یہ کیسے لوگ ہیں

اداس پھرنےکےلیےسردیوں کی شاموں کاہوناضروری نہیں ہے۔گرم اورحبس زدہ شاموں میں بھی اداس ہی نہیں پریشان بھی ہواجاسکتا ہے۔

ayazkhan@express.com.pk

اداس پھرنے کے لیے سردیوں کی شاموں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ گرم اور حبس زدہ شاموں میں بھی اداس ہی نہیں پریشان بھی ہوا جا سکتا ہے۔ اس پریشانی کے لیے کسی اور وجہ کا ہونا ضروری نہیں' ملکی حالات ہی کافی ہیں۔ کہتے ہیں ملک میں الیکشن ہوئے تھے' عوام نے فریش مینڈیٹ دیا تھا اور مرکز کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی نئی حکومتیں بن گئی تھیں۔

اس ایکسر سائز کے بعد کیا کچھ تبدیل ہوا؟ بظاہر کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا' سب ویسے کا ویسا ہی ہے۔ امن و امان کی صورت حال پہلے جیسی خراب ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے چھٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ مہنگائی کا عذاب مسلسل نہ صرف مسلط ہے بلکہ اس کا بوجھ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ ایک تبدیلی البتہ ضرور آئی ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب احتجاج کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ وفاقی حکومت پنجاب کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔ ان کا یہ الزام اس لیے بھی ٹھیک لگتا تھا کہ پنجاب کے دیہات تو دیہات شہروں میں بھی بجلی آتی کم اور جاتی زیادہ تھی۔

اب خیبر پختونخوا اور سندھ کے عوام کو یہی شکوہ ہے۔ کراچی میں ہمارے دوست کہتے ہیں کہ انھیں تو اب پتہ چلا لوڈ شیڈنگ کیا ہوتی ہے۔ شہباز شریف نے احتجاجاً کیمپ آفس میں بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔ وہاں وزیر اعلیٰ اور ان کے رفقا کے ہاتھوں میں پنکھے ہوا کرتے تھے۔ شہباز شریف صاحب نے اپنا کردار تبدیل کر لیا ہے اور اب لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے کے بجائے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے اپنی وفاقی حکومت کی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔

لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کا بیڑہ اب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے اٹھایا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وفاقی حکومت زیادتی کر رہی ہے اور صوبے میں جان بوجھ کر زیادہ لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔ پرویز خٹک کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور ان کی جماعت نے کے پی کے میں حکومت سنبھالنے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ وہ صوبے میں اتنی بجلی پیدا کریں گے کہ پورے ملک کو سپلائی کی جا سکے گی۔ پرویز خٹک صاحب کی جماعت کے پاس اگر کوئی ایسا فارمولا موجود ہے تو میرا خیال ہے انھیں احتجاج کرنے کے بجائے اس فارمولے کو بروئے کار لانے کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔

انھیں اپنی توانائیاں ملک اور قوم کی بہتری کے کاموں میں لگانی چاہئیں۔ شہباز شریف نے جب لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی تھی تو ان پر بھی تنقید ہوتی تھی۔ اب پرویز خٹک بھی وہی کام کرنے جا رہے ہیں تو ان کی تعریف بھی نہیں کی جا سکتی۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے 30 جولائی تک صوبے میں کرپشن ختم کرنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کرپشن کے محاذ پر انھیں اپنی کامیابی پر شبہ ہو اس لیے وہ عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج میں شرکت کر رہے ہوں۔

انھیں اپنے پارٹی قائد کی طرف سے پارٹی عہدہ چھوڑنے کا بھی کہا گیا ہے۔ ممکن ہے وہ اپنے لیڈر کو یہ دکھانا چاہتے ہوں کہ وہ احتجاج کے کام میں ماہر ہیں۔ کوئی اور کام وہ نہ بھی کر سکیں تو اسے برداشت کیا جائے۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ جن لوگوں کو عوام مشکلات پر قابو پانے کا مینڈیٹ دیتے ہیں وہ اگر خود احتجاج کرنے لگیں گے تو عوام کا والی وارث کون ہو گا۔


