حیدرآباد عید کےموقع پر بھی کچرے کا ڈھیربنارہا
بلدیاتی افسران نے مالی بحران کے باوجود نالوں کی صفائی کے ٹھیکے کے نام پر لاکھوں بٹور لیے
حیدرآباد میں عید کے موقع پر بھی کچرے کے ڈھیر نہ ہٹائے جا سکے، جس کی وجہ سے شہریوں کو شدید ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ بلدیہ کے پرانے افسران نے ادارے کے شدید مالی بحران کے باوجود نالوں کی صفائی کے ٹھیکے کے نام پر لاکھوں روپے عیدی بٹور لی۔ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے اراکین، صوبائی وزراء، اراکین اسمبلی کی واضح ہدایت کے باوجود بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کے متعلقہ افسران نے عید کے موقع پر صحت و صفائی کیلیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے، لیاقت کالونی میں نالے کی صفائی اور گند گی کو اٹھانے کا ٹھیکہ، اندرون خانہ ایک بڑے ٹھیکیدار کو دے کر بلدیہ کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔
مذکورہ ٹھیکیدار نے نالے سے معمولی سا گند نکال کر رکھ دیا جسے اٹھانے کی ذمے داری اُسی ٹھیکے میں شامل ہونے کے باوجود مذکورہ کچرا نہیں اٹھایا گیا، جس کے بعد اہل محلہ سے احتجاج کرایا گیا تاکہ ایڈمنسٹریٹر اور حق پرست ارکان اسمبلی پر دبائو بڑھے، عوامی احتجاج کے بعد فوری طور پر اس کچرے کے ڈھیر کو ہٹانے کے احکامات ملتے ہی ایک اور ٹھیکہ مذکورہ ٹھیکیدار کو دلوایا گیا جس نے20 گاڑیوں سے کچرے کے ڈھیر ہٹانے کا وعدہ کیا اور محض 8 ٹرالیوں سے کچرا اٹھانے کی ناکام کوشش کی، جس کے بعد ڈائریکٹر صحت نے لطیف آباد اور سٹی کی گاڑیاں منگوائیں جنہوں نے کچرے کے ڈھیر اٹھائے، لیکن کاغذات میں سارا کریڈٹ ٹھیکیدار کو دیا گیا ، جس کے لیے35 لاکھ روپے کی نوٹ شیٹیں تیار کرائی گئیں جن کی کوٹیشنز بنا کر دو روز میں پیسے جاری کرانے کی منصوبہ بندی ہے۔
اس سے قبل متعلقہ پرانے افسران نے ایک اور ٹھیکیدار کے نام پر بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کے سامنے سے گذرنے والے نالے کی صفائی کے نام پر 11 لاکھ روپے کے کوٹیشن بنا کر رقم بٹورنے کی کوشش کی جو ایڈمنسٹریٹر کاشف صدیقی نے مذکورہ فائل روک کر ناکام بنا دی ہے۔واضح رہے کہ کالی موری سے فقیر کا پڑ اور وہاں سے سابقہ اوڈین سنیما تک گندہ نالا بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کے افسران کے لیے اہم ہے کیونکہ وہ حسب ضرورت اس نالے کی صفائی کی نوٹ شیٹ بنوا کر پیسے بٹور لیتے ہیں جس کی مثال یہ ہے کہ علاقہ ایم این اے فنڈز سے جب مذکورہ نالے کی مرمت و صفائی کے لیے 3 کروڑ کی خطیر رقم خرچ کی جا رہی تھی تو بلدیہ اعلیٰ کے افسران نے اسی مقام کی کاغذات میں 40 لاکھ روپے سے صفائی دکھا دی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ حتیٰ کہ مختلف مقامات پر جہاںاراکین اسمبلی کے فنڈ سے ترقیاتی کام جاری ہیں۔
