چینیوں نے نئی تاریخ رقم کر دی زندگی ۔۔۔۔۔ چاند پرپہنچ گئی
سطح ِقمر پہ اترنے والا چینی جہاز ایک ’’ننھی منی دنیا‘‘ میں غذاؤں کے بیج رکھتا ہے اور کیڑوں کے انڈے بھی، خصوصی رپورٹ
عظیم چینی فلسفی،کنفیوشس کا خوبصورت قول ہے:''یہ جاننا کہ آپ کیا جانتے ہیں اور کیا کچھ نہیں جانتے،یہی اصل علم ہے۔''
شاید دور حاضر کے چینی حکمران اس قول کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔اسی لیے چاند کے اسرار جاننے کی خاطر انھوں نے پچھلے دنوں ایک منفرد خلائی جہاز بھجوا کر بنی نوع انسان کی تاریخ میں نیا باب رقم کر ڈالا۔یہ کارنامہ دکھلا کے چینیوں نے ثابت کر دکھایا کہ وہ سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں کمال مہارت حاصل کر چکے اور اب تاجدار ِدنیا بننے کا منفرد اعزاز پانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
انسان زمانہ قدیم سے کائنات کے اسرار ورموز جاننے کی کوشش کر رہا ہے۔بنیادی مقصد یہ کھوج لگانا ہے کہ کائنات میں کیا کسی اور مقام پر بھی زندگی موجود ہے؟یہ جاننا اب تو انسان کے لیے زندگی یا موت جیسا کٹھن امتحان بن چکا۔وجہ یہ کہ سائنس دانوں کی رو سے ایک سو کروڑ سال تک سورج کی بڑھتی تپش کرہ ارض پر زندگی کا نام ونشان مٹا سکتی ہے۔تب کرہ ارض پہ رہنا ناممکن ہو گا۔لہذا اس ارضی قیامت سے قبل انسان کو رہنے کے لیے کوئی اور دنیا تلاش کرنا ہو گی۔اگر وہ ناکام رہا تو اس کا نام بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔
یہی وجہ ہے،امریکا،چین اور یورپی ممالک خلا میں دوربینیں اور جدید آلات سے لیس خلائی جہاز بھیج رہے ہیں۔ زمین پر بھی طاقتور دوربینیں بنائی جا رہی ہیں۔اس ساری سرگرمی کی منزل یہ ہے کہ خلا کی پہنائیوں میں جھانک کر زمین جیسا سیارہ ڈھونڈ لیا جائے۔فی الحال انھیں کامیابی نصیب نہیں ہو سکی۔ناکامی کی ایک بڑی وجہ اجرام فلکی کے مابین عظیم الشان فاصلہ موجود ہونا ہے۔مثال کے طور پر کرہ ارض سے قریب ترین بیرونی شے چاند ہے۔یہ زمین سے تین لاکھ چوراسی ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔اس تک پہنچنے میں موجودہ رفتار سے سفر کرتے ہوئے ہمارے خلائی جہاز کو تین دن لگ جاتے ہیں۔
سورج کے علاوہ زمین سے قریب ترین ستارہ پروکسیما قنطورس(Proxima Centauri)ہے۔یہ زمین سے 4.25 نوری سال( light year)دور ہے۔نوری سال فلکیات کی ایک اصطلاح ہے۔ایک نوری سال5.9ٹریلین میل کے برابر ہے۔گویا پروکسیما قنطورس کرہ ارض سے 23.5 ٹریلین میل دور ہے۔اس تک پہنچنے میں مروجہ رفتار سے ایک انسان ساختہ خلائی جہاز کو پچاس ہزار برس لگ جائیں گے۔مطلب یہ کہ جب قریب ترین ستارے تک پہنچتے پہنچتے بھی کئی انسانی نسلیں گزر جائیں گی تو کائنات کے دیگر اجرام فلکی تک کیسے پہنچا جائے ؟کائنات تو کھربوں ستارے اور سیارے وغیرہ رکھتی ہے۔یہ مشکل اسی وقت آسان ہو گی جب انسان کم ازکم روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے خلائی جہاز ایجاد کر لے۔تب تو انسان کائنات میں گھوم پھر کر زندگی تلاش کر سکتا ہے۔
ابھی تو زمین جیسا زندگی آمیز ماحول رکھنے والا سیارہ ڈھونڈنا ایسے ہی ہے جیسے تہہِ سمندر میں گری سوئی تلاش کی جائے۔چاند چونکہ زمین کے قریب ترین واقع جرم فلکی ہے لہذا سائنس دانوں نے اسے ہی اپنی تحقیق و تجربات کے سلسلے میں تختہ مشق بنا رکھا ہے۔اب ان کی بھرپور سعی ہے کہ کسی نہ کسی طرح چاند پر انسانی آبادی قائم کر دی جائے۔اس تجربے سے وہ سیکھنا اور جاننا چاہتے ہیں کہ زمین سے باہر بیرونی مقامات پر انسانی بستی بسانے میں کس قسم کی رکاوٹیں،مسائل اور مشکلات درپیش آئیں گی۔تین جنوری کو سطح چاند پہ اترنے والا چین کا خلائی جہاز،چانگ ای4 (Chang'e 4) اس ضمن میں اہمیت کا حامل ہے۔
