نغمہ نگار موج لکھنوی کی یادیں
موج لکھنوی نے لاہورکا بھی ایک چکر لگایا تھا اور چند ماہ رہنے کے بعد وہ واپس کراچی آگئے تھے۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب کراچی میں ایک ایسٹرن فلم اسٹوڈیو تھا جس کے مالک سعید ہارون تھے اور کراچی کی فلم انڈسٹری آہستہ آہستہ اپنے پیروں پرکھڑی ہو رہی تھی۔ اس دور میں فلمی صحافت کو بھی بڑا فروغ حاصل تھا اور کراچی سے ایک درجن سے زیادہ فلمی ہفت روزہ اخبارات شایع ہوتے تھے جن میں شاہجہاں، نورجہاں، کردار، چمنستان اور نگار ویکلی کی بڑی دھوم تھی۔
موج لکھنوی نغمہ نگار بھی تھے اور فلمی صحافی بھی ۔ان دنوں مشہور فلم ساز ادارے فلم آرٹس کے بینر پر اداکار وحید مراد نے اپنی بطور فلمساز پہلی فلم ''ہیرا اور پتھر'' کا آغاز کیا تھا۔ اس فلم میں مسرور انور کے ساتھ موج لکھنوی کے بھی نغمات تھے۔ فلم کے موسیقار سہیل رعنا تھے اس سے پہلے کہ میں موج لکھنوی کی فلمی دنیا سے وابستگی کے تذکرے کو آگے بڑھاؤں موج لکھنوی کے بارے میں چند ماضی کے اوراق الٹتا ہوں۔
موج لکھنوی یکم جون 1938 میں شعر و ادب کے آنگن لکھنو میں پیدا ہوئے اسی دوران جب تھوڑا بہت شعور آیا تو شعر و ادب سے بھی آشنائی ہوتی چلی گئی۔ تقسیم ہندوستان کے بعد یہ اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کی ۔ کراچی میں بھی ابتدا میں کچھ ادبی ماحول میسر آیا تو شاعری اور لکھنے لکھانے سے شوق پیدا ہوتا چلا گیا۔ ان کے والدین انھیں ایک انجینئر بنانا چاہتے تھے۔
موج لکھنوی کا گھریلو نام سید انتظار حسین زیدی تھا انھوں نے والدین کی خواہش کے مطابق میکینکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا مگر وہ اس ڈپلومہ سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے اور بطور صحافی مقامی روزنامہ اخبارات اور ہفت روزہ اخبارات میں مضامین لکھنے لگے۔ انھیں انجینئرنگ سے زیادہ ایک رائٹر بننے سے دلچسپی تھی۔ شروع میں چند رسالوں میں افسانے بھی لکھے اسی دوران ان کی ملاقات ہدایت کار حبیب سرحدی سے ہوئی جو ان دنوں ''تم نہ مانو'' کے نام سے ایک فلم بنا رہے تھے اور اس فلم کے مکالمے لکھنے کے لیے انھوں نے موج لکھنوی کا انتخاب کیا تھا۔
فلم ریلیز ہوئی ناکام ہوگئی مگر بحیثیت مکالمہ نگار موج لکھنوی منظر عام پر آگئے تھے۔ پھر جب کراچی ہی کی ایک فلم ''بارہ بجے'' کا آغاز ہوا تو موج لکھنوی کو فلم کے مکالمے لکھنے کی ذمے داری سپرد کردی گئی اس فلم کے ہدایت کار باقر رضوی تھے۔ ان کی فلم ''بارہ بجے'' کے پہلے ہی ہفتے میں بارہ بج گئے تھے اور فلم فلاپ ہوگئی تھی۔ مگر کراچی کی فلم انڈسٹری دھیمے دھیمے انداز میں سہی مگر آگے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اسی دوران کراچی کی فلموں کے ایک فائٹ انسٹرکٹر نے ایک فلم شروع کی۔ وہ ایک ایکشن فلم تھی اس کا نام تھا ''مسٹر ایکس''۔ اور ڈائریکٹر تھے فائٹ انسٹرکٹر ایس اے غفار اور ''مسٹر ایکس'' کی موسیقی ریڈیو کے دو موسیقار دوستوں لال محمد اور بلند اقبال کو دی تھی۔
