مہنگائی پر حکومتی بے حسی
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی رمضان المبارک سے قبل ہی گراں فروشوں نے مہنگائی میں پھراضافہ کردیا ہے اور...
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی رمضان المبارک سے قبل ہی گراں فروشوں نے مہنگائی میں پھراضافہ کردیا ہے اور پہلے روزے سے ہی مہنگائی نے وہ رنگ دکھا دیے جو ہمیشہ سے دکھائے جاتے رہے ہیں اور اس منہ زور مہنگائی کے آگے ماضی کی ہر حکومت کی طرح حال ہی میں وجود میں آنے والی تمام صوبائی حکومتیں بھی بے بس اور مجبور ثابت ہورہی ہیں یا یہ ان کے نزدیک کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے کہ وہ اپنی اولین ترجیح قرار دے سکیں۔
مہنگائی پر کنٹرول کرنا وفاقی حکومت کا درد سر نہیں کیونکہ وفاقی حکومت کی اولین ترجیح ملک کی تباہ حال معیشت کی بہتری، دہشت گردی کا خاتمہ، لوڈشیڈنگ کم کرنا اور دیگر اہم وفاقی معاملات ہیں۔امن وامان اور مہنگائی پرکنٹرول اب وفاق کی ذمے داری نہیں بلکہ تمام صوبوں کی حکومتوں کی اہم ذمے داری بلکہ فرض ہے مگر تمام صوبائی حکومتوں کے نزدیک یہ اہم مسائل نہیں ہیں اور اسی لیے کوئی صوبائی حکومت سنجیدگی سے مہنگائی کے اہم مسئلے پر توجہ نہیں دے رہی کیونکہ ان کے نزدیک مہنگائی پرکنٹرول ڈپٹی کمشنروں کی ذمے داری ہے اور چاروں صوبوں نے اپنا پسندیدہ کمشنری نظام بھی اسی لیے بحال کیا تھا جو مکمل طور پر ناکام ثابت ہورہا ہے اور بیوروکریسی کی غلامی کی ذہنیت رکھنے والی یہ سیاسی صوبائی حکومتیں کمشنری نظام سے اس قدر مرعوب ہیں کہ یہ ڈپٹی کمشنروں کے بغیر چل ہی نہیں سکتیں۔رمضان المبارک سے قبل ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر پرائس کنٹرول کمیٹی کا اجلاس بلاتا ہے جس میں رمضان المبارک کے لیے اشیائے خورونوش کے سرکاری نرخ مقرر کیے جاتے ہیں۔
یہ اجلاس دکھاوے کے لیے ہر ضلع میں ہوتے ہیں جو ماضی کی طرح بے سود ثابت ہوتے ہیں۔ ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر پرائس کنٹرول کمیٹی کا سربراہ ہوتا ہے اور اجلاس میں سرکاری افسران کے علاوہ تاجروں کی مختلف تنظیموں کے نمائندوں کو بھی بلایا جاتاہے اور ان اجلاسوں میں ایسے غیر حقیقی نرخ مقررکیے جاتے ہیں جن کا اشیائے ضرورت کی اصل قیمتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پہلے رمضان سے قبل نرخ نہیں بڑھتے تھے بلکہ رمضان شروع ہوتے ہی نرخ بڑھادیے جاتے تھے مگر اب کئی سالوں سے رمضان سے قبل ہی نرخ بڑھادیے جاتے ہیں جن کا علم ہونے کے باوجود ضلعی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے اور رمضان سے قبل ہی مہنگائی بڑھ جانے پر ایکشن نہیں لیا جاتا۔ رمضان میں سرکاری طور پر جو فہرستیں جاری کی جاتی ہیں ان میں نرخوں میں تضاد ہوتا ہے۔
ضلعی انتظامیہ اپنے جاری کردہ سرکاری نرخوں میں ایک دو اور تین نمبر کی اشیاء میں امتیاز رکھتی ہے اور ہر نمبر کی اشیاء کے نرخ مختلف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ اشیاء فروخت کرنے والے تین نمبر کی چیز کو دو نمبر اور دو نمبر والے درجہ اول قرار دے کر نرخ وصول کرتے ہیں۔ روزانہ جاری کی جانے والی ان سرکاری فہرستوں میں پھلوں، سبزیوں، گوشت، مچھلی، مرغی کے نرخوں میں معمولی ردوبدل ہوتا ہے جب کہ ہول سیل سطح پر کاروبار کرنے والوں کو اس سلسلے میں کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے۔ ہول سیل کا کام کرنے والوں پر رٹیلرز الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہمیں مہنگے نرخوں پر اشیاء فراہم کرتے ہیں اور حکومت انھیں پوچھتی ہے نہ نرخ بڑھانے سے روکتی ہے۔
