موذی امراض کے علاج کی گرانٹ بند مریض خطرے میں
مریضوں کو یہ گرانٹ وزیراعظم گریوینس سیل فراہم کرتا تھا،31مئی2018 کووزیراعظم ہاؤس میں قائم سیل کوبند کردیا گیا
حکومت نے کینسر، لیور وکڈنی اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سمیت دیگر موذی امراض کے علاج کیلیے اسپتالوں کو دی جانے والے گرانٹ بند کردی ہے۔
مریضوں کو یہ گرانٹ وزیراعظم گریوینس سیل کی جانب سے فراہم کی جاتی تھی تاہم31مئی2018 کووزیراعظم ہاؤس میں اس سیل کوبند کردیا گیا جو سابق وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فوادکی نگرانی میں کام کرتا تھا۔ حکومت سندھ نے بھی صوبے کے سرکاری اسپتالوں کوچلانے والی بعض این جی اوزکے فنڈ روک دیے جبکہ بعض این جی اوزکی کارکردگی پرتحفظات کا بھی اظہارکیا ہے، وفاقی اورصوبائی حکومت کی جانب سے فنڈ روکے جانے کی وجہ سے مریضوںکی زندگی خطرے میں پڑگئی۔
صوبائی محکمہ صحت کاکہنا ہے کہ بعض این جی اوزکی کارکردگی پر تحفظات ہیں جبکہ اندرون سندھ1200 سے زائد سرکاری صحت مراکز کو چلانے والی پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئرانیشیٹوکا معاہدہ ختم ہوگیا، ازسرنو معاہدے کے لیے کارروائی جارہی ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان میں علاج معالجے کی مد میں دی جانے والی گرانٹ 2016 سے بند ہے اورموجودہ حکومت نے بھی اس پروگرام کو فعال نہیں کیا۔ پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے غریب اورمستحق مریضوںکیلیے خون کے 5اقسام کے کینسر، لیور اورکڈنی ٹرانسپلانٹ سمیت کی مد میں فنڈ جاری کرتی تھی اس حوالے سے وزیراعظم ہاؤس میں گریوینس سیل بھی قائم تھا اس سیل کے اشتراک سے30مئی تک مستحق مریضوں کو علاج کی مد میں سہولتیں فراہم کی جاتی رہیں تاہم 31مئی 2018 کو وزیراعظم ہاؤس میں قائم سیل کو بند کردیاگیا۔
جس کے بعد ایک جون سے 2018 سے اس پروگرام کو بند کردیا گیا جس کے بعد تحریک انصاف کی موجودہ حکومت بھی اس سیل کو فعال نہیںکرسکی،اس سیل میں مستحق مریض اپنے علاج کیلیے درخواستیں جمع کراتے تھے، سیل بند ہونے سے مریض علاج سے محروم ہوگئے۔ صوبائی محکمہ صحت نے سندھ میں سرکاری ونجی اسپتالوں میں غریب مریضوں کے علاج کیلیے نجی اسپتالوں اورسرکاری اسپتال چلانے والی این جی اوزکی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے فنڈ روک دیے ہیں۔
اس وقت حکومت سندھ نے سرکاری اسپتالوںکوپبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نام پر8مختلف این جی اوزکو دے رکھا ہے ان میں پیپلزپرائمری ہیلیھ کیئر انیشیٹوکے ماتحت1200سرکاری صحت مراکز، انڈس اسپتال کے ماتحت بدین سول اسپتال، پاورٹی ارڈی گیشن انیشیٹوکے پاس سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال ناگن چورنگی، ہینڈز این جی اوکے ماتحت ضلع ملیرکے34صحت مراکز کے علاوہ سندھ گورنمنٹ ابراہیم حیدری اسپتال بھی شامل ہے، اینٹی گریٹیڈ ہیلتھ سروسزکے پاس اندورن سندھ کے111تعلقہ اسپتال اور رول ہیلتھ سینٹرزکی مرمت اورسامان کی کمی کو پوراکرنا، چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے تحت کراچی سمیت سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں بچوںکی ایمرجنسی، سندھ ہیلتھ فاؤنڈیشن کے تحت صحت کی سہولتوں کی مانیٹرنگ کرنا جبکہ ریجنل بلڈ بینک سینٹرزبھی این جی اوزکے حوالے ہیں یہ تمام سرکاری اسپتال ہیں جواین جی اوزکے ماتحت کام کررہے ہیں لیکن ان میں یہ بعض این جی اوزکی کارکردگی پر صوبائی محکمہ صحت نے اپنے تحفظات کا اظہارکیا ہے اوران کی کارگردگی پر عدم اطمینان بھی ظاہر کیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ محکمہ صحت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نام پر اندورن سندھ کے19اضلاع کے صحت کے مراکزکو پیپلزپرائمری ہیلتھ کئیرانیشیٹوکے حوالے کررکھا ہے لیکن جون2018سے مذکورہ این جی او پی پی ایچ آئی کا معاہدہ ختم ہوگیا جس کی وجہ سے اندرون سندھ میں صحت مراکز آنے والے غریب مریضوں کو حصول علاج میں دشواریوںکا سامناکرنا پڑرہا ہے۔ حکومت سندھ پی پی ایچ آئی کومحکمہ صحت کے مجموعی بجٹ106 ارب روپے کا 60فیصد براہ راست فراہم کرتی ہے۔ محکمہ صحت کے فوکل پرسن ڈاکٹر سکندر میمن نے ایکسپریس کو بتایا کہ پیپلزپرائمری ہیلتھ کیئر انیشیٹو(پی پی ایچ آئی) کا معاہدہ گزشتہ سال ختم ہوگیا اس سے قبل5،5سال کے 2 معاہدے کیے گئے تھے اب ازسرنومعاہدے کیلیے سمری وزیر اعلیٰ کے پاس بھیجی ہے تاہم معاہدے کیلیے کاغذی کارروائی جاری ہے۔
اس لیے ان کے فنڈ روکے ہوئے ہیں۔ فوکل پرسن کا کہنا تھا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز(این آئی بی ڈی) جہاں حکومت سندھ نے بون میرو ٹرانسپلانٹ شروع کیا تھا، سال2017 میں حکومت سندھ نے 300ملین روپے خون کے کینسرکے مریضوں کوجاری کیے تھے اس ادارے نے مذکورہ رقم میں 150مریضوں کو بون میرو ٹرانسپلانٹ کرنا تھا تاہم این آئی بی ڈی نے159مریضوںکے بون میروٹرانسپلانٹ کیے ان کا تھرڈ پارٹی ایویلیوایشن جاری ہے، اس لیے انھیں امسال گرانٹ جاری نہیںکی جاسکی۔ فوکل پرسن کاکہنا تھاکہ جن این جی اوزکا جائزہ جاری ہے ان اداروںکی گرانٹ روک دی گئی ہے، سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال کو پاورٹی انیشیٹو این جی اوکے ماتحت کیاگیا 200بستروں پر مشتمل بچوںکا اسپتال چلانے کیلیے مذکورہ این جی اوکو42کروڑ روپے سالانہ دیے جاتے ہیں لیکن ان کی کارکردگی پرمحکمہ صحت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اس این جی اوکی کارکردگی غیرتسلی بخش رہی اس لیے فی الحال بجٹ روک دیاگیا اور اس حوالے سے قومی ادارہ برائے اطفال صحت (این آئی سی ایچ) کے سربراہ پروفیسر جمال رضا کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔
فوکل پرسن کا کہنا تھا کہ محکمہ صحت نے2سال قبل ضلع ملیرکے34صحت مراکز اوراسپتالز کو ہینڈز نامی این جی اوکوپبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نام پر دیے تھے، ہنیڈز کی گزشتہ سال ایک سالہ کارکردگی پر محکمہ صحت نے عدم اطمینان کا اظہار کیاہے۔ سندھ فاؤنڈیشن کو محکمہ صحت 40فیصد بجٹ فراہم کرتا ہے لیکن اس این جی او کی کارکردگی بھی قابل قدر نہیں، یہ این جی اومریضوں کے نام سے فنڈ اور عطیات لے کراسپتالوں کو فراہم کرتی ہے، چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے تحت کراچی کے سول اسپتال، قومی ادارہ اطفال برائے صحت، عباسی شہید اسپتال سمیت اندرون سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں بچوں کی ایمرجنسی شروع کی گئی ہے ان کی کاردگی کا جائزہ لیاجارہاہے۔
دریں اثنا پاکستان میں بانی بون میروفزیشن اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بون میرو ٹرانسپلانٹ کے سربراہ ڈاکٹر طاہر ایس شمسی نے بتایاہے کہ سالانہ خون کے کینسرکے10ہزارمریضوں کو بون میرو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ اس وقت صرف 250مریضوں کے بون میروٹرانسپلانٹ کیے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرشمسی نے بتایاکہ پاکستان میں صرف 11بون میرو فزیشن ہیں جبکہ صرف4 اداروں میں بون میروٹرانسپلانٹ کی سہولت حاصل ہے ان میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز، شفا انٹرنیشنل، آغاخاں اسپتال اور سی ایم ایچ پنڈی اسپتال شامل ہے۔
