قصہ ایک نیکوکار افسر کا
ان کی ’’جان ومال‘‘ تو بہت زیادہ کہ کہیں کوئی اور نہ چکھے
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ایک مردحق آگاہ کے ذریعے ہمیں ایک''گناہ عظیم'' سے بچالیا ورنہ ہم تو ایک شخص پر نشانہ باندھ کر ٹریگر دبانے ہی والے تھے لیکن عین وقت پر اس مردحق آگاہ، واقف اسرار اور دانائے راز نے ہمیں بتایا کہ ہم کیا انرتھ کرنے جارہے ہیں۔ وہ شخص جس پر ہم فائر کھولنے والے تھے، نہایت متقی پرہیزگار،پاک وپاکیزہ اور نیکوکار شخص ہے اور محض لوگوں نے اس بچارے کی بے پناہ نیکیوں اور دیانتداریوں اور ایمانداریوں بلکہ فرض شناسیوں سے ''جل کر'' اسے بدنام کیاہوا ہے،ورنہ حقیقت میں وہ شخص نیکیوں کا بھنڈٓار، دیانت امانت اور حقانیت کا بڑا علم بردار ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ یونہی ہماشما، ایرے غیرے نتھوخیرے اور منفی تنقیدیے لوگوں کے بہکاؤے میں آکر ہم بھی اس نیکوکارشخص کو برا سمجھ بیٹھے تھے اور اس کی ایسی کی تیسی کرنے والے تھے۔کہ اس واقف اسرار دانائے راز اور حق آگاہ ہنرور رہنما شخص نے ہمیں اصل حقیقت بتاتے ہوئے اس فعل قبیح کے ارتقاب سے روک لیا۔ جس شخص کا یہ ذکر ہے وہ پولیس کا ایک افسر تھا اور ہماری سوچ پر اتنے پتھر پڑگئے تھے کہ ہم یہ بھی نہیں سوچ پائے کہ پولیس جیسے سراپا خدمت وعبادت محکمے کا کوئی افسر برا کیسے ہوسکتاہے۔ جب''بروا'' ہی ہونہار ہو تو اس کے ''پات'' تو چکنے چکنے ہی ہوں گے لیکن ہم بھی کیاکریں کہ کانوں کے کچے ہیں بہکاؤے میں آگئے۔
اس مردحق آگاہ واقف اسرار اور دانائے راز ناصح مشفق نے ہمیں بتایا کہ اصل میں اس شخص کی بے پناہ ایمانداری،دیانتداری اور فرض کی پاس داری ہی اس کی جرم ٹھہری۔اور کسی طرح اس مشہور بلکہ رسوائے زمانہ ''بیرونی ہاتھ'' کو خبر ہوگئی جوہمیشہ ہمارے درپے رہتاہے اور ہمارے ہاں کسی اچھے آدمی یا افسر یا محکمے کو ''اچھا'' برداشت ہی نہیں کرسکتا چنانچہ وہ متحرک ہوگیا اور اس اچھے پولیس افسر کو اپنے طرفداروں کے ذریعے بدنام کردیا کہ اس نے ایک بے گناہ شخص کا ان کاؤنٹر کیاہے۔تیسری ہاتھ کے طرف دار تیار بیٹھے تھے چنانچہ مچ گیا شور کہ دل ہوا بوکاٹا۔
تفصیل کے اوراق کھولتے ہوئے اس ناصح مشفق نے جو حقیقت بتائی وہ یہ کہ مذکورہ فرض شناس مجرم شناس اور مردم شناس پولیس افسر ،ایک دن بدستور اپنے علاقے میں شکار۔۔سوری۔۔گشت پر نکلا ہوا تھا کیونکہ اسے اپنے علاقے کے عوام کی بڑی فکر رہتی تھی خاص طور پر ان کی ''جان ومال'' تو بہت زیادہ کہ کہیں کوئی اور نہ چکھے۔
