تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رہنا چاہیے
حد یہ ہے کہ غیرقانونی قبضہ کی گئی زمینوں پرمساجد تک تعمیر کردی گئی ہیں
موجودہ حکومت کے تین اقدامات بہت اچھے تو ہیں مگر خطرناک بھی ہیں۔ ایک احتساب، دوسرا معیشت، تیسرا تجاوزات کے خاتمے کی مہم۔ یہ تینوں پورس کے وہ ہاتھی ہیں جواگر پلٹیں گے تو اپنا لشکر بھی رونددیں گے۔ میرا خوف یہ ہے کہ احتساب منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکے گا۔ ہمارے یہاں غریب مجرم سے سلوک یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی مرغی چور ہے تو اس سے پورے پولٹری فارم کی چوری کا اعتراف کرالیا جاتا ہے، ریلوے اسٹیشن پر کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو اس کو مار مار کر لہولہان کردیا جاتا ہے مگر اس کے پشت پناہ کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ بڑے چوروں اور ملزموں کو پروٹوکول بھی ملتا ہے، اہم ترین کمیٹیوں کی سربراہی بھی ملتی ہے اور میڈیکل کے لمبے چوڑے بل بھی ہوتے ہیں اور کئی کئی کنال پر محیط گھر بھی مل جاتے ہیں ۔
اس ملک میں ایسا نظام بنا دیا گیا ہے کہ چھوٹے چور کو اتنا ذلیل کیا جاتا ہے کہ وہ خود کشی پر مجبور ہو جاتا ہے حالانکہ اس نے زلزلہ زدگان کی مدد کے پیسے کھائے ہوتے ہیں، نہ سرکاری سبسڈیاں کھائی ہوتی ہیں اور نہ ہی اسے جعلی اکاؤنٹس جیسی سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت ہوتی ہے اور نہ ہی وہ بیچارہ موٹر وے کا کریم رول بنا کر کھاتا ہے۔جب کہ بڑے چور اس ملک کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر لوٹ رہے ہوتے ہیں ، بندہ پوچھے کہ یہ کونسی روایت یا قانون ہے کہ پی اے سی کا چیئرمین اپوزیشن سربراہ ہی ہوگا۔
اب جب ملک بھر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا جا رہا ہے تو یہی طبقہ پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف ہے، حالانکہ سب کو علم ہے کہ تجاوزات شہر کے حسن کو گہنا دیتی ہیں، یہ ریڑھیاں اور اسٹال ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔تجاوزات کے خلاف آپریشن بلاشبہ ایک مستحسن قدم ہے مگر سوال یہ ہے اگرکہیں قبضہ ہوا یا تجاوزات بنائی گئیں تو اس وقت شہری انتظامیہ اور حکومت کیوں خاموش تھی۔ اگر انھوں نے کچھ نہیں کیا تو وہ بھی برابر کے ذمے دار ہیں۔ اگر کسی علاقے کو لیز دی گئی تھی تو اس کو ناجائز کیسے سمجھا جائے گا؟ بالفرض اس جگہ کی لیز قانونی طور پر درست نہیں تھی تو اس دور کے حکمرانوں اور متعلقہ محکمے کے افسروں کو قانون کی پکڑ میں لایا جائے اور متاثرین کو معاوضہ دیا جائے۔ اگر کسی علاقے میں کثیر المنزلہ عمارت بنی ہے تو اس کی اجازت کس نے دی؟ اگر متعلقہ اداروںنے ان عمارات کے نقشے پاس کیے تو ان کے افسران کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔
لاہورکی شاہ عالم مارکیٹ کا معاملہ دیکھ لیں یہاں محض چھوٹی موٹی تجاوزات ہی نہیں بلکہ پارک، ٹیوب ویل اور گلیوں تک پر قبضے کر کے دو،دو اور چار ، چار مرلے کے غیر قانونی پلازے کھڑے کر لیے گئے، یہ پلازے کروڑوں روپوں میں فروخت ہوئے۔ جب ان غیر قانونی دکانوں کو ختم کیا جا رہا ہے تو تاجروں کا یہ سوال سو فیصد درست ہے کہ جب یہ پلازے تعمیر اورفروخت ہو رہے تھے، یہاں سے کروڑوں او ر اربوں روپے کمائے اور کھائے جا رہے تھے تو بنانے اور کھانے والوں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا، جنہوں نے کاروبار کے لیے آج سے دس، بیس یا پچاس برس پہلے باقاعدہ قیمت دے کردکانیں خریدیں، وہ دیوالیہ ہو رہے ہیں۔