لال محمد ریڈیو پر بانسری نواز کی حیثیت سے ریڈیوکے اسٹاف آرٹسٹ تھے اور بلند اقبال مشہور کلاسیکل سنگر اور سارنگی نواز استاد امراؤ بندو خاں کے چھوٹے بھائی تھے۔ اس موسیقار جوڑی کو بعد میں بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ لال محمد اقبال کی موج لکھنوی سے دوستی تھی، موج لکھنوی نے ان دنوں کہا کہ میں پہلے شاعر ہوں بعد میں نثر نگار اور مکالمہ نگار پھر چند گیت موج لکھنوی نے اس موسیقار جوڑی کو سنائے۔ انھیں پسند آئے اور پہلی بار بحیثیت نغمہ نگار موج لکھنوی نے فلم ''مسٹر ایکس'' کا جو پہلا گیت لکھا اس کے بول تھے:
میں دل کے تار چھیڑوں' میں جھوم جھوم گاؤں
اس گیت کو اس دور کی ریڈیو کی مشہورگلوکارہ نسیمہ شاہین نے گایا تھا۔ اور اس گیت کو ریڈیو سے روزانہ نشر کیا جاتا تھا، جب کہ ان کے شوہر بھی ریڈیو پاکستان کراچی بطور پروڈیوسر ملازم تھے، مذکورہ فلم 1962ء میں ریلیز ہوئی تھی اور ایکشن فلم ہونے کی وجہ سے اور اپنے چند مشہورگیتوں کی وجہ سے فلم بینوں میں پسند کی گئی تھی۔ اس فلم میں دیگر کئی گیت بھی مشہور ہوئے تھے جن کے بول تھے:
٭کھوئے کھوئے نین
٭یہ کس کے قدموں کی آہٹ ہے
فلم ''مسٹر ایکس'' کے بعد موج لکھنوی نے وحید مراد کی فلم ''ہیرا اور پتھر'' میں بھی گیت لکھے جس کا ایک گیت بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:
٭آج مجھے کیا ہوا کیسی یہ ہلچل مچی
فلم ''ہیرا اور پتھر'' اپنے دور کی سپرہٹ فلم تھی۔ اس فلم میں وحید مراد اور زیبا کی جوڑی کو فلم بینوں نے بڑا پسند کیا تھا اور مسرور انور اور موج لکھنوی کے گیتوں کو بھی بڑی شہرت ملی تھی۔ اب موج لکھنوی معروف نغمہ نگار کہلائے جاتے تھے۔ اس دوران موسیقار لال محمد اقبال کے بعد موسیقار سہیل رعنا بھی لائم لائٹ میں آگئے تھے۔ جب کہ موسیقار سہیل فلم ''ہیرا اور پتھر'' سے پہلے کراچی میں بطور اکارڈین پلیئر اپنی شناخت رکھتے تھے مگر جب موسیقار بنے تو پھر کراچی کے تمام موسیقاروں میں اپنی ایک منفرد حیثیت بنالی تھی۔ جب کہ ''ہیرا اور پتھر'' کے بعد ارمان، احسان اور دوراہا جیسی مشہور فلموں میں موسیقی دے کر ایک کامیاب ترین موسیقار بن گئے تھے۔ اسی دوران اور کئی موسیقار منظر عام پر آئے جن میں خلیل احمد، دیبو بھٹہ اچاریہ اور بمبئی فلم انڈسٹری سے آئے ہوئے موسیقار نثار بزمی بھی تھے ۔اسی دوران موج لکھنوی کو لاہور کے موسیقار تصدیق کے ساتھ نغمات لکھنے کا موقع ملا فلم تھی ''نئی لیلیٰ نیا مجنوں'' فلم کے ہدایت کار منور رشید تھے۔ اس فلم کے کئی گیتوں نے بہت مقبولیت حاصل کی تھی۔ ان کے بول تھے:
٭دل سے دل ملے پھول کھلے' پیار ملا ہے
٭او میری محبوبہ بتلا تو کیا ہوا
اس فلم کی کامیابی کے بعد منور رشید نے جب دوسری فلم ''روڈ ٹو سوات'' کے نام سے بنائی تو اس فلم کے لیے بھی موج لکھنوی کے نغمات کا سہارا لیا گیا اس کے موسیقار بھی تصدق حسین تھے اس فلم کے بھی دو گیت بڑے مشہور ہوئے تھے:
٭چلے ہیں دل والے روڈ ٹو سوات
٭یہ ادا یہ ناز یہ انداز آپ کا