ایک مقام پر اس نے دیکھا کہ ایک مشکوک سا شخص نہایت ہی مشکوک حرکات وسکنات کررہا ہے قریب جاکر دیکھا تو وہ مشکوک شخص صرف مشکوک ہی نہیں بلکہ مشکوک ''الولد'' بھی تھا کہ ایک ایسے علاقے کا باشندہ تھا جسے ''تھڑی پار'' کہاجاتاتھا اور وہاں کے رہنے والے ویسے تو انسانوں جیسے لگتے تھے لیکن انسان ہوتے نہیں تھے۔ اس علاقے کا ''پوستین'' بڑا مشہور تھا جس کے حصول کے لیے دنیا بھر کے شکاری وہاں آتے تھے چنانچہ اس ''پوستین'' کی وجہ سے وہاں کے باشندے پوستین کہلاتے تھے۔
لیکن وہ افسر چونکہ بہت ایماندار دیانت دار پولیس والوں کی طرح خوش گفتار تھا اس لیے ''پوستین'' کے قریب جاکر نہایت محبت اور ادب واحترام سے اس کا حال پوچھنے لگا لیکن بندر کیاجانے ادرک کا سواد۔ وہ تو پوستین تھا اور پوستینوں کے لیے بزرگوں نے کہاہے
''مرد نادان پر کلام نرم ونازک بے اثر''
چنانچہ جواب میں پولیس افسر کی نرمی کے خلاف گرمی دکھاتے ہوئے اٹھا اور اس شیرین کلام وخوش گفتار پاکیزہ و پرہیزگار افسر سے لپٹ پڑا پولیس افسر سمجھا کہ وہ اس سے بغل گیر ہونا چاہتاہے اس لیے اس نے بھی ہاتھ پھیلا کر اہلاً وسہلاً کہا لیکن وہ تو بندے کا پتر پوستین تھا چنانچہ بغل گیری کی بجکائے پولیس افسر کے پہلو میں لٹکے ہوئے آلہ نفاذ قانون یعنی پستول پر ہاتھ ڈال دیا۔ فرض شناس افسر سمجھ گیا اور اس کی کوشش کو نہایت بہادری اور دلیری کے ساتھ جان پر کھیل کر ناکام بنادیا اور اس سے اپنا پستول چھین کر اس پر تان دیا۔ پوستین کو اسی موقعے کا انتظار تھا فوراً ہاتھ بڑھاکر پولیس افسر کے پستول کو اس کے ہاتھ ہی میں اپنے اوپر چلوادیا اور خود کو کیفرکردار تک پہنچوا کر پھر موقع واردات سے فرار ہوگیا اور اپنے پیچھے صرف اپنا فضول جسم چھوڑ دیا۔
اتنی سی بات تھی جس کو دشمنوں، منفی تنقیدیوںاور بیرونی ہاتھ نے افسانہ کردیا۔پہلے سے بھری ہوئی افواہوں کی توپیں چل پڑیں کہ یہ ہوگیا وہ ہوگیا۔یہاں تک کہ اس فرض شناس دیانتدار ایماندار اور خدمتگار پولیس افسر کے صاف وشفاف کردار پر کیچڑ اچھالی جانے لگی کہ اس نے یہ یہ کیاہے۔عوام کے چمڑے سے اتنا اتنا مال بنایا، ہے، اتنے اتنے بنگلے ہیں اتنی اتنی جائیدادیں ہیں یہ ہیں وہ ہیں اور یہ ''ان کاؤنٹر'' ہی اس کا واحد پیشہ تھا بلکہ ان کاؤنٹر کی آڑ میں اجرتی قتل بھی کرتاتھا حالانکہ یہ سب جھوٹ تھا۔
ہمیں افسوس ہے کہ ہم بھی بلا سوچے سمجھے اس جھوٹ کی افواہوں میں آگئے تھے اور اس معصوم افسر کے درپے ہوگئے لیکن خدا کا ایک مرتبہ پھر لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمارے دانائے راز واقف اسرار اور ناصح مشفق پڑوسی کو بھیج کر ہمیں اس گناہ عظیم سے بچالیا جس پر بہت ٹیکس ہے، وکیلوں اور متعلقات کی فیسیں وغیرہ کل ملاکر اس گناہ گار پر اتنا عظیم ٹیکس عائد ہے کہ زندگی دے کر بھی ادا نہ کرپاتے۔
