محبوب بادشاہ
’’3 جون (1947ء) کو قیام پاکستان کا اعلان ہوا۔ سب سے پہلے فرانس نے...
ISLAMABAD:
خورشید الحسن خورشید( کے ایچ خورشید) جنوری 1924ء میں سری نگر میں پیدا ہوئے۔ 1940ء میں کشمیر میں مسلم اسٹوڈنٹس یونین قائم ہوئی تو خورشید صاحب اس کے بانی سیکریٹری چنے گئے۔ 1944ء میں قائداعظم چند ماہ سری نگر میں مقیم رہے تو کے ایچ خورشید بطور اخبار نویس ان سے ملتے رہے۔ قائداعظم کی پیشکش پر وہ ان کے پرائیویٹ سیکریٹری بن گئے۔ 1959ء اور 1962ء میں آزاد کشمیر کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ 1988ء کو ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگئے۔
کے ایچ خورشید کہتے ہیں کہ ''3 جون (1947ء) کو قیام پاکستان کا اعلان ہوا۔ سب سے پہلے فرانس نے انڈیا میں اپنا سفارتخانہ کھولا۔ 13 یا 11 جولائی کو فرانس کا قومی دن ہوتا ہے۔ اپنے قومی دن پر انھوں نے سفارتخانے میں تقریب منعقد کی۔ دہلی میں یہ واحد پارٹی تھی جس میں قائداعظمؒ نے گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے شرکت کی۔ ہم کسی کانگریسی کو ملتے نہیں تھے تاوقتیکہ وہ خود نہ آجائے۔ ''ڈان'' کا ہندو نمایندہ سری کرشن، اسٹیٹسمین کا نمایندہ عاشق احمد، اسی طرح ایک دو اور آدمی تھے۔ ہم کھڑے باتیں کررہے تھے۔
سری کرشن بڑا پھکڑ باز قسم کا تھا۔ کہتا ہے، مولانا ابوالکلام آزاد انگریزی تو بول نہیں سکتے، اگر انھیں انگریزی بولنی پڑے تو کیسے بولیں گے۔ اتنے میں مسز سروجنی نائیڈو آگئیں۔ ان میں سے ایک نے میرا تعارف سروجنی نائیڈو سے کرایا کہ یہ قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری ہیں۔اس نے میرا نام بتانا چاہا تو سر وجنی نائیڈو نے اسے روک دیا اور کہا، ان کا نام میں خود بتاتی ہوں۔ پھر اس نے چند لمحے سوچ کر کہا: آپ کا نام خورشید ہے نا۔ وہ ایک واقعہ سنانے لگیں، ساتھ ہی کہا، بیشک جا کے قائداعظمؒ سے اس کی تصدیق کرلینا۔ کہنے لگیں: 28ء میں، میں بمبئی کے تاج ہوٹل میں ٹھہری تھی۔
قائداعظم نے مجھے ملنے کے لیے آنا تھا۔ اسی ہوٹل میں ایک آئرش (آئرلینڈ کی) مس ہارکر (Harker) بھی ٹھہری تھی۔ مس ہارکر فیس ریڈنگ کرتی تھی۔ میرے ساتھ بھی اس کی ملاقات ہوگئی۔ وہ میرے کمرے میں بیٹھی تھی کہ اتنے میں قائداعظمؒ آگئے۔ انھوں نے Knock (دروازہ کھٹکھٹایا) کیا اور ابھی پہلا قدم ہی اندر رکھا تھا کہ مس ہارکر مجھے کہنے لگیں، This man will be the king of his own kingdom (یہ شخص اپنی سلطنت کا بادشاہ ہوگا) 3 جون 1947ء سے چند روز بعد قائداعظمؒ کے چھوٹے بھائی احمد علی جناح نے انھیں بمبئی سے ایک خط لکھا: ''تمہیں یاد ہوگا کہ ایک روز جب ہم ابھی چھوٹے تھے تم باہر سے دوڑتے ہوئے آئے اور ابا کا کوٹ کھینچ کر کہا، آج ایک شخص نے میرا ہاتھ دیکھا ہے، میں بادشاہ بنوں گا۔''
