ڈرامہ دبئی چلو سے سفرِ آخرت تک
لہری، منور ظریف اور علی اعجاز فلموں میں اپنے جملوں اور فقروں سے مزاح پیدا کرتے تھے
اسٹیج ، ٹیلی ویژن اور فلم کا لیجنڈ اداکار علی اعجاز جس کی شہرت کا سورج ٹی وی ڈرامہ ''دبئی چلو'' سے طلوع ہوا تھا ایک طویل عرصے تک اپنے فن کے جلوے بکھیرنے کے بعد گزشتہ دنوں ایک سوکھے پتے کی طرح اڑتا ہوا لحد کی آغوش میں جا سویا ۔ اب اس کی باتیں اور یادیں اس کے چاہنے والوں کو تڑپاتی رہیں گی۔ لاہور کے نگارخانوں میں مختلف فلموں کے سیٹوں پر اکثر علی اعجاز سے میری ملاقاتیں رہا کرتی تھیں وہ جتنا اچھا آرٹسٹ تھا اس سے کہیں اچھا وہ ایک انسان تھا، ایک ایسا انسان جس کے دل میں لوگوں کا درد بسا رہتا تھا۔ وہ اپنی ذات میں دوسرے تمام مزاحیہ آرٹسٹوں سے مختلف تھا، اس کی سوچ سب سے الگ تھی میں نے اس کا پہلا ڈرامہ ''دبئی چلو'' بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کے زمانے میں دیکھا تھا اور اس کو دیکھتے ہی اردگرد رنگ ہی رنگ بکھر جاتے تھے اس کی بے ساختہ اداکاری ہنسا ہنسا کر ناظرین کو لوٹ پوٹ کردیتی تھی۔ علی اعجاز نے ''دبئی چلو'' سے پہلے جن دو ڈراموں میں اپنی فنی صلاحیتوں کا بھرپور احساس دلایا تھا وہ قابل ذکر ڈرامے ''خواجہ اینڈ سن'' اور ''کھوجی'' تھے۔
اس سے پہلے کہ میں علی اعجاز کے ٹی وی سے لے کر فلم تک کے سفر کا تذکرہ کروں، اس کی ابتدائی زندگی کا تذکرہ بھی ضروری ہے جب ہندوستان کی تقسیم ہوچکی تھی اور پاکستان عالم وجود میں آچکا تھا۔ لاہور میں ایمپریس روڈ کے قریب مسلم لیگ ہائی اسکول تھا جہاں اس کو ابتدائی تعلیم کی غرض سے داخل کرایا گیا تھا اور اسکول میں یہ چار دوست اپنی شرارتوں کی وجہ سے سارے اسکول میں مشہور تھے ان میں عابد، حیدر، منور اور علی اعجازکا گٹھ جوڑ مشہور تھا۔ ان میں سے کسی کو بھی اپنے مستقبل کا نہیں پتہ تھا کہ بڑے ہوکر یہ کیا بنیں گے، ان کے والدین کی خواہش تھی کہ ان کی اولاد بڑی ہوکر اچھا پڑھ لکھ کر بابو بن جائے اور اچھا کمائے کھائے، پھر جب یہ چاروں دوست اسکول کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو نوعمری ہی سے بابو بننے کی بجائے یہ آرٹسٹ بننے کے خواب دیکھنے لگے تھے۔
ٹی وی اور فلمیں دیکھنے کا شوق ان چاروں کو اپنی تعلیم سے بھی زیادہ پیارا تھا اور پھر ایک وقت آیا کہ یہ چاروں فلمی دنیا سے اس طرح وابستہ ہوئے کہ بابو سے زیادہ کھانے کمانے لگے اور شہرت بھی ان کے نصیب میں خوب آئی۔ حیدر فلمی دنیا کا مشہور ہدایت کار و فلمساز حیدر چوہدری بن گیا جس نے بے شمار کامیاب فلمیں پروڈیوس کیں اسی طرح عابد بھی مشہور ہدایت کار عابد شجاع کہلایا، منورکو منور ظریف کے روپ میں فلمی دنیا نے اپنے گلے سے لگایا اور علی اعجاز بھی ایک اداکار بن کر لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن گیا تھا۔ علی اعجاز نے اپنے کامیاب کیریئر کا آغاز ٹیلی ویژن سے کیا تھا۔ علی اعجاز کے ٹی وی کے ایک اور ڈرامے کو بڑی شہرت ملی تھی وہ ڈرامہ تھا ''لاکھوں میں تین'' جسے مشہور رائٹر اور ایکٹر اطہر شاہ خان نے لکھا تھا۔ اطہر شاہ خان کو جیدی کے کردار میں بھی بڑی شہرت ملی تھی مگر بنیادی طور پر وہ ایک رائٹر ہی رہا ہے۔