چانگ ای 4 پہ دراصل ایک سات انچ لمبا ،چھ انچ چوڑا اور تین کلو وزنی ڈبا بھی موجود ہے۔یہ عام سا ڈبا نہیں بلکہ اس میں چھوٹی سی دنیا بسا دی گئی ہے۔جی ہاں،یہ ڈبا کرہ ارض جیسا زندگی بخش ماحول رکھتا ہے۔ڈبے کو چاند کے شدید درجہ حرارت اور کم دباؤ والے ماحول سے بچانے کی خاطر خصوصی دھاتوں اور مادوں سے تیار کیا گیا۔ڈبے کی تیاری اتنا مشکل وکٹھن مرحلہ تھا کہ اسے بنانے کے لیے چین کی ''28''یونیورسٹیوں کے ماہرین کو مشترکہ ٹیم کی حیثیت سے کام کرنا اور یکجا ہونا پڑا۔
اس ڈبے میں آلو،گوبھی اور سرسوں کے بیج رکھے ہیں۔اور ریشم کے کیڑوں کے انڈے بھی۔گویا چینی سائنس دانوں نے چاند پر حقیقی نباتات اور حیوانیات بھجوا کر منفرد کارنامہ انجام دے ڈالا اور انسانی ذہانت و محنت کی حد کو مزید وسعت دے ڈالی۔اس ڈبے میں مطلوبہ پانی،ہوا اور کھاد بھی موجود ہے جو بیجوں اور انڈوں کی افزائش کے لیے درکار لازمی عناصر ہیں۔اس ننھی منی دنیا کا اندرونی ماحول متوازن رکھنے کی خاطر سائنس دانوں نے اس میں چھوٹا سا ایئرکنڈیشنگ نظام بھی نصب کیا ہے۔یہ نظام شمسی پینلوں سے پیدا شدہ بجلی سے کام کرے گا۔دن میں شمسی پینل خلائی جہاز کی بیٹریاں چارج کریں گے۔رات کو بیٹریاں ڈبے سمیت چانگ ای 4 کے تمام آلات کو بجلی کی سہولت بہم پہنچائیں گی۔
چین کے سائنس دانوں کو یقین ہے کہ وسط اپریل تک بیجوں سے پودے پھوٹ نکلیں گے جبکہ انڈوں سے ریشم کے کیڑوں کا جنم ہو گا۔پودے ضیائی تالیف کے عمل(photosynthesis)سے آکسیجن بنائیں گے۔کیڑے سانس لیتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائڈ گیس پیدا کریں گے۔یوں ڈبے میں ارضی زندگی سے ملتا جلتا ماحول وجود میں آ جائے گا۔ڈبے میں ایک ننھا سا کیمرا اور ٹرانسمیٹر بھی نصب ہے۔ان دونوں آلات کی مدد سے زمین پر بیٹھے سائنس داں ڈبے کے اندر کی ساری صورت حال سے باخبر رہیں گے۔یہ منفرد حیاتیاتی تجربہ کامیاب ثابت ہوا تو خلائی سفر کے شعبے میں انقلاب آ سکتا ہے۔سب سے بڑھ کر اس کامیابی سے چاند پہ انسانی بستی بسانے کا ہمارا دیرینہ خواب پورا ہو سکے گا۔
چین کے حالیہ قمری تجربے کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اسے چاند کے ''تاریک حصّے''(darkside)میں اتارا گیا۔یہ پہلا موقع ہے کہ چاند کے اس حصے پر بذریعہ آلات انسان کے قدم پہنچے۔دراصل زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے چاند کا صرف سامنے والا حصہ ہمیں دکھائی دیتا ہے۔پچھلے حصے کو سائنس داں بھی کبھی نہیں دیکھ پائے۔اسی لیے وہ عوامی اصطلاح میں ''تاریک حصہ کہلانے لگا۔چاند کے تاریک حصے سے زمین تک براہ راست مواصلاتی رابطہ ہونا ممکن نہیں تھا۔اسی واسطے چین کو اس کی فضا میں پہلے'' کوکیو''(Queqiao relay satellite)نامی مصنوعی سیارہ بھجوانا پڑا۔اسی سیارے کے ٹرانسمیٹر چانگ ای 4 سے آنے والی وڈیوز،آڈیو اور تصاویر وغیرہ کیچ کر کے زمین کی سمت بھجواتے ہیں۔انھیں پھر خلائی مرکز میں براجمان چینی سائنس داں پکڑ لیتے اور کام میں لاتے ہیں۔
چین کے تاریخ ساز خلائی تجربے کی تیسری خاصیت یہ ہے کہ چانگ ای 4 کو چاند کے قطب جنوبی پر اتارا گیا۔سائنسی تحقیق اورتجربات سے انسان پہ آشکارا ہو چکا کہ چاند کے قطبین خصوصاً قطب جنوبی میں برف ہو سکتی ہے۔ چانگ ای 4 کے ذریعے سطح قمر پہ گھومنے پھرنے والی گاڑی،یوتو2(Yutu-2 rover)بھی بھجوائی گئی ۔یہ گاڑی چاند کی پتھریلی سطح کا تجزیہ کرنے والے جدید آلات سے لیس ہے۔وہ قطب جنوبی میں برف بھی تلاش کرے گی۔تاریک قمری علاقے میں سطح بھربھری اور نرم ہے۔اسی لیے یوتو2 کے پہیے اس انداز میں بنائے گئے کہ وہ نرم سطح پر آسانی سے چل پھر سکے۔
