شامی بحران کے لیے اقوام متحدہ کے نئے نمایندے کا تقرر
نام نہاد سیکیورٹی زون میں فوری طور پر جنگ بندی کی کوشش کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے شام میں قیام امن کے لیے اپنا نیا خصوصی نمایندہ شامی دارالحکومت دمشق روانہ کر دیا ہے جو اس نہایت مشکل کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے جس میں ان کے تین پیشرو بری طرح ناکام رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نئے خصوصی نمایندہ گیر پیڈرسن ایسے وقت میں شام پہنچے ہیں جب وہاں کشیدگی کی فضا عروج پر ہے۔ شام کی خانہ جنگی اور اندرونی خلفشار کے نتیجے میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ ملک کی آدھی سے زائد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔
یہاں مختلف گروہ حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں،ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ حکومت مخالف جنگجوؤں نے ملک کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا اور یوں محسوس ہونے لگا کہ کوئی دن جاتا ہے شامی حکومت کا تختہ الٹ جائے گا اور جنگجو اقتدار پر قابض ہو جائیں گے۔مگر شامی حکومت کو ملنے والی بیرونی امداد نے سہارا دیا اور اس نے باغیوں کے خلاف اپنی لڑائی میں شدت پیدا کر دی اور انھیں خاصا نقصان پہنچایا۔ ترکی اور امریکا شمالی شام میں اس نام نہاد سیکیورٹی زون میں فوری طور پر جنگ بندی کی کوشش کر رہے ہیں۔
جس پر کرد ملیشیا کا قبضہ ہے جو کہ کسی فوجی قبضے سے مختلف نہیں ہے۔اس وقت شام کی خانہ جنگی میں ترکی ،امریکا ،روس اور ایران کا بھی اچھا خاصا عمل دخل ہے اور ہر کوئی معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو رہا۔ پیڈرسن سے پہلے اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ نے اسٹافان ڈی مستورا کو بھیجا تھا اور یوں پیڈرسن یو این او کے چوتھے نمایندے ہیں جو اس علاقے میں جنگ بندی کی کوشش کریں گے۔ واضح رہے یہاں خانہ جنگی 2011ء میں شروع ہوئی تھی۔ نئے نمایندے کا تعلق ناروے سے ہے اور ان کی عمر63 سال ہے، وہ سینئر سفارتکار ہیں اور شام کے وزیر خارجہ ولید معلم سمیت سینئر شامی حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ولید معلم نے اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ شامی بحران کا کوئی سیاسی حل نکالا جائے۔
پیڈرسن کا کہنا ہے کہ وہ شامی ارباب اختیار کے ساتھ بامعنی مذاکرات چاہتے ہیں، یو این نمایندے کا کہنا ہے کہ شام کے داخلی تنازعے کو بھی پرامن طریقے سے حل کرانا چاہتے ہیں۔ شامی صدر بشار الاسد کے حکومتی افسروں نے نئے یو این نمایندے کی آمد پر مختلف تبصرے کیے ہیں اور توقع ظاہر کی ہے کہ ملک کی خانہ جنگی کا غیر جانبدارانہ حل نکالا جائے گا۔ گیر پیڈرسن کی تعیناتی کا اعلان گزشتہ سال اکتوبر میں کیا گیا تھا۔ شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل المقداد نے کہا ہے کہ شام اقوام متحدہ کے نمایندے سے مکمل تعاون کرے گا۔
تاہم شامی حکومت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ شام کے بارے میں امریکی پالیسی میں تبدیلی کا ملکی حالات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ شامی صدر نے ابھی تک اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ مناسب ہے کہ اقوام متحدہ،او آئی سی،عرب لیگ،ترکی اورایران اجلاس طلب کریں اورشام کے مسئلے کا بہتر حل تلاش کریں۔اگر اس مسئلے پر فی الفور توجہ نہ دی گئی تو شام میں انسانیت یونہی سسکتی رہے گی۔
یہاں مختلف گروہ حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں،ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ حکومت مخالف جنگجوؤں نے ملک کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا اور یوں محسوس ہونے لگا کہ کوئی دن جاتا ہے شامی حکومت کا تختہ الٹ جائے گا اور جنگجو اقتدار پر قابض ہو جائیں گے۔مگر شامی حکومت کو ملنے والی بیرونی امداد نے سہارا دیا اور اس نے باغیوں کے خلاف اپنی لڑائی میں شدت پیدا کر دی اور انھیں خاصا نقصان پہنچایا۔ ترکی اور امریکا شمالی شام میں اس نام نہاد سیکیورٹی زون میں فوری طور پر جنگ بندی کی کوشش کر رہے ہیں۔
جس پر کرد ملیشیا کا قبضہ ہے جو کہ کسی فوجی قبضے سے مختلف نہیں ہے۔اس وقت شام کی خانہ جنگی میں ترکی ،امریکا ،روس اور ایران کا بھی اچھا خاصا عمل دخل ہے اور ہر کوئی معاملے کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو رہا۔ پیڈرسن سے پہلے اس مقصد کے لیے اقوام متحدہ نے اسٹافان ڈی مستورا کو بھیجا تھا اور یوں پیڈرسن یو این او کے چوتھے نمایندے ہیں جو اس علاقے میں جنگ بندی کی کوشش کریں گے۔ واضح رہے یہاں خانہ جنگی 2011ء میں شروع ہوئی تھی۔ نئے نمایندے کا تعلق ناروے سے ہے اور ان کی عمر63 سال ہے، وہ سینئر سفارتکار ہیں اور شام کے وزیر خارجہ ولید معلم سمیت سینئر شامی حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ولید معلم نے اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ شامی بحران کا کوئی سیاسی حل نکالا جائے۔
پیڈرسن کا کہنا ہے کہ وہ شامی ارباب اختیار کے ساتھ بامعنی مذاکرات چاہتے ہیں، یو این نمایندے کا کہنا ہے کہ شام کے داخلی تنازعے کو بھی پرامن طریقے سے حل کرانا چاہتے ہیں۔ شامی صدر بشار الاسد کے حکومتی افسروں نے نئے یو این نمایندے کی آمد پر مختلف تبصرے کیے ہیں اور توقع ظاہر کی ہے کہ ملک کی خانہ جنگی کا غیر جانبدارانہ حل نکالا جائے گا۔ گیر پیڈرسن کی تعیناتی کا اعلان گزشتہ سال اکتوبر میں کیا گیا تھا۔ شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل المقداد نے کہا ہے کہ شام اقوام متحدہ کے نمایندے سے مکمل تعاون کرے گا۔
تاہم شامی حکومت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ شام کے بارے میں امریکی پالیسی میں تبدیلی کا ملکی حالات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ شامی صدر نے ابھی تک اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا۔ مناسب ہے کہ اقوام متحدہ،او آئی سی،عرب لیگ،ترکی اورایران اجلاس طلب کریں اورشام کے مسئلے کا بہتر حل تلاش کریں۔اگر اس مسئلے پر فی الفور توجہ نہ دی گئی تو شام میں انسانیت یونہی سسکتی رہے گی۔