محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کی نااہلی کروڑوں روپے کی عمارت پراین جی او کا قبضہ
این جی او کے ایم سی کے روڈسیفٹی پروجیکٹ کابورڈ لگا کر کپڑوں کی پیکنگ کررہی ہے
محکمہ اسکول ایجوکیشن سندھ کی نااہلی اورلاپرواہی کے سبب سہراب گوٹھ پر قائم محکمے کی عمارت پر ایک این جی او نے قبضہ کرکے اس میں اپنا دفتر اور گودام قائم کرلیا ہے۔
کروڑوں روپے مالیت کی جگہ پر محکمہ اسکول ایجوکیشن کی یہ 2 منزلہ عمارت کئی سو گز پر سہراب گوٹھ فلائی اوور کے نیچے اورعلامہ اقبال گورنمنٹ اسکول کے ساتھ موجود ہے جومحکمہ اسکول ایجوکیشن کے ڈائریکٹوریٹ آف اسکول ایجوکیشن پرائمری کی ملکیت ہے، یہ عمارت گزشتہ کئی برسوں سے خالی پڑی تھی تاہم کراچی کے ایک مصروف اوراہم علاقے میں قائم ڈائریکٹوریٹ اسکولز ایجوکیشن پرائمری کی اس عمارت پر اب نامعلوم اورغیرمعروف ادارے کا قبضہ ہے۔
عمارت کا مرکزی دروازہ جو ماضی میں ہمیشہ کھلاہوا پایا جاتا تھا اب بند رہتاہے اسے کھٹکھٹانے پر ایک فضل نامی چوکیدار باہر آتاہے جس کے مطابق یہ عمارت اب کسی سرفراز نامی شخص نے کرائے پر لے رکھی ہے اس عمارت کی پہلی اور دوسری منزل پر موجود مختلف کمروں میں کپڑوں سمیت دیگرسامان رکھا گیا ہے اور چوکیدار کے مطابق اس سامان کو یہاں سے شمالی علاقہ جات بھجوایا جاتا ہے۔
محکمہ اسکول ایجوکیشن کی یہ عمارت جن غیرمتعلقہ افراد کے زیر استعمال ہے انھوں نے عمارت کے صحن میں ایک پالتو کتا بھی رکھا ہوا ہے تاکہ کوئی غیرمتعلقہ شخص یہاں آنے کی جرات نہ کرسکے۔
ادھر"ایکسپریس"کو محکمہ اسکول ایجوکیشن کے ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ عمارت پر قبضہ کی اطلاع پر ڈائریکٹوریٹ اسکولز پرائمری کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیٹیگیشن نواز علی شاہ نے کچھ روز قبل اس عمارت کادورہ کیا تو وہاں موجود چوکیدار سے دریافت کرنے پرمعلوم ہوا یہ عمارت مشیر حیدر نامی کسی شخص سے سرفراز نام کے آدمی نے کرائے پر لے رکھی ہے جو بظاہرایک این جی او چلاتے ہیں اور کپڑوں سمیت دیگرسامان گلگت بلتستان بھجواتے ہیں جس کے بعد علامہ اقبال اسکول میں قائم معصومیہ گورنمنٹ بوائز اسکول کی انتظامیہ کی جانب سے متعلقہ تھانے یوسف پلازہ کے ایس ایچ او کو اس معاملے پر ایک تحریری شکایت جمع کرانے کی کوشش کی گئی تاہم ایس ایچ اونے اس تحریری شکایت کو وصول کیا اور نہ ہی معاملے میں کوئی دلچسپی ظاہر کی جس کے بعد اسکول انتظامیہ نے تحریری درخواست ایک کوریئرسروس کے ذریعے یوسف پلازہ تھانے کوبھجوادی ہے تاہم اس کے باوجود متعلقہ تھانے کی پولیس کی جانب سے اس سرکاری عمارت پرقبضے کے خلاف اب تک کسی قسم کی کارروائی سامنے نہیں آئی ہے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ صوبائی محکمہ اسکول ایجوکیشن کے اسپیشل سیکریٹری عباس ڈیتھوکے پاس ڈائریکٹراسکول پرائمری کراچی کی اسامی کا اضافی چارج بھی ہے، تاہم وہ اپنے ادارے کی