راہول گاندھی بمقابلہ نریندر مودی

مودی نے جو بھار ت میں شدت پسندی کی سیاست کو فروغ دیا

salmanabidpk@gmail.com

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب بھارت میں کانگریس نے بزرگ سیاسی راہنماؤں اور بڑے سیاسی برجوں کے مقابلے میں راہول گاندھی کو کانگریس کا صدر نامزد کیا تو ان کی تقرری پر کافی اعتراضات سامنے آئے تھے ۔ کسی نے کہا کہ وہ سیاسی نابالغ اور ناتجربہ کار ہے اورکسی کے بقول اسے بھارت کی داخلی سیاست کے مسائل کا نہ تو اندازہ ہے اور نہ ہی اس کا ادراک ۔ لیکن کانگریس نے بطور جماعت یہ ہی فیصلہ کیا کہ ہمیں ایک نئی اور نوجوان قیادت کو سامنے لاکر پارٹی کو متبادل قیادت پیش کرنا ہے ۔ کیونکہ راہول گاندھی سے قبل کانگریس اپنے ہی داخلی بحران کا شکار تھی ۔

ایک طرف بی جے پی کا سیاسی جادوتو دوسری طرف کانگریس کو تواتر سے ملنے والی شکست نے ان کو سیاسی میدان میں تنہا ہی کردیا تھا ۔یہ تجزیہ بھی کیا گیا کہ گاندھی خاندان کا اب سیاست میں کوئی مستقبل نہیں اور سونیا گاندھی کے بعد راہول پر اعتماد کے بجائے ہمیں ایک نئی متبادل قیادت گاندھی خاندان سے تلاش کرنی چاہیے ۔

لیکن یہاں داد دینی ہوگی کہ نوجوان نسل کے کانگریسی قائد راہول گاندھی نے واقعی ثابت کیا ہے کہ وہ بھارت میں موجود اقتدار کی سیاست میں مودی کے متبادل ہوسکتے ہیں۔ دو ماہ قبل تک بہت سے سیاسی پنڈت راہول گاندھی کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ کانگریس کی مجبوری ہے کہ ان کے پاس مودی کے مقابلے میں کوئی قیادت نہیں ۔لیکن پچھلے ماہ پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج اور بی جے پی کی بدترین شکست اور کانگریس کی جیت نے ثابت کیا کہ راہول گاندھی بھارت میں کانگریس اور ملک کے لیے ایک نئی سیاسی امید ہوسکتے ہیں۔

راہول کی قیادت میں ان پانچ ریاستوں میں جہاں بی جے پی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا وہیں وہ حلقے بھی تھے جن کو بی جے پی کا سیاسی گڑھ سمجھا جاتا تھا ۔بھارت میں موجود بہت سے سیاسی تجزیہ نگاروں یا سیاسی پنڈتوں کے بقول ان ریاستی انتخابات میں جس انداز سے مودی کے مقابلے میں راہول گاندھی نے خودکو متبادل قیادت کے طو رپر پیش کیا اس کو بہت آسانی سے نظرانداز کرنے کی سیاسی حکمت عملی خود بی جے پی کے لیے بڑا خطرہ ہوگی ۔


راہول گاندھی کی سیاسی برتری کی سیاسی ٹائمنگ بہت اہم ہے ۔ کیونکہ مئی 2019ء میں بھارت میں عام انتخابات ہونے ہیں ان انتخابات کی حیثیت محض بھارت تک محدود نہیںبلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر بھی ان انتخابات کو بڑی باریک بینی اور مستقبل کی پیش قدمی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے ۔اس لحاظ سے یہ کہنا بجا ہوگا کہ بہت سے شاندار وقت میں راہول گاندھی اورکانگریس نے بی جے پی اور بالخصوص مودی کو سیاسی طور پر جھنجھوڑا ہے کہ ان کی سیاسی انتخابی طاقت کمزور ہو رہی ہے۔اب راہول گاندھی اور کانگریس کے سامنے ایک بڑا چیلنج 2019کے عام انتخابات ہیں ۔ یقینی طور پر ان کی کوشش ہوگی کہ وہ ان پانچ حالیہ ریاستوں کے انتخابی نتائج میں اپنی سیاسی برتری کے تسلسل کو جاری رکھ کر مودی سرکار کے مقابلے میں اپنے اقتدار کی راہ ہموار کریں ۔