ویسے یہ عوام ہوتے کون ہیں کہ ان کی بہتری کے بارے میں سوچا جائے۔ لوگوں کا ایک ہجوم جسے عوام کہا جاتا ہے اسے اگر اپنی بہتری کی کوئی غرض تھی تو وہ کہیں اور پیدا ہو جاتے۔ وہ پاکستان میں پیدا ہو گئے ہیں تو انھیں برداشت کی عادت ڈالنی ہو گی۔ انھیں ایسے حکمران دنیا میں کہیں اور نہیں مل سکتے جو ان کے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج تک کر گزرتے ہیں۔ پرویز خٹک آج سے احتجاج کا آغاز کرنے والے ہیں۔ دیکھیں احتجاج کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا ہے۔

لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی جہاں تک بات ہے تو اس میں بہت تھوڑا عرصہ بھی لگا تو تین سال درکار ہوں گے۔ یعنی گیارہ سو کے قریب دن۔ اگر خٹک صاحب ہفتے میں 6 دن بھی احتجاج کرتے ہیں تو پھر بھی انھیں ساڑھے نو سو دن کے قریب احتجاج کے لیے کسی سڑک یا کیمپ آفس میں بیٹھنا پڑے گا۔ پرویز خٹک کے لیے ایک مفت مشورہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی کا منشور پڑھ لیں اس میں بھی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا دورانیہ تین سال دیا گیا تھا۔

خیبر پختونخوا کی طرح سندھ میں بھی مسلم لیگ ن کی اپوزیشن جماعت اقتدار میں ہے۔ پیپلز پارٹی وفاق میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے۔ سندھ میں اس کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کب احتجاج کا علم اٹھا کر میدان میں نکلتے ہیں اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ قائم علی شاہ کو کراچی میں امن و امان کی برسوں سے بگڑی ہوئی حالت کو سدھارنے پر توجہ دینی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پچھلے 5 سال بھی وہ کراچی میں امن قائم نہیں کر سکے۔ تب ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔

وفاق میں ان کی اپنی جماعت کی حکومت تھی۔ وہ اس کے خلاف احتجاج نہیں کر سکتے تھے۔ اب ان کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنی غلطیوں' کوتاہیوں اور نالائقیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کسی ایسے ایشو کو بنیاد بنا کر سراپا احتجاج بن جائیں جو وفاقی حکومت کے قبضہ قدرت میں ہو۔ لوڈ شیڈنگ سے زیادہ آئیڈیل ایشو کون سا ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے ابھی ان کا دھیان اس مسئلے پر احتجاج کی طرف یوں نہ گیا ہو کہ ان کی اپنی اتحادی وفاقی حکومت توانائی کے موجودہ بدترین بحران کی کافی حد تک ذمے دار ہے۔ پنجاب اور بلوچستان دو ایسے صوبے ہیں جن کے وزراء اعلیٰ اس بار احتجاج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تو شاید کسی وقت اختلاف کی جرات کر گزریں لیکن شہباز شریف کے پاس ایسا کوئی چانس نہیں ہوتا۔ ان کا صرف ایک کام ہو گا اور ہو گا کام کام اور بس کام۔ انھیں اپنی وفاقی حکومت کی بھی قدم قدم پر مدد کرنا ہو گی۔ دھاندلی وغیرہ کے الزامات کو ایک طرف رکھ دیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کا موجودہ مینڈیٹ شہباز شریف کے گزشتہ دور کی پرفارمنس کے مرہون منت ہے۔ ان کی سابقہ پرفارمنس کا تسلسل اس دور میں بھی نظرآیا تو مسلم لیگ ن کی حکومت دیر سے ہی سہی مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

یہ کیسے لوگ ہیں؟ دوسروں پر تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن اپنے حصے کا کام نہیں کرتے۔ عام آدمی کی تو بات ہی کیا ہمارے حکمرانوں کا بھی یہی چلن ہے۔ لوگوں نے انھیں اپنے مسائل حل کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا۔ انھوں نے ان مسائل سے عوامی توجہ ہٹانے کا نسخہ کیمیا تلاش کر لیا۔ لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج۔
Load Next Story