ایک بوڑھا پاکستانی
آج کے اخباروں میں دوتصویریں چھپی ہیں،ایک تصویر نوےسالہ پاکستانی مقیم بنگلہ دیش پروفیسرغلام اعظم کی ہے جو 1971 میں...
وہ جو میں کہہ رہا تھا کہ حج پر کالم لکھنا ہے لیکن کئی ایسے نئے اور پسندیدہ موضوع سامنے آ گئے ہیں کہ حج کے بارے میں صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ چند برس ہوئے میں نے یہ ''فتویٰ'' دیا تھا کہ اگر مقروض جب تک قرض ادا نہ کرے وہ حج نہیں کر سکتا تو ہماری پوری قوم مقروض ہے اور جب تک یہ اپنا قرض ادا نہیں کرتی اس کا کوئی فرد حج کا مجاز نہیں ہے، آج تو ہماری قوم پہلے سے کہیں زیادہ مقروض ہے، اس لیے علماء دین بتائیں کہ کیا مقروض حج کر سکتا ہے۔
میں نے پہلی بار کئی علماء سے بھی رجوع کیا تھا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا تھا جواب گول کر گئے، صاف بات یہ ہے کہ یہ مہینہ علماء کی سال بھر کی روٹی کمانے کا مہینہ ہے اور میں ایسے 'فتوے' جاری کر کے ان کی روزی پر لات مار رہا ہوں، ایسے علماء بہت کم ہیں جو رمضان کے فیضان کے محتاج نہیں ہیں لیکن نام بنانے کے لیے یہ مہینہ ان کے لیے بھی بہت اہم ہوتا ہے بہر حال میرا یہ فتویٰ پھر حاضر ہے کیا فرماتے ہیں علماء دین متین بیچ اس مسئلے کے۔
آج کے اخباروں میں دو تصویریں چھپی ہیں، ایک تصویر نوے سالہ پاکستانی مقیم بنگلہ دیش پروفیسر غلام اعظم کی ہے جو 1971 میں پاکستان کی حمایت کرنے کے مجرم ہیں اور ان کو نوے برس قید کی سزا ملی ہے، اب وہ جیل میں ہیں۔ یہ اسی واقعہ اور حرکت کی سزا ہے جس کی حمائت کرنے پر ہمارے چند دانشور حال ہی میں بنگلہ دیشی حکومت سے تعریفی اسناد حاصل کر چکے ہیں لیکن پروفیسر اعظم کو بد تعریفی کی سند ملی ہے جو انھوں نے بنگلہ دیش کے بارے میں کی تھی۔
ابھی تعریف اور بد تعریفی کا سوال پیدا نہیں ہوا تھا، جب مولانا مودودی نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور پلٹن میدان میں ان کے جلسے کا انتظام کیا گیا تھا۔ میں خوش قسمت اس جلسے میں موجود تھا لیکن عوامی لیگ کے کارکنوں نے یہ جلسہ نہ ہونے دیا بلکہ کئی کارکن زخمی ہوگئے۔ ان زخمیوں کی عیادت کے لیے میں اسپتال گیا جہاں پروفیسر صاحب ہر زخمی کے بستر کے پاس جا کر اس کے چہرے کو چوم رہے تھے اور ساتھ ہی روتے بھی جاتے تھے۔ یہ منظر میرے دل پر ایسا نقش ہوا کہ اس کی تفصیلات بھی مجھے یاد رہتی ہیں۔
برصغیر کے مسلمانوں نے اس ملک کو بنانے کے لیے بھی قربانیاں دیں اور اسے قائم رکھنے کے لیے بھی تا آنکہ مرحوم نثار عثمانی کے بقول ہم ادھر تم ادھر ہو گیا۔ کسی کو مسلمانان برصغیر کی جذباتی تاریخ لکھنی چاہیے، اس میں خلافت تحریک بھی اور تحریک پاکستان سب کا ذکر کیا جائے۔ انگریزوں نے اس خطے کے مسلمانوں کو اقتدار سے محروم کیا جس کا زخم جذباتی مسلمانوں میں آج تک ہرا ہے۔ پروفیسر غلام اعظم کو جس جرم کی سزا مل رہی ہے، اس کے سر زد ہونے پر بھارت کی ہندو لیڈر اندرا گاندھی نے نعرہ لگایا تھا کہ ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔
بھارت کے ہندو کی اسی برتری کی سزا اب تک جاری ہے اور اس کا انتقام لیا جا رہا ہے۔ پروفیسر غلام اعظم اس کی تازہ مثال ہیں۔ صرف ایک تازہ مثال نہ جانے یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ میں وہیل چیئر پر پروفیسر صاحب کی تصویر دیکھ کر ایک تاریخ کو اپنے سامنے سسکتا بلکتا دیکھ رہا ہوں اور اس کے وہ زخم دیکھ رہا ہوں جو اپنوں نے لگائے ہیں مگر اس کا ذکر یہیں ختم ورنہ نہ جانے کتنے کالم ان زخموں سے خون آلود ہو جائیں گے۔
اب ایک دوسری تصویر۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ ہمارے سابق گورنر جناب غلام مصطفیٰ کھر صاحب یوگا کے عادی ہیں اور یہ ورزش ان کے معمول میں ہے۔ اب میں نے ان کی اس ورزش کا ایک نیا رنگ دیکھا ہے کہ وہ ایک کھلے پارک میں آلتی پالتی مار کر نہ جانے کس آسن کو اختیار کر کے یوگا کی ورزش میں مصروف ہیں۔ پہلے تو مجھے یہ لگا کہ کوئی سا دھو ہے لیکن غور سے دیکھا تو راز کھلا کہ یہ کوئی سادھو نہیں ہمارے کھر صاحب ہیں اور ہمارے اس پرانے سیاستدان کا یہ رنگ اب پہلی بار کھل کر قوم کے سامنے آیا ہے۔ اگر کسی نے ہماری سیاسی تاریخ لکھی تو اس تصویر والا اس کتاب کا دلچسپ ترین صفحہ ہو گا۔
آج کے اخبار میں ایک ایسی خبر چھپی ہے جس سے مجھے دکھ ہوا ہے۔ جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جنھیں کبھی قوم نے محسن پاکستان کا بے ساختہ انداز میں اعزازی خطاب دیا تھا اعلان کیا ہے کہ وہ اب سیاست کو ترک کر رہے ہیں، جب انھوں نے کسی احمق یا خود غرض کے کہنے سننے پر اور اپنی ذات گرامی کی نفی کا فیصلہ کر کے سیاست میں قدم رکھا تھا تو ان کے اس عمر بھر کے مداح نے ہاتھ اٹھا لیا تھا کہ اب جب وہ خود ہی اپنے اس بلند ترین مقام سے نیچے اتر آئے ہیں اور ایک اور سیاست دان بن گئے ہیں تو ان کی مرضی لیکن اب وہ اپنے مداحوں کو ریٹائرمنٹ کی اجازت دے دیں، جب وہ خود ہی ریٹائر ہو گئے ہیں تو ہم لوگ کیا کر سکتے ہیں، ہم تو ان کی سیاست میں آمد کے فیصلے پر بھی بہت رنج کر چکے تھے جس کا ان کی حد تک قطعاً کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اب یہی خواہش ہے کہ ان کی سیاست سے بعد کی زندگی آرام سے گزرے۔
میں نے پہلی بار کئی علماء سے بھی رجوع کیا تھا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا تھا جواب گول کر گئے، صاف بات یہ ہے کہ یہ مہینہ علماء کی سال بھر کی روٹی کمانے کا مہینہ ہے اور میں ایسے 'فتوے' جاری کر کے ان کی روزی پر لات مار رہا ہوں، ایسے علماء بہت کم ہیں جو رمضان کے فیضان کے محتاج نہیں ہیں لیکن نام بنانے کے لیے یہ مہینہ ان کے لیے بھی بہت اہم ہوتا ہے بہر حال میرا یہ فتویٰ پھر حاضر ہے کیا فرماتے ہیں علماء دین متین بیچ اس مسئلے کے۔
آج کے اخباروں میں دو تصویریں چھپی ہیں، ایک تصویر نوے سالہ پاکستانی مقیم بنگلہ دیش پروفیسر غلام اعظم کی ہے جو 1971 میں پاکستان کی حمایت کرنے کے مجرم ہیں اور ان کو نوے برس قید کی سزا ملی ہے، اب وہ جیل میں ہیں۔ یہ اسی واقعہ اور حرکت کی سزا ہے جس کی حمائت کرنے پر ہمارے چند دانشور حال ہی میں بنگلہ دیشی حکومت سے تعریفی اسناد حاصل کر چکے ہیں لیکن پروفیسر اعظم کو بد تعریفی کی سند ملی ہے جو انھوں نے بنگلہ دیش کے بارے میں کی تھی۔
