نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حلف اٹھا لیا
نئے چیف جسٹس پاکستان آصف سعیدکھوسہ نے کہا ہے کہ فوج اور حساس اداروں کا سویلین معاملات میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔
نئے چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ملک کے 26 ویں چیف جسٹس کے عہدے کا جمعے کو حلف اٹھا لیا، صدر عارف علوی نے ایوان صدر میں ان سے حلف لیا، جسٹس آصف سعید کھوسہ ملک کے 26 ویں چیف جسٹس ہونگے، تقریب میں وزیراعظم عمران خان، وزرائے اعلیٰ ، گورنرز، آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ، بحریہ و فضائیہ کے سربراہ ، وزراء ، مشیروں، اہم عہدوں پر تعینات دیگر شخصیات اور سابق چیف جسٹس صاحبان بھی شریک ہوئے ۔
نئے چیف جسٹس پاکستان آصف سعیدکھوسہ نے کہا ہے کہ فوج اور حساس اداروں کا سویلین معاملات میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے، از خود نوٹس کا اختیار بہت کم استعمال کریں گے، یہ اختیار صرف وہاں استعمال کیا جائے گا جہاں کوئی دوسرا حل نہیں ہوگا۔جسٹس آصف سعید جمعرات کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ان کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کر رہے تھے، اس موقع پر جج صاحبان، بار کے عہدیدار اور سینئروکلا بھی موجود تھے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بطور چیف جسٹس انصاف کی فراہمی میں تعطل دور کرنے کی کوشش کروں گا، جسٹس ثاقب نثار کی طرح میں بھی ڈیم تعمیر کرنا چاہتا ہوں اور ملک کا قرضہ اتارنا چاہتا ہوں لیکن میں ڈیم جعلی مقدمات میں جعلی گواہوں اور مقدمات کی تاخیرکیخلاف بناؤں گا اور عرصہ دراز سے زیر التوا مقدمات کا قرض اتاروں گا، مقدمات کا غیر ضروری التوا روکنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا، اس وقت عدالتوں میں19 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں،3 ہزار ججز یہ مقدمات نہیں نمٹا سکتے، ملٹری کورٹس میں سویلینز کا ٹرائل ساری دنیا میں غلط سمجھا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ فوجی عدالتوں میں جلد فیصلے ہوتے ہیں، کوشش کریں گے سول عدالتوں میں جلد فیصلے ہوں۔ پچھلے ادوار میں ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوئی، سول اداروں کی بالادستی ہونی چاہیے، لاپتہ افراد کا معاملہ بہت سنگین ہے، مقننہ کا کام صرف قانون سازی ہے، ترقیاتی فنڈز دینا یا ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں، صدر پاکستان کی سربراہی میں چارٹر آف گورننس پر بحث کی ضرورت ہے، جمہوری استحکام کے لیے تمام ریاستی اداروں کا فعال ہونا ضروری ہے، ملک کی ترقی کے لیے تمام اداروں کو ملکر کام کرنا چاہیے، ہمیں بات کرنی چاہیے کہ کس ادارے نے کہاں دوسرے کے کام میں مداخلت کی، عدلیہ نے کہاں دوسرے اداروں کے اختیارات میں مداخلت کی، گزشتہ غلطیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں کسی بھی مسئلے پر بات کرنے سے نہیںگھبرانا چاہیے، سچ کو سچ کہنا چاہیے، ہائیکورٹ کو اپنے اختیارات حدودکے اندر رہ کر استعمال کرنے چاہئیں۔
نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ ماتحت عدلیہ میں عرصہ دراز سے زیرالتوا مقدمات کا قرض اتارنے کی کوشش کروں گا اور اس کے لیے آخری دم تک لڑوں گا۔
دریں اثنا سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ انھوں نے پسے ہوئے لوگوں کے حقوق کے لیے کام کیا اور ہر شخص کو عزت سے زندگی گزارنے کا حق دیا، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا، انھیں لوگوں نے جو عزت دی اس کو لوٹانے کی کوشش کی۔ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ اس عدالت نے کئی معرکۃ الآرا فیصلے دیے، سب سے پہلے گلگت بلتستان کا فیصلہ ہے، ملک میں پانی کی کمی، نجی اسپتالوں اور اسکولوں کی فیسوں پر نوٹس لیا، نادرا کو خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا کہا، آبادی میں اضافے کا مسئلہ اٹھایا، پوری قوم نے ڈیم کے لیے عطیات دیے، جج کی زندگی میں ڈر کی کوئی گنجائش نہیں، انصاف کی فراہمی میں ساتھی ججز کا مشکور ہوں۔
اے پی پی کے مطابق انھوں نے کہا کہ بطور چیف جسٹس ہر کام ججوں کے ضابطہ اخلاق میں رہتے ہوئے انجام دیا ہے، میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ملک کے لیے کسی حد تک کام کیا ہے، ججوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کرنی چاہئیں اور یہ امر بالکل واضح ہے کہ عدلیہ میں کرپشن انصاف کا قتل ہے۔
