ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
ایک برطانوی کمپنی نے اس مسئلے کا حل ’’انسدادِ خراٹا تکیہ‘‘ بنا کر کیا ہے۔
کسی کی جو عادات، اطوار، افعال، اعمال اور عوارض صرف دوسروں کے لیے پریشانی اور اذیت کا باعث بنتی ہیں ان میں سرفہرست ہیں ''خَرّاٹے''، جو رات کے سناٹے میں سماعت پر زناٹے دار چانٹے کی طرح لگتے ہیں اور ان کی وجہ سے ۔۔۔۔ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ ''سُلائی'' کا۔
ایک برطانوی کمپنی نے اس مسئلے کا حل ''انسدادِ خراٹا تکیہ'' بنا کر کیا ہے۔ اس تکیہ ساز کمپنی کے مطابق یہ تکیہ سر اور گردن کو اس طرح سہارے گا کہ سونے والا خراٹے لیے بغیر سکون کی نیند سو سکے گا۔
امید ہے کہ یہ تکیہ میاں بیوی کے درمیان خراٹوں کے باعث ہونے والا تنازعہ ختم کرنے کا سبب بنے گا۔ عموماً مرد خراٹے لے کر اپنی شریک حیات کی نیند کی باربار وفات کا سبب بنتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ دن بھر چُپ سادھے شوہر کو نیند ہی میں بولنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ شکوک وشبہات بھی پائے جاتے ہیں کہ بعض خاوندحضرات خراٹے نہیں لیتے بلکہ دن بھر کی سمع خراشی کا انتقام لیتے ہیں۔ یوں وہ ''دشمن'' پر شب خون مار کر اس کی نیند کا خون کردیتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ خراٹے باز شوہر کی بیوی۔۔۔۔ہمیں تو آج بھی ''خَرخَر'' سے اُن کی جاگنا ہوگا۔
یہی قسمت ہماری ہے'' گاکر آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے، اور شوہر صاحب صبح اُٹھ کر معصومیت سے پوچھ رہے ہوتے ہیں''کیوں دور دور ریندے ہو حضور میرے کولوں، میں نوں دس دیو ہویا کی قصور میرے کولوں۔'' ایک شاعرہ نے اسی دُکھ کا گِلہ یوں کیا تھا، ''ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا'' دوسرا مصرعہ یقیناً یہ تھا ''خَرّاٹے تم لو تا بہ سحر، تم کو اس سے کیا'' جسے انھوں نے خانگی لحاظ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ''بجتے رہیں ہَواؤں سے دَر تم کو اس سے کیا'' کردیا۔ اب ظاہر ہے ہواؤں سے بجتے در تو بند کرکے چین کی نیند سویا جاسکتا ہے، مگر خراٹے روکنے کے لیے جس پر تکیہ ہو اُس کے منہہ پر تکیہ رکھ دینا دانش مندی نہیں ہوگی۔
ہمارے دوست بابوبھائی کا قول ہے کہ وہ میاں بیوی صحیح معنوں میں جیون ساتھی ہیں اور ان ہی میں حقیقی ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، جو رات بھر ایک ہی آہنگ میں خراٹے لیتے ہیں، صحیح معنوں میں وہی یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ''یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا۔'' اس قول کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو جوڑے باہمی ہم آہنگی چاہتے ہیں یا تو ان میں کے شوہر برطانوی کمپنی کا یہ تکیہ لے لیں یا بیویاں خراٹے لینا شروع کردیں۔ ہماری نزدیک دوسرا نسخہ مفت ہے اس لیے اسی پر عمل کرنا مناسب رہے گا، یوں خراٹوں کے ساتھ ازدواجی زندگی فراٹے بھرتی ہوئی آگے بڑھے گی۔
ایک برطانوی کمپنی نے اس مسئلے کا حل ''انسدادِ خراٹا تکیہ'' بنا کر کیا ہے۔ اس تکیہ ساز کمپنی کے مطابق یہ تکیہ سر اور گردن کو اس طرح سہارے گا کہ سونے والا خراٹے لیے بغیر سکون کی نیند سو سکے گا۔
امید ہے کہ یہ تکیہ میاں بیوی کے درمیان خراٹوں کے باعث ہونے والا تنازعہ ختم کرنے کا سبب بنے گا۔ عموماً مرد خراٹے لے کر اپنی شریک حیات کی نیند کی باربار وفات کا سبب بنتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ دن بھر چُپ سادھے شوہر کو نیند ہی میں بولنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ شکوک وشبہات بھی پائے جاتے ہیں کہ بعض خاوندحضرات خراٹے نہیں لیتے بلکہ دن بھر کی سمع خراشی کا انتقام لیتے ہیں۔ یوں وہ ''دشمن'' پر شب خون مار کر اس کی نیند کا خون کردیتے ہیں۔ اب ہوتا یہ ہے کہ خراٹے باز شوہر کی بیوی۔۔۔۔ہمیں تو آج بھی ''خَرخَر'' سے اُن کی جاگنا ہوگا۔
یہی قسمت ہماری ہے'' گاکر آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے، اور شوہر صاحب صبح اُٹھ کر معصومیت سے پوچھ رہے ہوتے ہیں''کیوں دور دور ریندے ہو حضور میرے کولوں، میں نوں دس دیو ہویا کی قصور میرے کولوں۔'' ایک شاعرہ نے اسی دُکھ کا گِلہ یوں کیا تھا، ''ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا'' دوسرا مصرعہ یقیناً یہ تھا ''خَرّاٹے تم لو تا بہ سحر، تم کو اس سے کیا'' جسے انھوں نے خانگی لحاظ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ''بجتے رہیں ہَواؤں سے دَر تم کو اس سے کیا'' کردیا۔ اب ظاہر ہے ہواؤں سے بجتے در تو بند کرکے چین کی نیند سویا جاسکتا ہے، مگر خراٹے روکنے کے لیے جس پر تکیہ ہو اُس کے منہہ پر تکیہ رکھ دینا دانش مندی نہیں ہوگی۔
ہمارے دوست بابوبھائی کا قول ہے کہ وہ میاں بیوی صحیح معنوں میں جیون ساتھی ہیں اور ان ہی میں حقیقی ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، جو رات بھر ایک ہی آہنگ میں خراٹے لیتے ہیں، صحیح معنوں میں وہی یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ''یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا۔'' اس قول کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو جوڑے باہمی ہم آہنگی چاہتے ہیں یا تو ان میں کے شوہر برطانوی کمپنی کا یہ تکیہ لے لیں یا بیویاں خراٹے لینا شروع کردیں۔ ہماری نزدیک دوسرا نسخہ مفت ہے اس لیے اسی پر عمل کرنا مناسب رہے گا، یوں خراٹوں کے ساتھ ازدواجی زندگی فراٹے بھرتی ہوئی آگے بڑھے گی۔