اس عمارت پر قبضے کے حوالے سے مکمل طورپرلاعلم ہیں بیک وقت دو اہم اسامیوں کے چارج ہونے کے سبب غلام عباس ڈیتھو کریم آباد میں قائم اپنے دفتر کم ہی آتے ہیں، کراچی کے پرائمری اسکولوں کے انتظامی و تدریسی معاملات میں ان کی دلچسپی بھی نہ ہونے کے برابرہی ہے، وہ اپنے ماتحت اسکولوں کا دورہ کرتے ہیں اورنہ ہی اسکولوں میں تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے ان کی جانب سے کوئی اہم اقدام سامنے آیاہے۔
یاد رہے کہ فیڈرل بی ایریا اورسہراب گوٹھ کے سنگم پر موجود محکمہ اسکول ایجوکیشن کی اس عمارت میں حالیہ قبضے سے قبل نشہ کرنے والے افراد نے ڈیڑے ڈال رکھے تھے، یہ افراد اس عمارت سے فرنیچر، کھڑکیاں اوردروازے نکال کرلے گئے تاہم ان نشہ آور افراد نے اس دو منزلہ عمارت کو اپنا مسکن بنائے رکھا نشہ آور افراد عمارت میں سوتے اور نشہ کرتے تھے۔
کچھ سال قبل جب موجودہ ڈائریکٹرپرائیویٹ انسٹی ٹیوشنزسندھ منسوب صدیقی کے پاس ڈائریکٹراسکول ایجوکیشن کاچارج تھا تو وہ عمارت خالی ہونے کی اطلاع پر اپنے ماتحت افسران کے ہمراہ اس کے دورے پرپہنچے توعمارت کے مختلف کمروں میں نشے کرنے والے افراد جا بجا سوتے یانشہ کرتے نظرآئے جنھیں اس وقت توعمارت سے باہرنکال دیاگیااورمحکمہ اسکول ایجوکیشن کواپنے کچھ دفاتراس عمارت میں منتقل کرنے کی ہدایت بھی کی تاہم افسران کی جانب سے اس عمارت میں دفاترمنتقل کرنے کے حوالے سے پس وپیش سے کام لیاجاتارہاجس کے بعد نشے کرنے والے افرادنے ایک بارپھراس عمارت کارخ کرلیا۔ حال ہی میں ایک این جی او اپنا گودام قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
واضح رہے کہ سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے دورمیں جب سہراب گوٹھ فلائی اوور کی تعمیر کا کام شروع ہوا تو فلائی اوور کے ڈرائنگ کے مطابق مذکورہ فلائی اوور کا کچھ حصہ علامہ اقبال اسکول کے احاطے سے گزرنا تھا،علامہ اقبال اسکول کے احاطے میں موجود معصومیہ اسکول اس فلائی اوورکی زد میں آیالہذا اسکول کی عمارت کاکچھ حصہ فلائی اوورمیں لے لیاگیااورمعصومیہ اسکول کو یہاں سے علامہ اقبال اسکول کے احاطے میں ہی ایک دوسری جگہ منتقل کردیا گیا تاہم سٹی گورنمنٹ کی جانب سے اس فلائی اوور اور اطراف کی سڑکوں کی تعمیرکے بعد پل کے نیچے عین سہراب گوٹھ پر راشدمنہاس روڈ سے آنے والے ٹریفک کے لیے ایک یوٹرن بنایاگیا اوراسی یوٹرن کے ساتھ موجوداسکول کی عمارت کاکچھ حصہ جومحفوظ رہ گیاتھاباقاعدہ تعمیر ومرمت اور تزئین وآرائش کے بعد اس عمارت میں ڈائریکٹوریٹ اسکول ایجوکیشن کاماتحت دفترگلبرگ ٹائون آفس منتقل کردیاگیاجہاں باقاعدہ سے تعلیمی افسران کے دفاتربنے اوریہ افسران اسی عمارت سے متعلقہ ٹائون کے سرکاری اسکولوں کے انتظامی معاملات چلاتے رہے تاہم بعد میں یہ ٹاؤن آفس بھی فیڈرل بی ایریا کے علاقے کریم آبادمیں قائم ایجوکیشن کی ایک دوسری عمارت میں منتقل کردیاگیااورسہراب گوٹھ پر قائم یہ عمارت خالی