’’ جمہوری اِنتقام ‘‘

گزشتہ 40 برسوں میںووٹ ڈالنے کے رجحان میں مسلسل کمی ہوتی جا رہی ہے

shaikhjabir@gmail.com

QUETTA:
سر ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ ''اب تک اپنائے گئے طریقوں میں جمہوریت سب سے برُی طرزِ حکومت ہے۔'' شاعرِ مشرق، مصّورِ پاکستان، علامہ سر محمد اقبال کی جمہوریت کے بارے میں رائے بھی ہمارے سامنے ہے۔اس کے باوصف ہمارے سیاست کاروں سے لے کر لکھنے بولنے والوں کو اس لولی لنگڑی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے سوا کوئی اورجائے پناہ نظر نہیں آتی۔حا لاں کہ دِگرگوں معاشی حالات، بدعنوانی،اقربا پروری،لاقانونیت، بے امنی،یہاں تک کہ مجبور ہو کر سیکڑوں اقلیتی گھرانوں کی بھارت نقل مکانی،آج کے ایسے جمہوری تحائف یا وہ ''جمہوری اِنتقام'' ہے جس نے پاکستانیوں کی اکثریت کو جمہوریت سے بے زار ہی کر دیا ہے۔اس کا اندازہ اس امر سے بھی بہ خوبی کیا جا سکتا ہے کہ عوام کی اکثریت ووٹنگ کے عمل سے خود کو لاتعلق کر چکی ہے۔2008 میں ہونے والے انتخابات میں صرف 44.55 فی صد ووٹرز نے اپنا ووٹ ڈالنے کی زحمت گوارا کی۔ یعنی ملک کی خاموش اکثریت اس سارے انتخابی عمل سے لاتعلق رہی۔ 1977 کے انتخابات میں یہ تعداد55.02 فی صد تھی۔

یہ صرف پاکستان ہی کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یوں لگتا ہے انسانیت کا اجتماعی ضمیر ہی جمہوری عمل سے کنارہ کشی اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ 40 برسوں میںووٹ ڈالنے کے رجحان میں مسلسل کمی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ رجحان مستحکم جمہوریتوں اور ترقی یافتہ ممالک میں واضح نظر آتا ہے۔

برطانیہ میں1950 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں 83.61 فی صد رائے دہندگان نے اپنا حق ِ رائے دہی استعمال کیا۔ یہ ہی تعداد 2010 میں گھٹ کر صرف 5.77 6فی صد رہ گئی۔ برطانویوں کی یورپی یونین کے انتخابات سے سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2009 کے یورپی یونین کے انتخابات میں صرف 34.48 فی صد برطانویوں نے ووٹ دینے کی زحمت گوارا کی۔

فرانس، سال 1946 انتخابی عمل میں رجسٹرڈ ووٹروں کی 81.85 فی صد تعداد نے حصّہ لیا۔ جب یہ ہی پارلیمانی انتخابات 2007 میں ہوئے تو ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد صرف 59.98 رہ گئی۔یورپی یونین کے انتخابات 2009 کے لیے فرانس سے صرف 40.63فی صد ووٹ ڈالے گئے۔

سوئٹزرلینڈ ،پارلیمانی انتخابات سال 1947 ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد 71.69 فی صد ۔ سال 2011 ء انتخابات، ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد 44.10 فی صد۔

رشین فیڈریشن سال 1991 ووٹ دینے والے 74.66 فی صد۔ سال 2012 ووٹ ڈالنے والوں کی کُل تعداد 65.27 فی صد۔اسرائیل میں 1949 کے انتخابات میں اتنا جوش و خروش پایا جاتا تھا کہ86.89فی صد یہودی ووٹروں نے ووٹ کاسٹ کیے۔ لیکن 2009 تک جمہوری بخار وہاں بھی کم ہوا، ووٹ ڈالنے والے محض 64.72 فی صد رہ گئے۔ ہمسایہ ملک افغانستان کے نام نہاد انتخابات پر بھی ایک نظر ہو جائے۔2004 کے صدارتی انتخابات میں 83.68 فی صد رائے دہندگان نے رائے شماری کے عمل میں حصّہ لیاجب کہ یہ تعداد اگلے ہی انتخابات 2009ء میں کم ہو کر 38.80 رہ گئی۔