ٹی وی ڈراموں سے بے شمار آرٹسٹ فلموں میں آئے اور پھر فلموں کی ایسی ضرورت بنے کہ ٹیلی ویژن پیچھے رہ گیا اسی طرح علی اعجاز فلموں کی طرف آیا تو چھاتا چلا گیا۔ مزاحیہ اداکاروں کی کھیپ میں ابتدا میں کچھ ایسے آرٹسٹ آئے جو اپنا چہرہ بگاڑ کر اور اوٹ پٹانگ حرکتیں کرکے فلموں میں ہنسایا کرتے تھے جیسے کہ پاکستان کی ابتدائی فلموں میں اداکار نذر کو بڑی شہرت ملی تھی، اسی طرح لاہور کی فلموں میں رنگیلا اور کراچی کی فلموں میں نرالا آیا مگر جب فلموں میں لہری، منور ظریف اور علی اعجاز نے مزاحیہ اداکاری کا آغاز کیا تو یہ آرٹسٹ اپنی بے پناہ فنی صلاحیتوں کے ساتھ ہیرو کے مقام تک پہنچ گئے تھے۔ ان میں اداکار ننھا اور رنگیلا بھی دو ایسے خوش قسمت اداکار تھے کہ ان کو بھی ان کے مقدر نے ہیرو کے منصب تک پہنچادیا تھا۔ اور ان کے نام بکتے تھے، رنگیلا، منور ظریف اور علی اعجاز نے اپنے وقت کی نامور ہیروئنوں کے ساتھ ہیرو کا کردار ادا کیا اور ان فلموں کو فلم بینوں نے بہت پسند کیا تھا۔ اس دور کی نامور ہیروئنوں کی انجمن اور آسیہ ممتاز کے ساتھ رنگیلا، منور ظریف اور علی اعجاز نے مرکزی کردار ادا کیے اور ان کی اردو اور پنجابی فلموں نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔
لہری، منور ظریف اور علی اعجاز فلموں میں اپنے جملوں اور فقروں سے مزاح پیدا کرتے تھے۔ اگر سیٹ پر جب کبھی منور ظریف، علی اعجاز اور رنگیلا موجود ہوتے تھے فلم کے رائٹر کو ایک کونے میں بیٹھ جانا پڑتا تھا۔ یہ اداکار جو مکالمے ادا کرتے تھے وہ سارے ان کے اپنے ذہن کی اختراع ہوتے تھے اور جب سینما ہال میں فلم بین ان کے بے ساختہ مکالموں سے محظوظ ہوکر بے تحاشا تالیاں بجایا کرتے تھے تو وہ ساری تالیاں فلم کے رائٹر کے کھاتے میں لکھ دی جاتی تھیں اور اس رائٹر کی بھی بڑی واہ واہ ہوتی تھی۔ علی اعجاز نے پنجابی فلموں کی بیشتر ہیروئنوں کے ساتھ بطور ہیرو کام کیا۔ ان میں انجمن، آسیہ اور پھر بعد میں اردو فلموں سے پنجابی فلموں میں بھی مشہور ہونے والی اداکارہ ممتاز کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا جن میں ''مسٹر افلاطون، اندھیر نگری، نوکر تے مالک، دھی رانی '' اور ''دشمن پیارا'' جیسی فلموں کی کامیابی نے علی اعجاز کو شہرت کے آسمان تک پہنچادیا تھا۔ فلم ساز علی اعجاز کے آگے پیچھے پھرتے تھے۔