سبزیوں اور پھلوں کی منڈیوں میں اکثر پھلوں سبزیوں کی نیلامی ہوتی ہے اور بعض اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرکے منڈی میں ہی نیلام کی بولی زیادہ رقم سے شروع ہوتی ہے اس وقت قیمتوں پر کنٹرول کرنے والے محکمے کے اکثر ذمے دار اپنے گھروں میں سوئے ہوتے ہیں اور نیلامی کو کوئی چیک نہیں کرتا اس لیے رٹیلرز کو موقع مل جاتا ہے اور وہ مال اپنی دکانوں، تھلوں، پتھاروں اور ریڑھیوں پر مہنگا فروخت کرتے ہوئے بہانہ بنادیتے ہیں کہ آگے سے مال مہنگا آیا ہے ہم سرکاری نرخ پر کیسے فروخت کریں؟قیمتوں پر کنٹرول کی ذمے داری کمشنر اپنے ڈپٹی کمشنروں پر اور ڈپٹی کمشنر یہ ذمے داری اسسٹنٹ کمشنروں پر ڈال دیتے ہیں۔ کبھی کوئی کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر اپنی نیند خراب کرکے کبھی راتوں کو منڈیوں میں نہیں جاتے کہ انھیں حقائق کا علم ہوسکے۔
رٹیلرز ہمیشہ منڈیوں میں مہنگا مال فروخت کرنے کی شکایت کرتے ہیں جب کہ عام دنوں میں یہ رٹیلرز ہی ہوتے ہیں جو اپنی مرضی کے نرخ دن بھر وصول کرتے ہیں اور شام کو آواز لگاتے ہیں کہ ہوگئی شام گرگئے دام اور سارا مال فروخت کرکے بچے کھچے مال سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ رمضان میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر خود تو بازاروں میں جاتے ہی نہیں بلکہ شروع شروع میں اسسٹنٹ کمشنر نرخ چیک کرتے ہیں جن کی خبر ملتے ہی چھپائی گئی سرکاری فہرستیں نمایاں کردی جاتی ہیں اور دکھایا جاتا ہے کہ وہ مقررہ سرکاری نرخوں پر عمل کر رہے ہیں مگر ان کے جھوٹ کا بھانڈا وہاں موجود گاہک پھوڑ دیتے ہیں جس پر اسسٹنٹ کمشنر ان پر جرمانے کرکے اپنی ذمے داری پوری کردیتے ہیں جن کے جاتے ہی من مانے نرخوں پر فروخت شروع ہوجاتی ہے کیونکہ ادا کی جانے والی جرمانے کی رقم مزید نرخ بڑھاکر پوری کرلی جاتی ہے۔ گاہکوں اور گراں فروشوں کو پتہ ہے کہ یہ سرکاری چھاپے عارضی ہیں اور اسسٹنٹ کمشنروں نے کون سا وہاں موجود رہنا ہوتا ہے اور ویسے بھی یہ جرمانے کارکردگی دکھانے کا بہانہ اور میڈیا کو دکھانے کے لیے ہوتا ہے۔
ملک کی کسی بھی صوبائی حکومت نے مہنگائی کے اس اہم عوامی مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور مہنگائی پر کنٹرول کی حقیقی کوشش نہیں کی۔ اس معاملے میں جہاں صوبائی حکومتیں بے حس ہیں تو گراں فروشوں کا کردار بھی انتہائی شرمناک ہے اور خود ساختہ مہنگائی کے ذمے دار عوام بھی ہیں جواگر مہنگائی کی درست نشاندہی کریں، مہنگا مال نہ خریدیں تو کچھ ہوسکتا ہے۔ رمضان میں مہنگائی، سرکاری چھاپوں، سرکاری نرخ ناموں میں امتیاز اور غلط مقررکردہ قیمتوں کا ڈراما ہر بار شروع کے دنوں کے لیے چلتا ہے اور عوام بھی عادی ہوچکے ہیں جمہوری حکمرانوں کا پسندیدہ کمشنری نظام قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ہمیشہ ناکام رہا ہے اور حکمرانوں کو تو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ منڈی، بازاروں اور گلیوں میں آٹا، دال، چاول، گھی اور دیگر اشیاء کس دام فروخت ہوتی ہیں اور پھلوں اور سبزیوں والے کس طرح رمضان میں لوٹ رہے ہیں اور عوام لٹ رہی ہے یہ سلسلہ چلتا آ رہا ہے اور چلتا ہی رہے گا کیونکہ ہم سب بے حس جو ٹھہرے۔