جاپان میں 1952 میں 76.43 فی صد رائے دہندگان نے رائے شماری میں حصّہ لیا جب کہ 2003 کے انتخابات میںیہ تعداد گھٹ کر صرف 59.80 رہ گئی۔ جمہوریت کے چیمپیئن امریکا بہادر کا برا حال ہے۔ 1960 میں 63.1فی صد رائے دہندگان نے رائے شماری میں شرکت کی، جب کہ 2010 میں رائے شماری کی حدِ عمر کو چھونے والے 235,809,266 افراد میں سے صرف 37.8 فی صد نے رائے شماری کے عمل میں شرکت کو ضروری خیال کیا۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ ساری دنیا میں تشّدد اور ہلاکتوں کے ذریعے جمہوریت کا درس دینے والے امریکا کے شہریوں کی اکثریت،خود ان ہی کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق جمہوریت سے عملاً بے زار و لاتعلق نظر آتی ہے۔ کینیڈا کا ذکر رہ گیا اگرچہ حالت وہاں بھی کچھ مختلف نہیں۔

1949 میں کینیڈا کے انتخابات میں 74.79 فی صد ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کیے۔ 2004ء تک یہ تعداد گھٹ کر 60.91فی صد رہ گئی، 2008ء کے انتخابات میں یہ تعداد مزیدکم ہو کر 59.52 فی صد رہ گئی۔کینیڈا جیسی مستحکم جمہوریت میں جمہوریت ہی کی یہ ناقدری، زبوں حالی بلکہ پائمالی دیدنی ہے۔ صرف یہ ہی نہیں شہریوں کا حکومت پر اعتماد بھی شدّت سے مجروح ہوا ہے۔1965 میں آبادی کا 58 فی صد حکومت پر انتہا درجے اعتماد کا اظہار کرتا تھا۔ صرف 36 فی صد کی رائے تھی کہ حکومت ان کے ٹیکس کے ساتھ انصاف نہیں کر رہی۔ 1993 تک نوبت بہ ایں جا رسید کہ محض 33 فی صد کینیڈینز کو حکومت پر بھروسا رہا جب کہ 79فی صد نے حکومت پر اپنے شدید عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ Pollstar Allen Greigg کے مطابق 2005 میں 62 فی صد کینیڈینز کو یقین تھا کہ سیاست دان اہم ملکی مسائل میں اُن کی رائے کو پر ِ کاہ کی اہمیت بھی نہیں دیتے ہیں، یہ تعداد 2011ء میں بڑھ کر 76 فی صد تک پہنچ گئی ہے۔

تفصیل اس اجمال کی بہت ہے غرض کس کس جمہوریت کے کون کون سے اعداد و شمار نہ پیش کیے جائیں، بس اختصار یہ کہ آج ہمارے سیاست کار، ہمارے دانش ور اور قریباً تمام ہی لکھنے بولنے والے اور ہاں ہمارے علما کرام بھی جمہوریت کو جو بلند و بالا مقام و مرتبہ دیے بیٹھے ہیں ، اُن کی خدمت میں بس ایک الجھن، ایک سوال کہ ۔ ۔ ۔

وہ جمہوریت جو اپنے ہی دیس میں غریب الوطن ہو گئی ہو، وہ جمہوریت جو مستحکم جمہوریتوں میں سسک رہی ہو، دم توڑ رہی ہو، راندہئِ درگاہ ہو رہی ہو وہ پاکستانیوں کے مصائب کا شافی حل اور تیر بہ ہدف نسخہ کیسے ہو سکتی ہے؟

آخر جمہوریت پر سے لوگوں کی ایک تعداد کا اعتبار کیوں اٹھتا جا رہا ہے۔شاید وہ سمجھتے ہیں کہ جس مقصد کے لیے انھوں نے سیاستدانوں کو منتخب کیا انھوں نے وہ مقصد پورا کرنے کے بجائے ذاتی مفادات کا زیادہ خیال رکھا۔ سیاستدان انتخابات کے دوران بڑے بڑے وعدے تو کرتے ہیں مگر اسمبلی میں پہنچتے ہی وہ سب بھول جاتے ہیں اور ان کا عوام سے رابطہ برائے نام ہی رہ جاتا ہے۔ایک اور بات... پاکستان سمیت بہت سے جمہوری ممالک میں ووٹرز کی قابلیت کا بھی کوئی معیار نہیں، ایک اعلی تعلیم یافتہ ووٹر اور ایک ان پڑھ ووٹر کے ووٹ کی اہمیت یکساں ہی ہے۔

جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
Load Next Story