لاہور میں میری پہلی ملاقات علی اعجاز سے اشفاق ملک کے اے۔ایم اسٹوڈیو میں ہوئی تھی۔ میری کراچی کی لکھی ہوئی فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' کا یونٹ اپنے آخری اسپیل کی شوٹنگ کررہا تھا۔ کراچی سے مزاحیہ اداکار معین اختر بھی شوٹنگ کی غرض سے لاہور آیا تھا۔ جب اسے پتہ چلا کہ علی اعجاز بھی کسی پنجابی فلم کی اسی اسٹوڈیو میں شوٹنگ کر رہا ہے تو معین اختر جو علی اعجاز کا فین تھا۔ اس سے ملنے چلا گیا۔ جب کافی دیر تک معین اختر نہیں آیا تو فلم کے ہدایت کار یوسف نصر بولے '' یونس ! آپ جائیں اور معین اختر سے کہو کہ شاٹ ریڈی ہے۔'' میں جب اس پنجابی فلم کے سیٹ پر گیا تو وہاں بھی شوٹنگ رکی ہوئی تھی اور علی اعجاز کے ساتھ معین اختر کے قہقہے بھی دور سے سنائی دے رہے تھے۔
جب میں قریب گیا تو معین اختر نے علی اعجاز سے کہا ''پا جی میرا بلاوا آگیا ہے پھر ملاقات ہوگی'' تو علی اعجاز نے ہنستے ہوئے کہا ''رب راکھا۔'' اور پھر معین اختر فلم کی شوٹنگ میں شامل ہوگیا تھا۔ پھر ایک وہ وقت آیا کہ معین اختر پاکستان ٹیلی ویژن کا نامور اداکار بن گیا تھا وہ جب بھی لاہور جاتا علی اعجاز سے ملے بغیر نہیں آتا تھا اور علی اعجاز جب بھی کراچی آتا تھا تو اس کی ملاقات معین اختر سے ضرور ہوتی تھی اور وہ دونوں خود کو ایک دوسرے کا فین کہتے تھے۔ دونوں میں ایک بات قدر مشترک تھی دونوں ہی انسان دوست اور درد مند دلوں کے مالک تھے۔ جس طرح معین اختر ڈھکے چھپے انداز میں فنکاروں اور غریب افراد کی مدد کرتا تھا اسی طرح علی اعجاز بھی اپنے اردگرد غرض مند لوگوں کی مدد کیا کرتا تھا۔
علی اعجاز نے سیالکوٹ میں علی اعجاز فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ویلفیئر پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا جس کے تحت اولڈ ہوم کی صورت میں 132 گھروں کی تعمیر کی تھی۔ علی اعجاز نے بارہا اپنے غریب آرٹسٹوں اور ساتھیوں کے لیے حکومت سے مستقل بنیادوں پر کوئی ٹرسٹ بنانے کی استدعا کی تھی اور وہ کئی بار اکیلا غریب فنکاروں کی آواز بنا تھا مگر ہمارے حکومتی ادارے جو ہمیشہ سے بے حسی کا شکار ہیں وہ علی اعجاز کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھے وہ اکیلا ہی اپنا کام کرتا رہا اور پچھلے دنوں دل کا دورہ پڑنے سے لاہور میں انتقال کرگیا اس کے دنیا سے چلے جانے سے فن کا ایک باب بند ہوگیا۔
اس سے پہلے کہ میں علی اعجاز کے ٹی وی سے لے کر فلم تک کے سفر کا تذکرہ کروں، اس کی ابتدائی زندگی کا تذکرہ بھی ضروری ہے جب ہندوستان کی تقسیم ہوچکی تھی اور پاکستان عالم وجود میں آچکا تھا۔ لاہور میں ایمپریس روڈ کے قریب مسلم لیگ ہائی اسکول تھا جہاں اس کو ابتدائی تعلیم کی غرض سے داخل کرایا گیا تھا اور اسکول میں یہ چار دوست اپنی شرارتوں کی وجہ سے سارے اسکول میں مشہور تھے ان میں عابد، حیدر، منور اور علی اعجازکا گٹھ جوڑ مشہور تھا۔ ان میں سے کسی کو بھی اپنے مستقبل کا نہیں پتہ تھا کہ بڑے ہوکر یہ کیا بنیں گے، ان کے والدین کی خواہش تھی کہ ان کی اولاد بڑی ہوکر اچھا پڑھ لکھ کر بابو بن جائے اور اچھا کمائے کھائے، پھر جب یہ چاروں دوست اسکول کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو نوعمری ہی سے بابو بننے کی بجائے یہ آرٹسٹ بننے کے خواب دیکھنے لگے تھے۔