مہنگائی پر کنٹرول کرنا وفاقی حکومت کا درد سر نہیں کیونکہ وفاقی حکومت کی اولین ترجیح ملک کی تباہ حال معیشت کی بہتری، دہشت گردی کا خاتمہ، لوڈشیڈنگ کم کرنا اور دیگر اہم وفاقی معاملات ہیں۔امن وامان اور مہنگائی پرکنٹرول اب وفاق کی ذمے داری نہیں بلکہ تمام صوبوں کی حکومتوں کی اہم ذمے داری بلکہ فرض ہے مگر تمام صوبائی حکومتوں کے نزدیک یہ اہم مسائل نہیں ہیں اور اسی لیے کوئی صوبائی حکومت سنجیدگی سے مہنگائی کے اہم مسئلے پر توجہ نہیں دے رہی کیونکہ ان کے نزدیک مہنگائی پرکنٹرول ڈپٹی کمشنروں کی ذمے داری ہے اور چاروں صوبوں نے اپنا پسندیدہ کمشنری نظام بھی اسی لیے بحال کیا تھا جو مکمل طور پر ناکام ثابت ہورہا ہے اور بیوروکریسی کی غلامی کی ذہنیت رکھنے والی یہ سیاسی صوبائی حکومتیں کمشنری نظام سے اس قدر مرعوب ہیں کہ یہ ڈپٹی کمشنروں کے بغیر چل ہی نہیں سکتیں۔رمضان المبارک سے قبل ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر پرائس کنٹرول کمیٹی کا اجلاس بلاتا ہے جس میں رمضان المبارک کے لیے اشیائے خورونوش کے سرکاری نرخ مقرر کیے جاتے ہیں۔
یہ اجلاس دکھاوے کے لیے ہر ضلع میں ہوتے ہیں جو ماضی کی طرح بے سود ثابت ہوتے ہیں۔ ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر پرائس کنٹرول کمیٹی کا سربراہ ہوتا ہے اور اجلاس میں سرکاری افسران کے علاوہ تاجروں کی مختلف تنظیموں کے نمائندوں کو بھی بلایا جاتاہے اور ان اجلاسوں میں ایسے غیر حقیقی نرخ مقررکیے جاتے ہیں جن کا اشیائے ضرورت کی اصل قیمتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پہلے رمضان سے قبل نرخ نہیں بڑھتے تھے بلکہ رمضان شروع ہوتے ہی نرخ بڑھادیے جاتے تھے مگر اب کئی سالوں سے رمضان سے قبل ہی نرخ بڑھادیے جاتے ہیں جن کا علم ہونے کے باوجود ضلعی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے اور رمضان سے قبل ہی مہنگائی بڑھ جانے پر ایکشن نہیں لیا جاتا۔ رمضان میں سرکاری طور پر جو فہرستیں جاری کی جاتی ہیں ان میں نرخوں میں تضاد ہوتا ہے۔
ضلعی انتظامیہ اپنے جاری کردہ سرکاری نرخوں میں ایک دو اور تین نمبر کی اشیاء میں امتیاز رکھتی ہے اور ہر نمبر کی اشیاء کے نرخ مختلف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ اشیاء فروخت کرنے والے تین نمبر کی چیز کو دو نمبر اور دو نمبر والے درجہ اول قرار دے کر نرخ وصول کرتے ہیں۔ روزانہ جاری کی جانے والی ان سرکاری فہرستوں میں پھلوں، سبزیوں، گوشت، مچھلی، مرغی کے نرخوں میں معمولی ردوبدل ہوتا ہے جب کہ ہول سیل سطح پر کاروبار کرنے والوں کو اس سلسلے میں کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے۔ ہول سیل کا کام کرنے والوں پر رٹیلرز الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہمیں مہنگے نرخوں پر اشیاء فراہم کرتے ہیں اور حکومت انھیں پوچھتی ہے نہ نرخ بڑھانے سے روکتی ہے۔
