توانائی بحران کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششیں

پاکستان میںتوانائی کے بحران کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کے باوجود بظاہر ’’مرض بڑھتا گیا...

فوٹو: فائل

KARACHI:
پاکستان میںتوانائی کے بحران کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کے باوجود بظاہر ''مرض بڑھتا گیا ،جوںجوں دوا کی ''والا معاملہ دکھائی دیتا ہے۔

حکومت نے رمضان المبارک کے دوران کم ازکم افطاروسحر کے اوقات میں بجلی کی بلا تعطل فراہمی کا اعلان کررکھا تھا اور جناب وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجلی پیدا کرنے والے '' سفید ہاتھیوں '' کو 300 ارب روپے بھی ادا کردیے تھے جب کہ 200 ارب روپے مزید اگلے ماہ ادا کیے جانے کا وعدہ کیاتھا اور اس کے ساتھ یہ نویدِ جانفزا بھی سنائی تھی کہ اس کے نتیجے میں بجلی کی پیداوار میں اس قدر اضافہ ضرور ہوسکے گا کہ لوگ رمضان کے مقد س ماہ میں روزے کسی مشکل یاذہنی کوفت کے بغیر رکھ سکیں گے ۔ لیکن ان اقدامات کا نتیجہ حسب توقع نہ نکل سکا گردشی قرضے ادا کرنے کے ساتھ بجلی کی فراہمی کی صورت حال بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہوگئی لوگ افطارو سحر کے دوران گرمی کی شدت سے گھبرا کر سڑکوں پر آگئے اورحکومت کے خلاف نعرہ زن ہوگئے ۔

وزیر اعظم میاں نوازشریف نے جھنجھلاہٹ کے عالم میں چیئرمین واپڈ اور سیکرٹری واپڈا کو ان کی ''نااہلی '' کے بنا پر عہدوں سے ہٹا دیا اور ان کی جگہ اہل اور قابل افسران کو تعینات کرنے کا حکم دے دیا ۔اس کے ساتھ ہی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کا بیان بھی اخبارات کے ذریعے بصارت نواز ہوا کہ بجلی کی فراہمی کے نظام میں تعطل دراصل تکنیکی مسئلہ تھا ۔ شیڈول کی غیر منصفانہ ترسیل اورپاور کمپنیوں میں کرپشن کی وجہ سے بھی خرابی پیدا ہوئی ۔ اگر یہ واقعی کوئی فنی خرابی تھی تو واپڈا کے چیئرمین اورسیکرٹری کو اس کی سزا کیوں دی گئی ۔ اور اگر کرپشن کا شاخسانہ ہے تو ذمہ داروں کے بے نقاب کرکے انہیں قرارواقعی سزا دی جانی چاہیے، محض برطرفیاں یا عہدوں سے ہٹادینا کوئی سزا نہیں ہوتی ۔کیا وزیر پانی وبجلی اس معاملے کی تحقیقات کروائیں گے کہ قوم کو اس کے اصل دوست اور دشمنوں کا پتا چل سکے؟


دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے توانائی کے بحران کے ضمن میں اٹھائے جانے والے اقدامات کے ساتھ ساتھ بجلی و گیس کی چوری کے خلاف بھرپور اور موثر انداز میں مہم چلانے کی ہدایت جاری کردی ہے اور یہ واضح طورپر کہا ہے کہ بجلی چوری کرنے والے قومی مجرم ہیں ان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے ۔ یہ بات اب کسی سے بھی پوشیدہ یا مخفی نہیں ہے کہ بجلی کی چوری یکطرفہ نہیں ہوسکتی ( یعنی کلے بندے دا کم نہیں )متعلقہ دفتر کے افسران یا اہلکاروں کا تعاون اور ملی بھگت بھی شامل ہوتی ہے ۔ بجلی چوری عام گھریلو صارف تو شاید ایک فیصد کرتے ہیں اصل چور تو کارخانہ دار، پلازہ مالکان اور بڑے تاجر ہیں جن پر ہاتھ ڈالتے ہوئے مانیٹرنگ ٹیموں کے پر جلتے ہیں ۔ سو اس پہلو کوبھی ضرور پیش نظر رکھا جانا چاہئے ۔ ایک تجویز ہم بھی حکمرانوں کے گوش گزار کیے دیتے ہیں کہ جو توانائی کے بحران میں کمی میں یقینی طورپر مددگار ثابت ہوسکتی ہے ، وہ تمام تجارتی اور کاروباری مراکز کے اوقات میں تبدیلی سے متعلق ہے ۔