موج لکھنوی نے پھر کافی فلموں کے لیے نغمات لکھے ان مشہور فلموں میں چند کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ وقت کی پکار، پیار کا موسم، پرائی بیٹی، آگ اور پانی، ہنستے آنسو، جوش، شافی، شاہی فقیر، ہم تم اور وہ کے علاوہ ہیڈ کانسٹیبل بھی شامل تھیں جس کے موسیقار نثار بزمی تھے۔ موج لکھنوی کے لکھے ہوئے گیت سادہ الفاظ کے ساتھ عوامی پذیرائی کے حامل ہوتے تھے۔ یوں تو موج لکھنوی نے بے تحاشا گیت لکھے مگر بعض گیتوں کو بڑی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی تھی ان کے مکھڑے مندرجہ ذیل ہیں:
٭پیا پیا بولے میرا جیا ڈولے ( پیار کا موسم)
٭حسن کا جلوہ عام ہے ( پیارکا موسم)
٭تم ہو حسیں اقرار کرو ( وقت کی پکار)
٭ہم سے یہ خطا ہوگئی دل جو لگایا رے ( جوش)
٭محبت کا اشارہ ہوگیا ہے ( شاہی فقیر)
٭لے کے انگڑائی میرا پیار جگانے والی ( ہیڈ کانسٹیبل)
٭ندیا کے بیچ گوری ہلچل مچائے رے ( نئی لیلیٰ نیا مجنوں)
یہاں میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ فلم نئی لیلیٰ نیا مجنوں میں اداکار کمال کے ساتھ مشرقی پاکستان کی اداکارہ نسیمہ خان اور عالیہ نے کام کیا تھا۔
موج لکھنوی نے لاہورکا بھی ایک چکر لگایا تھا اور چند ماہ رہنے کے بعد وہ واپس کراچی آگئے تھے۔ لاہور میں گروپ بندی کی وجہ سے وہ موسیقار تصدق کے علاوہ اور کسی بھی موسیقار کی توجہ اپنی طرف مبذول نہ کراسکے تھے۔ پھر لاہور فلم انڈسٹری کا ماحول بھی ان کے مزاج کے مطابق نہیں تھا۔ آخرکار انھیں لاہورکو خیر باد کہنا پڑا اور کراچی واپس آگئے تھے۔ کراچی میں اب مسرور انور کے بعد صہبا اختر اور تسلیم فاضلی آگئے تھے پھر موج لکھنوی آہستہ آہستہ پس منظر میں چلے گئے اور پھر وہ اپنے بیٹے کے پاس امریکا آگئے تھے۔ میں جب گزشتہ دنوں ڈیلس گیا تھا تو مجھے پتہ چلا کہ کچھ دن پہلے ہی ڈیلس میں موج لکھنوی کا انتقال ہوگیا تھا اور وہیں انھیں سپرد خاک کردیا گیا تھا اور وہاں کسی کو بھی اس بات کی خبر نہ ہوسکی تھی۔
موج لکھنوی نغمہ نگار بھی تھے اور فلمی صحافی بھی ۔ان دنوں مشہور فلم ساز ادارے فلم آرٹس کے بینر پر اداکار وحید مراد نے اپنی بطور فلمساز پہلی فلم ''ہیرا اور پتھر'' کا آغاز کیا تھا۔ اس فلم میں مسرور انور کے ساتھ موج لکھنوی کے بھی نغمات تھے۔ فلم کے موسیقار سہیل رعنا تھے اس سے پہلے کہ میں موج لکھنوی کی فلمی دنیا سے وابستگی کے تذکرے کو آگے بڑھاؤں موج لکھنوی کے بارے میں چند ماضی کے اوراق الٹتا ہوں۔
موج لکھنوی یکم جون 1938 میں شعر و ادب کے آنگن لکھنو میں پیدا ہوئے اسی دوران جب تھوڑا بہت شعور آیا تو شعر و ادب سے بھی آشنائی ہوتی چلی گئی۔ تقسیم ہندوستان کے بعد یہ اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کی ۔ کراچی میں بھی ابتدا میں کچھ ادبی ماحول میسر آیا تو شاعری اور لکھنے لکھانے سے شوق پیدا ہوتا چلا گیا۔ ان کے والدین انھیں ایک انجینئر بنانا چاہتے تھے۔