سبزیوں اور پھلوں کی منڈیوں میں اکثر پھلوں سبزیوں کی نیلامی ہوتی ہے اور بعض اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرکے منڈی میں ہی نیلام کی بولی زیادہ رقم سے شروع ہوتی ہے اس وقت قیمتوں پر کنٹرول کرنے والے محکمے کے اکثر ذمے دار اپنے گھروں میں سوئے ہوتے ہیں اور نیلامی کو کوئی چیک نہیں کرتا اس لیے رٹیلرز کو موقع مل جاتا ہے اور وہ مال اپنی دکانوں، تھلوں، پتھاروں اور ریڑھیوں پر مہنگا فروخت کرتے ہوئے بہانہ بنادیتے ہیں کہ آگے سے مال مہنگا آیا ہے ہم سرکاری نرخ پر کیسے فروخت کریں؟قیمتوں پر کنٹرول کی ذمے داری کمشنر اپنے ڈپٹی کمشنروں پر اور ڈپٹی کمشنر یہ ذمے داری اسسٹنٹ کمشنروں پر ڈال دیتے ہیں۔ کبھی کوئی کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر اپنی نیند خراب کرکے کبھی راتوں کو منڈیوں میں نہیں جاتے کہ انھیں حقائق کا علم ہوسکے۔
رٹیلرز ہمیشہ منڈیوں میں مہنگا مال فروخت کرنے کی شکایت کرتے ہیں جب کہ عام دنوں میں یہ رٹیلرز ہی ہوتے ہیں جو اپنی مرضی کے نرخ دن بھر وصول کرتے ہیں اور شام کو آواز لگاتے ہیں کہ ہوگئی شام گرگئے دام اور سارا مال فروخت کرکے بچے کھچے مال سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ رمضان میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر خود تو بازاروں میں جاتے ہی نہیں بلکہ شروع شروع میں اسسٹنٹ کمشنر نرخ چیک کرتے ہیں جن کی خبر ملتے ہی چھپائی گئی سرکاری فہرستیں نمایاں کردی جاتی ہیں اور دکھایا جاتا ہے کہ وہ مقررہ سرکاری نرخوں پر عمل کر رہے ہیں مگر ان کے جھوٹ کا بھانڈا وہاں موجود گاہک پھوڑ دیتے ہیں جس پر اسسٹنٹ کمشنر ان پر جرمانے کرکے اپنی ذمے داری پوری کردیتے ہیں جن کے جاتے ہی من مانے نرخوں پر فروخت شروع ہوجاتی ہے کیونکہ ادا کی جانے والی جرمانے کی رقم مزید نرخ بڑھاکر پوری کرلی جاتی ہے۔ گاہکوں اور گراں فروشوں کو پتہ ہے کہ یہ سرکاری چھاپے عارضی ہیں اور اسسٹنٹ کمشنروں نے کون سا وہاں موجود رہنا ہوتا ہے اور ویسے بھی یہ جرمانے کارکردگی دکھانے کا بہانہ اور میڈیا کو دکھانے کے لیے ہوتا ہے۔
ملک کی کسی بھی صوبائی حکومت نے مہنگائی کے اس اہم عوامی مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور مہنگائی پر کنٹرول کی حقیقی کوشش نہیں کی۔ اس معاملے میں جہاں صوبائی حکومتیں بے حس ہیں تو گراں فروشوں کا کردار بھی انتہائی شرمناک ہے اور خود ساختہ مہنگائی کے ذمے دار عوام بھی ہیں جواگر مہنگائی کی درست نشاندہی کریں، مہنگا مال نہ خریدیں تو کچھ ہوسکتا ہے۔ رمضان میں مہنگائی، سرکاری چھاپوں، سرکاری نرخ ناموں میں امتیاز اور غلط مقررکردہ قیمتوں کا ڈراما ہر بار شروع کے دنوں کے لیے چلتا ہے اور عوام بھی عادی ہوچکے ہیں جمہوری حکمرانوں کا پسندیدہ کمشنری نظام قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ہمیشہ ناکام رہا ہے اور حکمرانوں کو تو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ منڈی، بازاروں اور گلیوں میں آٹا، دال، چاول، گھی اور دیگر اشیاء کس دام فروخت ہوتی ہیں اور پھلوں اور سبزیوں والے کس طرح رمضان میں لوٹ رہے ہیں اور عوام لٹ رہی ہے یہ سلسلہ چلتا آ رہا ہے اور چلتا ہی رہے گا کیونکہ ہم سب بے حس جو ٹھہرے۔