مریضوں کو یہ گرانٹ وزیراعظم گریوینس سیل کی جانب سے فراہم کی جاتی تھی تاہم31مئی2018 کووزیراعظم ہاؤس میں اس سیل کوبند کردیا گیا جو سابق وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فوادکی نگرانی میں کام کرتا تھا۔ حکومت سندھ نے بھی صوبے کے سرکاری اسپتالوں کوچلانے والی بعض این جی اوزکے فنڈ روک دیے جبکہ بعض این جی اوزکی کارکردگی پرتحفظات کا بھی اظہارکیا ہے، وفاقی اورصوبائی حکومت کی جانب سے فنڈ روکے جانے کی وجہ سے مریضوںکی زندگی خطرے میں پڑگئی۔
صوبائی محکمہ صحت کاکہنا ہے کہ بعض این جی اوزکی کارکردگی پر تحفظات ہیں جبکہ اندرون سندھ1200 سے زائد سرکاری صحت مراکز کو چلانے والی پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئرانیشیٹوکا معاہدہ ختم ہوگیا، ازسرنو معاہدے کے لیے کارروائی جارہی ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان میں علاج معالجے کی مد میں دی جانے والی گرانٹ 2016 سے بند ہے اورموجودہ حکومت نے بھی اس پروگرام کو فعال نہیں کیا۔ پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے غریب اورمستحق مریضوںکیلیے خون کے 5اقسام کے کینسر، لیور اورکڈنی ٹرانسپلانٹ سمیت کی مد میں فنڈ جاری کرتی تھی اس حوالے سے وزیراعظم ہاؤس میں گریوینس سیل بھی قائم تھا اس سیل کے اشتراک سے30مئی تک مستحق مریضوں کو علاج کی مد میں سہولتیں فراہم کی جاتی رہیں تاہم 31مئی 2018 کو وزیراعظم ہاؤس میں قائم سیل کو بند کردیاگیا۔
جس کے بعد ایک جون سے 2018 سے اس پروگرام کو بند کردیا گیا جس کے بعد تحریک انصاف کی موجودہ حکومت بھی اس سیل کو فعال نہیںکرسکی،اس سیل میں مستحق مریض اپنے علاج کیلیے درخواستیں جمع کراتے تھے، سیل بند ہونے سے مریض علاج سے محروم ہوگئے۔ صوبائی محکمہ صحت نے سندھ میں سرکاری ونجی اسپتالوں میں غریب مریضوں کے علاج کیلیے نجی اسپتالوں اورسرکاری اسپتال چلانے والی این جی اوزکی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے فنڈ روک دیے ہیں۔
اس وقت حکومت سندھ نے سرکاری اسپتالوںکوپبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نام پر8مختلف این جی اوزکو دے رکھا ہے ان میں پیپلزپرائمری ہیلیھ کیئر انیشیٹوکے ماتحت1200سرکاری صحت مراکز، انڈس اسپتال کے ماتحت بدین سول اسپتال، پاورٹی ارڈی گیشن انیشیٹوکے پاس سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال ناگن چورنگی، ہینڈز این جی اوکے ماتحت ضلع ملیرکے34صحت مراکز کے علاوہ سندھ گورنمنٹ ابراہیم حیدری اسپتال بھی شامل ہے، اینٹی گریٹیڈ ہیلتھ سروسزکے پاس اندورن سندھ کے111تعلقہ اسپتال اور رول ہیلتھ سینٹرزکی مرمت اورسامان کی کمی کو پوراکرنا، چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے تحت کراچی سمیت سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں بچوںکی ایمرجنسی، سندھ ہیلتھ فاؤنڈیشن کے تحت صحت کی سہولتوں کی مانیٹرنگ کرنا جبکہ ریجنل بلڈ بینک سینٹرزبھی این جی اوزکے حوالے ہیں یہ تمام سرکاری اسپتال ہیں جواین جی اوزکے ماتحت کام کررہے ہیں لیکن ان میں یہ بعض این جی اوزکی کارکردگی پر صوبائی محکمہ صحت نے اپنے تحفظات کا اظہارکیا ہے اوران کی کارگردگی پر عدم اطمینان بھی ظاہر کیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ محکمہ صحت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نام پر اندورن سندھ کے19اضلاع کے صحت کے مراکزکو پیپلزپرائمری ہیلتھ کئیرانیشیٹوکے حوالے کررکھا ہے لیکن جون2018سے مذکورہ این جی او پی پی ایچ آئی کا معاہدہ ختم ہوگیا جس کی وجہ سے اندرون سندھ میں صحت مراکز آنے والے غریب مریضوں کو حصول علاج میں دشواریوںکا سامناکرنا پڑرہا ہے۔ حکومت سندھ پی پی ایچ آئی کومحکمہ صحت کے مجموعی بجٹ106 ارب روپے کا 60فیصد براہ راست فراہم کرتی ہے۔ محکمہ صحت کے فوکل پرسن ڈاکٹر سکندر میمن نے ایکسپریس کو بتایا کہ پیپلزپرائمری ہیلتھ کیئر انیشیٹو(پی پی ایچ آئی) کا معاہدہ گزشتہ سال ختم ہوگیا اس سے قبل5،5سال کے 2 معاہدے کیے گئے تھے اب ازسرنومعاہدے کیلیے سمری وزیر اعلیٰ کے پاس بھیجی ہے تاہم معاہدے کیلیے کاغذی کارروائی جاری ہے۔
اس لیے ان کے فنڈ روکے ہوئے ہیں۔ فوکل پرسن کا کہنا تھا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز(این آئی بی ڈی) جہاں حکومت سندھ نے بون میرو ٹرانسپلانٹ شروع کیا تھا، سال2017 میں حکومت سندھ نے 300ملین روپے خون کے کینسرکے مریضوں کوجاری کیے تھے اس ادارے نے مذکورہ رقم میں 150مریضوں کو بون میرو ٹرانسپلانٹ کرنا تھا تاہم این آئی بی ڈی نے159مریضوںکے بون میروٹرانسپلانٹ کیے ان کا تھرڈ پارٹی ایویلیوایشن جاری ہے، اس لیے انھیں امسال گرانٹ جاری نہیںکی جاسکی۔ فوکل پرسن کاکہنا تھاکہ جن این جی اوزکا جائزہ جاری ہے ان اداروںکی گرانٹ روک دی گئی ہے، سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال کو پاورٹی انیشیٹو این جی اوکے ماتحت کیاگیا 200بستروں پر مشتمل بچوںکا اسپتال چلانے کیلیے مذکورہ این جی اوکو42کروڑ روپے سالانہ دیے جاتے ہیں لیکن ان کی کارکردگی پرمحکمہ صحت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اس این جی اوکی کارکردگی غیرتسلی بخش رہی اس لیے فی الحال بجٹ روک دیاگیا اور اس حوالے سے قومی ادارہ برائے اطفال صحت (این آئی سی ایچ) کے سربراہ پروفیسر جمال رضا کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔
فوکل پرسن کا کہنا تھا کہ محکمہ صحت نے2سال قبل ضلع ملیرکے34صحت مراکز اوراسپتالز کو ہینڈز نامی این جی اوکوپبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نام پر دیے تھے، ہنیڈز کی گزشتہ سال ایک سالہ کارکردگی پر محکمہ صحت نے عدم اطمینان کا اظہار کیاہے۔ سندھ فاؤنڈیشن کو محکمہ صحت 40فیصد بجٹ فراہم کرتا ہے لیکن اس این جی او کی کارکردگی بھی قابل قدر نہیں، یہ این جی اومریضوں کے نام سے فنڈ اور عطیات لے کراسپتالوں کو فراہم کرتی ہے، چائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے تحت کراچی کے سول اسپتال، قومی ادارہ اطفال برائے صحت، عباسی شہید اسپتال سمیت اندرون سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں بچوں کی ایمرجنسی شروع کی گئی ہے ان کی کاردگی کا جائزہ لیاجارہاہے۔
دریں اثنا پاکستان میں بانی بون میروفزیشن اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بون میرو ٹرانسپلانٹ کے سربراہ ڈاکٹر طاہر ایس شمسی نے بتایاہے کہ سالانہ خون کے کینسرکے10ہزارمریضوں کو بون میرو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ اس وقت صرف 250مریضوں کے بون میروٹرانسپلانٹ کیے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرشمسی نے بتایاکہ پاکستان میں صرف 11بون میرو فزیشن ہیں جبکہ صرف4 اداروں میں بون میروٹرانسپلانٹ کی سہولت حاصل ہے ان میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز، شفا انٹرنیشنل، آغاخاں اسپتال اور سی ایم ایچ پنڈی اسپتال شامل ہے۔