اگر یوتو2 نے چاند پر برف کے تودے ڈھونڈ نکالے تو یہ انسانی تاریخ کا ایک اور منفرد لمحہ ہو گا۔ایسی صورت میں یہ ممکن ہو جائے گا کہ انسان چاند پہ آبادی بسا دے۔اس بستی کے مکین برف پگھلا کر پانی حاصل کر سکیں گے تاکہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔چاند پہ انسان کا آباد ہونا تاریخی واقعہ ہوگا۔اس کامیابی سے یہ بھی یقینی ہو جائے گا کہ چاند سے دیگر اجرام فلکی کی سمت انسان بردار خلائی جہاز بھجوائے جا سکیں۔یہ یاد رہے کہ ہمارے نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے،مشتری کے چاند،یورپا پر بھی برف موجود ہونے کی تصدیق ہو چکی۔بلکہ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس منجمد برف کے نیچے پانی سے لبالب بھرا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔اس پانی میں زندگی کی مختلف اشکال مثلاً جراثیم مل سکتے ہیں۔اگر چاند پہ انسانی آبادی بس جائے تو وہاں سے انسانوں کے لیے یورپا جانا آسان ہو جائے گا۔
مشتری کا یہ چاند صورت شکل میں ہمارے قمر سے ملتا جلتا ہے۔زمین سے تقریباً تریسٹھ کروڑ کلومیٹر دور ہے۔ایک خلائی جہاز وہاں چھ سال میں پہنچ جائے گا۔یورپا میں نئی انسانی بستی بسا کر پھر بنی نوع انسان کا ٹارگٹ نئے جہاں ہو سکتے ہیں۔چاند پہ بس کر انسان قیمتی معدنیات بھی حاصل کر سکتا ہے۔ماہرین کی تحقیق کے مطابق قمری چٹانوں میں فولاد،ٹائٹینم،میگنیشم،سلیکون اور میگنیز کے ذخائر محفوظ ہیں۔یہ سبھی معدنیات کرہ ارض پر مختلف اہم اشیا بنانے میں کام آتی ہیں۔چین کو خصوصاً انہی معدنیات کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی معاشی ترقی کا پہیہ رواں دواں رکھ سکے۔یہی وجہ ہے،اگلے ایک عشرے میں چین چاند پہ اپنی بستی بسانے کی بھرپور کوششیں کرے گا۔
جب 1978ء سے چین میں اصلاحات کا جامع پروگرام شروع ہوا،معاشرے میں دوررس تبدیلیاں آنے لگیں تو پہلے پہل چینی حکمرانوں کی توجہ معیشت کی بحالی،گڈ گورننس اختیار کرنے اور کرپشن کے خاتمے پر مرکوز رہی۔زبردست اصلاحات کی وجہ سے چین ترقی وخوشحالی کی راہ پہ چل نکلا اور سرکاری خزانے میں اربوں ڈالر آنے لگے۔تب چینی حکومت نے چاند پر تحقیق و تجربات کرنے کا فیصلہ کیا۔چناں چہ 2007ء میں چین نے چاند کی سمت اپنا پہلا خلائی جہاز، چانگ ای 1 بھجوایا جس کا مقصد قمری سطح کے مدلل نقشے تیار کرنا تھا۔
یوں چینیوں نے بھی چاند پہ کمند ڈال دی۔اب رواں سال کے آخر میں چانگ ای5 سطح ِقمر پر اترے گا۔اسے اس انداز میں ڈیزائن کیا جا رہا ہے کہ وہ چاند سے دو کلو چٹانی مواد اکھٹا کر کے زمین تک لا سکے۔اگلے برس ایک اور چینی خلائی جہاز،چانگ ای 6 چاند کا سفر کرے گا۔ان تمام قمری اسفار کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ چین چاند پہ اپنی بستی بسانے میں کامیاب ہو جائے۔یوں وہ چاند پہ پائی جانے والی معدنی دولت کا بلا شرکت غیرے مالک بن سکے گا۔اس معدنی دولت کی مالیت کئی ٹریلین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ماہرین کی رو سے چاند پر دستیاب سبھی معدنیات میں ہیلیم عنصر کا آئسوٹوپ 3سب سے زیادہ اہم ہے۔