کرکے قبضہ مافیاکے رحم وکرم پر چھوڑدی گئی۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیٹیگیشن نواز علی شاہ سے جب "ایکسپریس"نے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو انھوں نے وہاں محکمہ تعلیم کی عمارت پر قبضے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے متعلقہ ٹی او کو معاملے سے آگاہ کردیا تھا اب یہ ٹی او کی ذمے داری ہے کہ وہ قبضہ ختم کرانے کی کوشش کرے وہ لیٹیگیشن کے معاملات دیکھتے ہیں اگریہ معاملہ کورٹ میں ہوتا تو وہ ذمے دارہوتے تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ قانونی طور پر یہ عمارت محکمہ اسکول ایجوکیشن کی ہے اس پر سٹی گورنمنٹ کا کوئی محکمہ یا کوئی این جی او اپنا کلیم نہیں کرسکتی۔
"ایکسپریس" نے محکمہ تعلیم کی عمارت کو اپنی دسترس میں لینے والے این جی او کے سربراہ سرفراز سے جب اس سلسلے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ 2005 میں یہ عمارت محکمہ تعلیم سے لے کرسٹی گورنمنٹ کے حوالے کردی گئی تھی، اب کے ایم سی کے روڈ سیفٹی کے شعبے سے ہم نے معاہدہ کرکے اسے استعمال کے لیے لیاہے، ہم این ای ڈی یونیورسٹی کے ساتھ مل کر روڈ سیفٹی پر کام کرتے ہیں تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ اس عمارت میں محکمہ اسکول ایجوکیشن کے دفاترقائم رہے ہیں تو وہ اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے ان کا کہنا تھاکہ میئرکراچی اور کے ایم سی کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل کے ساتھ معاہدے کے تحت یہ جگہ انہیں دی گئی ہے جس کی تزئین وآرائش کے بعد یہ یہاں روڈ سیفٹی ریسرچ کا کام شروع کریں گے۔
این جی او کے مالک نے دعویٰ کیاکہ معاہدے کی دستاویز ان کے پاس ہیں جو وہ "واٹس اپ" کردیں گے تاہم پورا دن گزرنے اور یاد دہانی کے باوجود کسی قسم کی دستاویزموصول نہیں ہوئی۔"ایکسپریس"نے کراچی میٹروپولیٹین کارپوریشن کے ترجمان بشیرسدوزئی سے جب روڈ سیفٹی منصوبے اور سہراب گوٹھ پر موجودعمارت کے حوالے سے دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ روڈ سیفٹی کا کوئی پروجیکٹ کے ایم سی کے پاس نہیں، نہ اس پروجیکٹ سے کراچی میٹروپولیٹین کارپوریشن کا کوئی تعلق ہے۔
ڈائریکٹر ٹیکنیکل اقتدار احمد سے بھی "ایکسپریس"نے رابطہ کیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ 23 مئی 2018 سے اس عہدے پر کام کررہے ہیں ان کے دور میں اس طرح کا کوئی معاہدہ کسی بھی این جی او کے ساتھ نہیں ہوا اگر کوئی این جی او یہ دعویٰ کررہی ہے تو اسے چاہیے کہ دستاویزپیش کرے ، اس طرح کاکوئی شعبہ کے ایم سی کے پاس فعال نہیں ہے۔
علاوہ ازیں ایس ایچ او یوسف پلازہ تھانہ انیلا قادری سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی جانب سے قبضے کی ایک درخواست آئی تھی میں نے اسے آگے مارک کردیاتھا لیکن مصروفیت کے سبب ابھی کارروائی کاموقع نہیں مل سکا، تاہم میں نے جگہ کادورہ کیاہے ان کاکہناہے کہ یہ کے ایم سی کی جگہ ہے اب دونوں پارٹیوں کو بلا کرمسئلہ حل کرانے کی کوشش کروں گی ہم قبضہ ختم نہیں کرسکتے معاملہ حل نہ ہوا تو کورٹ کوبھجوادیں گے۔
