ملزم شوہر نے دوران تفتیش اہلیہ کے قتل کا اعتراف کرلیا
ڈھائی سال قبل شادی ہوئی تھی، سسرال والے عظمیٰ پر ظلم کرتے تھے، والد.
دس روز قبل شیر شاہ میں ہلاک ہونے والی خاتون کے شوہر نے دوران تفتیش اپنی اہلیہ کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا۔
5جولائی کو شیر شاہ جناح روڈ کے مکان میں35سالہ خاتون عظمیٰ زوجہ کامران فائرنگ سے ہلاک ہو گئی تھی،عظمی کے والد نے مقدمہ داماد کامران اور ساس اور سسر کیخلاف درج کرایا تھا، شیر شاہ پولیس سے تفتیش ماڑی پور پولیس کو منتقل کرنے کی درخواست کی تھی جس پر پولیس نے ہلاک ہونیوالی خاتون کے والد کی مدعیت میں شیرشاہ تھانے میں مقدمہ درج کر لیا تھا، مقدمے میں خاتون کے شوہر کامران، عظمیٰ کی ساس اور سسر کو نامزد کیا گیا تھا۔
واقعہ کو2 روز گزر جانے کے باوجود جب شیر شاہ انویسٹی گیشن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی تو ہلاک ہونے والی خاتون کے والد نے اعلی پولیس حکام کو مقدمے کی تفتیش ماڑی پور تھانے منتقل کرنے کی درخواست دی جس مقدمہ کی تفتیش ماڑی تھانے منتقل کردی گئی اور7جولائی کو ماڑیپور انویسٹی گیشن پولیس شیر شاہ کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے قتل کے مقدمے میں نامزد ملزم کامران کو گرفتار کرکے ٹی ٹی پستول برآمد کر لی تھی دیگر ملزمان فرارہوگئے،دو ران تفتیش ملزم کامران نے گھریلو تنازع پر اپنی اہلیہ عظمیٰ کو فائرنگ کر کے قتل کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔
اس حوالے سے عظمیٰ کے والد فضل محمود نے بتایا کہ مقتولہ عظمیٰ پانچ بہنوں میں سب سے بڑی تھی اور ملزم کامران ان کی اہلیہ کے بہن کا بیٹا ہے،انھوں نے بتایا کہ عظمیٰ اور کامران کی ڈھائی سال قبل شادی ہوئی تھی اس دوران ان کی7 ماہ کی بیٹی ایمن ہے ، انھوں نے بتایا کہ شادی کے بعد عظمیٰ جب بھی اپنے میکے آتی تو اپنی والدہ کو ہمیشہ سسرال میں اس پر کیے جانے والے ظلم کی داستان سناتی جس پر عظمیٰ کی والدہ اور والد اپنی بیٹی کو سمجھا بجھا کر واپس اس کے سسرال بھیج دیا کرتے تھے۔
لیکن 5 جولائی کو تو ظلم کی انتہا ہی ہو گئی اور انہیں اطلاع دی گئی کہ فوراً عباسی شہید اسپتال پہنچ جاؤ عظمیٰ کی طبعیت ٹھیک نہیں اور جیسے وہ لوگ عباسی شہید اسپتال پہنچے تو دیکھا کہ عظمیٰ کی لاش کو گھر لے جانے کے لیے ایمبولینس میں رکھا جارہا ہے، عظمیٰ کو کفن میں لپٹا ہوا دیکھ کر ہم لوگوں کے پیروں سے زمین نکل گئی اور اسی دوران ہمارا داماد جو کہ عظمیٰ کو اسپتال لایا تھا اور ڈاکٹروں کو یہ کہا تھا کہ میری بیوی نے خود کشی کر لی ہے اور ہمیں اس کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں کروانا اور یہ کہہ کر کامران عظمیٰ کی میت کو واپس لے جارہا تھا ہم لوگوں کے وہاں پہنچے تو ان کا داماد اسپتال سے فرار ہو گیا جس کے بعد ہم نے عظمیٰ کا پوسٹ مارٹم رپورٹ میں پتہ چلا کہ عظمیٰ کو پہلے تشدد کا نشانہ بنایا گیا پھر ڈھائی فٹ کی دوری سے سر پرگولی مار کر ہلاک کیا گیا ہے جس کے بعد ہم لوگوں نے میت کو اپنی رہائش گاہ میٹرو ویل لے کر روانہ ہو گئے عظمیٰ کی میت جیسے ہی گھر پہنچی تو گھر میں کہرام مچ گیا۔