اس آئسوٹوپ یعنی ہیلیم 3کی نمایاں ترین خاصیت یہ ہے کہ وہ غیر تاب کار مادہ ہے۔گویا اس عنصر کو جلا کر بجلی پیدا کی جائے تو وہ خطرناک تاب کار مادے کو جنم نہیں دے گا۔ہیلیم 3سورج کی شعاعوں میں پایا جاتا ہے۔ان کے ذریعے زمین تک بھی پہنچتا ہے۔مگر زمین کی فضا اور مقناطیسی میدان یہ عنصر تباہ کر ڈالتے ہیں۔اسی لیے کرہ ارض پر بہت کم ہیلیم 3 انسان کو میسر ہے۔تاہم چاند پر فضا ہے اور نہ ہی مقناطیسی میدان، لہٰذا خیال ہے کہ قمری چٹانوں میں دس لاکھ ٹن ہیلیم 3 ذخیرہ ہو سکتا ہے۔دنیا میں بجلی کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔فی الوقت کوئلہ،قدرتی گیس، اور آبی توانائی مل کر دنیا والوں کو 78 فیصد بجلی فراہم کرتے ہیں۔مگر کوئلہ ماحول دشمن ایندھن ہے۔اسی واسطے انسان اب اس خطرناک ایندھن کا استعمال محدود کرنا چاہتے ہیں۔چناں چہ سائنس دانوں کی سعی ہے کہ ایسا بجلی گھر بنا لیں جس میں ہیلیم 3 کو جلا کر بجلی بنائی جائے۔یہ عنصر تھوڑی مقدار میں کثیر بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مثال کے طور پر صرف تیس ٹن ہیلیم 3 جل کر اتنی زیادہ بجلی بنائے گا کہ ایک سال تک پورے امریکا کی ضرورت پوری ہو جائے۔
چین کی گاڑی،یو ٹو 2 چاند کی چٹانوں میں ہیلیم 3 بھی تلاش کرے گی۔امید ہے کہ اسے اس ضمن میں قیمتی معلومات حاصل ہوں گی۔تاہم خیال یہی ہے کہ چینی حکومت اس تحقیق کو خفیہ اور اپنے تک رکھے گی۔ظاہر ہے،یہ تحقیق منظرعام پہ لانے سے حریف امریکی ویورپی سائنس داں اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔امریکا بھی مگر چین کی دیکھا دیکھی چاند پہ اپنی بستی قائم کرنے کی سرتوڑ کوشش کرے گا۔ویسے بھی دونوں عالمی قوتوں کے مابین ہر شعبہ ہائے زندگی میں مقابلہ شروع ہو چکا۔امریکی حکمران ہر صورت خصوصاً سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں آگے رہنا چاہتے ہیں تاکہ خود کو دنیا کی اکلوتی سپرپاور کہلوا سکیں۔لیکن چین بھی امریکا کا بھرپور مقابلہ کر رہا ہے۔
امریکیوں کو بھی فولاد،ٹائٹینم،میگنیشم،سلیکون اور میگنیز وغیرہ کی ضرورت ہے۔کرہ ارض پہ ان دھاتوں کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔اس باعث وہ تیزی سے نایاب ہو رہی ہیں۔چناں چہ دونوں عالمی قوتوں کے درمیان قمری معدنیات کے حصول کی خاطر نئی جنگ چھڑ سکتی ہے... یہ کہ چاند پہ پہلے کون انسانی بستی بسائے گا۔اس انوکھی دوڑ میں فی الحال امریکا اور چین برابر بھاگ رہے ہیں۔امریکی 2011ء سائنس داں سے چاند پہ جانے کے لیے انسان بردار خلائی جہاز، اورین (orion) تیار کر رہے ہیں۔خیال ہے کہ اگلے پانچ برس میں امریکی بذریعہ اورین چاند پہ پہنچ جائیں گے۔وہ پھر طویل عرصہ وہاں قیام کریں گے۔دوسری سمت چین میں بھی ماہرین ''چائنیز لارج موڈولر سپیس اسٹیشن''(Chinese large modular space station )کے نام سے ایک دیوہیکل خلائی اسٹیشن تشکیل دے رہے ہیں۔یہ اگلے دو تین برس کے دوران خلا میں بھجوایا جائے گا۔اس کے بعد چین چاند پہ انسان بردار خلائی جہاز بھجوانے کی سعی کر سکتا ہے۔
چین کے صدر،شی جن پنگ اپنی مملکت کو سائنسی وٹکنالوجیکل طور پر مضبوط سے مضبوط تر بنانا چاہتے ہیں۔اسی لیے وہ اقتدار سنبھالتے ہی خلائی تحقیق و تجربات سے متعلق سرکاری و نجی اداروں کو اربوں ڈالر دینے لگے تاکہ چین خلائی سفر کے لیے درکار جدید ترین جہاز اور دیگر سازوسامان تیار کر سکے۔اب چین میں خلائی تحقیق زورشور سے جاری ہے۔خیال ہے کہ اگلے عشرے کے اختتام تک چین چاند پہ انسان بھجوانے والا دنیا کا دوسرا ملک بن جائے گا۔اس کے بعد چینی سائنس داں مریخ سیارے پر انسان بردار جہاز بھیجنے کی کوشش کریں گے۔تاہم ممکن ہے کہ تب تک مصنوعی ذہانت سے مالامال روبوٹ وجود میں آ جائیں...ایسے روبوٹ جو انسانی ذہانت و فراست کے مانند تحقیق و تجربات کرنے کی اہلیت وصلاحیت رکھتے ہوں ۔ان جدید ترین روبوٹوں کو پھر خلائی اسفار میں بھجوانا سبھی کے واسطے ترجیح اول بن جائے گی۔وجہ یہ کہ روبوٹ چوبیس گھنٹے کام کر سکتے ہیں،انھیں آرام و غذا کی ضرورت نہیں ہوتی۔پھر موت بھی ان سے دور رہتی ہے۔ان روبوٹوں کی آمد خلائی تحقیق کے شعبے میں انقلاب لا سکتی ہے۔
