتنا لگاؤ ہے اسے صحیح طرح ٹریننگ دی جائے تو اس میدان میں کمال کرسکتا لیکن افسوس ہماری صلاحیتوں کو دیکھے بغیر صرف ان پاکستانی ہیکرز کی خبریں میڈیا میں آتی ہیں جن کی وجہ سے ہم سائبر دنیا میں بھی ٹیریرسٹ لگنے لگتے ہیں، ٹھیک اسی طرح جیسے انجانے میں ایک بن لادن کی وجہ سے پاکستان ہمیشہ کے لیے ساری دنیا کے میڈیا کی نظر میں ٹیریرسٹ بن گیا۔
پاکستان سے بن لادن کے بارے میں سیکڑوں سوالات۔۔۔۔ارے بھئی! جب ہم کو پتہ ہی نہیں تھا کہ بن لادن کہاں ہے تو انٹرنیشنل میڈیا کے اٹھائے ہزاروں سوالوں کے جواب کیسے دیں؟
امریکا ہرچیز میں بال کی کھال نکالتا ہے کسی کی بلی بھی آدھے گھنٹے کو گم ہوجائے تو بلی کے واپس آجانے پر پولیس اس کے درجن بھر ڈی این اے ٹیسٹ کرلیتی ہے یہ کنفرم کرنے کے لیے کہ یہ بلی مالک کی ہے یا کوئی اور؟ لیکن مل جانے پر بن لادن کے ساتھ کھوئی ہوئی بلی سے بھی زیادہ برا سلوک کیا گیا۔علی ظفر کی فلم تیرے بن لادن سے لے کر گلی محلے میں اسامہ بن لادن کی شکل سے ملتے جلتے سیکڑوں لوگ پاکستان میں گھوم رہے ہیں لیکن امریکا نے چھپ چھپا کر ایبٹ آباد میں جس شخص کو مارا اور بہا دیا اس کے ''اسامہ'' ہونے کی کوئی جانچ نہیں کی گئی لیکن کیا ہم نے امریکا سے پوچھا کہ ڈی این اے کیوں نہیں ہوا؟
سامنے کھڑے شخص کو دو سیکنڈ کے اندر دیکھ کر کیسے اندھیرے میں فیصلہ کرلیا گیا کہ یہ بن لادن ہی ہے۔ امریکا سے سوال کرنے کے بجائے ہم نے تو خود ہی اپنے لوگوں کو امریکا کی مدد کرنے پر سزا دینی شروع کردی۔
کچھ دن پہلے پاکستان کی بن لادن پر آئی رپورٹ سے ہم پھر میڈیا کا نشانہ بن گئے، رپورٹ کے مطابق اسامہ 2002 پاکستان میں ہی تھے اور حیرت انگیز طور پر 2002 میں ہی ان کی گاڑی اسپیڈنگ کرتے ہوئے پکڑی بھی گئی تھی۔۔۔۔مگر چھوڑ دی گئی تھی، میڈیا اس بات پر حیران ہے کہ ہم نے اسامہ کی گاڑی روک کر بھی کیسے جانے دیا؟تو ہم میڈیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں روکی ہر گاڑی کو چھوڑ دیا جاتا ہے چاہے اس میں دو بندوں کو مارنے والے ریمنڈ ڈیوس بیٹھے ہوں یا اسامہ بن لادن لیکن ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑے جانے پر انٹرنیشنل میڈیا نے کیوں چھوڑ دیا؟ والے ہزاروں سوال نہیں کیے۔
چلیے اسامہ کی کہانی تو آپ کو پتہ ہے آج کل ہم ایک نئی طرح کی دہشت گردی کی خبروں میں نظر آرہے ہیں اور وہ ہے ''سائبرٹیریرازم'' یعنی انٹرنیٹ پر ٹیریرازم پھیلانا۔
پاکستان سے بیشتر بڑی بڑی انٹرنیٹ کمپنیوں کو دلچسپی نہیں اس لیے یوٹیوب جیسی بڑی کمپنی نے پچھلے سال ستمبر میں مسلمانوں کے خلاف آئی ویڈیو کو سعودی عرب اور انڈیا میں تو BAN کردیا لیکن پاکستان میں نہیں کیا ان کے مطابق پاکستان میں ان کے لوکل دفاتر نہیں ہیں ورنہ وہ ان ویڈیوز کو پاکستان میں بھی بین کردیتے۔ پاکستانی کورٹس کو انٹرنیٹ سروس پرووائڈرز کو باقاعدہ ہدایت دینی پڑی کہ وہ یو ٹیوب کو ملک بھر سے بین کریں ۔