لیکن ان پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج میں راہول کی برتری کے باوجود مودی سرکار کو آنے والے انتخابات میں بڑی شکست دینا آسان کام نہیں ہوگا ۔ کیونکہ مودی کو اب بھی کمزور سمجھنا مکمل طور پر ٹھیک نہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ مودی سرکار اور بی جے پی حالیہ ریاستی انتخابات میں شکست کے بعد کیسے دوبارہ خود کو کھڑا کرتی ہے ۔راہول گاندھی کو بڑا سیاسی ایڈونٹیج نئی نسل کے نمایندے کے طور پر ہورہا ہے اور بہت سے نئی نسل سے جڑے لوگ ان کو متبادل قیادت کے طورپر دیکھ رہے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مودی کے حوالے سے جو بھار ت میں ترقی کی توقعات اور خواہشات تھیں وہ مردہ ہوتی جارہی ہیں اور ووٹرز میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اب ہمیں نئی قیادت درکار ہے ۔

ویسے بھی جنوبی ایشیا میں حکمرانی کانٹوں کا سیج ہوتی ہے او ر لوگوں کا حکمرانی کے ساتھ دل جیتنا مشکل کام ہوتا ہے ۔راہول گاندھی نے عملی طور پر بی جے پی کی حکومت اوربالخصوص مودی کی شدت پسند پالیسی او ران میں موجود خامیوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ راہول کو اچھی طرح احساس ہے کہ بھارت کا اصل چہرہ ہندواتہ پر مبنی سیاست نہیں بلکہ سیکولر اور رواداری پر مبنی نظام ہے ۔ راہو ل نے عملی طور پر اپنی سیاست اور مودی کی سیاست کے درمیان جو سیاسی لکیر کھینچی وہ سیکولر اور ہندواتہ پر مبنی سیاست کا فرق ہے ۔کیونکہ مودی نے جو بھار ت میں شدت پسندی کی سیاست کو فروغ دیا اس نے بھارت کے سیکولر چہرہ پر کئی سوالات اٹھائے ہیں ۔

اس کا اظہا رہم بڑی شدت سے بھار ت میں موجود سیاسی اور غیر سیاسی افراد میں دیکھ رہے ہیں جو برملا بھارت میں مودی کو شدت پسندی پھیلانے کا مرکزی کردار کہتے ہیں۔اس لحاظ سے مئی 2019کے انتخابات بنیادی طور پر جہاں راہول گاندھی اور نریندر مودی کے درمیان ہونگے وہیں ان انتخابات کی ایک نظریاتی کشمکش بھی ہوگی جو ہندواتہ او رسیکولر سیاست کے درمیان دیکھی جائے گی کہ بھار ت میں موجود مجموعی ووٹرز کس طرز کی سیاست کو دیکھنا چاہتا ہے ۔مئی کے انتخابات میں ایک بڑا کردار مسلم ووٹرز کا بھی ہے ۔

ان میں جہاں علاقائی سیاست کا غلبہ ہوتا ہے وہیں مسلم ووٹرز کو یہ بھی طے کرنا ہے کہ وہ ہندواتہ کی سیاست کی کس حد تک حمایت کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ بھارت میں مودی سرکار نے جو مسلم دشمنی کا ایجنڈا اختیار کیا ہوا ہے اس سے خود مسلم ووٹرز بھی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں او ران کو لگتا ہے کہ مودی سرکار نے ان میں عدم تحفظ کا احساس مضبوط کیا ہے ۔ اس لیے اب دیکھنا ہوگا کہ 2019کے انتخابی نتائج میں راہول گاندھی کا سیاسی جادو چل سکے گا اور کیا مودی کو شکست ہوگی ؟ اہم بات یہ ہے کہ اس وقت مودی اور بی جے پی میں ذہنی طور پر مایوسی کا غلبہ ہے او ر یہ ہی وہ نکتہ ہے جس کا فائدہ راہول گاندھی اٹھاسکتے ہیں ۔
Load Next Story

@media only screen and (min-width: 1024px) { div#google_ads_iframe_\/11952262\/express-sports-story-1_0__container__ { margin-bottom: 15px; } } @media only screen and (max-width: 600px) { .sidebar-social-icons.widget-spacing { display: none; } }