تندرستی ہزار نعمت ہے

یوں تو وطن عزیز میں ہر شعبے کا حال برا ہے مگر جو حال صحت کے شعبےکاہےوہ شایدہی کسی اورشعبےکاہو۔صورتحال کی سنگینی کا...

S_afarooqi@yahoo.com

یوں تو وطن عزیز میں ہر شعبے کا حال برا ہے مگر جو حال صحت کے شعبے کا ہے وہ شاید ہی کسی اور شعبے کا ہو۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس خبر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 22 ملین ڈالر کی خطیر بیرون امداد سے چلنے والے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے کیونکہ عطیات دینے والوں نے بد انتظامی کی وجہ سے مالی اعانت بند کر دینے کی دھمکی دی ہے۔

عطیہ دینے والے ادارہ ''گلوبل فنڈ'' کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ ایڈز کنٹرول پروگرام کے لیے کسی کل وقتی سربراہ کے تقرر کے بجائے اس شعبے کی انتظامی ذمے داریاں ایک ایسے شخص کو سونب دی گئی ہیں جو ٹیکنیکل بھی نہیں ہے۔ ماضی میں نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام (NACP) کا سربراہ صحت سے متعلق دیگر پروگراموں کی طرح وزارت صحت کا ایک جز ہوا کرتا تھا مگر 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد اس طرح کے مختلف پروگراموں کا مستقبل خطرے میں پڑگیا ہے۔

وفاقی حکومت کا ارادہ تھا کہ ایڈز پروگرام، تپ دق سے متعلق قومی پروگرام، پولیو مہم اور انسداد ملیریا جیسے صحت سے متعلق پروگراموں کو صوبوں کے حوالے کر دیا جائے لیکن عطیات دینے والوں کے اعتراضات کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ عطیات دینے والوں کا بنیادی اعتراض ہے کہ اس کے نتیجے میں تمام پروگرام انتشار کا شکار ہوجائیں گے کیونکہ ہر صوبے کی ٹائم لائن اور پالیسی جدا جدا ہوگی جس کے باعث کوئی ربط و ضبط قائم نہیں رہ سکے گا۔

وطن عزیز میں صحت کا شعبہ جس غفلت اور بد انتظامی کا شکار ہے وہ بیان سے باہر ہے، سرکاری اسپتالوں میں بدنظمی اور بدانتظامی اپنے عروض پر ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ان اسپتالوں سے نوزائید بچے اغوا بھی ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں خسرہ کی وبا نے تباہی مچا دی جس کے نتیجے میں خسرے سے 167 بچوں کی اموات واقع ہوئیں۔ وطن عزیز میں اس طرح کے واقعات کسی مخصوص صوبے یا شہر تک محدود نہیں بلکہ یہ واقعات وقتاً فوقتاً مختلف صوبوں میں آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں جن کا تدارک انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ قیمتی انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے۔

غیر معیاری اور جعلی دواؤں کا سنگین مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے جس کے نتیجے میں واقع ہونے والی اموات کی خبریں بھی وقفے وقفے سے منظر عام پر آتی رہتی ہیں، اس کے لیے میڈیا میں ایک تہلکہ سا مچ جاتا ہے جس کے بعد ذمے داروں کے خلاف قرار واقعی کارروائی کی خبریں بھی آتی ہیں اور پھر حسب معمول معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ ابھی چند روز قبل یہ تشویش ناک خبر بھی ہماری نظروں سے گزری کہ اندرون سندھ کی جیلوں میں سزا کاٹنے والے متعدد قیدی ہیپا ٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں، جن کا سپریم کورٹ نے نوٹس لے لیا ہے۔

یہ خبر جیل حکام کی مجرمانہ غفلت کی غمازی کرتی ہے ۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر بھی صوبے کی جیلوں میں بند قیدیوں کے طبی مسائل کے حل کے لیے ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا اور صوبائی وزیر صحت کی جانب سے یہ بیان بھی جاری کیا گیا کہ کراچی سمیت صوبہ سندھ کی تمام جیلوں کے قیدیوں کو مختلف بیماریوں سے بچا کر تشخیص اور ان کے ٹیسٹ شروع کر دیے گئے ہیں اور یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ ان قیدیوں کو جیلوں سے علاج معالجے کی تمام سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔


ابھی اس خبر کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ کراچی شہر میں ڈینگی سے مزید 11 افراد متاثر ہوگئے ہیں جن میں تین افراد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے، ڈینگی کی نگرانی کرنے والے سیل کا کہنا ہے کہ کراچی سمیت اندرون سندھ میں ڈینگی وائرس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ کراچی میں ڈینگی وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 399 تک جا پہنچی ہے جبکہ 3 مریض جاں بحق ہوچکے ہیں، دوسری جانب شہر میں جراثیم کش ادویات کے اسپرے کی مہم میں اضافے کے بجائے یہ مہم یک بہ یک بند کردی گئی جس کے نتیجے میں مچھروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں ڈینگی وائرس سمیت دیگر وبائی امراض پھیلنے کا بھی شدید خدشہ ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کراچی میں جا بجا کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں اور بلدیہ عظمیٰ کا محکمہ صفائی اس جانب مجرمانہ غفلت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ سندھ سیکریٹریٹ کے عقب میں بھی صفائی کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور تغلق ہاؤس کی پشت پر واقع کچرا خانہ کا کچرا بسا اوقات اپنی حدود سے تجاوز کرکے گلی کی سڑک پر پھیلا ہوا نظر آتا ہے، جس کے باعث نا صرف علاقے کے مکین شدید پریشانی کا شکار ہیں بلکہ اس جگہ سے گزرنے والے افراد کا بھی تعفن سے دماغ پھٹنے لگتا ہے۔

چونکہ بلدیاتی کونسلرز کا نظام عرصہ دراز سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے لہٰذا کوئی پرسان حال نہیں ہے جبکہ بلدیہ کراچی کا عملہ مجرمانہ غفلت میں مبتلا ہے، اندیشہ غالب ہے کہ صفائی ستھرائی کی ناگوار صورتحال کے نتیجے میں صحت کے مسائل ہولناک صورت اختیار کرلیں گے۔ دریں اثنا یہ ہوشربا انکشاف بھی ہوا ہے کہ شہر کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں ڈینگی وارڈ میں مکمل علاج کی سہولت دستیاب نہیں ہے جن کی وجہ سے متاثرہ مریض مجبوراً نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ اس سال ڈینگی وائرس سے متاثرہ مریضوں میں دیگر امراض کی پیچیدگیوں کا انکشاف بھی ہورہا ہے جن کے باعث انسانی جسم کے اہم اعضا بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے اگرچہ کراچی میں مون سون کا موسم شروع ہو رہا ہے لیکن جراثیم کش ادویات کے اسپرے کی مہم میں تاخیر کے نتیجے میں ڈینگی وائرس کا حملہ مزید شدت اختیار کرسکتا ہے، تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ گزشتہ دنوں صحت سے متعلق پورے صوبے کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے ایک جائزہ اجلاس وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں محکمہ صحت کی جانب سے جاری انسداد ڈینگی، ملیریا، پولیو، خسرہ، ٹی بی اور نیگلیریا کے پروگراموں سمیت صحت سے متعلق مختلف سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا اور محکمہ صحت کی جانب سے اس بارے میں وزیراعلیٰ کو ایک بریفنگ بھی دی گئی، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس اجلاس کے کوئی خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں یا معاملہ ہمیشہ کی طرح محض نشستند، گفتند و برخواستند تک ہی محدود رہتا ہے۔

صحت کا محکمہ وفاق یا صرف مخصوص صوبوں ہی میں نہیں بلکہ ہر جگہ مجرمانہ غفلت اور بدعنوانی کا شکار ہے، گزشتہ دنوں جب پشاور سے یہ خبر موصول ہوئی کہ چند مخیر حضرات کی جانب سے پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کے یورولوجی ڈپارٹمنٹ کو عطیہ کے طور پر دیا گیا قمتی میڈیکل ایکوئپمنٹ نجی کلینکس اور اسپتالوں کو اونے پونے فروخت کر دیا گیا تو ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور سوچنے لگے کہ کیا ہمارے اہل کار پستی کی ایسی حد کو بھی عبور کرسکتے ہیں، اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی بھلا اور کیا ہوگی کہ اس ایکوئپمنٹ کو استعمال کیے بغیر ہی فروخت کر دیا گیا۔ یہ انکشاف بھی چشم کشا ہے کہ لاہور کے مضافات میں اسپتال کے کچرے کی فروخت کا کاروبار بھی ڈور ٹو ڈور جاری ہے، میڈیا رپورٹوں کے مطابق مقامی اسپتال اس کاروبار میں پلاسٹک ٹیوبس فروخت کر کے پیسے بنا رہے ہیں اور یہ Hospital Waste وہ شاہدرہ کی اسکریپ مارکیٹ میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔

آخر میں ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ صحت کے شعبے پر خصوصی اور فوری توجہ دیں کیونکہ ملک کے 18کروڑ سے زائد عوام کی زندگیوں کا دارومدار اسی شعبے سے ہے کیونکہ بہ قول شاعر ''تندرستی ہزار نعمت ہے''۔
Load Next Story