لوڈشیڈنگ اور خارجہ پالیسی
گزشتہ پانچ برسوں میں نواز شریف صاحب سے میری تین یا چار مرتبہ سے زیادہ بات چیت نہیں ہوئی۔...
گزشتہ پانچ برسوں میں نواز شریف صاحب سے میری تین یا چار مرتبہ سے زیادہ بات چیت نہیں ہوئی۔ ''آف دی ریکارڈ'' والے لمحات تو ایک ہی بار میسر آئے۔ اس فاصلے کے باوجود میں ان کے دربار میں قابلِ اعتبار سمجھے جانے والے لوگوں میں سے چند ایک کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا ہوں۔ نواز شریف اپنے بہت ہی قریبی لوگوں کے سامنے بھی دل کی بات شاذ و نادر ہی کیا کرتے ہیں۔ ان کے ارادوں اور خیالات کو سمجھنے کے لیے آپ کو ایک معمہ حل کرنے میں مددگار کچھ کلیدی اشاروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
مجھے یہ زعم رہا ہے کہ ان میں سے چند اشارے میں بھی سمجھ لیتا ہوں، اسی وجہ سے یہ طے کر بیٹھا کہ نواز شریف کے پاس حکومت سنبھالنے کے بعد اس ملک کے چند قدیمی اور بنیادی مسائل کو حل کرنے کا ایک واضح منصوبہ موجود ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی وہ ٹھکا ٹھک اس پر عمل درآمد کرنا شروع کر دیں گے۔ ان کے تیسری بار اس ملک کا وزیر اعظم بننے کے ایک ماہ بعد لیکن میں اپنی یہ سوچ تبدیل کرنے پر مجبور ہو رہا ہوں۔
لوڈ شیڈنگ سے ابتداء کر لیتے ہیں۔ آپ کو یہ بات سمجھنے کے لیے ایڈم سمتھ کے پائے کے ماہر معاشیات کی ہرگز ضرورت نہیں کہ ہمارے ملک میں بجلی کے بحران کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومت نجی شعبے سے چلائے جانے والے بجلی گھروں سے جن داموں پر بجلی خریدتی ہے، میں اور آپ اس کا اوسطاََ آدھا حصہ اپنے بلوں کی صورت ادا کرتے ہیں۔ بجلی کی قیمت خرید اور فروخت میں جو فرق ہے وہ سرکار اپنے خزانے سے پورا کرتی ہے۔ چونکہ ہمارا خزانہ اکثر خالی رہتا ہے اس لیے بجلی پیدا کرنے والوں کو وقت پر ادائیگیاں نہیں ہو پاتیں۔ ان کا قرض نا قابلِ برداشت حد تک جمع ہوتا چلا جاتا ہے اور بالآخر بجلی کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی ہو جاتی ہے جو لوڈ شیڈنگ کے عذاب کی صورت نظر آتی ہے۔ بجلی کے صارفین کو اس کی اصل قیمت ادا کرنے کے لیے تیار کیے بغیر بجلی کے بحران کا کوئی طویل المدت حل موجود نہیں ہے۔
بجلی کے بحران کے اصل سبب کی اس واضح حقیقت کی موجودگی کے باوجود نواز شریف صاحب وزیر اعظم بنے تو کئی دنوں تک پے در پے لمبے لمبے اجلاس ہوئے۔ ان میٹنگوں نے میرے جیسے عام لوگوں کو تاثر یہ دیا جیسے میاں صاحب جیسے کاروباری آدمی کو بھی بجلی کے بحران کا اصل سبب معلوم نہیں ہے۔ اگر وہ جانتے بھی ہیں تو اس کا کوئی حل ان کے پاس موجود نہیں۔ ان کی ایک بھاری بھر کم سیاسی جماعت بھی ہے جس میں ایک مشہور یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے احسن اقبال جیسے نابغے بھی ہیں۔ پھر شاہد خاقان عباسی ہیں جو ذاتی طور پر جس دھندے میں وارد ہوئے شاندار طریقے سے کامیاب ہوئے۔ خواجہ آصف نے کئی برسوں تک ملکی اور غیر ملکی بینکوں میں اعلیٰ عہدے سنبھالے ہوئے تھے۔ ان جیسے لوگوں کے پاس کوئی حل موجود نہ ہوتا تو ہماری اتنی بڑی سرکار ہے، جس کے پاس واپڈا بھی ہے اور بڑا دھانسو قسم کا پلاننگ کمیشن بھی۔ یہ ادارے اگر کوئی حل نہیں ڈھونڈ سکتے تو انھیں بند کر دینا چاہیے۔
