جمہوریت کے اصل دشمن

12 اکتوبر 1999 کو جب ہمارے وطن عزیز میں ایک منتخب جمہوری حکومت کو اقتدار سے ۔۔۔

mnoorani08@gmail.com

12 اکتوبر 1999 کو جب ہمارے وطن عزیز میں ایک منتخب جمہوری حکومت کو اقتدار سے بیدخل کر کے مارشل لاء لگا دیا گیا تو خود ساختہ عالمی ناخداؤں نے ابتدا میں تو اِس غیر جمہوری اقدام کی بظاہر زبانی کلامی مخالفت کی لیکن درپردہ اُن کی بھر پور مدد اور حمایت کر کے اُنہیں مضبوط اور توانا بنانے میں کوئی کسر رکھ نہ چھوڑی۔ اُنہیں مالی مشکلات سے باہر نکالتے ہوئے اُن کے ہر غیر جمہوری فیصلوں کی تائید و حمایت کی۔ اُن پر واجب الادا کئی قرضوں کی معافی یا فوری ریلیف اور اُن کی ادائیگی میں سہولت کے لیے ٹائم فریم بھی ری شیڈول کر دیا گیا۔

جب کہ اِس کے بر عکس جب کبھی بھی ہمارے ملک میں کسی جمہوری حکومت نے اپنے دور کی ابتدا کی تو اُسے سخت مشکلات اور مصائب کا سامنا رہا۔جمہوریت کے اِن عالمی دعوے داروں کی جانب سے کوئی ٹھوس حمایت اور تعاون تو درکنار اُنہیں مالی مشکلات سے نمٹنے کے لیے بھی قرضوں کی ادائیگی میں کوئی سہولت نہیں دی گئی۔ بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض اور مالی امداد کا جھانسہ دیکر اُنہیں مزید نئے قرضوں کے شکنجے میں کس دیا گیا۔ ایسی ہی خطرناک صورتحال کا ہم نے اور ہماری حکومت نے حال ہی میں سامنا کیا ہے۔

پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے 5.3 ارب ڈالر کے نئے قرضے دیکر ہم پر ایک نیا احسان کر دیا گیا۔ یعنی آئی ایم ایف کے ایک ہاتھ سے پیسہ نکل کر دوسرے ہاتھ سے فوراً ہی واپس اُن کے خزانوں میں چلا جائے اور پاکستان کے عوام اُن کی شرائط کا نیا بوجھ برداشت کرتے ہوئے مزید شکستہ حال ہو جائیں۔ کتنا خوبصورت ہے یہ عالمی مالیاتی نظام جس کے شکنجے میں زیادہ تر غریب اور مفلوک الحال قومیں ہی پسی جا رہی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ حال ہی میں جب برادر اسلامی ملک مصر میں ایک نئی نویلی جمہوری حکومت کو وہاں کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار سے بیدخل کر دیا تو جمہوریت کے اِن نام نہاد دعوے داروں نے اِس اقدام کو خوب سرہاتے ہوئے وہاں کے نئے غیر جمہوری حکمرانوں کی مالی امداد کے لیے اپنے خزانے کھول دئیے۔

یہی وہ بنیادی فرق اور امتیاز ہے جو جمہوریت نوازی کے نام پر اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے درمیان برتا جاتا ہے۔ اسلامی ممالک میں اگر جمہوریت بمشکل کہیں دکھائی بھی دیتی ہے تو وہ بھی انتہائی کٹھن اور مشکل حالات سے دوچار ہے جب کہ اِس کے بر عکس غیر اسلامی ممالک میں یہ بلا خوف و خطر اپنی تمام دلکشیوں اور رعنائیوں کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے۔اِنہی معروضی حالات کے پیشِ نظر اگر ہم برصغیر کے ممالک کا جائزہ لیں تو یہ بات کُھل کر عیاں ہو جاتی ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد بھارت میں تو اِسے کبھی بھی کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہوا، وہاں کبھی کسی غیر جمہوری قوت نے اُسے لپیٹ دینے کا سوچا تک نہیں۔ جب کہ ہمارے یہاں ابتدا ہی سے اِس پر بڑے بڑے حملے ہوتے رہے اور جمہوری طریقہِ انتخاب سے منتخب ہونے والے حکمرانوں کے آپس کے معمولی اختلافات کو بہانہ بنا کر اُنہیں گھر بھیجا جاتا رہا اور جب کبھی جمہوریت نے قدم جمانے کی کوشش کی اُسے وہیں اُکھیڑ کر رکھدیا گیا۔ ایسا ہی حال ہم بنگلہ دیش میں بھی دیکھتے رہے ہیں۔


