پاکستان فٹبال فیڈریشن توقعات پر پورا اتر سکے گی

انٹرنیشنل فٹبالرز کے تاریخی استقبال سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں فٹبال کے کھیل سے لگاؤ رکھنے والوں کی کمی نہیں

انٹرنیشنل فٹبالرز کے تاریخی استقبال سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں فٹبال کے کھیل سے لگاؤ رکھنے والوں کی کمی نہیں

لوئیس فیگو پرتگال کے عالمی شہرت یافتہ فٹبالر ہیں،برازیل کے سٹرائیکر ریکاڈو کاکا کے بھی دنیا بھر میں کروڑوں چاہنے والے ہیں.

دنیائے فٹبال کے 2 بڑے نام ورلڈ سوکر سٹارز کی پروموشن اور فٹبال فینز کو سال نو کا یادگار تحفہ دینے کے لئے جمعرات کو پاکستان پہنچے، ممتاز کھلاڑی کراچی کے بعد لاہور کے مقامی شاپنگ ہال میں بھی رونق افروز ہوئے،اس موقع پر شائقین کا جوش وخروش عروج پر تھا، بچے اور جوان تو کیا بوڑھے اور خواتین بھی انٹرنیشنل فٹبالرز کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھیں، بڑی تعداد میں شہری آٹوگراف لینے اور سیلفیز بنوانے کے بھی خواہشمند تھے،صدر پاکستان فٹبال فیڈریشن سید اشفاق حسین، نائب صدور عامر ڈوگر اور سردار نوید حیدر سمیت دوسرے فیڈریشن عہدیدار اور صوبائی وزیر کھیل رائے تیمور خان بھٹی بھی مہمان کھلاڑیوں کو ''جی آیاں نوں'' کہنے کے لئے وہاں موجود تھے۔

کاکا اور فیگو کے ساتھ آئے ہوئے غیر ملکی سکیورٹی آفیسر نے جب بلند آواز میں کہا کہ فٹبالرز کی صرف انہیں شائقین کے ساتھ تصاویر بنیں گی جو قطار میں کھڑے ہوں گے، آواز کا سننا تھا کہ سینکٹروں پرستار مودب اور مہذب بچوں کی طرح قطاروں میں کھڑے ہو گئے، راقم نے اس دوران محسوس کیا کہ ان میں سے شائقین کی زیادہ تر تعداد انٹرنیشنل فٹبالرز کے ناموں سے تو شاید واقف تھی لیکن وہ ان کے چہروں سے آشنا کم ہی تھی، اس لئے سینکٹروں کے ہجوم میں جب بھی کوئی ''گورا'' نظر آتا تو یہیں آوازیں سننے کو ملتیں، یہ کاکا ہے یا فیگو، حقیقت میں وہ کاکا ہوتا اور نہ ہی فیگو بلکہ وہ فٹبالرز کا غیر ملکی محافظ ہوتا۔

انٹرنیشنل فٹبالرز کے تاریخی استقبال سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں فٹبال کے کھیل سے لگاؤ رکھنے والوں کی کمی نہیں لیکن نہ جانے کیوں اس کھیل کو آگے ہی نہیں آنے دیا گیا۔ اگر پاکستان میں فٹبال کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو حقائق ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں، فیفا کی جانب سے ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں فٹبال کھیلنے والوں کی تعداد 26 کروڑ 50 لاکھ ہے۔پاکستان میں بھی فٹبال کھیلنے اور دیکھنے والوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے لیکن ہمارے ہاں اس کھیل کے ساتھ کیا ناانصافیاں ہورہی ہیں، شاید یورپ اور لاطینی امریکہ کے ملکوں میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔


2006 میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق اس وقت پاکستان میں 29 لاکھ سے زیادہ لوگ فٹبال کھیلتے تھے۔اس بات کو 13سال گزر گئے ہیں، یقینی طور پر اب یہ تعداد دگنا نہیں ہوئی تو اس میں کم از کم اس میں 10، 15 لاکھ کا اضافہ تو ضرور ہوا ہوگا۔ یعنی اس وقت پاکستان میں فٹبال کھیلنے والوں کی تعداد 40 سے لاکھ سے زیادہ ہونی چاہیے۔جہاں فیفا کے اعداد وشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فٹبال دنیا میں ہر جگہ کھیلا جاتا ہے تو وہیں پاکستان فٹبال فیڈریشن کے اعداد و شماربھی بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک کے ہر کونے میں یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔

