سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کی ہوا
قانون کا راستہ موجود ہے اور اسی راستے کو اختیار کیا جانا چاہیے
میڈیا اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس میں منگل کو بھی حکومت اور اپوزیشن بنچوں میں تناؤ جاری رہا، اپوزیشن اتحاد کے قیام سے ملک میں سیاسی ارتعاش پیدا ہوا، اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا عزم ظاہر کیا گیا، چنانچہ حکومتی حلقوں نے جوابی اسٹرٹبجی کی فوری تیاری کا عندیہ دیتے ہوئے اہم اجلاس طلب کرلیا، وزیراعظم عمران خان نے اجلاس کے شرکاء کو ضروری ہدایات بھی دیں۔
ذرایع کے مطابق اپوزیشن اتحاد میں بی این پی (مینگل) بھی شامل ہے جب کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کراچی میں بہادر آباد سیکریٹریٹ میں ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت سے رابطہ کیا ہے، گزشتہ روز اپوزیشن رکن کے نجی بل کی تحریک پر ووٹنگ میں شکست تسلیم کرنے سے اپوزیشن کا انکار دھماکا خیز ثابت ہوا، ڈپٹی اسپیکر پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے سخت احتجاج کیا گیا ، اپوزیشن نے ڈائس کا گھیراؤ کردیا، اجلاس کی کارروائی ایک گھنٹہ رکی رہی، ڈپٹی اسپیکر کو فیصلہ واپس لینا پڑا۔ تاہم حکومتی ذرایع کا کہنا ہے کہ ملکی سیاست میں برپا تلاطم کا ادراک کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹکراؤ اور کشیدگی کم کرنے کا دریچہ کھلنے کا امکان ہے۔
ذرایع ابلاغ کے واقف کاروں کے نزدیک وزیراعظم نے اہم میڈیا مینجمنٹ کے فیصلے بھی کیے ، اور اپوزیشن اور میڈیاسے جمہوری انداز اختیار کرنے اور مسلمہ پارلیمانی روایات کے مطابق مکالمہ اور اختلاف رائے کو سنجیدہ سطح پر برقراررکھنے کی ضرورت پر زور دیا، جو نہ صرف خوش آیند ہے بلکہ اس سے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین شائستہ تعلقات کار اور قومی امور پر دوطرفہ خیر سگالی اور عملیت پسندی کو فروغ ملے گا۔ اس وقت ضرورت بلاشبہ ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کی ہے تاکہ جمہوریت حکومتیں گرانے کی دھمکیوں سے گھائل نہ ہو اور سیاستدان ہوشمندی، دوراندیشی اور بالغ نظری سے مل کر ملک کو معاشی بحران سے نکالیں۔
ماضی کی تاریخ کو پڑھا جائے تو یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب بھی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی اختلافات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچایا، اس کا تمام تر فائدہ غیر جمہوری قوتوں کو ہوا۔پاکستان میں آمریت قائم ہونے کی سب سے بڑی وجہ سیاستدان خود ہی ہیں کیونکہ وہ اپنے اختلافات کو اس حد تک لے جاتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔سندھ کی صوبائی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا پورا حق ہے۔اس کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدام بھی جاری رہنے چاہیے، اگر کوئی سیاسی جماعت چاہتی ہے کہ کرپشن کے مقدمات ختم ہوجائیں تو اس کے لیے آئین اور قانون کا راستہ موجود ہے اور اسی راستے کو اختیار کیا جانا چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کسی کی کرپشن چھپانے کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال نہیں ہونے دیں گے،احتساب پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ ان خیالات کا اظہارانھوں نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے کیا جنہوں نے ان سے ملاقات کی ، وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے رویہ پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا کہ اپوزیشن کا اسمبلی سے واک آؤٹ حکومت پر دباؤ ڈال کر این آراو لینے کی لیے ہے، لیکن اپوزیشن این آر او تکرار پر برافروختہ ہے اور سوال اٹھا رہی ہے کہ این آر او دینے کی پوزیشن میں جب کوئی نہیں تو پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کی پارلیمنٹ میں غیر حاضری کا مسئلہ اٹھایا جس کے جواب میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے یقین دلایا ہے کہ وزیراعظم عمران خان جلد پارلیمنٹ آنا شروع ہوجائیں گے۔