اب اگر پس منظر پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ تجاوزات ملی بھگت کا نتیجہ ہیں، لاہور میونسپل کارپوریشن اور ایل، ڈی، اے کے افسروں اور اہلکاروں نے نہ صرف آنکھیں موند لیں بلکہ تجاوزات قائم کرنے میں باقاعدہ شراکت کی۔ بڑے افسروں نے کمرشلائیزیشن کے نام پر کروڑوں کمائے، آج اگر لاہور میں ایل، ڈی، اے کی کسی بھی ہاوسنگ اسکیم میں چلے جائیں، مرکزی سڑکوں پر بنی عمارتیں کمرشل کردی گئی ہیں، گو ایل، ڈی، اے کو کمرشل فیس کی صورت میں آمدنی ہوئی لیکن عملے نے بھی خوب ہاتھ رنگے، اسی طرح عارضی تجاوزات والے تو ایل، ڈی، اے اور کارپوریشن کے عملے کو باقاعدہ ماہانہ بھتہ دیتے ہیں،کارکردگی دکھانے کے لیے کبھی کبھی ریڑھیاں اور کرسیاں اٹھا کر بھی لے جاتے ہیں۔ ہر دو شعبوں کے تہہ بازاری کا عملہ خود بلڈنگوں کے مالک بن چکے ہیں جب کہ تجاوزات ناسور کی طرح شہر کے سینے میںموجود ہیں، لاہور کی مرکزی شاہراوہوں کے فٹ پاتھوں کے اوپر رہڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ غیرقانونی قبضہ کی گئی زمینوں پرمساجد تک تعمیر کردی گئی ہیں۔
تجاوزات کے خلاف مربوط مہم کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ اس برائی میں شامل کارپوریشن، ایل، ڈی، اے ، متروکہ املاک اور اوقاف املاک کے عملے کو بھی احتساب کی زد میں لایا جائے تاکہ یہ حضرات پھر سے ایسا نہ کراسکیں۔ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر ریاست کو قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے تو معیار سب کے لیے یکساں ہونے چاہیے۔ ابھی غیر قانونی طور پر زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف مہم چل رہی ہے، جس میں غریب لوگوں کی ہزاروں دکانیں، گھر، چھوٹے کاروبار اور ٹھیلے گرا دیے گئے ہیں لیکن ملک میںغیرقانونی قبضہ کی ہوئی زمینوں پر تعمیر کردہ عبادت گاہوں کے بارے بات کرنے کی کسی نے ہمت نہیں کی۔
میرے خیال میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔کیوں کہ اس سے حکومت کی رٹ قائم ہوئی ہے، حکومت کے اپنے ادارے مضبوط ہوئے ہیں، کرپشن کے چانسز کم ہوئے ہیں،اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتوںکو کسی خاطر میں نہ لایا جائے کیوں کہ وہ جو احتجاج کر رہی ہے کہ غریب لٹ گئے، اُن کا روزگار تباہ کر دیا گیا یا یہ کہا جا رہا ہے کہ فوری آپریشن کو بند کیا جائے وغیرہ وغیرہ تو اُن ایم این ایز اور ایم پی ایز کو بھی پکڑنا چاہیے جو تجاوزات کے نام پر بھتہ وصولی کیا کرتے تھے۔حالانکہ انھوں نے ان افراد کی بحالی کے لیے کوئی کام نہ کیا، نہ انھیں روزگار دیا اور نہ تعلیم کے مواقع کہ پڑھ لکھ کر ملک و قوم کی خدمت ہی کر سکیں۔
لہٰذاان ایم این ایز یا ایم پی ایز کا تو اپنا مفاد ختم ہوا ہے جس وجہ سے چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان شخصیات کی اجارہ داریوں کو بھی ختم کرائے تاکہ ادارے مضبوط ہوں۔ ان اداروں کے افسران کی تنخواہوں کا معیار بہتر ہونا چاہیے تاکہ وہ کرپشن ختم کرنے میںا ہم کردار ادا کرسکیں اور اس سلسلے کو آگے بڑھا کر ملک سے کرپشن کے خاتمے کو ممکن بنا سکیں!