5جولائی کو شیر شاہ جناح روڈ کے مکان میں35سالہ خاتون عظمیٰ زوجہ کامران فائرنگ سے ہلاک ہو گئی تھی،عظمی کے والد نے مقدمہ داماد کامران اور ساس اور سسر کیخلاف درج کرایا تھا، شیر شاہ پولیس سے تفتیش ماڑی پور پولیس کو منتقل کرنے کی درخواست کی تھی جس پر پولیس نے ہلاک ہونیوالی خاتون کے والد کی مدعیت میں شیرشاہ تھانے میں مقدمہ درج کر لیا تھا، مقدمے میں خاتون کے شوہر کامران، عظمیٰ کی ساس اور سسر کو نامزد کیا گیا تھا۔
واقعہ کو2 روز گزر جانے کے باوجود جب شیر شاہ انویسٹی گیشن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی تو ہلاک ہونے والی خاتون کے والد نے اعلی پولیس حکام کو مقدمے کی تفتیش ماڑی پور تھانے منتقل کرنے کی درخواست دی جس مقدمہ کی تفتیش ماڑی تھانے منتقل کردی گئی اور7جولائی کو ماڑیپور انویسٹی گیشن پولیس شیر شاہ کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے قتل کے مقدمے میں نامزد ملزم کامران کو گرفتار کرکے ٹی ٹی پستول برآمد کر لی تھی دیگر ملزمان فرارہوگئے،دو ران تفتیش ملزم کامران نے گھریلو تنازع پر اپنی اہلیہ عظمیٰ کو فائرنگ کر کے قتل کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔
اس حوالے سے عظمیٰ کے والد فضل محمود نے بتایا کہ مقتولہ عظمیٰ پانچ بہنوں میں سب سے بڑی تھی اور ملزم کامران ان کی اہلیہ کے بہن کا بیٹا ہے،انھوں نے بتایا کہ عظمیٰ اور کامران کی ڈھائی سال قبل شادی ہوئی تھی اس دوران ان کی7 ماہ کی بیٹی ایمن ہے ، انھوں نے بتایا کہ شادی کے بعد عظمیٰ جب بھی اپنے میکے آتی تو اپنی والدہ کو ہمیشہ سسرال میں اس پر کیے جانے والے ظلم کی داستان سناتی جس پر عظمیٰ کی والدہ اور والد اپنی بیٹی کو سمجھا بجھا کر واپس اس کے سسرال بھیج دیا کرتے تھے۔
لیکن 5 جولائی کو تو ظلم کی انتہا ہی ہو گئی اور انہیں اطلاع دی گئی کہ فوراً عباسی شہید اسپتال پہنچ جاؤ عظمیٰ کی طبعیت ٹھیک نہیں اور جیسے وہ لوگ عباسی شہید اسپتال پہنچے تو دیکھا کہ عظمیٰ کی لاش کو گھر لے جانے کے لیے ایمبولینس میں رکھا جارہا ہے، عظمیٰ کو کفن میں لپٹا ہوا دیکھ کر ہم لوگوں کے پیروں سے زمین نکل گئی اور اسی دوران ہمارا داماد جو کہ عظمیٰ کو اسپتال لایا تھا اور ڈاکٹروں کو یہ کہا تھا کہ میری بیوی نے خود کشی کر لی ہے اور ہمیں اس کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں کروانا اور یہ کہہ کر کامران عظمیٰ کی میت کو واپس لے جارہا تھا ہم لوگوں کے وہاں پہنچے تو ان کا داماد اسپتال سے فرار ہو گیا جس کے بعد ہم نے عظمیٰ کا پوسٹ مارٹم رپورٹ میں پتہ چلا کہ عظمیٰ کو پہلے تشدد کا نشانہ بنایا گیا پھر ڈھائی فٹ کی دوری سے سر پرگولی مار کر ہلاک کیا گیا ہے جس کے بعد ہم لوگوں نے میت کو اپنی رہائش گاہ میٹرو ویل لے کر روانہ ہو گئے عظمیٰ کی میت جیسے ہی گھر پہنچی تو گھر میں کہرام مچ گیا۔