اس کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ وزیراعظم خود بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوں۔ وزیراعظم کے مشیراورترجمان ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ وفاق کا سندھ حکومت گرانے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ یہ ہماری ترجیح ہی نہیں ہے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان اور تحریک انصاف سندھ حکومت کو گرانا نہیں چاہتے بلکہ انھیں ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا ہے کہ انتشار پھیلنے کے ڈر سے سندھ حکومت کسی کے بھی داخلے پر پابندی لگا سکتی ہے، مشیر اطلاعات سندھ مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ فواد چوہدری سازش کرنے وائسرائے کی حیثیت سے سندھ آئے تو قبول نہیں، اچھے کام کے لیے آ رہے ہیں تو سراہتے ہیں۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت خود مسائل کو دعوت دے رہی ہے ، وزراء بلا وجہ اپوزیشن کو اشتعال دلارہے ہیں جس کی وجہ سے تناؤ کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔
اس پر دو رائے نہیں کہ سندھ سمیت ملک گیر سطح پر سیاسی استحکام ، معاشی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے اور سیاسی مخاصمت کا گراف گرانے کی اشد ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما وفاقی وزیرعلی محمد خان کا استفسار صائب ہے کہ اگرکوئی وفاقی وزیر سندھ جائے تو اسے سندھ پر یلغار کیوں کہا جاتا ہے ، اچھی بات ہے اگر اپوزیشن اکٹھی ہو لیکن یہ واضح بھی ہو کہ ان کا ایجنڈا کیاہے ۔ سوال یہ ہے کہ ملکی سیاست کب قومی ایشوز پر سنجیدہ طرز عمل اختیار کریگی، وقت تیزی سے گزر رہا ہے ،ایسا نہ ہو کہ ہاتھ سے نکل جائے، سسٹم کو مضبوط کرنے کے لیے سیاسی قیادتوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کو مشکل صورت حال سے باہر نکالے، یہ چیلنج سب سے دشوار ہے۔اگر کوئی دھیان دے۔پاکستان کی مشکلات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔حالات کا سب کو پتہ ہے، اس لیے ذمے داری کامظاہرہ بھی سب کو کرنا ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن اکٹھی ہوئی ہے تو اس میں تشویش کی کوئی بات نہیں، اگر جمہوریت کی سربلندی اور حزب اقتدار کی اصلاح کے اپوزیشن اتحاد کرتی ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ حکومت کو اپوزیشن کے تحفظات پر غور کرنا چاہیے۔ جمہوریت کا حسن رواداری، تدبر اور اسپورٹس مین شپ میں مضمر ہے ، سیاست عوام کی خدمت سے عبارت ہے، کیا 22 کروڑ عوام کی قسمت میں صرف ''عاشق کا گریباں ہونا'' لکھا ہے؟ بلاشبہ اس وقت ملک محاذآرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا، ملک پر قرضوں کو بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے، عوام مایوس ہورہے ہیں۔حکومت کو اپنی تمام تر توجہ اپنی گورننس بہتر بنانے پر دینی چاہیے۔ تند وتیز بیان بازی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
ذرایع کے مطابق اپوزیشن اتحاد میں بی این پی (مینگل) بھی شامل ہے جب کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کراچی میں بہادر آباد سیکریٹریٹ میں ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت سے رابطہ کیا ہے، گزشتہ روز اپوزیشن رکن کے نجی بل کی تحریک پر ووٹنگ میں شکست تسلیم کرنے سے اپوزیشن کا انکار دھماکا خیز ثابت ہوا، ڈپٹی اسپیکر پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے سخت احتجاج کیا گیا ، اپوزیشن نے ڈائس کا گھیراؤ کردیا، اجلاس کی کارروائی ایک گھنٹہ رکی رہی، ڈپٹی اسپیکر کو فیصلہ واپس لینا پڑا۔ تاہم حکومتی ذرایع کا کہنا ہے کہ ملکی سیاست میں برپا تلاطم کا ادراک کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹکراؤ اور کشیدگی کم کرنے کا دریچہ کھلنے کا امکان ہے۔
ذرایع ابلاغ کے واقف کاروں کے نزدیک وزیراعظم نے اہم میڈیا مینجمنٹ کے فیصلے بھی کیے ، اور اپوزیشن اور میڈیاسے جمہوری انداز اختیار کرنے اور مسلمہ پارلیمانی روایات کے مطابق مکالمہ اور اختلاف رائے کو سنجیدہ سطح پر برقراررکھنے کی ضرورت پر زور دیا، جو نہ صرف خوش آیند ہے بلکہ اس سے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین شائستہ تعلقات کار اور قومی امور پر دوطرفہ خیر سگالی اور عملیت پسندی کو فروغ ملے گا۔ اس وقت ضرورت بلاشبہ ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کی ہے تاکہ جمہوریت حکومتیں گرانے کی دھمکیوں سے گھائل نہ ہو اور سیاستدان ہوشمندی، دوراندیشی اور بالغ نظری سے مل کر ملک کو معاشی بحران سے نکالیں۔