کروڑوں روپے مالیت کی جگہ پر محکمہ اسکول ایجوکیشن کی یہ 2 منزلہ عمارت کئی سو گز پر سہراب گوٹھ فلائی اوور کے نیچے اورعلامہ اقبال گورنمنٹ اسکول کے ساتھ موجود ہے جومحکمہ اسکول ایجوکیشن کے ڈائریکٹوریٹ آف اسکول ایجوکیشن پرائمری کی ملکیت ہے، یہ عمارت گزشتہ کئی برسوں سے خالی پڑی تھی تاہم کراچی کے ایک مصروف اوراہم علاقے میں قائم ڈائریکٹوریٹ اسکولز ایجوکیشن پرائمری کی اس عمارت پر اب نامعلوم اورغیرمعروف ادارے کا قبضہ ہے۔
عمارت کا مرکزی دروازہ جو ماضی میں ہمیشہ کھلاہوا پایا جاتا تھا اب بند رہتاہے اسے کھٹکھٹانے پر ایک فضل نامی چوکیدار باہر آتاہے جس کے مطابق یہ عمارت اب کسی سرفراز نامی شخص نے کرائے پر لے رکھی ہے اس عمارت کی پہلی اور دوسری منزل پر موجود مختلف کمروں میں کپڑوں سمیت دیگرسامان رکھا گیا ہے اور چوکیدار کے مطابق اس سامان کو یہاں سے شمالی علاقہ جات بھجوایا جاتا ہے۔
محکمہ اسکول ایجوکیشن کی یہ عمارت جن غیرمتعلقہ افراد کے زیر استعمال ہے انھوں نے عمارت کے صحن میں ایک پالتو کتا بھی رکھا ہوا ہے تاکہ کوئی غیرمتعلقہ شخص یہاں آنے کی جرات نہ کرسکے۔
ادھر"ایکسپریس"کو محکمہ اسکول ایجوکیشن کے ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ عمارت پر قبضہ کی اطلاع پر ڈائریکٹوریٹ اسکولز پرائمری کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیٹیگیشن نواز علی شاہ نے کچھ روز قبل اس عمارت کادورہ کیا تو وہاں موجود چوکیدار سے دریافت کرنے پرمعلوم ہوا یہ عمارت مشیر حیدر نامی کسی شخص سے سرفراز نام کے آدمی نے کرائے پر لے رکھی ہے جو بظاہرایک این جی او چلاتے ہیں اور کپڑوں سمیت دیگرسامان گلگت بلتستان بھجواتے ہیں جس کے بعد علامہ اقبال اسکول میں قائم معصومیہ گورنمنٹ بوائز اسکول کی انتظامیہ کی جانب سے متعلقہ تھانے یوسف پلازہ کے ایس ایچ او کو اس معاملے پر ایک تحریری شکایت جمع کرانے کی کوشش کی گئی تاہم ایس ایچ اونے اس تحریری شکایت کو وصول کیا اور نہ ہی معاملے میں کوئی دلچسپی ظاہر کی جس کے بعد اسکول انتظامیہ نے تحریری درخواست ایک کوریئرسروس کے ذریعے یوسف پلازہ تھانے کوبھجوادی ہے تاہم اس کے باوجود متعلقہ تھانے کی پولیس کی جانب سے اس سرکاری عمارت پرقبضے کے خلاف اب تک کسی قسم کی کارروائی سامنے نہیں آئی ہے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ صوبائی محکمہ اسکول ایجوکیشن کے اسپیشل سیکریٹری عباس ڈیتھوکے پاس ڈائریکٹراسکول پرائمری کراچی کی اسامی کا اضافی چارج بھی ہے، تاہم وہ اپنے ادارے کی اس عمارت پر قبضے کے حوالے سے مکمل طورپرلاعلم ہیں بیک وقت دو اہم اسامیوں کے چارج ہونے کے سبب غلام عباس ڈیتھو کریم آباد میں قائم اپنے دفتر کم ہی آتے ہیں، کراچی کے پرائمری اسکولوں کے انتظامی و تدریسی معاملات میں ان کی دلچسپی بھی نہ ہونے کے برابرہی ہے، وہ اپنے ماتحت اسکولوں کا دورہ کرتے ہیں اورنہ ہی اسکولوں میں تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے ان کی جانب سے کوئی اہم اقدام سامنے آیاہے۔