اس ملک میں ایسا نظام بنا دیا گیا ہے کہ چھوٹے چور کو اتنا ذلیل کیا جاتا ہے کہ وہ خود کشی پر مجبور ہو جاتا ہے حالانکہ اس نے زلزلہ زدگان کی مدد کے پیسے کھائے ہوتے ہیں، نہ سرکاری سبسڈیاں کھائی ہوتی ہیں اور نہ ہی اسے جعلی اکاؤنٹس جیسی سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت ہوتی ہے اور نہ ہی وہ بیچارہ موٹر وے کا کریم رول بنا کر کھاتا ہے۔جب کہ بڑے چور اس ملک کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر لوٹ رہے ہوتے ہیں ، بندہ پوچھے کہ یہ کونسی روایت یا قانون ہے کہ پی اے سی کا چیئرمین اپوزیشن سربراہ ہی ہوگا۔
اب جب ملک بھر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا جا رہا ہے تو یہی طبقہ پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف ہے، حالانکہ سب کو علم ہے کہ تجاوزات شہر کے حسن کو گہنا دیتی ہیں، یہ ریڑھیاں اور اسٹال ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔تجاوزات کے خلاف آپریشن بلاشبہ ایک مستحسن قدم ہے مگر سوال یہ ہے اگرکہیں قبضہ ہوا یا تجاوزات بنائی گئیں تو اس وقت شہری انتظامیہ اور حکومت کیوں خاموش تھی۔ اگر انھوں نے کچھ نہیں کیا تو وہ بھی برابر کے ذمے دار ہیں۔ اگر کسی علاقے کو لیز دی گئی تھی تو اس کو ناجائز کیسے سمجھا جائے گا؟ بالفرض اس جگہ کی لیز قانونی طور پر درست نہیں تھی تو اس دور کے حکمرانوں اور متعلقہ محکمے کے افسروں کو قانون کی پکڑ میں لایا جائے اور متاثرین کو معاوضہ دیا جائے۔ اگر کسی علاقے میں کثیر المنزلہ عمارت بنی ہے تو اس کی اجازت کس نے دی؟ اگر متعلقہ اداروںنے ان عمارات کے نقشے پاس کیے تو ان کے افسران کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔
لاہورکی شاہ عالم مارکیٹ کا معاملہ دیکھ لیں یہاں محض چھوٹی موٹی تجاوزات ہی نہیں بلکہ پارک، ٹیوب ویل اور گلیوں تک پر قبضے کر کے دو،دو اور چار ، چار مرلے کے غیر قانونی پلازے کھڑے کر لیے گئے، یہ پلازے کروڑوں روپوں میں فروخت ہوئے۔ جب ان غیر قانونی دکانوں کو ختم کیا جا رہا ہے تو تاجروں کا یہ سوال سو فیصد درست ہے کہ جب یہ پلازے تعمیر اورفروخت ہو رہے تھے، یہاں سے کروڑوں او ر اربوں روپے کمائے اور کھائے جا رہے تھے تو بنانے اور کھانے والوں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا، جنہوں نے کاروبار کے لیے آج سے دس، بیس یا پچاس برس پہلے باقاعدہ قیمت دے کردکانیں خریدیں، وہ دیوالیہ ہو رہے ہیں۔
