حکومت ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ عام کرنے پر تذبذب کا شکار
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت نے ایجنسیوں، سیاستدانوں اور عوام کا ردعمل جاننے کیلئے خود رپورٹ افشا کرائی۔
SHEFFIELD:
مسلم لیگ(ن) کی حکومت تاحال ایبٹ آبادکمیشن رپورٹ کوعام کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکارہے ۔
جبکہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی طرف سے فاروق نائیک کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی نے قومی مفاد کے نام پر رپورٹ عام کرنے کی مخالفت کی تھی۔کمیٹی کا کام رپورٹ عام کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے وزیراعظم کو مشورہ دینا تھا۔ فاروق نائیک کے گھر پر کمیٹی کے اجلاس ہوئے جن میں رپورٹ عام نہ کرنے کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کمیٹی کے ایک رکن نے رابطہ کرنے پر اس بات کی تصدیق کی کہ انھوں نے رپورٹ عام کرنے کی مخالفت کی تھی کیونکہ رپورٹ کے عام ہونے سے شرمندگی اور حوصلہ شکنی ہوسکتی تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ رپورٹ کی سفارشات کو سنجیدگی سے لیاجانا چاہیے۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے رپورٹ عام کرنے کے حوالے سے فیصلہ کرنے کی بجائے رپورٹ کے افشا ہونے کی تحقیقات کیلئے کمیٹی بنا دی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت نے ایجنسیوں، سیاستدانوں اور عوام کا ردعمل جاننے کیلئے خود رپورٹ افشا کرائی۔ وزیراطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ حکومت وسیع تر قومی مفاد میں مکمل رپورٹ عام نہ کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ پیپلزپارٹی اب رپورٹ عام کرنے کا مطالبہ کررہی ہے مگر اس نے خود اپنے دور حکومت میں ایسا نہیں کیا۔ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں کا رپورٹ عام کرنے پر اتفاق ہے۔ اگرچہ بعض کا خیال ہے کہ رپورٹ جامع نہیں۔ رپورٹ میں سابق آئی ایس آئی چیف جنرل(ر) محمود اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بیانات شامل نہیں ہیں۔ جنرل محمود کو مشرف نے ملاعمر کے پاس بھیجا تھا کہ اسامہ بن لادن کو امریکہ یا سعودی عرب کے حوالے کردیا جائے۔ مفتی نظام الدین شامزئی اور مفتی جمیل بھی ساتھ تھے جبکہ غالب خیال ہے کہ جنرل محمود نے پیغام نہیں پہنچایا۔ بعدازاں دونوں عالم دین کو قتل کردیا گیا۔ سب سے پہلے جنرل کیانی نے صدر زرداری کو ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے اطلاع دی اس لئے جنرل کیانی کا بیان بھی اہم ہوسکتا تھا۔ اب حکومت کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ اگر رپورٹ عام کی جاتی ہے تو اس موضوع پر دوبارہ بحث شروع ہوجائیگی۔ اس کے علاوہ سول ملٹری تعلقات خراب ہونے کا بھی خدشہ ہے۔
مسلم لیگ(ن) کی حکومت تاحال ایبٹ آبادکمیشن رپورٹ کوعام کرنے کے حوالے سے تذبذب کا شکارہے ۔
جبکہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی طرف سے فاروق نائیک کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی نے قومی مفاد کے نام پر رپورٹ عام کرنے کی مخالفت کی تھی۔کمیٹی کا کام رپورٹ عام کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے وزیراعظم کو مشورہ دینا تھا۔ فاروق نائیک کے گھر پر کمیٹی کے اجلاس ہوئے جن میں رپورٹ عام نہ کرنے کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کمیٹی کے ایک رکن نے رابطہ کرنے پر اس بات کی تصدیق کی کہ انھوں نے رپورٹ عام کرنے کی مخالفت کی تھی کیونکہ رپورٹ کے عام ہونے سے شرمندگی اور حوصلہ شکنی ہوسکتی تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ رپورٹ کی سفارشات کو سنجیدگی سے لیاجانا چاہیے۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے رپورٹ عام کرنے کے حوالے سے فیصلہ کرنے کی بجائے رپورٹ کے افشا ہونے کی تحقیقات کیلئے کمیٹی بنا دی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت نے ایجنسیوں، سیاستدانوں اور عوام کا ردعمل جاننے کیلئے خود رپورٹ افشا کرائی۔ وزیراطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ حکومت وسیع تر قومی مفاد میں مکمل رپورٹ عام نہ کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ پیپلزپارٹی اب رپورٹ عام کرنے کا مطالبہ کررہی ہے مگر اس نے خود اپنے دور حکومت میں ایسا نہیں کیا۔ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں کا رپورٹ عام کرنے پر اتفاق ہے۔ اگرچہ بعض کا خیال ہے کہ رپورٹ جامع نہیں۔ رپورٹ میں سابق آئی ایس آئی چیف جنرل(ر) محمود اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بیانات شامل نہیں ہیں۔ جنرل محمود کو مشرف نے ملاعمر کے پاس بھیجا تھا کہ اسامہ بن لادن کو امریکہ یا سعودی عرب کے حوالے کردیا جائے۔ مفتی نظام الدین شامزئی اور مفتی جمیل بھی ساتھ تھے جبکہ غالب خیال ہے کہ جنرل محمود نے پیغام نہیں پہنچایا۔ بعدازاں دونوں عالم دین کو قتل کردیا گیا۔ سب سے پہلے جنرل کیانی نے صدر زرداری کو ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے اطلاع دی اس لئے جنرل کیانی کا بیان بھی اہم ہوسکتا تھا۔ اب حکومت کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ اگر رپورٹ عام کی جاتی ہے تو اس موضوع پر دوبارہ بحث شروع ہوجائیگی۔ اس کے علاوہ سول ملٹری تعلقات خراب ہونے کا بھی خدشہ ہے۔