یاد رہے کہ فیڈرل بی ایریا اورسہراب گوٹھ کے سنگم پر موجود محکمہ اسکول ایجوکیشن کی اس عمارت میں حالیہ قبضے سے قبل نشہ کرنے والے افراد نے ڈیڑے ڈال رکھے تھے، یہ افراد اس عمارت سے فرنیچر، کھڑکیاں اوردروازے نکال کرلے گئے تاہم ان نشہ آور افراد نے اس دو منزلہ عمارت کو اپنا مسکن بنائے رکھا نشہ آور افراد عمارت میں سوتے اور نشہ کرتے تھے۔
کچھ سال قبل جب موجودہ ڈائریکٹرپرائیویٹ انسٹی ٹیوشنزسندھ منسوب صدیقی کے پاس ڈائریکٹراسکول ایجوکیشن کاچارج تھا تو وہ عمارت خالی ہونے کی اطلاع پر اپنے ماتحت افسران کے ہمراہ اس کے دورے پرپہنچے توعمارت کے مختلف کمروں میں نشے کرنے والے افراد جا بجا سوتے یانشہ کرتے نظرآئے جنھیں اس وقت توعمارت سے باہرنکال دیاگیااورمحکمہ اسکول ایجوکیشن کواپنے کچھ دفاتراس عمارت میں منتقل کرنے کی ہدایت بھی کی تاہم افسران کی جانب سے اس عمارت میں دفاترمنتقل کرنے کے حوالے سے پس وپیش سے کام لیاجاتارہاجس کے بعد نشے کرنے والے افرادنے ایک بارپھراس عمارت کارخ کرلیا۔ حال ہی میں ایک این جی او اپنا گودام قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
واضح رہے کہ سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کے دورمیں جب سہراب گوٹھ فلائی اوور کی تعمیر کا کام شروع ہوا تو فلائی اوور کے ڈرائنگ کے مطابق مذکورہ فلائی اوور کا کچھ حصہ علامہ اقبال اسکول کے احاطے سے گزرنا تھا،علامہ اقبال اسکول کے احاطے میں موجود معصومیہ اسکول اس فلائی اوورکی زد میں آیالہذا اسکول کی عمارت کاکچھ حصہ فلائی اوورمیں لے لیاگیااورمعصومیہ اسکول کو یہاں سے علامہ اقبال اسکول کے احاطے میں ہی ایک دوسری جگہ منتقل کردیا گیا تاہم سٹی گورنمنٹ کی جانب سے اس فلائی اوور اور اطراف کی سڑکوں کی تعمیرکے بعد پل کے نیچے عین سہراب گوٹھ پر راشدمنہاس روڈ سے آنے والے ٹریفک کے لیے ایک یوٹرن بنایاگیا اوراسی یوٹرن کے ساتھ موجوداسکول کی عمارت کاکچھ حصہ جومحفوظ رہ گیاتھاباقاعدہ تعمیر ومرمت اور تزئین وآرائش کے بعد اس عمارت میں ڈائریکٹوریٹ اسکول ایجوکیشن کاماتحت دفترگلبرگ ٹائون آفس منتقل کردیاگیاجہاں باقاعدہ سے تعلیمی افسران کے دفاتربنے اوریہ افسران اسی عمارت سے متعلقہ ٹائون کے سرکاری اسکولوں کے انتظامی معاملات چلاتے رہے تاہم بعد میں یہ ٹاؤن آفس بھی فیڈرل بی ایریا کے علاقے کریم آبادمیں قائم ایجوکیشن کی ایک دوسری عمارت میں منتقل کردیاگیااورسہراب گوٹھ پر قائم یہ عمارت خالی کرکے قبضہ مافیاکے رحم وکرم پر چھوڑدی گئی۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیٹیگیشن نواز علی شاہ سے جب "ایکسپریس"نے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو انھوں نے وہاں محکمہ تعلیم کی عمارت پر قبضے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے متعلقہ ٹی او کو معاملے سے آگاہ کردیا تھا اب یہ ٹی او کی ذمے داری ہے کہ وہ قبضہ ختم کرانے کی کوشش کرے وہ لیٹیگیشن کے معاملات دیکھتے ہیں اگریہ معاملہ کورٹ میں ہوتا تو وہ ذمے دارہوتے تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ قانونی طور پر یہ عمارت محکمہ اسکول ایجوکیشن کی ہے اس پر سٹی گورنمنٹ کا کوئی محکمہ یا کوئی این جی او اپنا کلیم نہیں کرسکتی۔
"ایکسپریس" نے محکمہ تعلیم کی عمارت کو اپنی دسترس میں لینے والے این جی او کے سربراہ سرفراز سے جب اس سلسلے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ 2005 میں یہ عمارت محکمہ تعلیم سے لے کرسٹی گورنمنٹ کے حوالے کردی گئی تھی، اب کے ایم سی کے روڈ سیفٹی کے شعبے سے ہم نے معاہدہ کرکے اسے استعمال کے لیے لیاہے، ہم این ای ڈی یونیورسٹی کے ساتھ مل کر روڈ سیفٹی پر کام کرتے ہیں تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ اس عمارت میں محکمہ اسکول ایجوکیشن کے دفاترقائم رہے ہیں تو وہ اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے ان کا کہنا تھاکہ میئرکراچی اور کے ایم سی کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل کے ساتھ معاہدے کے تحت یہ جگہ انہیں دی گئی ہے جس کی تزئین وآرائش کے بعد یہ یہاں روڈ سیفٹی ریسرچ کا کام شروع کریں گے۔
این جی او کے مالک نے دعویٰ کیاکہ معاہدے کی دستاویز ان کے پاس ہیں جو وہ "واٹس اپ" کردیں گے تاہم پورا دن گزرنے اور یاد دہانی کے باوجود کسی قسم کی دستاویزموصول نہیں ہوئی۔"ایکسپریس"نے کراچی میٹروپولیٹین کارپوریشن کے ترجمان بشیرسدوزئی سے جب روڈ سیفٹی منصوبے اور سہراب گوٹھ پر موجودعمارت کے حوالے سے دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ روڈ سیفٹی کا کوئی پروجیکٹ کے ایم سی کے پاس نہیں، نہ اس پروجیکٹ سے کراچی میٹروپولیٹین کارپوریشن کا کوئی تعلق ہے۔
ڈائریکٹر ٹیکنیکل اقتدار احمد سے بھی "ایکسپریس"نے رابطہ کیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ 23 مئی 2018 سے اس عہدے پر کام کررہے ہیں ان کے دور میں اس طرح کا کوئی معاہدہ کسی بھی این جی او کے ساتھ نہیں ہوا اگر کوئی این جی او یہ دعویٰ کررہی ہے تو اسے چاہیے کہ دستاویزپیش کرے ، اس طرح کاکوئی شعبہ کے ایم سی کے پاس فعال نہیں ہے۔
علاوہ ازیں ایس ایچ او یوسف پلازہ تھانہ انیلا قادری سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی جانب سے قبضے کی ایک درخواست آئی تھی میں نے اسے آگے مارک کردیاتھا لیکن مصروفیت کے سبب ابھی کارروائی کاموقع نہیں مل سکا، تاہم میں نے جگہ کادورہ کیاہے ان کاکہناہے کہ یہ کے ایم سی کی جگہ ہے اب دونوں پارٹیوں کو بلا کرمسئلہ حل کرانے کی کوشش کروں گی ہم قبضہ ختم نہیں کرسکتے معاملہ حل نہ ہوا تو کورٹ کوبھجوادیں گے۔