لیکن بات پھر کر پھر اس ناصح مشفق کے روکنے پر آئے گی، خدا ان کو اپنے خاص الخاص بندوں میں شامل فرمائے دونوں جہانوں کے اجر دے، ہم اگر دن رات بھی رطب اللسان رہیں تو ان کے احسان کا بھگتان نہیں کر پائیں گے۔
انھوں نے مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ مذکورہ پولیس افسر صرف ایک نیکوکار اور پرہیزگار وخدمت گار افسر ہی نہیں ہے بلکہ صاحب کشف وکرامات بھی ہیں، ان کی نگاہ اتنی تیز ہے کہ گیارہ دیواروں کے پار بھی مجرموں کو پہچان لیتے ہیں اور پھر اسے کیفرکردار تک پہنچانے کی ٹھان لیتے ہیں اور جب ٹھان لیتے ہیں تو کوئی لوہے کی دیوار بھی ان کو نہیں روک سکتی۔
منہُ کو ہمارے کان کے قریب لاتے ہوئے وہ ناصح مشفق بولے کہ کسی کو بتانا مت جس تھانے میں وہ تعینات ہوتے ہیں وہاں کے لوگ یہاں تک کہ ''منکر'' قسم کے لوگ بھی ان کا دامن نچوڑ کر نہ صرف پیتے ہیں بلکہ وضو بھی کرتے ہیں۔ اس غرض کے لیے وہ جس تھانے میں بھی جاتے ہیں اپنی ایک قمیص دروازے پر ٹانک دیتے ہیں کہ لوگ آئیں، پانی ڈال کر اس کا دامن نچوڑیں اور اپنی عاقبت سنواریں جہاں تک''پوستین''لوگوں کا تعلق ہے تو کھلے کھلے تیسرے ہاتھ میں ہیں اور جہاں تیسرا ہاتھ اشارہ کرتاہے وہاں جاکر پوستین پوستین ہوتے رہتے ہیں اور اپنی پوستیوں سے پاک باز لوگوں کا دامن آلودہ کرتے ہیں، ناصح مشفق نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم اپنے قلم کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کریں کہ حکومت ایسے درنایاب اور گوہریک دانہ قسم کے افسروں کو چن چن کر ایسے مقامات پر تعینات کرے جہاں جہاں یہ شرپسند اور تیسرے ہاتھ کے پیدا کردہ پوستین پائے جاتے ہیں تاکہ نہ رہے پوستین اور نہ میلی ہو کسی کی آستین۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ یونہی ہماشما، ایرے غیرے نتھوخیرے اور منفی تنقیدیے لوگوں کے بہکاؤے میں آکر ہم بھی اس نیکوکارشخص کو برا سمجھ بیٹھے تھے اور اس کی ایسی کی تیسی کرنے والے تھے۔کہ اس واقف اسرار دانائے راز اور حق آگاہ ہنرور رہنما شخص نے ہمیں اصل حقیقت بتاتے ہوئے اس فعل قبیح کے ارتقاب سے روک لیا۔ جس شخص کا یہ ذکر ہے وہ پولیس کا ایک افسر تھا اور ہماری سوچ پر اتنے پتھر پڑگئے تھے کہ ہم یہ بھی نہیں سوچ پائے کہ پولیس جیسے سراپا خدمت وعبادت محکمے کا کوئی افسر برا کیسے ہوسکتاہے۔ جب''بروا'' ہی ہونہار ہو تو اس کے ''پات'' تو چکنے چکنے ہی ہوں گے لیکن ہم بھی کیاکریں کہ کانوں کے کچے ہیں بہکاؤے میں آگئے۔