انٹرنیٹ کمپنیوں کا پاکستان میں بزنس نہ پھیلانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے حساب سے پاکستانی آج دنیا میں سب سے زیادہ ہیکنگ کرتے ہیںیعنی کسی اور کی کمپنی یا حکومت کی سائٹ کو بریک کرکے بنا اجازت اس میں گھس جانا اور وائرس ڈالنا یا پھر ان کا پرسنل ڈیٹا چرانا۔
پچھلے سال بہت سے اداروں یہاں تک کہ ایک اخبار کی سائٹ بھی پاکستانی ہیکرز نے چرالی تھی اور اسی طرح کچھ دن پہلے پاکستانی ہیکرز نے انڈین شہر گوا کی گورنمنٹ کی تیرہ سائٹس ہیک کرلیں، انڈیا میں باقاعدہ پولیس سائبرسیل میں پاکستانی ہیکر کے خلاف شکایت درج ہوئی اور تفتیش جاری ہے۔ یہ وہی ہیکر ہیں جنھوں نے دو سال پہلے بھی انڈیا کی اسٹیٹ اور پبلسٹی ویب سائٹ پر ہیک کرکے پاکستان زندہ باد جیسے جملے لکھے دیے تھے۔ ٹیکنالوجی والی خبروں کے اخبارات اور ویب سائٹ اس ہیکنگ کی بات سے ایسی خبریں بنا رہے ہیں جیسے پاکستان کے انٹرنیٹ میں بھی کوئی بن لادن چھپا ہوا تھا اور اب وہ کسی آئی پی ایڈریس ہمارا مطلب ہے کسی پاکستانی ویب سائٹ سے پکڑا گیا۔
بیشتر ٹیکنالوجی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں ٹیکنالوجی کا مستقبل تاریک ہے لیکن وہ شاید ہمارے ڈیموگرافکس اور کلچرل ٹرینڈز کو دیکھے بغیر بات کر رہے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے 70 فیصد لوگ جوان ہیں یعنی بھاری اکثریت تیس سال کی عمر سے کم ہے۔۔۔۔پاکستان میں سوشل نیٹ ورکنگ اس وقت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ساتھ ہی پاکستان میں کمپیوٹرز اور فون سیلز اس وقت سب سے زیادہ بک رہے ہیں جیسے امریکا میں بیس اور تیس سال کی عمر کے کمانے والے لوگ زیادہ تر اپنے پیسے دوستوں کے ساتھ شراب اور کھانے میں خرچ کردیتے ہیں وہیں پاکستانی نوجوان اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ فون، سم کارڈ اور کمپیوٹر جیسی چیزوں کے لیے بچاتا اور خرچ کرتا ہے، امریکا میں ہر شخص کے پاس موبائل فون نہیں ہے لیکن پاکستان میں بھکاری تک ''اچھا میں فون رکھتا ہوں۔۔۔۔بھیک مانگنے کا وقت ہوگیا ہے'' کہہ کر اپنے دن کا آغاز کرتا ہے۔
پاکستان میں پچھلے سال جہاں صرف بارہ فیصد لوگ اپنے اسمارٹ فونز پر انٹرنیٹ استعمال کر رہے تھے اس سال بائیس فیصدی کر رہے ہیں۔ اگر خرچ کرنے کا تناسب دیکھا جائے تو پاکستانی نوجوان آج کسی بھی اور ملک کے مقابلے میں ٹیکنالوجی پر زیادہ خرچ کر رہا ہے فون، ری فل کارڈز، ایکسسیریز طرح طرح کے ٹیبلٹس اسمارٹ فونز کمپیوٹرز وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں دیکھ کر اسے بدتمیز بچہ بناکر کلاس کے کونے میں بٹھادینے سے دنیا کو اس کی صلاحیتیں کبھی نظر نہیں آئیں گی۔ آج پاکستان میں ٹیکنالوجی کی ایک بہت بڑی مارکیٹ کا اسکوپ ہے وہ یوتھ جسے ٹیکنالوجی سے اتنا لگاؤ ہے اسے صحیح طرح ٹریننگ دی جائے تو اس میدان میں کمال کرسکتا لیکن افسوس ہماری صلاحیتوں کو دیکھے بغیر صرف ان پاکستانی ہیکرز کی خبریں میڈیا میں آتی ہیں جن کی وجہ سے ہم سائبر دنیا میں بھی ٹیریرسٹ لگنے لگتے ہیں، ٹھیک اسی طرح جیسے انجانے میں ایک بن لادن کی وجہ سے پاکستان ہمیشہ کے لیے ساری دنیا کے میڈیا کی نظر میں ٹیریرسٹ بن گیا۔