اس میں ایک خاص بات تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے جتنے بھی پسماندہ علاقے ہیں وہاں فٹبال کھیلنے والوں کی تعداد کرکٹ کھیلنے والوں سے زیادہ ہے، خاص طور پر بلوچستان، فاٹا، پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخوا کے وہ دیہات، جہاں غریب بچے تھوڑی سے رقم سے ایک فٹبال خرید کر اس سے اپنا شوق پورا کرلیتے ہیں، ہمارے ملک میں اس وقت فٹبال کے رجسٹرڈ کلبز کی تعداد 2600 ہے۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ عالمی چیمپئن جرمنی میں بھی فٹبال کے اتنے ہی رجسٹرڈ کلبز ہیں۔دلچسپ حقائق یہ ہیں کہ اگست 2014میں پاکستان کی قومی ٹیم نے اپنے سے کئی درجہ بلند رینکنگ کے حامل ہمسایہ ملک بھارت کو اس ہی کی سرزمین پر 2میچز کی سیریز میں شکست دے کر سبز ہلالی پرچم سربلند کیا تھا۔

اس کے کچھ عرصہ بعد ہی پاکستان کی قومی ٹیم نے ایک مرتبہ پھر اپنے سے کئی درجہ بہتر افغانستان کی قومی ٹیم کو 2015میں لاہور میں شکست سے دو چار کرکے ایک مرتبہ پھر دنیا کو بتا دیا تھا کہ ہم فٹبال کی دنیا میں جلد ایک باعزت مقام حاصل کر لیں گے، لیکن ماضی میں فٹبال کے ساتھ ایسا کھیل کھیلا گیا کہ ہم اس کھیل میں اوپر جانے کی بجائے مزید تنزلی کا شکار ہو گئے، فیفا کی طرف سے جاری کر دہ رینکنگ کے مطابق دنیا میں مجموعی طور پر 211 ممالک فٹبال کھیلتے ہیں تاہم پاکستان کی رینکنگ مزید تنزلی کا شکار ہو کر 199پر آن پہنچی ہے جو 20کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل پاکستانی قوم کے لئے انتہائی شرمندگی کا باعث ہے۔ 2015 میں پاکستان کی فیفا عالمی رینکنگ اب سے 29درجے بہتر یعنی 170 پر تھی۔

تاریخ شاہد ہے کہ زمانہ قدیم سے اقوام عالم کھیلوں سمیت مختلف ذرائع سے دنیا کی دیگر اقوام میں ایک ممتاز مقام حاصل کرنے کے لئے کاوشیں کرتی رہی ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ کھیل باقاعدہ سرگرمیوں کی شکل اختیار کرتے چلے گئے، کھیلوں کی عالمی تنظیمیں بننے لگیں جنہوں نے رفتہ رفتہ اپنے قواعدو ضوابط ترتیب دینے شروع کئے اور بالاخر موجودہ انتہائی منظم شکل اختیار کر لی اورکھیل رفتہ رفتہ اس قدر اہمیت اختیار کر گئے کہ عالمی سطح پر انہیں اقوام کی عمومی جسمانی صحت اور کارکردگی کا معیار سمجھا جانے لگا ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کھیلوں کے ذریعے اپنی ثقافت کو بھی دنیا بھر کے لوگوں تک مثبت انداز میں پہنچا یا جاتا ہے۔ اس ضمن میں فٹبال ایک خصوصی حیثیت کا حامل کھیل بن چکا ہے اور دنیا بھر کے مقبول ترین کھیل میں ممتاز مقام رکھنے والی اقوام اپنی نمایاں عالمی رینکنگ کو اپنے نوجوانوں میں صحتمند تحریک کے مثبت جذبات پیدا کرنے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔

اس سب کیلئے ان ممالک کی حکومتیں کھیلوں کو چلانے والی قومی ایسوسی ایشنز کو مکمل مدد فراہم کرتی ہیں لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، افسوس صد افسوس ہم درخت کی جس شاخ پر بیٹھے ہیں اس کو ہی مسلسل کاٹے جا رہے ہیں۔پاکستان فٹبال فیڈریشن کے حالیہ انتخابات میں سید اشفاق حسین کا گروپ کامیاب رہا ہے لیکن فیصل صالح حیات اور برسراقتدار گروپوں کے درمیان سرد جنگ عروج پر ہے، دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے نئی نئی چالیں چل رہے ہیں، اگر یہ سلسلہ طول پکڑ گیا تو اس کا یقینی طور پر مزید نقصان فٹبال کے کھیل کا ہی ہوگا،ادھر نومنتخب صدر سید اشفاق حسین کا کہنا ہے کہ اب فٹبال کے حقیقی وارث آ گئے ہیں، اس لئے وہ نہ صرف کھلاڑیوں، کوچز اور دوسرے آفیشلز کو عزت دینے پر یقین رکھتے ہیں بلکہ فٹبال کے کھیل کو عروج پر لے جانے کیلئے بھی پر عزم ہیں۔بلاشبہ سید اشفاق حسین فٹبال کے کھیل کو اس کا اصل مقام دلانے کیلئے کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں تاہم اپنے اس مقصد کے حصول کیلئے انہیں پہلے اے ایف سی اور فیفا کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا، بصورت دیگر پاکستان کو ایک بار پھر فٹبال کی عالمی تنظیم کی طرف سے معطلی کی کھائی میں گرنے سے بچانا مشکل ہوگا۔
Load Next Story