اس وقت ملک کے بڑے بڑے شہروں میں اکثر تجارتی مراکز دن کے بارہ بجے کھلتے اور پھر رات گئے تک کھلے رہتے ہیں جن کی وجہ سے بجلی کا بہت زیادہ استعمال( بلکہ ضیاع ) ہوتا ہے۔ اس کے بجائے اگر تمام کاروباری وتجارتی مراکز اور مارکیٹوں کے اوقات صبح نوبجے سے شام سات بجے (مغرب کے وقت) تک مقرر کردیے جائیں تو اس سے نہ صرف بجلی کی معقول مقدار میں بچت ہوسکے گی بلکہ ان اوقات کی وجہ سے دیگر قباحتوں ڈاکہ زنی، چوری ، چھینا جھپٹی وغیرہ کی وارداتوں میں بھی معتدبہ کمی واقع ہوگی ۔ دنیاکے ترقی یافتہ ممالک میں بھی کاروباری اور تجارتی مراکز رات گئے تک نہیں کھلے رکھنے کی اجازت نہیں ہے ْلیکن پاکستان میں چونکہ تاجر پیشہ طبقہ ہر دور میں حکمرانوں کا منظور نظر رہا اور ان کے ناک کا درجہ رکھتا ہے اس لیے وہ اس طبقہ کی مشاورت اور مرضی کے بغیر کوئی قدم اٹھانے کی جرائت نہیں کرتے ۔

اس وقت جب کہ شریف برادران نے اپنے قومی ایجنڈے میں دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ دوسری بڑی ترجیح معیشت کی بحالی اور توانائی بحران پر قابو پانا رکھا ہوا ہے اور وہ اپنے اس ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے پوری یکسوئی سے کاربند بھی دکھائی دیتے ہیں تو انہیں اس تجویز پر ضرور غور کرنا چاہئے ۔ یہ تجویز نئی نہیں ہے پہلے بھی اس نوع کی سفارشات کی جاتی رہی ہیں لیکن حکمرانوں کی ترجیحات میں چونکہ توانائی کے بحران کا خاتمہ نہیں ہوتا تھا اس لیے اس قسم کی سفارشات یا تجاویز کبھی توجہ کے لائق نہیں سمجھی گئیں ۔ البتہ موجودہ حکمرانوں سے یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ چونکہ اس ایشو پر سنجیدہ ہیں اور اس میں ناکامی کے اثرات سے بھی بخوبی واقف ہیں اس لیے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ہر اس آپشن پر ضرور غور کریں گے جوان کے اقتدار کو تحفظ دینے کا ضامن ہوسکتی ہے اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کا مطالب بھی دوسرے لفظوں میں اقتدار کو دوام دینا ہی ہے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا مسئلہ بلاشبہ ملک کا سب سے بڑا اور اولین توجہ کا حامل مسئلہ ہے لیکن توانائی کے بحران نے بھی ملک کے اندر جو دہشت پھیلا رکھی ہے اس کی سنگینی کسی طور کم نہیں ہے۔ شریف برادران کو اس حقیقت کا پوری طرح احساس بھی ہے اور ادراک بھی ۔ اس لیے ان کی بیشتر سرگرمیوں کا مرکزو محور توانائی کے مسئلے کا حل ہی ہے ۔ وہ اس مسئلے سے نمٹنے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں یہ ان پالیسیوں اور منصوبوں پر منحصر ہے جنہیں وہ اپنانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ عام آدمی بہر حال ان سے یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح انہیں سبز باغ نہیں دکھائیں گے اور ان کو حقیقی ریلیف دینے کا سامان مہیا کریں گے کہ اب یہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
Load Next Story