موج لکھنوی کا گھریلو نام سید انتظار حسین زیدی تھا انھوں نے والدین کی خواہش کے مطابق میکینکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا مگر وہ اس ڈپلومہ سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے اور بطور صحافی مقامی روزنامہ اخبارات اور ہفت روزہ اخبارات میں مضامین لکھنے لگے۔ انھیں انجینئرنگ سے زیادہ ایک رائٹر بننے سے دلچسپی تھی۔ شروع میں چند رسالوں میں افسانے بھی لکھے اسی دوران ان کی ملاقات ہدایت کار حبیب سرحدی سے ہوئی جو ان دنوں ''تم نہ مانو'' کے نام سے ایک فلم بنا رہے تھے اور اس فلم کے مکالمے لکھنے کے لیے انھوں نے موج لکھنوی کا انتخاب کیا تھا۔
فلم ریلیز ہوئی ناکام ہوگئی مگر بحیثیت مکالمہ نگار موج لکھنوی منظر عام پر آگئے تھے۔ پھر جب کراچی ہی کی ایک فلم ''بارہ بجے'' کا آغاز ہوا تو موج لکھنوی کو فلم کے مکالمے لکھنے کی ذمے داری سپرد کردی گئی اس فلم کے ہدایت کار باقر رضوی تھے۔ ان کی فلم ''بارہ بجے'' کے پہلے ہی ہفتے میں بارہ بج گئے تھے اور فلم فلاپ ہوگئی تھی۔ مگر کراچی کی فلم انڈسٹری دھیمے دھیمے انداز میں سہی مگر آگے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اسی دوران کراچی کی فلموں کے ایک فائٹ انسٹرکٹر نے ایک فلم شروع کی۔ وہ ایک ایکشن فلم تھی اس کا نام تھا ''مسٹر ایکس''۔ اور ڈائریکٹر تھے فائٹ انسٹرکٹر ایس اے غفار اور ''مسٹر ایکس'' کی موسیقی ریڈیو کے دو موسیقار دوستوں لال محمد اور بلند اقبال کو دی تھی۔
لال محمد ریڈیو پر بانسری نواز کی حیثیت سے ریڈیوکے اسٹاف آرٹسٹ تھے اور بلند اقبال مشہور کلاسیکل سنگر اور سارنگی نواز استاد امراؤ بندو خاں کے چھوٹے بھائی تھے۔ اس موسیقار جوڑی کو بعد میں بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ لال محمد اقبال کی موج لکھنوی سے دوستی تھی، موج لکھنوی نے ان دنوں کہا کہ میں پہلے شاعر ہوں بعد میں نثر نگار اور مکالمہ نگار پھر چند گیت موج لکھنوی نے اس موسیقار جوڑی کو سنائے۔ انھیں پسند آئے اور پہلی بار بحیثیت نغمہ نگار موج لکھنوی نے فلم ''مسٹر ایکس'' کا جو پہلا گیت لکھا اس کے بول تھے:
میں دل کے تار چھیڑوں' میں جھوم جھوم گاؤں
اس گیت کو اس دور کی ریڈیو کی مشہورگلوکارہ نسیمہ شاہین نے گایا تھا۔ اور اس گیت کو ریڈیو سے روزانہ نشر کیا جاتا تھا، جب کہ ان کے شوہر بھی ریڈیو پاکستان کراچی بطور پروڈیوسر ملازم تھے، مذکورہ فلم 1962ء میں ریلیز ہوئی تھی اور ایکشن فلم ہونے کی وجہ سے اور اپنے چند مشہورگیتوں کی وجہ سے فلم بینوں میں پسند کی گئی تھی۔ اس فلم میں دیگر کئی گیت بھی مشہور ہوئے تھے جن کے بول تھے:
٭کھوئے کھوئے نین
٭یہ کس کے قدموں کی آہٹ ہے
فلم ''مسٹر ایکس'' کے بعد موج لکھنوی نے وحید مراد کی فلم ''ہیرا اور پتھر'' میں بھی گیت لکھے جس کا ایک گیت بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:
٭آج مجھے کیا ہوا کیسی یہ ہلچل مچی
فلم ''ہیرا اور پتھر'' اپنے دور کی سپرہٹ فلم تھی۔ اس فلم میں وحید مراد اور زیبا کی جوڑی کو فلم بینوں نے بڑا پسند کیا تھا اور مسرور انور اور موج لکھنوی کے گیتوں کو بھی بڑی شہرت ملی تھی۔ اب موج لکھنوی معروف نغمہ نگار کہلائے جاتے تھے۔ اس دوران موسیقار لال محمد اقبال کے بعد موسیقار سہیل رعنا بھی لائم لائٹ میں آگئے تھے۔ جب کہ موسیقار سہیل فلم ''ہیرا اور پتھر'' سے پہلے کراچی میں بطور اکارڈین پلیئر اپنی شناخت رکھتے تھے مگر جب موسیقار بنے تو پھر کراچی کے تمام موسیقاروں میں اپنی ایک منفرد حیثیت بنالی تھی۔ جب کہ ''ہیرا اور پتھر'' کے بعد ارمان، احسان اور دوراہا جیسی مشہور فلموں میں موسیقی دے کر ایک کامیاب ترین موسیقار بن گئے تھے۔ اسی دوران اور کئی موسیقار منظر عام پر آئے جن میں خلیل احمد، دیبو بھٹہ اچاریہ اور بمبئی فلم انڈسٹری سے آئے ہوئے موسیقار نثار بزمی بھی تھے ۔اسی دوران موج لکھنوی کو لاہور کے موسیقار تصدیق کے ساتھ نغمات لکھنے کا موقع ملا فلم تھی ''نئی لیلیٰ نیا مجنوں'' فلم کے ہدایت کار منور رشید تھے۔ اس فلم کے کئی گیتوں نے بہت مقبولیت حاصل کی تھی۔ ان کے بول تھے:
٭دل سے دل ملے پھول کھلے' پیار ملا ہے
٭او میری محبوبہ بتلا تو کیا ہوا
اس فلم کی کامیابی کے بعد منور رشید نے جب دوسری فلم ''روڈ ٹو سوات'' کے نام سے بنائی تو اس فلم کے لیے بھی موج لکھنوی کے نغمات کا سہارا لیا گیا اس کے موسیقار بھی تصدق حسین تھے اس فلم کے بھی دو گیت بڑے مشہور ہوئے تھے:
٭چلے ہیں دل والے روڈ ٹو سوات
٭یہ ادا یہ ناز یہ انداز آپ کا
موج لکھنوی نے پھر کافی فلموں کے لیے نغمات لکھے ان مشہور فلموں میں چند کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ وقت کی پکار، پیار کا موسم، پرائی بیٹی، آگ اور پانی، ہنستے آنسو، جوش، شافی، شاہی فقیر، ہم تم اور وہ کے علاوہ ہیڈ کانسٹیبل بھی شامل تھیں جس کے موسیقار نثار بزمی تھے۔ موج لکھنوی کے لکھے ہوئے گیت سادہ الفاظ کے ساتھ عوامی پذیرائی کے حامل ہوتے تھے۔ یوں تو موج لکھنوی نے بے تحاشا گیت لکھے مگر بعض گیتوں کو بڑی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی تھی ان کے مکھڑے مندرجہ ذیل ہیں:
٭پیا پیا بولے میرا جیا ڈولے ( پیار کا موسم)
٭حسن کا جلوہ عام ہے ( پیارکا موسم)
٭تم ہو حسیں اقرار کرو ( وقت کی پکار)
٭ہم سے یہ خطا ہوگئی دل جو لگایا رے ( جوش)
٭محبت کا اشارہ ہوگیا ہے ( شاہی فقیر)
٭لے کے انگڑائی میرا پیار جگانے والی ( ہیڈ کانسٹیبل)
٭ندیا کے بیچ گوری ہلچل مچائے رے ( نئی لیلیٰ نیا مجنوں)
یہاں میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ فلم نئی لیلیٰ نیا مجنوں میں اداکار کمال کے ساتھ مشرقی پاکستان کی اداکارہ نسیمہ خان اور عالیہ نے کام کیا تھا۔
موج لکھنوی نے لاہورکا بھی ایک چکر لگایا تھا اور چند ماہ رہنے کے بعد وہ واپس کراچی آگئے تھے۔ لاہور میں گروپ بندی کی وجہ سے وہ موسیقار تصدق کے علاوہ اور کسی بھی موسیقار کی توجہ اپنی طرف مبذول نہ کراسکے تھے۔ پھر لاہور فلم انڈسٹری کا ماحول بھی ان کے مزاج کے مطابق نہیں تھا۔ آخرکار انھیں لاہورکو خیر باد کہنا پڑا اور کراچی واپس آگئے تھے۔ کراچی میں اب مسرور انور کے بعد صہبا اختر اور تسلیم فاضلی آگئے تھے پھر موج لکھنوی آہستہ آہستہ پس منظر میں چلے گئے اور پھر وہ اپنے بیٹے کے پاس امریکا آگئے تھے۔ میں جب گزشتہ دنوں ڈیلس گیا تھا تو مجھے پتہ چلا کہ کچھ دن پہلے ہی ڈیلس میں موج لکھنوی کا انتقال ہوگیا تھا اور وہیں انھیں سپرد خاک کردیا گیا تھا اور وہاں کسی کو بھی اس بات کی خبر نہ ہوسکی تھی۔