شاید دور حاضر کے چینی حکمران اس قول کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔اسی لیے چاند کے اسرار جاننے کی خاطر انھوں نے پچھلے دنوں ایک منفرد خلائی جہاز بھجوا کر بنی نوع انسان کی تاریخ میں نیا باب رقم کر ڈالا۔یہ کارنامہ دکھلا کے چینیوں نے ثابت کر دکھایا کہ وہ سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں کمال مہارت حاصل کر چکے اور اب تاجدار ِدنیا بننے کا منفرد اعزاز پانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
انسان زمانہ قدیم سے کائنات کے اسرار ورموز جاننے کی کوشش کر رہا ہے۔بنیادی مقصد یہ کھوج لگانا ہے کہ کائنات میں کیا کسی اور مقام پر بھی زندگی موجود ہے؟یہ جاننا اب تو انسان کے لیے زندگی یا موت جیسا کٹھن امتحان بن چکا۔وجہ یہ کہ سائنس دانوں کی رو سے ایک سو کروڑ سال تک سورج کی بڑھتی تپش کرہ ارض پر زندگی کا نام ونشان مٹا سکتی ہے۔تب کرہ ارض پہ رہنا ناممکن ہو گا۔لہذا اس ارضی قیامت سے قبل انسان کو رہنے کے لیے کوئی اور دنیا تلاش کرنا ہو گی۔اگر وہ ناکام رہا تو اس کا نام بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔
یہی وجہ ہے،امریکا،چین اور یورپی ممالک خلا میں دوربینیں اور جدید آلات سے لیس خلائی جہاز بھیج رہے ہیں۔ زمین پر بھی طاقتور دوربینیں بنائی جا رہی ہیں۔اس ساری سرگرمی کی منزل یہ ہے کہ خلا کی پہنائیوں میں جھانک کر زمین جیسا سیارہ ڈھونڈ لیا جائے۔فی الحال انھیں کامیابی نصیب نہیں ہو سکی۔ناکامی کی ایک بڑی وجہ اجرام فلکی کے مابین عظیم الشان فاصلہ موجود ہونا ہے۔مثال کے طور پر کرہ ارض سے قریب ترین بیرونی شے چاند ہے۔یہ زمین سے تین لاکھ چوراسی ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔اس تک پہنچنے میں موجودہ رفتار سے سفر کرتے ہوئے ہمارے خلائی جہاز کو تین دن لگ جاتے ہیں۔
سورج کے علاوہ زمین سے قریب ترین ستارہ پروکسیما قنطورس(Proxima Centauri)ہے۔یہ زمین سے 4.25 نوری سال( light year)دور ہے۔نوری سال فلکیات کی ایک اصطلاح ہے۔ایک نوری سال5.9ٹریلین میل کے برابر ہے۔گویا پروکسیما قنطورس کرہ ارض سے 23.5 ٹریلین میل دور ہے۔اس تک پہنچنے میں مروجہ رفتار سے ایک انسان ساختہ خلائی جہاز کو پچاس ہزار برس لگ جائیں گے۔مطلب یہ کہ جب قریب ترین ستارے تک پہنچتے پہنچتے بھی کئی انسانی نسلیں گزر جائیں گی تو کائنات کے دیگر اجرام فلکی تک کیسے پہنچا جائے ؟کائنات تو کھربوں ستارے اور سیارے وغیرہ رکھتی ہے۔یہ مشکل اسی وقت آسان ہو گی جب انسان کم ازکم روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے خلائی جہاز ایجاد کر لے۔تب تو انسان کائنات میں گھوم پھر کر زندگی تلاش کر سکتا ہے۔
ابھی تو زمین جیسا زندگی آمیز ماحول رکھنے والا سیارہ ڈھونڈنا ایسے ہی ہے جیسے تہہِ سمندر میں گری سوئی تلاش کی جائے۔چاند چونکہ زمین کے قریب ترین واقع جرم فلکی ہے لہذا سائنس دانوں نے اسے ہی اپنی تحقیق و تجربات کے سلسلے میں تختہ مشق بنا رکھا ہے۔اب ان کی بھرپور سعی ہے کہ کسی نہ کسی طرح چاند پر انسانی آبادی قائم کر دی جائے۔اس تجربے سے وہ سیکھنا اور جاننا چاہتے ہیں کہ زمین سے باہر بیرونی مقامات پر انسانی بستی بسانے میں کس قسم کی رکاوٹیں،مسائل اور مشکلات درپیش آئیں گی۔تین جنوری کو سطح چاند پہ اترنے والا چین کا خلائی جہاز،چانگ ای4 (Chang'e 4) اس ضمن میں اہمیت کا حامل ہے۔