یہ بات تو ہے کہ مسلمان قائداعظمؒ کو اپنا شہنشاہ یا بادشاہ کہنے میں قطعی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ ان کے جلسے جلوس شاہانہ شان و شوکت کا مرقع ہوتے۔ وہ ''شہنشاہِ پاکستان'' کے نعرے لگا کر اپنے قائد کے بارے میں اپنی محبت کا کھل کر اظہار کیا کرتے۔ اسی زمانے میں امریکی ہفتہ وار ''ٹائم'' نے لکھا، اگرچہ کانگریس ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور ہندوئوں کی اکثریت گاندھی کی پیروکار ہے، لیکن محمد علی جناح کی قوم انھیں ایک بادشاہ کی طرح محبوب رکھتی ہے۔ ان کے جلوس شاہانہ سج دھج سے نکالتے ہیں۔
باوردی رضا کار استقبال کرتے اور سلامی دیتے ہیں۔ بینڈ باجے اس کے ترانے گاتے ہیں۔ 3 جون 47ء کو جب قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو ایک موقع پر کسی نے شہنشاہ پاکستان کا نعرہ لگادیا۔ قائداعظمؒ نے اسے منع کیا اور کہا، پاکستان شہنشاہیت نہیں بلکہ ایک جمہوریت ہوگا۔ 26 جولائی کووہاں سے واپس روانہ ہوئے۔ قائداعظمؒ نے دوبارہ کشمیر آنے کا پروگرام بنایا کہ اگر ہوسکے اس سال نہیں تو اگلے سال پھر کشمیر آئیں، لیکن انھیں مہلت نہ ملی کیونکہ وہاں سے واپسی پر ہی کچھ عرصے کے بعد ان کی گاندھی سے ملاقات ہوئی۔
بعد میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر کانگریسی لیڈروں کی رہائی ہوئی۔ پہلی شملہ کانفرنس پھر دوسری شملہ کانفرنس ہوئی۔ حالات و واقعات کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ قائداعظمؒ کو دوبارہ کشمیر آنے کی فرصت نہ ملی۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جس قسم کے حالات سے اس نوزائیدہ مملکت کو دوچار ہونا پڑا ان کی موجودگی میں ویسے ہی ایسا دورہ ممکن نہ رہا۔ پاکستان بننے کے نو روز بعد 23 اگست کو قائداعظمؒ لاہور تشریف لائے۔ اس وقت مشرقی پنجاب سے مہاجرین کی آمد اور فسادات اور کشت و خون کا سلسلہ جاری تھا۔ قائداعظمؒ نے لیاقت علی کو فون کیا اور کہا کہ وہ اپنا ہیڈ کوارٹر کراچی سے لاہور منتقل کرلیں۔
اسی دوران میں قائداعظمؒ نے پھر ستمبر یا اکتوبر میں کشمیر جانے کا پروگرام بنایا۔ انھوں نے اپنے ملٹری سیکریٹری کرنل سینٹ جان برنی کو ہوائی جہاز کے ذریعے سری نگر بھیجا۔ اور یہ بات میرے علم میں ہے کہ قائداعظمؒ نے اسے لاہور سے اگست 47 ء میں سرینگر بھیجا تھا کہ تم کشمیر جائو اور مہاراجہ سے کہو کہ میں بات چیت کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن مہاراجہ (ہری سنگھ) نے اپنے معتمد انگریز افسر بریگیڈیئر اسکاٹ کے ذریعے یہ عذر تراشا کہ ملک کے سیاسی حالات کے پیش نظر قائداعظمؒ کا (کشمیر) آنا موزوں نہیں ہوگا، بالخصوص اس لیے بھی کہ وہ پاکستان کے گورنر جنرل بن چکے ہیں اور گورنر جنرل کی حیثیت سے ان کی حفاظت کی ذمے داری ہم پر ہوگی۔اس طرح قائد اعظم کا کشمیر جانے کا پروگرام روبہ عمل نہ ہو سکا۔
(منیر احمد منیر کی کتاب''دی گریٹ لیڈر''