ملک کی عدالتی تاریخ میں آج کا دن بہت اہمیت کا حامل ہے، جمہوری نظام میں آزادعدلیہ اور ججز کے فیصلے قومی زندگی کی صائب تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، بادی النظر میں اس حقیقت کی عکاسی ہوتی ہے کہ ملک میں آئینی ادارے مضبوط ہورہے ہیں، جمہوری عمل جاری ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ جمہوریت سے تجدید عہد میں آئین و قانون کی پاسداری اور قومی امنگوں کی ترجمانی میں ہر محب وطن پاکستانی اپنا کردارجوش و ولولے سے اداکرتا رہیگا اور ریاست کے تمام ستون اپنی قومی و آئینی ذمے داریوں کی انجام دہی میں ہمیشہ ایک پیج پر ہوں گے۔ یاد رہے جمہوریت کا بریک تھرو اور اس کی مسلمہ اساس قانون کی حکمرانی میں مضمر ہے۔
نئے چیف جسٹس پاکستان آصف سعیدکھوسہ نے کہا ہے کہ فوج اور حساس اداروں کا سویلین معاملات میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے، از خود نوٹس کا اختیار بہت کم استعمال کریں گے، یہ اختیار صرف وہاں استعمال کیا جائے گا جہاں کوئی دوسرا حل نہیں ہوگا۔جسٹس آصف سعید جمعرات کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ان کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کر رہے تھے، اس موقع پر جج صاحبان، بار کے عہدیدار اور سینئروکلا بھی موجود تھے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بطور چیف جسٹس انصاف کی فراہمی میں تعطل دور کرنے کی کوشش کروں گا، جسٹس ثاقب نثار کی طرح میں بھی ڈیم تعمیر کرنا چاہتا ہوں اور ملک کا قرضہ اتارنا چاہتا ہوں لیکن میں ڈیم جعلی مقدمات میں جعلی گواہوں اور مقدمات کی تاخیرکیخلاف بناؤں گا اور عرصہ دراز سے زیر التوا مقدمات کا قرض اتاروں گا، مقدمات کا غیر ضروری التوا روکنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا، اس وقت عدالتوں میں19 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں،3 ہزار ججز یہ مقدمات نہیں نمٹا سکتے، ملٹری کورٹس میں سویلینز کا ٹرائل ساری دنیا میں غلط سمجھا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ فوجی عدالتوں میں جلد فیصلے ہوتے ہیں، کوشش کریں گے سول عدالتوں میں جلد فیصلے ہوں۔ پچھلے ادوار میں ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوئی، سول اداروں کی بالادستی ہونی چاہیے، لاپتہ افراد کا معاملہ بہت سنگین ہے، مقننہ کا کام صرف قانون سازی ہے، ترقیاتی فنڈز دینا یا ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں، صدر پاکستان کی سربراہی میں چارٹر آف گورننس پر بحث کی ضرورت ہے، جمہوری استحکام کے لیے تمام ریاستی اداروں کا فعال ہونا ضروری ہے، ملک کی ترقی کے لیے تمام اداروں کو ملکر کام کرنا چاہیے، ہمیں بات کرنی چاہیے کہ کس ادارے نے کہاں دوسرے کے کام میں مداخلت کی، عدلیہ نے کہاں دوسرے اداروں کے اختیارات میں مداخلت کی، گزشتہ غلطیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں کسی بھی مسئلے پر بات کرنے سے نہیںگھبرانا چاہیے، سچ کو سچ کہنا چاہیے، ہائیکورٹ کو اپنے اختیارات حدودکے اندر رہ کر استعمال کرنے چاہئیں۔
نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ ماتحت عدلیہ میں عرصہ دراز سے زیرالتوا مقدمات کا قرض اتارنے کی کوشش کروں گا اور اس کے لیے آخری دم تک لڑوں گا۔
دریں اثنا سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ انھوں نے پسے ہوئے لوگوں کے حقوق کے لیے کام کیا اور ہر شخص کو عزت سے زندگی گزارنے کا حق دیا، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا، انھیں لوگوں نے جو عزت دی اس کو لوٹانے کی کوشش کی۔ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ اس عدالت نے کئی معرکۃ الآرا فیصلے دیے، سب سے پہلے گلگت بلتستان کا فیصلہ ہے، ملک میں پانی کی کمی، نجی اسپتالوں اور اسکولوں کی فیسوں پر نوٹس لیا، نادرا کو خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا کہا، آبادی میں اضافے کا مسئلہ اٹھایا، پوری قوم نے ڈیم کے لیے عطیات دیے، جج کی زندگی میں ڈر کی کوئی گنجائش نہیں، انصاف کی فراہمی میں ساتھی ججز کا مشکور ہوں۔
اے پی پی کے مطابق انھوں نے کہا کہ بطور چیف جسٹس ہر کام ججوں کے ضابطہ اخلاق میں رہتے ہوئے انجام دیا ہے، میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ملک کے لیے کسی حد تک کام کیا ہے، ججوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کرنی چاہئیں اور یہ امر بالکل واضح ہے کہ عدلیہ میں کرپشن انصاف کا قتل ہے۔
ملک کی عدالتی تاریخ میں آج کا دن بہت اہمیت کا حامل ہے، جمہوری نظام میں آزادعدلیہ اور ججز کے فیصلے قومی زندگی کی صائب تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، بادی النظر میں اس حقیقت کی عکاسی ہوتی ہے کہ ملک میں آئینی ادارے مضبوط ہورہے ہیں، جمہوری عمل جاری ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ جمہوریت سے تجدید عہد میں آئین و قانون کی پاسداری اور قومی امنگوں کی ترجمانی میں ہر محب وطن پاکستانی اپنا کردارجوش و ولولے سے اداکرتا رہیگا اور ریاست کے تمام ستون اپنی قومی و آئینی ذمے داریوں کی انجام دہی میں ہمیشہ ایک پیج پر ہوں گے۔ یاد رہے جمہوریت کا بریک تھرو اور اس کی مسلمہ اساس قانون کی حکمرانی میں مضمر ہے۔