ابھی تعریف اور بد تعریفی کا سوال پیدا نہیں ہوا تھا، جب مولانا مودودی نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور پلٹن میدان میں ان کے جلسے کا انتظام کیا گیا تھا۔ میں خوش قسمت اس جلسے میں موجود تھا لیکن عوامی لیگ کے کارکنوں نے یہ جلسہ نہ ہونے دیا بلکہ کئی کارکن زخمی ہوگئے۔ ان زخمیوں کی عیادت کے لیے میں اسپتال گیا جہاں پروفیسر صاحب ہر زخمی کے بستر کے پاس جا کر اس کے چہرے کو چوم رہے تھے اور ساتھ ہی روتے بھی جاتے تھے۔ یہ منظر میرے دل پر ایسا نقش ہوا کہ اس کی تفصیلات بھی مجھے یاد رہتی ہیں۔
برصغیر کے مسلمانوں نے اس ملک کو بنانے کے لیے بھی قربانیاں دیں اور اسے قائم رکھنے کے لیے بھی تا آنکہ مرحوم نثار عثمانی کے بقول ہم ادھر تم ادھر ہو گیا۔ کسی کو مسلمانان برصغیر کی جذباتی تاریخ لکھنی چاہیے، اس میں خلافت تحریک بھی اور تحریک پاکستان سب کا ذکر کیا جائے۔ انگریزوں نے اس خطے کے مسلمانوں کو اقتدار سے محروم کیا جس کا زخم جذباتی مسلمانوں میں آج تک ہرا ہے۔ پروفیسر غلام اعظم کو جس جرم کی سزا مل رہی ہے، اس کے سر زد ہونے پر بھارت کی ہندو لیڈر اندرا گاندھی نے نعرہ لگایا تھا کہ ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔
بھارت کے ہندو کی اسی برتری کی سزا اب تک جاری ہے اور اس کا انتقام لیا جا رہا ہے۔ پروفیسر غلام اعظم اس کی تازہ مثال ہیں۔ صرف ایک تازہ مثال نہ جانے یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ میں وہیل چیئر پر پروفیسر صاحب کی تصویر دیکھ کر ایک تاریخ کو اپنے سامنے سسکتا بلکتا دیکھ رہا ہوں اور اس کے وہ زخم دیکھ رہا ہوں جو اپنوں نے لگائے ہیں مگر اس کا ذکر یہیں ختم ورنہ نہ جانے کتنے کالم ان زخموں سے خون آلود ہو جائیں گے۔
اب ایک دوسری تصویر۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ ہمارے سابق گورنر جناب غلام مصطفیٰ کھر صاحب یوگا کے عادی ہیں اور یہ ورزش ان کے معمول میں ہے۔ اب میں نے ان کی اس ورزش کا ایک نیا رنگ دیکھا ہے کہ وہ ایک کھلے پارک میں آلتی پالتی مار کر نہ جانے کس آسن کو اختیار کر کے یوگا کی ورزش میں مصروف ہیں۔ پہلے تو مجھے یہ لگا کہ کوئی سا دھو ہے لیکن غور سے دیکھا تو راز کھلا کہ یہ کوئی سادھو نہیں ہمارے کھر صاحب ہیں اور ہمارے اس پرانے سیاستدان کا یہ رنگ اب پہلی بار کھل کر قوم کے سامنے آیا ہے۔ اگر کسی نے ہماری سیاسی تاریخ لکھی تو اس تصویر والا اس کتاب کا دلچسپ ترین صفحہ ہو گا۔
آج کے اخبار میں ایک ایسی خبر چھپی ہے جس سے مجھے دکھ ہوا ہے۔ جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جنھیں کبھی قوم نے محسن پاکستان کا بے ساختہ انداز میں اعزازی خطاب دیا تھا اعلان کیا ہے کہ وہ اب سیاست کو ترک کر رہے ہیں، جب انھوں نے کسی احمق یا خود غرض کے کہنے سننے پر اور اپنی ذات گرامی کی نفی کا فیصلہ کر کے سیاست میں قدم رکھا تھا تو ان کے اس عمر بھر کے مداح نے ہاتھ اٹھا لیا تھا کہ اب جب وہ خود ہی اپنے اس بلند ترین مقام سے نیچے اتر آئے ہیں اور ایک اور سیاست دان بن گئے ہیں تو ان کی مرضی لیکن اب وہ اپنے مداحوں کو ریٹائرمنٹ کی اجازت دے دیں، جب وہ خود ہی ریٹائر ہو گئے ہیں تو ہم لوگ کیا کر سکتے ہیں، ہم تو ان کی سیاست میں آمد کے فیصلے پر بھی بہت رنج کر چکے تھے جس کا ان کی حد تک قطعاً کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اب یہی خواہش ہے کہ ان کی سیاست سے بعد کی زندگی آرام سے گزرے۔