بات دراصل عالمی قوتوں کی ذہنوں اور دلوں میں عرصے سے پرورش پانے والی وہ اسلام دشمنی ہے جو اُنہیں ایسا کرنے پر مجبور اور آمادہ کیے ہوئے ہے۔ اسلام کے ساری دنیا پر غالب ہو جانے کا ڈر اور خوف ہر وقت اُن کے دلوں کو دھڑکاتا رہتا ہے اور وہ اُنہیں ترقی و کامرانی کی منازل طے کرتے دیکھ نہیں پاتے اِسی خوف سے وہ اُنہیں غیر مستحکم اور کمزور کرنے کے مختلف طریقے اپناتے رہتے ہیں۔ اسلامی ممالک میں غیر جمہوری سیٹ اپ اُنہیں بہت سوٹ کرتا ہے کیونکہ اِ سے وہ باآسانی اپنے مطیع اور تابع رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے تمام اسلامی ممالک کے نظامِ حکومت کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کُھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اُنہیں غیر جمہوری رکھنے میں عالمی طاقتوں کا بہت بڑا عمل دخل رہا ہے۔

اِن ممالک میں اگر جمہوریت پروان چڑھ جائے تو وہ وہاں اپنے مذموم مقاصد اور عزائم کے تحت کوئی کاروائی قطعاً نہیں کر سکتے ہیں۔ اِن ممالک میں جس طرح وہ بلا روک ٹوک آزادانہ گھوم پھر کے اپنی خفیہ سازشوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہیں وہ کسی جمہوری سیٹ اپ میں بھلا کس طور ممکن ہے۔ اِسی لیے وہاں ایک غیر جمہوری سیٹ اپ ہی اُنہیں عزیز اور مطلوب ہے۔ برادر ملک ترکی کئی سال تک اِنہی آزمائشوں سے گذرتا رہا ہے، لیکن اب وہاں جمہوریت نے اپنے قدم جما لیے ہیں تو اب اُسے اُکھیڑنا ممکن نہ رہا۔ ایک اور اسلامی ملک الجزائر کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے جہاں پہلی بار کسی اسلامی جماعت نے جمہوری نظام کے تحت الیکشن جیتے تو اُسے اِقتدار ہی نہ سونپا گیا اور مذموم سازشیں کر کے سارے الیکشن پروسیس کو ہی غیر موثر بنا دیا گیا۔

ہمارے یہاں گرچہ آج کل جمہوریت اپنی تاریخ کے تلخ دور سے گزر رہی ہے اور ایک جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال بخریت و عافیت پورے کر لیے ہیں۔ لیکن اُن کی اِس کامیابی کے پیچھے ہماری اعلیٰ عدلیہ کا بہت اہم کردار رہا ہے، جس نے اپنے فیصلوں سے کئی بار غیر جمہوری قوتوں کو یہ باور کرایا کہ ماضی کی طرح اب وہ کسی بھی غیر جمہوری سیٹ اپ کو قبول نہیں کریگی اور اُنہیں حقِ حکمرانی کے لیے کسی سند یا تائید و حمایت سے نہیں نوازے گی۔

عدلیہ کی جانب سے مکمل غیر جانبداری اور لاتعلقی کے اظہار کے بعد اب کسی بھی طالع آزما کے لیے یہاں سازگار فضا اور ماحول دستیاب نہیں رہا لہذا اب آئین و دستور کی پامالی اور اُسے غیر معینہ مدت تک معطل رکھنے جیسے واقعات کا پھر سے اعادہ کسی حد تک ناممکن ہو چکا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اب شاید ہمارے وطنِ عزیز میں بھی جمہوریت اپنی مکمل آن بان شان کے ساتھ اپنی ارتقاء کی منازل طے کرتے ہوئے آگے بڑھتی جائے گی۔ جمہوریت کی حفاظت جتنی عدلیہ کے ذمے واجب تھی وہ اُس نے پوری کر دی لیکن جمہوری حکمرانوں کو بھی اپنے طرزِ عمل سے اُس کا صحیح ا ہل اور حقدار ثابت کرنے کے لیے اب کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ اقتدار و اختیار کے مراکز پر فروکش ہو کر اور اپنے فرائضِ منصبی کو بھول کر قومی دولت سے اپنی حرصِ اور پیاس بجھانے والوں کے لیے یہ آخری موقعہ ہے۔

اب اگر جمہوریت کو کوئی زک یا نقصان پہنچا تو اِس کی تمام تر ذمے داری اُن نااہل سیاستدانوں پر ہو گی جنھیں عوام نے اپنی خدمت کے لیے ایک سے زائد موقعے دیے لیکن وہ خود کو اُس کا اہل ثابت نہ کر سکے۔اِس ملک میں اب اگر جمہوریت کو بچانا ہے تو صاف ستھری سیاست کے ساتھ، کرپشن اور مالی بدعنوانیوں سے پاک، مکمل دیانتداری سے ملک و قوم کی خدمت کرنی ہو گی۔ ہمارے عوام عرصہ دراز سے اچھے دنوں کی آس میں مزید شکستہ حال ہو چکے ہیں، اُنہیں اب فوری ریلیف چاہیے، وعدے اور دلاسے بہت ہو چکے، اب صرف اعلیٰ کارکردگی، نیک نیتی اور ہنر مندی ہی سے مسائل و مصائب سے چھٹکارا ممکن ہے۔
Load Next Story