سے اقتباس، بشکریہ'پبلشرز آتش فشاں،لاہور)
خورشید الحسن خورشید( کے ایچ خورشید) جنوری 1924ء میں سری نگر میں پیدا ہوئے۔ 1940ء میں کشمیر میں مسلم اسٹوڈنٹس یونین قائم ہوئی تو خورشید صاحب اس کے بانی سیکریٹری چنے گئے۔ 1944ء میں قائداعظم چند ماہ سری نگر میں مقیم رہے تو کے ایچ خورشید بطور اخبار نویس ان سے ملتے رہے۔ قائداعظم کی پیشکش پر وہ ان کے پرائیویٹ سیکریٹری بن گئے۔ 1959ء اور 1962ء میں آزاد کشمیر کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ 1988ء کو ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگئے۔
کے ایچ خورشید کہتے ہیں کہ ''3 جون (1947ء) کو قیام پاکستان کا اعلان ہوا۔ سب سے پہلے فرانس نے انڈیا میں اپنا سفارتخانہ کھولا۔ 13 یا 11 جولائی کو فرانس کا قومی دن ہوتا ہے۔ اپنے قومی دن پر انھوں نے سفارتخانے میں تقریب منعقد کی۔ دہلی میں یہ واحد پارٹی تھی جس میں قائداعظمؒ نے گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے شرکت کی۔ ہم کسی کانگریسی کو ملتے نہیں تھے تاوقتیکہ وہ خود نہ آجائے۔ ''ڈان'' کا ہندو نمایندہ سری کرشن، اسٹیٹسمین کا نمایندہ عاشق احمد، اسی طرح ایک دو اور آدمی تھے۔ ہم کھڑے باتیں کررہے تھے۔
سری کرشن بڑا پھکڑ باز قسم کا تھا۔ کہتا ہے، مولانا ابوالکلام آزاد انگریزی تو بول نہیں سکتے، اگر انھیں انگریزی بولنی پڑے تو کیسے بولیں گے۔ اتنے میں مسز سروجنی نائیڈو آگئیں۔ ان میں سے ایک نے میرا تعارف سروجنی نائیڈو سے کرایا کہ یہ قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری ہیں۔اس نے میرا نام بتانا چاہا تو سر وجنی نائیڈو نے اسے روک دیا اور کہا، ان کا نام میں خود بتاتی ہوں۔ پھر اس نے چند لمحے سوچ کر کہا: آپ کا نام خورشید ہے نا۔ وہ ایک واقعہ سنانے لگیں، ساتھ ہی کہا، بیشک جا کے قائداعظمؒ سے اس کی تصدیق کرلینا۔ کہنے لگیں: 28ء میں، میں بمبئی کے تاج ہوٹل میں ٹھہری تھی۔
قائداعظم نے مجھے ملنے کے لیے آنا تھا۔ اسی ہوٹل میں ایک آئرش (آئرلینڈ کی) مس ہارکر (Harker) بھی ٹھہری تھی۔ مس ہارکر فیس ریڈنگ کرتی تھی۔ میرے ساتھ بھی اس کی ملاقات ہوگئی۔ وہ میرے کمرے میں بیٹھی تھی کہ اتنے میں قائداعظمؒ آگئے۔ انھوں نے Knock (دروازہ کھٹکھٹایا) کیا اور ابھی پہلا قدم ہی اندر رکھا تھا کہ مس ہارکر مجھے کہنے لگیں، This man will be the king of his own kingdom (یہ شخص اپنی سلطنت کا بادشاہ ہوگا) 3 جون 1947ء سے چند روز بعد قائداعظمؒ کے چھوٹے بھائی احمد علی جناح نے انھیں بمبئی سے ایک خط لکھا: ''تمہیں یاد ہوگا کہ ایک روز جب ہم ابھی چھوٹے تھے تم باہر سے دوڑتے ہوئے آئے اور ابا کا کوٹ کھینچ کر کہا، آج ایک شخص نے میرا ہاتھ دیکھا ہے، میں بادشاہ بنوں گا۔''