چانگ ای 4 پہ دراصل ایک سات انچ لمبا ،چھ انچ چوڑا اور تین کلو وزنی ڈبا بھی موجود ہے۔یہ عام سا ڈبا نہیں بلکہ اس میں چھوٹی سی دنیا بسا دی گئی ہے۔جی ہاں،یہ ڈبا کرہ ارض جیسا زندگی بخش ماحول رکھتا ہے۔ڈبے کو چاند کے شدید درجہ حرارت اور کم دباؤ والے ماحول سے بچانے کی خاطر خصوصی دھاتوں اور مادوں سے تیار کیا گیا۔ڈبے کی تیاری اتنا مشکل وکٹھن مرحلہ تھا کہ اسے بنانے کے لیے چین کی ''28''یونیورسٹیوں کے ماہرین کو مشترکہ ٹیم کی حیثیت سے کام کرنا اور یکجا ہونا پڑا۔
اس ڈبے میں آلو،گوبھی اور سرسوں کے بیج رکھے ہیں۔اور ریشم کے کیڑوں کے انڈے بھی۔گویا چینی سائنس دانوں نے چاند پر حقیقی نباتات اور حیوانیات بھجوا کر منفرد کارنامہ انجام دے ڈالا اور انسانی ذہانت و محنت کی حد کو مزید وسعت دے ڈالی۔اس ڈبے میں مطلوبہ پانی،ہوا اور کھاد بھی موجود ہے جو بیجوں اور انڈوں کی افزائش کے لیے درکار لازمی عناصر ہیں۔اس ننھی منی دنیا کا اندرونی ماحول متوازن رکھنے کی خاطر سائنس دانوں نے اس میں چھوٹا سا ایئرکنڈیشنگ نظام بھی نصب کیا ہے۔یہ نظام شمسی پینلوں سے پیدا شدہ بجلی سے کام کرے گا۔دن میں شمسی پینل خلائی جہاز کی بیٹریاں چارج کریں گے۔رات کو بیٹریاں ڈبے سمیت چانگ ای 4 کے تمام آلات کو بجلی کی سہولت بہم پہنچائیں گی۔
چین کے سائنس دانوں کو یقین ہے کہ وسط اپریل تک بیجوں سے پودے پھوٹ نکلیں گے جبکہ انڈوں سے ریشم کے کیڑوں کا جنم ہو گا۔پودے ضیائی تالیف کے عمل(photosynthesis)سے آکسیجن بنائیں گے۔کیڑے سانس لیتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائڈ گیس پیدا کریں گے۔یوں ڈبے میں ارضی زندگی سے ملتا جلتا ماحول وجود میں آ جائے گا۔ڈبے میں ایک ننھا سا کیمرا اور ٹرانسمیٹر بھی نصب ہے۔ان دونوں آلات کی مدد سے زمین پر بیٹھے سائنس داں ڈبے کے اندر کی ساری صورت حال سے باخبر رہیں گے۔یہ منفرد حیاتیاتی تجربہ کامیاب ثابت ہوا تو خلائی سفر کے شعبے میں انقلاب آ سکتا ہے۔سب سے بڑھ کر اس کامیابی سے چاند پہ انسانی بستی بسانے کا ہمارا دیرینہ خواب پورا ہو سکے گا۔
چین کے حالیہ قمری تجربے کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اسے چاند کے ''تاریک حصّے''(darkside)میں اتارا گیا۔یہ پہلا موقع ہے کہ چاند کے اس حصے پر بذریعہ آلات انسان کے قدم پہنچے۔دراصل زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے چاند کا صرف سامنے والا حصہ ہمیں دکھائی دیتا ہے۔پچھلے حصے کو سائنس داں بھی کبھی نہیں دیکھ پائے۔اسی لیے وہ عوامی اصطلاح میں ''تاریک حصہ کہلانے لگا۔چاند کے تاریک حصے سے زمین تک براہ راست مواصلاتی رابطہ ہونا ممکن نہیں تھا۔اسی واسطے چین کو اس کی فضا میں پہلے'' کوکیو''(Queqiao relay satellite)نامی مصنوعی سیارہ بھجوانا پڑا۔اسی سیارے کے ٹرانسمیٹر چانگ ای 4 سے آنے والی وڈیوز،آڈیو اور تصاویر وغیرہ کیچ کر کے زمین کی سمت بھجواتے ہیں۔انھیں پھر خلائی مرکز میں براجمان چینی سائنس داں پکڑ لیتے اور کام میں لاتے ہیں۔
چین کے تاریخ ساز خلائی تجربے کی تیسری خاصیت یہ ہے کہ چانگ ای 4 کو چاند کے قطب جنوبی پر اتارا گیا۔سائنسی تحقیق اورتجربات سے انسان پہ آشکارا ہو چکا کہ چاند کے قطبین خصوصاً قطب جنوبی میں برف ہو سکتی ہے۔ چانگ ای 4 کے ذریعے سطح قمر پہ گھومنے پھرنے والی گاڑی،یوتو2(Yutu-2 rover)بھی بھجوائی گئی ۔یہ گاڑی چاند کی پتھریلی سطح کا تجزیہ کرنے والے جدید آلات سے لیس ہے۔وہ قطب جنوبی میں برف بھی تلاش کرے گی۔تاریک قمری علاقے میں سطح بھربھری اور نرم ہے۔اسی لیے یوتو2 کے پہیے اس انداز میں بنائے گئے کہ وہ نرم سطح پر آسانی سے چل پھر سکے۔