اس مردحق آگاہ واقف اسرار اور دانائے راز ناصح مشفق نے ہمیں بتایا کہ اصل میں اس شخص کی بے پناہ ایمانداری،دیانتداری اور فرض کی پاس داری ہی اس کی جرم ٹھہری۔اور کسی طرح اس مشہور بلکہ رسوائے زمانہ ''بیرونی ہاتھ'' کو خبر ہوگئی جوہمیشہ ہمارے درپے رہتاہے اور ہمارے ہاں کسی اچھے آدمی یا افسر یا محکمے کو ''اچھا'' برداشت ہی نہیں کرسکتا چنانچہ وہ متحرک ہوگیا اور اس اچھے پولیس افسر کو اپنے طرفداروں کے ذریعے بدنام کردیا کہ اس نے ایک بے گناہ شخص کا ان کاؤنٹر کیاہے۔تیسری ہاتھ کے طرف دار تیار بیٹھے تھے چنانچہ مچ گیا شور کہ دل ہوا بوکاٹا۔
تفصیل کے اوراق کھولتے ہوئے اس ناصح مشفق نے جو حقیقت بتائی وہ یہ کہ مذکورہ فرض شناس مجرم شناس اور مردم شناس پولیس افسر ،ایک دن بدستور اپنے علاقے میں شکار۔۔سوری۔۔گشت پر نکلا ہوا تھا کیونکہ اسے اپنے علاقے کے عوام کی بڑی فکر رہتی تھی خاص طور پر ان کی ''جان ومال'' تو بہت زیادہ کہ کہیں کوئی اور نہ چکھے۔
ایک مقام پر اس نے دیکھا کہ ایک مشکوک سا شخص نہایت ہی مشکوک حرکات وسکنات کررہا ہے قریب جاکر دیکھا تو وہ مشکوک شخص صرف مشکوک ہی نہیں بلکہ مشکوک ''الولد'' بھی تھا کہ ایک ایسے علاقے کا باشندہ تھا جسے ''تھڑی پار'' کہاجاتاتھا اور وہاں کے رہنے والے ویسے تو انسانوں جیسے لگتے تھے لیکن انسان ہوتے نہیں تھے۔ اس علاقے کا ''پوستین'' بڑا مشہور تھا جس کے حصول کے لیے دنیا بھر کے شکاری وہاں آتے تھے چنانچہ اس ''پوستین'' کی وجہ سے وہاں کے باشندے پوستین کہلاتے تھے۔
لیکن وہ افسر چونکہ بہت ایماندار دیانت دار پولیس والوں کی طرح خوش گفتار تھا اس لیے ''پوستین'' کے قریب جاکر نہایت محبت اور ادب واحترام سے اس کا حال پوچھنے لگا لیکن بندر کیاجانے ادرک کا سواد۔ وہ تو پوستین تھا اور پوستینوں کے لیے بزرگوں نے کہاہے
''مرد نادان پر کلام نرم ونازک بے اثر''
چنانچہ جواب میں پولیس افسر کی نرمی کے خلاف گرمی دکھاتے ہوئے اٹھا اور اس شیرین کلام وخوش گفتار پاکیزہ و پرہیزگار افسر سے لپٹ پڑا پولیس افسر سمجھا کہ وہ اس سے بغل گیر ہونا چاہتاہے اس لیے اس نے بھی ہاتھ پھیلا کر اہلاً وسہلاً کہا لیکن وہ تو بندے کا پتر پوستین تھا چنانچہ بغل گیری کی بجکائے پولیس افسر کے پہلو میں لٹکے ہوئے آلہ نفاذ قانون یعنی پستول پر ہاتھ ڈال دیا۔ فرض شناس افسر سمجھ گیا اور اس کی کوشش کو نہایت بہادری اور دلیری کے ساتھ جان پر کھیل کر ناکام بنادیا اور اس سے اپنا پستول چھین کر اس پر تان دیا۔ پوستین کو اسی موقعے کا انتظار تھا فوراً ہاتھ بڑھاکر پولیس افسر کے پستول کو اس کے ہاتھ ہی میں اپنے اوپر چلوادیا اور خود کو کیفرکردار تک پہنچوا کر پھر موقع واردات سے فرار ہوگیا اور اپنے پیچھے صرف اپنا فضول جسم چھوڑ دیا۔