ٹی وی اور فلمیں دیکھنے کا شوق ان چاروں کو اپنی تعلیم سے بھی زیادہ پیارا تھا اور پھر ایک وقت آیا کہ یہ چاروں فلمی دنیا سے اس طرح وابستہ ہوئے کہ بابو سے زیادہ کھانے کمانے لگے اور شہرت بھی ان کے نصیب میں خوب آئی۔ حیدر فلمی دنیا کا مشہور ہدایت کار و فلمساز حیدر چوہدری بن گیا جس نے بے شمار کامیاب فلمیں پروڈیوس کیں اسی طرح عابد بھی مشہور ہدایت کار عابد شجاع کہلایا، منورکو منور ظریف کے روپ میں فلمی دنیا نے اپنے گلے سے لگایا اور علی اعجاز بھی ایک اداکار بن کر لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن گیا تھا۔ علی اعجاز نے اپنے کامیاب کیریئر کا آغاز ٹیلی ویژن سے کیا تھا۔ علی اعجاز کے ٹی وی کے ایک اور ڈرامے کو بڑی شہرت ملی تھی وہ ڈرامہ تھا ''لاکھوں میں تین'' جسے مشہور رائٹر اور ایکٹر اطہر شاہ خان نے لکھا تھا۔ اطہر شاہ خان کو جیدی کے کردار میں بھی بڑی شہرت ملی تھی مگر بنیادی طور پر وہ ایک رائٹر ہی رہا ہے۔
ٹی وی ڈراموں سے بے شمار آرٹسٹ فلموں میں آئے اور پھر فلموں کی ایسی ضرورت بنے کہ ٹیلی ویژن پیچھے رہ گیا اسی طرح علی اعجاز فلموں کی طرف آیا تو چھاتا چلا گیا۔ مزاحیہ اداکاروں کی کھیپ میں ابتدا میں کچھ ایسے آرٹسٹ آئے جو اپنا چہرہ بگاڑ کر اور اوٹ پٹانگ حرکتیں کرکے فلموں میں ہنسایا کرتے تھے جیسے کہ پاکستان کی ابتدائی فلموں میں اداکار نذر کو بڑی شہرت ملی تھی، اسی طرح لاہور کی فلموں میں رنگیلا اور کراچی کی فلموں میں نرالا آیا مگر جب فلموں میں لہری، منور ظریف اور علی اعجاز نے مزاحیہ اداکاری کا آغاز کیا تو یہ آرٹسٹ اپنی بے پناہ فنی صلاحیتوں کے ساتھ ہیرو کے مقام تک پہنچ گئے تھے۔ ان میں اداکار ننھا اور رنگیلا بھی دو ایسے خوش قسمت اداکار تھے کہ ان کو بھی ان کے مقدر نے ہیرو کے منصب تک پہنچادیا تھا۔ اور ان کے نام بکتے تھے، رنگیلا، منور ظریف اور علی اعجاز نے اپنے وقت کی نامور ہیروئنوں کے ساتھ ہیرو کا کردار ادا کیا اور ان فلموں کو فلم بینوں نے بہت پسند کیا تھا۔ اس دور کی نامور ہیروئنوں کی انجمن اور آسیہ ممتاز کے ساتھ رنگیلا، منور ظریف اور علی اعجاز نے مرکزی کردار ادا کیے اور ان کی اردو اور پنجابی فلموں نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔
لہری، منور ظریف اور علی اعجاز فلموں میں اپنے جملوں اور فقروں سے مزاح پیدا کرتے تھے۔ اگر سیٹ پر جب کبھی منور ظریف، علی اعجاز اور رنگیلا موجود ہوتے تھے فلم کے رائٹر کو ایک کونے میں بیٹھ جانا پڑتا تھا۔ یہ اداکار جو مکالمے ادا کرتے تھے وہ سارے ان کے اپنے ذہن کی اختراع ہوتے تھے اور جب سینما ہال میں فلم بین ان کے بے ساختہ مکالموں سے محظوظ ہوکر بے تحاشا تالیاں بجایا کرتے تھے تو وہ ساری تالیاں فلم کے رائٹر کے کھاتے میں لکھ دی جاتی تھیں اور اس رائٹر کی بھی بڑی واہ واہ ہوتی تھی۔ علی اعجاز نے پنجابی فلموں کی بیشتر ہیروئنوں کے ساتھ بطور ہیرو کام کیا۔ ان میں انجمن، آسیہ اور پھر بعد میں اردو فلموں سے پنجابی فلموں میں بھی مشہور ہونے والی اداکارہ ممتاز کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا جن میں ''مسٹر افلاطون، اندھیر نگری، نوکر تے مالک، دھی رانی '' اور ''دشمن پیارا'' جیسی فلموں کی کامیابی نے علی اعجاز کو شہرت کے آسمان تک پہنچادیا تھا۔ فلم ساز علی اعجاز کے آگے پیچھے پھرتے تھے۔
لاہور میں میری پہلی ملاقات علی اعجاز سے اشفاق ملک کے اے۔ایم اسٹوڈیو میں ہوئی تھی۔ میری کراچی کی لکھی ہوئی فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' کا یونٹ اپنے آخری اسپیل کی شوٹنگ کررہا تھا۔ کراچی سے مزاحیہ اداکار معین اختر بھی شوٹنگ کی غرض سے لاہور آیا تھا۔ جب اسے پتہ چلا کہ علی اعجاز بھی کسی پنجابی فلم کی اسی اسٹوڈیو میں شوٹنگ کر رہا ہے تو معین اختر جو علی اعجاز کا فین تھا۔ اس سے ملنے چلا گیا۔ جب کافی دیر تک معین اختر نہیں آیا تو فلم کے ہدایت کار یوسف نصر بولے '' یونس ! آپ جائیں اور معین اختر سے کہو کہ شاٹ ریڈی ہے۔'' میں جب اس پنجابی فلم کے سیٹ پر گیا تو وہاں بھی شوٹنگ رکی ہوئی تھی اور علی اعجاز کے ساتھ معین اختر کے قہقہے بھی دور سے سنائی دے رہے تھے۔
جب میں قریب گیا تو معین اختر نے علی اعجاز سے کہا ''پا جی میرا بلاوا آگیا ہے پھر ملاقات ہوگی'' تو علی اعجاز نے ہنستے ہوئے کہا ''رب راکھا۔'' اور پھر معین اختر فلم کی شوٹنگ میں شامل ہوگیا تھا۔ پھر ایک وہ وقت آیا کہ معین اختر پاکستان ٹیلی ویژن کا نامور اداکار بن گیا تھا وہ جب بھی لاہور جاتا علی اعجاز سے ملے بغیر نہیں آتا تھا اور علی اعجاز جب بھی کراچی آتا تھا تو اس کی ملاقات معین اختر سے ضرور ہوتی تھی اور وہ دونوں خود کو ایک دوسرے کا فین کہتے تھے۔ دونوں میں ایک بات قدر مشترک تھی دونوں ہی انسان دوست اور درد مند دلوں کے مالک تھے۔ جس طرح معین اختر ڈھکے چھپے انداز میں فنکاروں اور غریب افراد کی مدد کرتا تھا اسی طرح علی اعجاز بھی اپنے اردگرد غرض مند لوگوں کی مدد کیا کرتا تھا۔
علی اعجاز نے سیالکوٹ میں علی اعجاز فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ویلفیئر پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا جس کے تحت اولڈ ہوم کی صورت میں 132 گھروں کی تعمیر کی تھی۔ علی اعجاز نے بارہا اپنے غریب آرٹسٹوں اور ساتھیوں کے لیے حکومت سے مستقل بنیادوں پر کوئی ٹرسٹ بنانے کی استدعا کی تھی اور وہ کئی بار اکیلا غریب فنکاروں کی آواز بنا تھا مگر ہمارے حکومتی ادارے جو ہمیشہ سے بے حسی کا شکار ہیں وہ علی اعجاز کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھے وہ اکیلا ہی اپنا کام کرتا رہا اور پچھلے دنوں دل کا دورہ پڑنے سے لاہور میں انتقال کرگیا اس کے دنیا سے چلے جانے سے فن کا ایک باب بند ہوگیا۔