اگر یوتو2 نے چاند پر برف کے تودے ڈھونڈ نکالے تو یہ انسانی تاریخ کا ایک اور منفرد لمحہ ہو گا۔ایسی صورت میں یہ ممکن ہو جائے گا کہ انسان چاند پہ آبادی بسا دے۔اس بستی کے مکین برف پگھلا کر پانی حاصل کر سکیں گے تاکہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔چاند پہ انسان کا آباد ہونا تاریخی واقعہ ہوگا۔اس کامیابی سے یہ بھی یقینی ہو جائے گا کہ چاند سے دیگر اجرام فلکی کی سمت انسان بردار خلائی جہاز بھجوائے جا سکیں۔یہ یاد رہے کہ ہمارے نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے،مشتری کے چاند،یورپا پر بھی برف موجود ہونے کی تصدیق ہو چکی۔بلکہ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس منجمد برف کے نیچے پانی سے لبالب بھرا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔اس پانی میں زندگی کی مختلف اشکال مثلاً جراثیم مل سکتے ہیں۔اگر چاند پہ انسانی آبادی بس جائے تو وہاں سے انسانوں کے لیے یورپا جانا آسان ہو جائے گا۔
مشتری کا یہ چاند صورت شکل میں ہمارے قمر سے ملتا جلتا ہے۔زمین سے تقریباً تریسٹھ کروڑ کلومیٹر دور ہے۔ایک خلائی جہاز وہاں چھ سال میں پہنچ جائے گا۔یورپا میں نئی انسانی بستی بسا کر پھر بنی نوع انسان کا ٹارگٹ نئے جہاں ہو سکتے ہیں۔چاند پہ بس کر انسان قیمتی معدنیات بھی حاصل کر سکتا ہے۔ماہرین کی تحقیق کے مطابق قمری چٹانوں میں فولاد،ٹائٹینم،میگنیشم،سلیکون اور میگنیز کے ذخائر محفوظ ہیں۔یہ سبھی معدنیات کرہ ارض پر مختلف اہم اشیا بنانے میں کام آتی ہیں۔چین کو خصوصاً انہی معدنیات کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی معاشی ترقی کا پہیہ رواں دواں رکھ سکے۔یہی وجہ ہے،اگلے ایک عشرے میں چین چاند پہ اپنی بستی بسانے کی بھرپور کوششیں کرے گا۔
جب 1978ء سے چین میں اصلاحات کا جامع پروگرام شروع ہوا،معاشرے میں دوررس تبدیلیاں آنے لگیں تو پہلے پہل چینی حکمرانوں کی توجہ معیشت کی بحالی،گڈ گورننس اختیار کرنے اور کرپشن کے خاتمے پر مرکوز رہی۔زبردست اصلاحات کی وجہ سے چین ترقی وخوشحالی کی راہ پہ چل نکلا اور سرکاری خزانے میں اربوں ڈالر آنے لگے۔تب چینی حکومت نے چاند پر تحقیق و تجربات کرنے کا فیصلہ کیا۔چناں چہ 2007ء میں چین نے چاند کی سمت اپنا پہلا خلائی جہاز، چانگ ای 1 بھجوایا جس کا مقصد قمری سطح کے مدلل نقشے تیار کرنا تھا۔
یوں چینیوں نے بھی چاند پہ کمند ڈال دی۔اب رواں سال کے آخر میں چانگ ای5 سطح ِقمر پر اترے گا۔اسے اس انداز میں ڈیزائن کیا جا رہا ہے کہ وہ چاند سے دو کلو چٹانی مواد اکھٹا کر کے زمین تک لا سکے۔اگلے برس ایک اور چینی خلائی جہاز،چانگ ای 6 چاند کا سفر کرے گا۔ان تمام قمری اسفار کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ چین چاند پہ اپنی بستی بسانے میں کامیاب ہو جائے۔یوں وہ چاند پہ پائی جانے والی معدنی دولت کا بلا شرکت غیرے مالک بن سکے گا۔اس معدنی دولت کی مالیت کئی ٹریلین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ماہرین کی رو سے چاند پر دستیاب سبھی معدنیات میں ہیلیم عنصر کا آئسوٹوپ 3سب سے زیادہ اہم ہے۔
اس آئسوٹوپ یعنی ہیلیم 3کی نمایاں ترین خاصیت یہ ہے کہ وہ غیر تاب کار مادہ ہے۔گویا اس عنصر کو جلا کر بجلی پیدا کی جائے تو وہ خطرناک تاب کار مادے کو جنم نہیں دے گا۔ہیلیم 3سورج کی شعاعوں میں پایا جاتا ہے۔ان کے ذریعے زمین تک بھی پہنچتا ہے۔مگر زمین کی فضا اور مقناطیسی میدان یہ عنصر تباہ کر ڈالتے ہیں۔اسی لیے کرہ ارض پر بہت کم ہیلیم 3 انسان کو میسر ہے۔تاہم چاند پر فضا ہے اور نہ ہی مقناطیسی میدان، لہٰذا خیال ہے کہ قمری چٹانوں میں دس لاکھ ٹن ہیلیم 3 ذخیرہ ہو سکتا ہے۔