بہرحال اجلاسوں پر اجلاس ہوتے رہے اور بالآخر تاثر کچھ اس طرح کا اُبھرا کہ بجلی کے بحران کا حل ڈھونڈا ہے تو میاں منشاء صاحب نے جہاں ان کا ذہن کام نہ کر پایا وہاں سلمان شہباز شریف کی تخلیقی صلاحیتوں نے اُڑان بھری اور حکومت نے اعلان کر دیا کہ وہ گردشی قرضوں کی جمع شدہ رقوم یک مشت ادا کر دے گی۔ پاکستان کے ان شہریوں کو دوش نہ دیجیے اگر وہ ماہِ صیام کے چند اہم لمحات میں بجلی میسر نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر آ کر گھیرائو جلائو شروع کر دیتے ہیں۔ حکومت انھیں ایک مہینے سے یہ تاثر دیتی چلی آ رہی تھی کہ گردشی قرضے یک مشت ادا کر دیے گئے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں پائے جانے والے اس تاثر کو مناسب انداز میں دور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ روایتی ''سب اچھا ہے'' والا رویہ اپنایا گیا۔ صرف خواجہ آصف کبھی کبھار پورا سچ بولنے کی جرأت کر لیتے ہیں۔ باقی وزیر اکثر اس معاملے پر منہ بند کیے رہتے ہیں۔
لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ہی ساتھ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی بھی ہے۔ اس آفت کا تعلق ہماری خارجہ پالیسی سے جڑا ہوا ہے اور یہ پالیسی جنرل ضیاء کے زمانے سے کسی سیاسی حکومت نے اپنے طور پر بنانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ ''جس کا کام اسی کو ساجھے'' والا رویہ اختیار کرتے ہوئے ساری ذ مے داری عسکری قیادت کو سونپ دی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے سیاستدان خواہ ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے اپنی نجی گفتگو میں اصرار کرتے رہتے ہیں کہ انھیں قومی سلامتی اور خارجہ امور کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنے دی جاتی۔ پچھلے کچھ برسوں سے میں ان کی یہ گفتگو سن کر اکثر اپنے دل میں سوچتا رہتا ہوں کہ اگر ہمارے منتخب حکمران قومی سلامتی اور خارجہ امور کے ضمن میں خود کو اتنا بے بس محسوس کرتے ہیں تو صدر، وزیر اعظم وغیرہ کیوں بن جاتے ہیں۔ گھر بیٹھیں اور ''جن'' کا یہ کام ہے انھیں کرنے دیں۔
وزیر اعظم نے آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹرز جانے سے ایک روز پہلے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے ماہر مانے جانے والے سینئر صحافیوں کو اپنے دفتر مدعو کیا۔ میرے جیسے پھکڑ باز صحافی تو وہاں موجود نہ تھے۔ مگر جو لوگ گئے ان میں سے دو افراد کے ساتھ میں نے بڑے شوق کے ساتھ لمبی ملاقاتیں کیں اور کرید کرید کر سمجھنا چاہا کہ میاں صاحب قومی سلامتی اور خارجہ امور کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں۔ ان دونوں نے دعویٰ کیا کہ تین گھنٹے کی اس ملاقات میں وزیر اعظم نے خود کچھ بھی نہیں کہا۔ سوالات کرتے اور دوسروں کی سنتے رہے اور ان سے ملاقات کرنے والے میرے چند بڑے پائے کے صحافیوں کے پاس ڈرون حملوں کے حوالے سے ایک تفصیلی نسخہ بھی موجود تھا جو انھوں نے وزیر اعظم کے گوش گزار کیا۔
اس ملاقات کے بعد میں انگریزی کے ایک با اعتبار معاصر میں ایک خبر پڑھ کر بہت حیران ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب نے بڑی خاموشی اور دل جمعی کے ساتھ نواز شریف صاحب کے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز کے دورے کو ممکن بنایا۔ مجھے یقین تھا کہ نواز شریف صاحب کے میڈیا منیجر اس خبر کی تردید کر دیں گے۔ ابھی تک کسی نے اس بات کا تردد ہی نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے میں اس خبر کو درست سمجھنے پر مجبور ہوں اور حیرانی سے سوچ رہا ہوں کہ اتنے واضح مینڈیٹ کے بعد اس ملک کا تیسری بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو اپنے ایک ماتحت ادارے کا دورہ کرنے کے لیے اپنے ہونہار بھائی کی بیک ڈور ڈپلومیسی کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔
مجھے یہ زعم رہا ہے کہ ان میں سے چند اشارے میں بھی سمجھ لیتا ہوں، اسی وجہ سے یہ طے کر بیٹھا کہ نواز شریف کے پاس حکومت سنبھالنے کے بعد اس ملک کے چند قدیمی اور بنیادی مسائل کو حل کرنے کا ایک واضح منصوبہ موجود ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی وہ ٹھکا ٹھک اس پر عمل درآمد کرنا شروع کر دیں گے۔ ان کے تیسری بار اس ملک کا وزیر اعظم بننے کے ایک ماہ بعد لیکن میں اپنی یہ سوچ تبدیل کرنے پر مجبور ہو رہا ہوں۔
لوڈ شیڈنگ سے ابتداء کر لیتے ہیں۔ آپ کو یہ بات سمجھنے کے لیے ایڈم سمتھ کے پائے کے ماہر معاشیات کی ہرگز ضرورت نہیں کہ ہمارے ملک میں بجلی کے بحران کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومت نجی شعبے سے چلائے جانے والے بجلی گھروں سے جن داموں پر بجلی خریدتی ہے، میں اور آپ اس کا اوسطاََ آدھا حصہ اپنے بلوں کی صورت ادا کرتے ہیں۔ بجلی کی قیمت خرید اور فروخت میں جو فرق ہے وہ سرکار اپنے خزانے سے پورا کرتی ہے۔ چونکہ ہمارا خزانہ اکثر خالی رہتا ہے اس لیے بجلی پیدا کرنے والوں کو وقت پر ادائیگیاں نہیں ہو پاتیں۔ ان کا قرض نا قابلِ برداشت حد تک جمع ہوتا چلا جاتا ہے اور بالآخر بجلی کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی ہو جاتی ہے جو لوڈ شیڈنگ کے عذاب کی صورت نظر آتی ہے۔ بجلی کے صارفین کو اس کی اصل قیمت ادا کرنے کے لیے تیار کیے بغیر بجلی کے بحران کا کوئی طویل المدت حل موجود نہیں ہے۔
بجلی کے بحران کے اصل سبب کی اس واضح حقیقت کی موجودگی کے باوجود نواز شریف صاحب وزیر اعظم بنے تو کئی دنوں تک پے در پے لمبے لمبے اجلاس ہوئے۔ ان میٹنگوں نے میرے جیسے عام لوگوں کو تاثر یہ دیا جیسے میاں صاحب جیسے کاروباری آدمی کو بھی بجلی کے بحران کا اصل سبب معلوم نہیں ہے۔ اگر وہ جانتے بھی ہیں تو اس کا کوئی حل ان کے پاس موجود نہیں۔ ان کی ایک بھاری بھر کم سیاسی جماعت بھی ہے جس میں ایک مشہور یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے احسن اقبال جیسے نابغے بھی ہیں۔ پھر شاہد خاقان عباسی ہیں جو ذاتی طور پر جس دھندے میں وارد ہوئے شاندار طریقے سے کامیاب ہوئے۔ خواجہ آصف نے کئی برسوں تک ملکی اور غیر ملکی بینکوں میں اعلیٰ عہدے سنبھالے ہوئے تھے۔ ان جیسے لوگوں کے پاس کوئی حل موجود نہ ہوتا تو ہماری اتنی بڑی سرکار ہے، جس کے پاس واپڈا بھی ہے اور بڑا دھانسو قسم کا پلاننگ کمیشن بھی۔ یہ ادارے اگر کوئی حل نہیں ڈھونڈ سکتے تو انھیں بند کر دینا چاہیے۔
بہرحال اجلاسوں پر اجلاس ہوتے رہے اور بالآخر تاثر کچھ اس طرح کا اُبھرا کہ بجلی کے بحران کا حل ڈھونڈا ہے تو میاں منشاء صاحب نے جہاں ان کا ذہن کام نہ کر پایا وہاں سلمان شہباز شریف کی تخلیقی صلاحیتوں نے اُڑان بھری اور حکومت نے اعلان کر دیا کہ وہ گردشی قرضوں کی جمع شدہ رقوم یک مشت ادا کر دے گی۔ پاکستان کے ان شہریوں کو دوش نہ دیجیے اگر وہ ماہِ صیام کے چند اہم لمحات میں بجلی میسر نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر آ کر گھیرائو جلائو شروع کر دیتے ہیں۔ حکومت انھیں ایک مہینے سے یہ تاثر دیتی چلی آ رہی تھی کہ گردشی قرضے یک مشت ادا کر دیے گئے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں پائے جانے والے اس تاثر کو مناسب انداز میں دور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ روایتی ''سب اچھا ہے'' والا رویہ اپنایا گیا۔ صرف خواجہ آصف کبھی کبھار پورا سچ بولنے کی جرأت کر لیتے ہیں۔ باقی وزیر اکثر اس معاملے پر منہ بند کیے رہتے ہیں۔
لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ہی ساتھ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی بھی ہے۔ اس آفت کا تعلق ہماری خارجہ پالیسی سے جڑا ہوا ہے اور یہ پالیسی جنرل ضیاء کے زمانے سے کسی سیاسی حکومت نے اپنے طور پر بنانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ ''جس کا کام اسی کو ساجھے'' والا رویہ اختیار کرتے ہوئے ساری ذ مے داری عسکری قیادت کو سونپ دی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے سیاستدان خواہ ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے اپنی نجی گفتگو میں اصرار کرتے رہتے ہیں کہ انھیں قومی سلامتی اور خارجہ امور کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنے دی جاتی۔ پچھلے کچھ برسوں سے میں ان کی یہ گفتگو سن کر اکثر اپنے دل میں سوچتا رہتا ہوں کہ اگر ہمارے منتخب حکمران قومی سلامتی اور خارجہ امور کے ضمن میں خود کو اتنا بے بس محسوس کرتے ہیں تو صدر، وزیر اعظم وغیرہ کیوں بن جاتے ہیں۔ گھر بیٹھیں اور ''جن'' کا یہ کام ہے انھیں کرنے دیں۔
وزیر اعظم نے آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹرز جانے سے ایک روز پہلے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے ماہر مانے جانے والے سینئر صحافیوں کو اپنے دفتر مدعو کیا۔ میرے جیسے پھکڑ باز صحافی تو وہاں موجود نہ تھے۔ مگر جو لوگ گئے ان میں سے دو افراد کے ساتھ میں نے بڑے شوق کے ساتھ لمبی ملاقاتیں کیں اور کرید کرید کر سمجھنا چاہا کہ میاں صاحب قومی سلامتی اور خارجہ امور کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں۔ ان دونوں نے دعویٰ کیا کہ تین گھنٹے کی اس ملاقات میں وزیر اعظم نے خود کچھ بھی نہیں کہا۔ سوالات کرتے اور دوسروں کی سنتے رہے اور ان سے ملاقات کرنے والے میرے چند بڑے پائے کے صحافیوں کے پاس ڈرون حملوں کے حوالے سے ایک تفصیلی نسخہ بھی موجود تھا جو انھوں نے وزیر اعظم کے گوش گزار کیا۔
اس ملاقات کے بعد میں انگریزی کے ایک با اعتبار معاصر میں ایک خبر پڑھ کر بہت حیران ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب نے بڑی خاموشی اور دل جمعی کے ساتھ نواز شریف صاحب کے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز کے دورے کو ممکن بنایا۔ مجھے یقین تھا کہ نواز شریف صاحب کے میڈیا منیجر اس خبر کی تردید کر دیں گے۔ ابھی تک کسی نے اس بات کا تردد ہی نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے میں اس خبر کو درست سمجھنے پر مجبور ہوں اور حیرانی سے سوچ رہا ہوں کہ اتنے واضح مینڈیٹ کے بعد اس ملک کا تیسری بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو اپنے ایک ماتحت ادارے کا دورہ کرنے کے لیے اپنے ہونہار بھائی کی بیک ڈور ڈپلومیسی کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