اتنی سی بات تھی جس کو دشمنوں، منفی تنقیدیوںاور بیرونی ہاتھ نے افسانہ کردیا۔پہلے سے بھری ہوئی افواہوں کی توپیں چل پڑیں کہ یہ ہوگیا وہ ہوگیا۔یہاں تک کہ اس فرض شناس دیانتدار ایماندار اور خدمتگار پولیس افسر کے صاف وشفاف کردار پر کیچڑ اچھالی جانے لگی کہ اس نے یہ یہ کیاہے۔عوام کے چمڑے سے اتنا اتنا مال بنایا، ہے، اتنے اتنے بنگلے ہیں اتنی اتنی جائیدادیں ہیں یہ ہیں وہ ہیں اور یہ ''ان کاؤنٹر'' ہی اس کا واحد پیشہ تھا بلکہ ان کاؤنٹر کی آڑ میں اجرتی قتل بھی کرتاتھا حالانکہ یہ سب جھوٹ تھا۔
ہمیں افسوس ہے کہ ہم بھی بلا سوچے سمجھے اس جھوٹ کی افواہوں میں آگئے تھے اور اس معصوم افسر کے درپے ہوگئے لیکن خدا کا ایک مرتبہ پھر لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمارے دانائے راز واقف اسرار اور ناصح مشفق پڑوسی کو بھیج کر ہمیں اس گناہ عظیم سے بچالیا جس پر بہت ٹیکس ہے، وکیلوں اور متعلقات کی فیسیں وغیرہ کل ملاکر اس گناہ گار پر اتنا عظیم ٹیکس عائد ہے کہ زندگی دے کر بھی ادا نہ کرپاتے۔
لیکن بات پھر کر پھر اس ناصح مشفق کے روکنے پر آئے گی، خدا ان کو اپنے خاص الخاص بندوں میں شامل فرمائے دونوں جہانوں کے اجر دے، ہم اگر دن رات بھی رطب اللسان رہیں تو ان کے احسان کا بھگتان نہیں کر پائیں گے۔
انھوں نے مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ مذکورہ پولیس افسر صرف ایک نیکوکار اور پرہیزگار وخدمت گار افسر ہی نہیں ہے بلکہ صاحب کشف وکرامات بھی ہیں، ان کی نگاہ اتنی تیز ہے کہ گیارہ دیواروں کے پار بھی مجرموں کو پہچان لیتے ہیں اور پھر اسے کیفرکردار تک پہنچانے کی ٹھان لیتے ہیں اور جب ٹھان لیتے ہیں تو کوئی لوہے کی دیوار بھی ان کو نہیں روک سکتی۔
منہُ کو ہمارے کان کے قریب لاتے ہوئے وہ ناصح مشفق بولے کہ کسی کو بتانا مت جس تھانے میں وہ تعینات ہوتے ہیں وہاں کے لوگ یہاں تک کہ ''منکر'' قسم کے لوگ بھی ان کا دامن نچوڑ کر نہ صرف پیتے ہیں بلکہ وضو بھی کرتے ہیں۔ اس غرض کے لیے وہ جس تھانے میں بھی جاتے ہیں اپنی ایک قمیص دروازے پر ٹانک دیتے ہیں کہ لوگ آئیں، پانی ڈال کر اس کا دامن نچوڑیں اور اپنی عاقبت سنواریں جہاں تک''پوستین''لوگوں کا تعلق ہے تو کھلے کھلے تیسرے ہاتھ میں ہیں اور جہاں تیسرا ہاتھ اشارہ کرتاہے وہاں جاکر پوستین پوستین ہوتے رہتے ہیں اور اپنی پوستیوں سے پاک باز لوگوں کا دامن آلودہ کرتے ہیں، ناصح مشفق نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم اپنے قلم کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کریں کہ حکومت ایسے درنایاب اور گوہریک دانہ قسم کے افسروں کو چن چن کر ایسے مقامات پر تعینات کرے جہاں جہاں یہ شرپسند اور تیسرے ہاتھ کے پیدا کردہ پوستین پائے جاتے ہیں تاکہ نہ رہے پوستین اور نہ میلی ہو کسی کی آستین۔