اب اگر پس منظر پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ تجاوزات ملی بھگت کا نتیجہ ہیں، لاہور میونسپل کارپوریشن اور ایل، ڈی، اے کے افسروں اور اہلکاروں نے نہ صرف آنکھیں موند لیں بلکہ تجاوزات قائم کرنے میں باقاعدہ شراکت کی۔ بڑے افسروں نے کمرشلائیزیشن کے نام پر کروڑوں کمائے، آج اگر لاہور میں ایل، ڈی، اے کی کسی بھی ہاوسنگ اسکیم میں چلے جائیں، مرکزی سڑکوں پر بنی عمارتیں کمرشل کردی گئی ہیں، گو ایل، ڈی، اے کو کمرشل فیس کی صورت میں آمدنی ہوئی لیکن عملے نے بھی خوب ہاتھ رنگے، اسی طرح عارضی تجاوزات والے تو ایل، ڈی، اے اور کارپوریشن کے عملے کو باقاعدہ ماہانہ بھتہ دیتے ہیں،کارکردگی دکھانے کے لیے کبھی کبھی ریڑھیاں اور کرسیاں اٹھا کر بھی لے جاتے ہیں۔ ہر دو شعبوں کے تہہ بازاری کا عملہ خود بلڈنگوں کے مالک بن چکے ہیں جب کہ تجاوزات ناسور کی طرح شہر کے سینے میںموجود ہیں، لاہور کی مرکزی شاہراوہوں کے فٹ پاتھوں کے اوپر رہڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ غیرقانونی قبضہ کی گئی زمینوں پرمساجد تک تعمیر کردی گئی ہیں۔
تجاوزات کے خلاف مربوط مہم کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ اس برائی میں شامل کارپوریشن، ایل، ڈی، اے ، متروکہ املاک اور اوقاف املاک کے عملے کو بھی احتساب کی زد میں لایا جائے تاکہ یہ حضرات پھر سے ایسا نہ کراسکیں۔ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر ریاست کو قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے تو معیار سب کے لیے یکساں ہونے چاہیے۔ ابھی غیر قانونی طور پر زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف مہم چل رہی ہے، جس میں غریب لوگوں کی ہزاروں دکانیں، گھر، چھوٹے کاروبار اور ٹھیلے گرا دیے گئے ہیں لیکن ملک میںغیرقانونی قبضہ کی ہوئی زمینوں پر تعمیر کردہ عبادت گاہوں کے بارے بات کرنے کی کسی نے ہمت نہیں کی۔
میرے خیال میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔کیوں کہ اس سے حکومت کی رٹ قائم ہوئی ہے، حکومت کے اپنے ادارے مضبوط ہوئے ہیں، کرپشن کے چانسز کم ہوئے ہیں،اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتوںکو کسی خاطر میں نہ لایا جائے کیوں کہ وہ جو احتجاج کر رہی ہے کہ غریب لٹ گئے، اُن کا روزگار تباہ کر دیا گیا یا یہ کہا جا رہا ہے کہ فوری آپریشن کو بند کیا جائے وغیرہ وغیرہ تو اُن ایم این ایز اور ایم پی ایز کو بھی پکڑنا چاہیے جو تجاوزات کے نام پر بھتہ وصولی کیا کرتے تھے۔حالانکہ انھوں نے ان افراد کی بحالی کے لیے کوئی کام نہ کیا، نہ انھیں روزگار دیا اور نہ تعلیم کے مواقع کہ پڑھ لکھ کر ملک و قوم کی خدمت ہی کر سکیں۔
لہٰذاان ایم این ایز یا ایم پی ایز کا تو اپنا مفاد ختم ہوا ہے جس وجہ سے چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان شخصیات کی اجارہ داریوں کو بھی ختم کرائے تاکہ ادارے مضبوط ہوں۔ ان اداروں کے افسران کی تنخواہوں کا معیار بہتر ہونا چاہیے تاکہ وہ کرپشن ختم کرنے میںا ہم کردار ادا کرسکیں اور اس سلسلے کو آگے بڑھا کر ملک سے کرپشن کے خاتمے کو ممکن بنا سکیں!