ماضی کی تاریخ کو پڑھا جائے تو یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب بھی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی اختلافات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچایا، اس کا تمام تر فائدہ غیر جمہوری قوتوں کو ہوا۔پاکستان میں آمریت قائم ہونے کی سب سے بڑی وجہ سیاستدان خود ہی ہیں کیونکہ وہ اپنے اختلافات کو اس حد تک لے جاتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔سندھ کی صوبائی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا پورا حق ہے۔اس کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدام بھی جاری رہنے چاہیے، اگر کوئی سیاسی جماعت چاہتی ہے کہ کرپشن کے مقدمات ختم ہوجائیں تو اس کے لیے آئین اور قانون کا راستہ موجود ہے اور اسی راستے کو اختیار کیا جانا چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کسی کی کرپشن چھپانے کے لیے پارلیمنٹ کو استعمال نہیں ہونے دیں گے،احتساب پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ ان خیالات کا اظہارانھوں نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے کیا جنہوں نے ان سے ملاقات کی ، وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے رویہ پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا کہ اپوزیشن کا اسمبلی سے واک آؤٹ حکومت پر دباؤ ڈال کر این آراو لینے کی لیے ہے، لیکن اپوزیشن این آر او تکرار پر برافروختہ ہے اور سوال اٹھا رہی ہے کہ این آر او دینے کی پوزیشن میں جب کوئی نہیں تو پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کی پارلیمنٹ میں غیر حاضری کا مسئلہ اٹھایا جس کے جواب میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے یقین دلایا ہے کہ وزیراعظم عمران خان جلد پارلیمنٹ آنا شروع ہوجائیں گے۔
اس کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ وزیراعظم خود بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوں۔ وزیراعظم کے مشیراورترجمان ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ وفاق کا سندھ حکومت گرانے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ یہ ہماری ترجیح ہی نہیں ہے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان اور تحریک انصاف سندھ حکومت کو گرانا نہیں چاہتے بلکہ انھیں ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا ہے کہ انتشار پھیلنے کے ڈر سے سندھ حکومت کسی کے بھی داخلے پر پابندی لگا سکتی ہے، مشیر اطلاعات سندھ مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ فواد چوہدری سازش کرنے وائسرائے کی حیثیت سے سندھ آئے تو قبول نہیں، اچھے کام کے لیے آ رہے ہیں تو سراہتے ہیں۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت خود مسائل کو دعوت دے رہی ہے ، وزراء بلا وجہ اپوزیشن کو اشتعال دلارہے ہیں جس کی وجہ سے تناؤ کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔
اس پر دو رائے نہیں کہ سندھ سمیت ملک گیر سطح پر سیاسی استحکام ، معاشی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے اور سیاسی مخاصمت کا گراف گرانے کی اشد ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما وفاقی وزیرعلی محمد خان کا استفسار صائب ہے کہ اگرکوئی وفاقی وزیر سندھ جائے تو اسے سندھ پر یلغار کیوں کہا جاتا ہے ، اچھی بات ہے اگر اپوزیشن اکٹھی ہو لیکن یہ واضح بھی ہو کہ ان کا ایجنڈا کیاہے ۔ سوال یہ ہے کہ ملکی سیاست کب قومی ایشوز پر سنجیدہ طرز عمل اختیار کریگی، وقت تیزی سے گزر رہا ہے ،ایسا نہ ہو کہ ہاتھ سے نکل جائے، سسٹم کو مضبوط کرنے کے لیے سیاسی قیادتوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کو مشکل صورت حال سے باہر نکالے، یہ چیلنج سب سے دشوار ہے۔اگر کوئی دھیان دے۔پاکستان کی مشکلات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔حالات کا سب کو پتہ ہے، اس لیے ذمے داری کامظاہرہ بھی سب کو کرنا ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن اکٹھی ہوئی ہے تو اس میں تشویش کی کوئی بات نہیں، اگر جمہوریت کی سربلندی اور حزب اقتدار کی اصلاح کے اپوزیشن اتحاد کرتی ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ حکومت کو اپوزیشن کے تحفظات پر غور کرنا چاہیے۔ جمہوریت کا حسن رواداری، تدبر اور اسپورٹس مین شپ میں مضمر ہے ، سیاست عوام کی خدمت سے عبارت ہے، کیا 22 کروڑ عوام کی قسمت میں صرف ''عاشق کا گریباں ہونا'' لکھا ہے؟ بلاشبہ اس وقت ملک محاذآرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا، ملک پر قرضوں کو بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے، عوام مایوس ہورہے ہیں۔حکومت کو اپنی تمام تر توجہ اپنی گورننس بہتر بنانے پر دینی چاہیے۔ تند وتیز بیان بازی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