ویلکم چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ …
نئے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کو حالات سازگار ملے ہیں
پاکستان کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا سنہری دور ختم ہوا، انھوں نے مخالفانہ تند و تیز ہواؤں کے باوجود عدالتی تاریخ کا شاندار اور یادگار باب لکھا ہے، انھوں نے ریاست کا اندرونی چہرہ عوام کے سامنے بے نقاب کیا، آئین اورقانون شکنی کرنے والے بڑے بڑے ''پہلوان'' ان کی عدالت میں لرزاں نظر آئے جو ان کی نیک نیتی اور جرأت مندی کی بدولت ہی ممکن ہو سکا، اگر وہ بک جاتے یا جھک جاتے تو ان کے لیے عدالتی تاریخ کی گراں قدر اور بے مثال خدمات انجام دینا کبھی ممکن نہ ہوتا۔ جسٹس ثاقب نثار نے حکمرانوں اور طاقتور بااثر لوگوں کے دلوں میں آئین و قانون کا جو ڈر اور خوف پیدا کر دیا ہے، وہ ایک عظیم کارنامہ ہے۔ ان کے جانشین چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ اگر اس خوف کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے تو پاکستان چند سال میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا خواب پورا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور منجمد اور مفلوج ریاست بڑی تیزی کے ساتھ ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن نظر آئے گی۔
جسٹس ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بے باک فیصلے کیے جن کو عوامی سطح پر پذیرائی ملی۔ انھوں نے عوامی مسائل کا بھی نوٹس لیا، موبائل کمپنیوں کی جانب سے ٹیکس کی کٹوتی ہو یا پھر نجی اسکولوں،کالجز یا اسپتالوں کی فیس، پینے کا پانی، کرپشن، سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی سمیت دیگر اہم کیسز کا فیصلہ بھی سنایا۔ ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے جسٹس ثاقب نثار نے بڑا فیصلہ کیا جس کے بعد ایک مہم شروع ہوئی جو اب ایک تحریک بن چکی ہے۔ پاکستان میں مسلسل پانی کی کمی کا نوٹس لیتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ حکومت اور متعلقہ ادارے ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے اقدامات کریں اور ڈیموں کی تعمیر سے متعلق حکمت عملی پر مبنی رپورٹ تین ہفتے میں پیش کی جائے، عدالتی حکم پر عملدر آمد کے لیے چیئرمین واپڈا کی سربراہی میں کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق ڈیم فنڈ کے لیے خصوصی اکانٹ کھولا گیا۔
جس میں اب تک 9 ارب سے زائد روپے جمع ہو چکے ہیں۔جسٹس میاں ثاقب نثار کے بطور چیف جسٹس آف پاکستان بعض اقدامات پر تنقید بھی کی جاتی ہے کہ انھوں نے ایسے کام کیے جو ان کے کرنے کے نہیں۔ اس وجہ سے سپریم کورٹ پر مقدمات کا بوجھ بڑھتا گیا۔ لیکن اگر غیر جانبدار ہو کر تمام ریکارڈ کا مطالعہ کیا جائے تو بطور چیف جسٹس میاںثاقب نثار نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ کیسز نمٹائے۔ صرف 2018 میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے بینچ نے 7ہزار کے قریب کیسز نمٹائے۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں کسی بھی چیف جسٹس نے آج تک اتنے کیسز کے فیصلے نہیں کیے جتنے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیے۔ انھوں نے کیسز نمٹانے کے علاوہ بہت سے از خود نوٹسز بھی لیے جن سے قوم کو براہ راست فائدہ پہنچا ہے اور مظلوموں کی داد رسی ہوئی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار کے بطور چیف جسٹس 69 اقدامات ایسے ہیں جن سے براہ راست پوری قوم اور مظلوم لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔
اب جسٹس ثاقب نثار کے بعد ایک اور مرد قلندر جسٹس آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس پاکستان کے منصب پر فائز ہو چکے ہیں۔ ان کے والد گرامی سردار فیض محمد کھوسہ قائداعظم کے سچے عاشق تھے۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ''فصل امید''میں تحریر کیا: ''میں جو کچھ ہوں اپنے ملک کی وجہ سے ہوں، انشاء اللہ قائد اعظم کا خواب رائیگاں نہیں جائے گا۔ ہماری نسل آزادی کی شاہد ہے ہم آزادی کی قدروقیمت جانتے ہیں، پاکستان ایک باوقار مضبوط اور متحرک جمہوری ملک بن کر ابھرے گا اور قائد کا وژن پورا ہو گا۔ میرے پانچ بیٹے بیٹیاں اور 15 پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں امید کی فصل ہیں جو پاکستان کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔''سردار فیض محمد کھوسہ کی روح خوش ہو گی کہ ان کی آرزو اور تمنا پوری ہوئی، ان کے بیٹے طارق کھوسہ آئی جی پولیس، ناصر کھوسہ چیف سیکریٹری پنجاب اور آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس پاکستان کے مناصب پر فائز ہوئے۔ انھوں نے امید کی جو فصل کاشت کی تھی وہ پاکستانی قوم کے لیے ثمر آوراور سودمند ثابت ہوئی۔
نئے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کو حالات سازگار ملے ہیں۔ وہ حساس عدالتی سفر کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے آئین اور قانون کی حکمرانی کی روایت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنے پیشرو میاں ثاقب نثار کی چھوڑی ہوئی شاندار روایات کو نہ صرف آگے بڑھائیں گے بلکہ زیرالتوا مقدمات کو نمٹانے اور فوری اور سستے انصاف کے لیے قابل رشک خدمات انجام دیں گے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی موجودگی میں بھی بیشتر بینچوں میں محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ نہ صرف شامل رہے بلکہ مشہور زمانہ پاناما کیس جس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ساری زندگی کے لیے نا اہل ہوئے، اس میں بھی وہ شامل تھے۔
بہرکیف حالیہ دور پاکستان کی سیاسی و عدلیہ کی تاریخ میں ہنگامہ خیز ترین دور کہلائے گا خاص طور پر دسمبر 2013میں محترم جسٹس افتخار محمد چوہدری کی رخصتی کے بعد کہ ہمارے محترم جنرل (ر) پرویز مشرف کی اقتدار کی رخصتی کا باعث بنے اور جن کی عدالتی ہیبت ہمارے محترم چیف جسٹس ثاقب نثار سے چار قدم آگے ہی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت محترم جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری، عدلیہ کی تاریخ کے متنازعہ ترین جج کہلاتے ہیں۔
جواد ایس خواجہ کی مختصر مدت ملازمت نے تو ایک ریکارڈ قائم کر دیا یعنی صرف 21دن۔ اُن کے بعد آنے والے جسٹس انور ظہیر جمالی کوئی 16 ماہ چیف جسٹس رہے۔ پھر چیف جسٹس ثاقب نثار آئے اور آج 18جنوری 2019ء کو ہمارے محترم آصف سعید کھوسہ جب عدالت عظمیٰ کی سب سے اونچی کرسی پر بیٹھ رہے ہیں۔ یقینا اُن کے سامنے بہت سے چیلنجز بھی ہیں اور بہت سے کیسز بھی جن کا براہ راست عوام سے تعلق ہے، اُمید یہی رکھی جاتی ہے کہ جس طرح قوم پارلیمنٹیرین اور آمروں سے عاجز آ چکے ہیں اور عدالتوں پر یقین رکھتی ہے کہ شاید وہی اُن کے غموں کا مداوا کرے تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے کاموں کو ہی آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جو انھوں نے پنجاب اور سندھ کے بڑے لینڈ مافیا کے خلاف کارروائی کر کے کیا، انھوں نے عوام کے حقوق کی ہمیشہ بات کی، انھوں نے غریب ورکر ز کے حق میں بات کی۔ وہ عام آدمی کی آواز بنے اور پہلی بار اس ملک میں حقیقی طور پر ''بڑوں'' کا احتساب بھی ہوا۔ لہٰذاجسٹس آصف سعید کھوسہ کو بھی اسی طرز پر کام کرنا ہوگا کیوں کہ قوم جانتی ہے کہ وہ انتہائی ذہین، لائق اور اصول پسند شخصیت ہیں لہٰذاوہ میرٹ پر کبھی کمپرومائز نہیں کریں گے۔
جسٹس ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بے باک فیصلے کیے جن کو عوامی سطح پر پذیرائی ملی۔ انھوں نے عوامی مسائل کا بھی نوٹس لیا، موبائل کمپنیوں کی جانب سے ٹیکس کی کٹوتی ہو یا پھر نجی اسکولوں،کالجز یا اسپتالوں کی فیس، پینے کا پانی، کرپشن، سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی سمیت دیگر اہم کیسز کا فیصلہ بھی سنایا۔ ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے جسٹس ثاقب نثار نے بڑا فیصلہ کیا جس کے بعد ایک مہم شروع ہوئی جو اب ایک تحریک بن چکی ہے۔ پاکستان میں مسلسل پانی کی کمی کا نوٹس لیتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ حکومت اور متعلقہ ادارے ڈیمز کی تعمیر کے حوالے سے اقدامات کریں اور ڈیموں کی تعمیر سے متعلق حکمت عملی پر مبنی رپورٹ تین ہفتے میں پیش کی جائے، عدالتی حکم پر عملدر آمد کے لیے چیئرمین واپڈا کی سربراہی میں کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق ڈیم فنڈ کے لیے خصوصی اکانٹ کھولا گیا۔
جس میں اب تک 9 ارب سے زائد روپے جمع ہو چکے ہیں۔جسٹس میاں ثاقب نثار کے بطور چیف جسٹس آف پاکستان بعض اقدامات پر تنقید بھی کی جاتی ہے کہ انھوں نے ایسے کام کیے جو ان کے کرنے کے نہیں۔ اس وجہ سے سپریم کورٹ پر مقدمات کا بوجھ بڑھتا گیا۔ لیکن اگر غیر جانبدار ہو کر تمام ریکارڈ کا مطالعہ کیا جائے تو بطور چیف جسٹس میاںثاقب نثار نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ کیسز نمٹائے۔ صرف 2018 میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے بینچ نے 7ہزار کے قریب کیسز نمٹائے۔ سپریم کورٹ کی تاریخ میں کسی بھی چیف جسٹس نے آج تک اتنے کیسز کے فیصلے نہیں کیے جتنے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیے۔ انھوں نے کیسز نمٹانے کے علاوہ بہت سے از خود نوٹسز بھی لیے جن سے قوم کو براہ راست فائدہ پہنچا ہے اور مظلوموں کی داد رسی ہوئی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار کے بطور چیف جسٹس 69 اقدامات ایسے ہیں جن سے براہ راست پوری قوم اور مظلوم لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔
اب جسٹس ثاقب نثار کے بعد ایک اور مرد قلندر جسٹس آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس پاکستان کے منصب پر فائز ہو چکے ہیں۔ ان کے والد گرامی سردار فیض محمد کھوسہ قائداعظم کے سچے عاشق تھے۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ''فصل امید''میں تحریر کیا: ''میں جو کچھ ہوں اپنے ملک کی وجہ سے ہوں، انشاء اللہ قائد اعظم کا خواب رائیگاں نہیں جائے گا۔ ہماری نسل آزادی کی شاہد ہے ہم آزادی کی قدروقیمت جانتے ہیں، پاکستان ایک باوقار مضبوط اور متحرک جمہوری ملک بن کر ابھرے گا اور قائد کا وژن پورا ہو گا۔ میرے پانچ بیٹے بیٹیاں اور 15 پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں امید کی فصل ہیں جو پاکستان کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔''سردار فیض محمد کھوسہ کی روح خوش ہو گی کہ ان کی آرزو اور تمنا پوری ہوئی، ان کے بیٹے طارق کھوسہ آئی جی پولیس، ناصر کھوسہ چیف سیکریٹری پنجاب اور آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس پاکستان کے مناصب پر فائز ہوئے۔ انھوں نے امید کی جو فصل کاشت کی تھی وہ پاکستانی قوم کے لیے ثمر آوراور سودمند ثابت ہوئی۔
نئے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کو حالات سازگار ملے ہیں۔ وہ حساس عدالتی سفر کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے آئین اور قانون کی حکمرانی کی روایت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنے پیشرو میاں ثاقب نثار کی چھوڑی ہوئی شاندار روایات کو نہ صرف آگے بڑھائیں گے بلکہ زیرالتوا مقدمات کو نمٹانے اور فوری اور سستے انصاف کے لیے قابل رشک خدمات انجام دیں گے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی موجودگی میں بھی بیشتر بینچوں میں محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ نہ صرف شامل رہے بلکہ مشہور زمانہ پاناما کیس جس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ساری زندگی کے لیے نا اہل ہوئے، اس میں بھی وہ شامل تھے۔
بہرکیف حالیہ دور پاکستان کی سیاسی و عدلیہ کی تاریخ میں ہنگامہ خیز ترین دور کہلائے گا خاص طور پر دسمبر 2013میں محترم جسٹس افتخار محمد چوہدری کی رخصتی کے بعد کہ ہمارے محترم جنرل (ر) پرویز مشرف کی اقتدار کی رخصتی کا باعث بنے اور جن کی عدالتی ہیبت ہمارے محترم چیف جسٹس ثاقب نثار سے چار قدم آگے ہی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت محترم جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری، عدلیہ کی تاریخ کے متنازعہ ترین جج کہلاتے ہیں۔
جواد ایس خواجہ کی مختصر مدت ملازمت نے تو ایک ریکارڈ قائم کر دیا یعنی صرف 21دن۔ اُن کے بعد آنے والے جسٹس انور ظہیر جمالی کوئی 16 ماہ چیف جسٹس رہے۔ پھر چیف جسٹس ثاقب نثار آئے اور آج 18جنوری 2019ء کو ہمارے محترم آصف سعید کھوسہ جب عدالت عظمیٰ کی سب سے اونچی کرسی پر بیٹھ رہے ہیں۔ یقینا اُن کے سامنے بہت سے چیلنجز بھی ہیں اور بہت سے کیسز بھی جن کا براہ راست عوام سے تعلق ہے، اُمید یہی رکھی جاتی ہے کہ جس طرح قوم پارلیمنٹیرین اور آمروں سے عاجز آ چکے ہیں اور عدالتوں پر یقین رکھتی ہے کہ شاید وہی اُن کے غموں کا مداوا کرے تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے کاموں کو ہی آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جو انھوں نے پنجاب اور سندھ کے بڑے لینڈ مافیا کے خلاف کارروائی کر کے کیا، انھوں نے عوام کے حقوق کی ہمیشہ بات کی، انھوں نے غریب ورکر ز کے حق میں بات کی۔ وہ عام آدمی کی آواز بنے اور پہلی بار اس ملک میں حقیقی طور پر ''بڑوں'' کا احتساب بھی ہوا۔ لہٰذاجسٹس آصف سعید کھوسہ کو بھی اسی طرز پر کام کرنا ہوگا کیوں کہ قوم جانتی ہے کہ وہ انتہائی ذہین، لائق اور اصول پسند شخصیت ہیں لہٰذاوہ میرٹ پر کبھی کمپرومائز نہیں کریں گے۔