وہاں بلدیہ کے افسران بلدیاتی فنڈ سے پانی پہنچانے، تجوزات کے خاتمے کے لیے مزدوری دکھانے کے بل بنا رہے ہیں ۔ ہر ماہ جعلی کوٹیشنز بنانے کے ماہر 6 افسران نے نہ صرف پوری بلدیہ بلکہ پورے حیدرآباد شہر کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا لیکن سیاسی پشت پناہی کے باعث ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں حق پرست ایم پی اے سید وسیم حسین نے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، جبکہ ایم این اے صلاح الدین نے بھی حیدرآباد شہر کی تباہی کا ذمے دار، بلدیاتی افسران کو قرار دیا لیکن سندھ حکومت16، 17 اور جعلی انداز میں 18گریڈ حاصل کرنیوالے ان 6 افسران کیخلاف کاروائی نہیںکر رہی۔
مذکورہ ٹھیکیدار نے نالے سے معمولی سا گند نکال کر رکھ دیا جسے اٹھانے کی ذمے داری اُسی ٹھیکے میں شامل ہونے کے باوجود مذکورہ کچرا نہیں اٹھایا گیا، جس کے بعد اہل محلہ سے احتجاج کرایا گیا تاکہ ایڈمنسٹریٹر اور حق پرست ارکان اسمبلی پر دبائو بڑھے، عوامی احتجاج کے بعد فوری طور پر اس کچرے کے ڈھیر کو ہٹانے کے احکامات ملتے ہی ایک اور ٹھیکہ مذکورہ ٹھیکیدار کو دلوایا گیا جس نے20 گاڑیوں سے کچرے کے ڈھیر ہٹانے کا وعدہ کیا اور محض 8 ٹرالیوں سے کچرا اٹھانے کی ناکام کوشش کی، جس کے بعد ڈائریکٹر صحت نے لطیف آباد اور سٹی کی گاڑیاں منگوائیں جنہوں نے کچرے کے ڈھیر اٹھائے، لیکن کاغذات میں سارا کریڈٹ ٹھیکیدار کو دیا گیا ، جس کے لیے35 لاکھ روپے کی نوٹ شیٹیں تیار کرائی گئیں جن کی کوٹیشنز بنا کر دو روز میں پیسے جاری کرانے کی منصوبہ بندی ہے۔
اس سے قبل متعلقہ پرانے افسران نے ایک اور ٹھیکیدار کے نام پر بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کے سامنے سے گذرنے والے نالے کی صفائی کے نام پر 11 لاکھ روپے کے کوٹیشن بنا کر رقم بٹورنے کی کوشش کی جو ایڈمنسٹریٹر کاشف صدیقی نے مذکورہ فائل روک کر ناکام بنا دی ہے۔واضح رہے کہ کالی موری سے فقیر کا پڑ اور وہاں سے سابقہ اوڈین سنیما تک گندہ نالا بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کے افسران کے لیے اہم ہے کیونکہ وہ حسب ضرورت اس نالے کی صفائی کی نوٹ شیٹ بنوا کر پیسے بٹور لیتے ہیں جس کی مثال یہ ہے کہ علاقہ ایم این اے فنڈز سے جب مذکورہ نالے کی مرمت و صفائی کے لیے 3 کروڑ کی خطیر رقم خرچ کی جا رہی تھی تو بلدیہ اعلیٰ کے افسران نے اسی مقام کی کاغذات میں 40 لاکھ روپے سے صفائی دکھا دی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ حتیٰ کہ مختلف مقامات پر جہاںاراکین اسمبلی کے فنڈ سے ترقیاتی کام جاری ہیں۔
وہاں بلدیہ کے افسران بلدیاتی فنڈ سے پانی پہنچانے، تجوزات کے خاتمے کے لیے مزدوری دکھانے کے بل بنا رہے ہیں ۔ ہر ماہ جعلی کوٹیشنز بنانے کے ماہر 6 افسران نے نہ صرف پوری بلدیہ بلکہ پورے حیدرآباد شہر کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا لیکن سیاسی پشت پناہی کے باعث ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں حق پرست ایم پی اے سید وسیم حسین نے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، جبکہ ایم این اے صلاح الدین نے بھی حیدرآباد شہر کی تباہی کا ذمے دار، بلدیاتی افسران کو قرار دیا لیکن سندھ حکومت16، 17 اور جعلی انداز میں 18گریڈ حاصل کرنیوالے ان 6 افسران کیخلاف کاروائی نہیںکر رہی۔