یہ بات تو ہے کہ مسلمان قائداعظمؒ کو اپنا شہنشاہ یا بادشاہ کہنے میں قطعی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ ان کے جلسے جلوس شاہانہ شان و شوکت کا مرقع ہوتے۔ وہ ''شہنشاہِ پاکستان'' کے نعرے لگا کر اپنے قائد کے بارے میں اپنی محبت کا کھل کر اظہار کیا کرتے۔ اسی زمانے میں امریکی ہفتہ وار ''ٹائم'' نے لکھا، اگرچہ کانگریس ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور ہندوئوں کی اکثریت گاندھی کی پیروکار ہے، لیکن محمد علی جناح کی قوم انھیں ایک بادشاہ کی طرح محبوب رکھتی ہے۔ ان کے جلوس شاہانہ سج دھج سے نکالتے ہیں۔
باوردی رضا کار استقبال کرتے اور سلامی دیتے ہیں۔ بینڈ باجے اس کے ترانے گاتے ہیں۔ 3 جون 47ء کو جب قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو ایک موقع پر کسی نے شہنشاہ پاکستان کا نعرہ لگادیا۔ قائداعظمؒ نے اسے منع کیا اور کہا، پاکستان شہنشاہیت نہیں بلکہ ایک جمہوریت ہوگا۔ 26 جولائی کووہاں سے واپس روانہ ہوئے۔ قائداعظمؒ نے دوبارہ کشمیر آنے کا پروگرام بنایا کہ اگر ہوسکے اس سال نہیں تو اگلے سال پھر کشمیر آئیں، لیکن انھیں مہلت نہ ملی کیونکہ وہاں سے واپسی پر ہی کچھ عرصے کے بعد ان کی گاندھی سے ملاقات ہوئی۔
بعد میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر کانگریسی لیڈروں کی رہائی ہوئی۔ پہلی شملہ کانفرنس پھر دوسری شملہ کانفرنس ہوئی۔ حالات و واقعات کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ قائداعظمؒ کو دوبارہ کشمیر آنے کی فرصت نہ ملی۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جس قسم کے حالات سے اس نوزائیدہ مملکت کو دوچار ہونا پڑا ان کی موجودگی میں ویسے ہی ایسا دورہ ممکن نہ رہا۔ پاکستان بننے کے نو روز بعد 23 اگست کو قائداعظمؒ لاہور تشریف لائے۔ اس وقت مشرقی پنجاب سے مہاجرین کی آمد اور فسادات اور کشت و خون کا سلسلہ جاری تھا۔ قائداعظمؒ نے لیاقت علی کو فون کیا اور کہا کہ وہ اپنا ہیڈ کوارٹر کراچی سے لاہور منتقل کرلیں۔
اسی دوران میں قائداعظمؒ نے پھر ستمبر یا اکتوبر میں کشمیر جانے کا پروگرام بنایا۔ انھوں نے اپنے ملٹری سیکریٹری کرنل سینٹ جان برنی کو ہوائی جہاز کے ذریعے سری نگر بھیجا۔ اور یہ بات میرے علم میں ہے کہ قائداعظمؒ نے اسے لاہور سے اگست 47 ء میں سرینگر بھیجا تھا کہ تم کشمیر جائو اور مہاراجہ سے کہو کہ میں بات چیت کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن مہاراجہ (ہری سنگھ) نے اپنے معتمد انگریز افسر بریگیڈیئر اسکاٹ کے ذریعے یہ عذر تراشا کہ ملک کے سیاسی حالات کے پیش نظر قائداعظمؒ کا (کشمیر) آنا موزوں نہیں ہوگا، بالخصوص اس لیے بھی کہ وہ پاکستان کے گورنر جنرل بن چکے ہیں اور گورنر جنرل کی حیثیت سے ان کی حفاظت کی ذمے داری ہم پر ہوگی۔اس طرح قائد اعظم کا کشمیر جانے کا پروگرام روبہ عمل نہ ہو سکا۔
(منیر احمد منیر کی کتاب''دی گریٹ لیڈر''
سے اقتباس، بشکریہ'پبلشرز آتش فشاں،لاہور)