دنیا میں بجلی کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔فی الوقت کوئلہ،قدرتی گیس، اور آبی توانائی مل کر دنیا والوں کو 78 فیصد بجلی فراہم کرتے ہیں۔مگر کوئلہ ماحول دشمن ایندھن ہے۔اسی واسطے انسان اب اس خطرناک ایندھن کا استعمال محدود کرنا چاہتے ہیں۔چناں چہ سائنس دانوں کی سعی ہے کہ ایسا بجلی گھر بنا لیں جس میں ہیلیم 3 کو جلا کر بجلی بنائی جائے۔یہ عنصر تھوڑی مقدار میں کثیر بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مثال کے طور پر صرف تیس ٹن ہیلیم 3 جل کر اتنی زیادہ بجلی بنائے گا کہ ایک سال تک پورے امریکا کی ضرورت پوری ہو جائے۔
چین کی گاڑی،یو ٹو 2 چاند کی چٹانوں میں ہیلیم 3 بھی تلاش کرے گی۔امید ہے کہ اسے اس ضمن میں قیمتی معلومات حاصل ہوں گی۔تاہم خیال یہی ہے کہ چینی حکومت اس تحقیق کو خفیہ اور اپنے تک رکھے گی۔ظاہر ہے،یہ تحقیق منظرعام پہ لانے سے حریف امریکی ویورپی سائنس داں اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔امریکا بھی مگر چین کی دیکھا دیکھی چاند پہ اپنی بستی قائم کرنے کی سرتوڑ کوشش کرے گا۔ویسے بھی دونوں عالمی قوتوں کے مابین ہر شعبہ ہائے زندگی میں مقابلہ شروع ہو چکا۔امریکی حکمران ہر صورت خصوصاً سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں آگے رہنا چاہتے ہیں تاکہ خود کو دنیا کی اکلوتی سپرپاور کہلوا سکیں۔لیکن چین بھی امریکا کا بھرپور مقابلہ کر رہا ہے۔
امریکیوں کو بھی فولاد،ٹائٹینم،میگنیشم،سلیکون اور میگنیز وغیرہ کی ضرورت ہے۔کرہ ارض پہ ان دھاتوں کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔اس باعث وہ تیزی سے نایاب ہو رہی ہیں۔چناں چہ دونوں عالمی قوتوں کے درمیان قمری معدنیات کے حصول کی خاطر نئی جنگ چھڑ سکتی ہے... یہ کہ چاند پہ پہلے کون انسانی بستی بسائے گا۔اس انوکھی دوڑ میں فی الحال امریکا اور چین برابر بھاگ رہے ہیں۔امریکی 2011ء سائنس داں سے چاند پہ جانے کے لیے انسان بردار خلائی جہاز، اورین (orion) تیار کر رہے ہیں۔خیال ہے کہ اگلے پانچ برس میں امریکی بذریعہ اورین چاند پہ پہنچ جائیں گے۔وہ پھر طویل عرصہ وہاں قیام کریں گے۔دوسری سمت چین میں بھی ماہرین ''چائنیز لارج موڈولر سپیس اسٹیشن''(Chinese large modular space station )کے نام سے ایک دیوہیکل خلائی اسٹیشن تشکیل دے رہے ہیں۔یہ اگلے دو تین برس کے دوران خلا میں بھجوایا جائے گا۔اس کے بعد چین چاند پہ انسان بردار خلائی جہاز بھجوانے کی سعی کر سکتا ہے۔
چین کے صدر،شی جن پنگ اپنی مملکت کو سائنسی وٹکنالوجیکل طور پر مضبوط سے مضبوط تر بنانا چاہتے ہیں۔اسی لیے وہ اقتدار سنبھالتے ہی خلائی تحقیق و تجربات سے متعلق سرکاری و نجی اداروں کو اربوں ڈالر دینے لگے تاکہ چین خلائی سفر کے لیے درکار جدید ترین جہاز اور دیگر سازوسامان تیار کر سکے۔اب چین میں خلائی تحقیق زورشور سے جاری ہے۔خیال ہے کہ اگلے عشرے کے اختتام تک چین چاند پہ انسان بھجوانے والا دنیا کا دوسرا ملک بن جائے گا۔اس کے بعد چینی سائنس داں مریخ سیارے پر انسان بردار جہاز بھیجنے کی کوشش کریں گے۔تاہم ممکن ہے کہ تب تک مصنوعی ذہانت سے مالامال روبوٹ وجود میں آ جائیں...ایسے روبوٹ جو انسانی ذہانت و فراست کے مانند تحقیق و تجربات کرنے کی اہلیت وصلاحیت رکھتے ہوں ۔ان جدید ترین روبوٹوں کو پھر خلائی اسفار میں بھجوانا سبھی کے واسطے ترجیح اول بن جائے گی۔وجہ یہ کہ روبوٹ چوبیس گھنٹے کام کر سکتے ہیں،انھیں آرام و غذا کی ضرورت نہیں ہوتی۔پھر موت بھی ان سے دور رہتی ہے۔ان روبوٹوں کی آمد خلائی تحقیق کے شعبے میں انقلاب لا سکتی ہے۔