کارکردگی کے طمانچے
ایوب خان حکومت کی شاندار کارکردگی کے صلے میں انھیں ایوب کت کت کا خطاب ملا۔
پنجاب کے وزیر اطلاعات نے شہباز شریف کی کارکردگی پر طنزکرتے ہوئے کہا ہے کہ'' پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہیٹ اور لمبے شوز پہن کر سابق وزیر اعلیٰ کی طرح ڈرامے نہیں کرتے اور وہ ڈراموں کا جواب اپنی کارکردگی کے طمانچے سے دیں گے۔''
قیام پاکستان کے بعد بد قسمتی سے بانی پاکستان 13 ماہ بعد ہی علالت کے باعث ہم سے جدا ہو گئے تھے اور ان کی سب سے بہترین کارکردگی اس ملک کی آزادی تھی اور بعد میں وزیر اعظم لیاقت علی خان نئے ملک کو سنبھالنے اور اس کی بنیادیں مضبوط نہ کر پائے تھے کہ سازشوں کا نشانہ بن کر شہید کر دیے گئے تھے جس کے بعد اقتدار کے خواہش مندوں کی ریشہ دوانیوں کے باعث جوتوں میں دال بٹنے لگی اور سیاستدانوں کے باہمی اختلافات کا بھرپور فائدہ بیوروکریٹس نے اٹھایا ۔
سیاسی اختلافات ختم نہ ہو سکے تو فوجی جنرل ایوب خان نے 1958ء ، 27 اکتوبرکو ملک میں مارشل لا نافذکر کے ایک طرف سیاستدانوں کو تگنی کا ناچ نچایا اور دوسری طرف ملک میں صنعتی، مواصلاتی اور معاشی ترقی کی کوشش کی ، جو ان کے دس سالہ اقتدارکا تاریخی ریکارڈ ہے، جو اب تک کوئی سیاسی حکومت نہ توڑ سکی ، البتہ صدر ایوب کے اقتدار چھوڑنے کے بعد جنرل یحییٰ کی فوجی حکومت نے 1970ء میں عام انتخابات تو کرائے مگر مغربی پاکستان میں اکثریت وہ بھی دو صوبوں میں حاصل کرنے کے بعد مشرقی پاکستان میں بھرپور اکثریت حاصل کرنے والے کو اقتدار منتقل کرنے نہیں دیا ۔
ادھر ہم ادھر تم کی پیشکش نے ملک دو لخت کرا دیا اور مغربی پاکستان ہی پاکستان بن گیا۔ سیاسی سازشوں اور حصول اقتدار کی خواہش ملک ٹوٹنے کی وجہ بنی مگر اپنی سیاست بچانے کے لیے الزام جنرل یحییٰ پر ڈال دیا جن میں اخلاقی برائیاں تو تھیں مگر ان پر اور دو سابق بیورو کریٹس حکمرانوں غلام محمد اور اسکندر مرزا پر سیاستدانوں کی طرح کرپشن کا کوئی الزام نہیں اور کرپشن کے الزامات سے محفوظ جنرل ایوب کی دس سالہ کارکردگی اور ترقی کے طمانچے کا جواب اب تک ملک کا کوئی سیاسی حکمران نہیں دے سکا ہے۔
طویل عرصہ اقتدار میں رہنے والے جنرل ایوب خان نے اپنے دور میں ملک میں ریکارڈ ترقی دلائی۔ جنرل ضیا الحق نے ملک میں اسلامی تشخص اجاگر کرنے کے علاوہ جشن آزادی دھوم دھام سے منانے کی روایت ڈالی جو ہر سال مسلسل بڑھ رہی ہے جب کہ اس سے قبل ہم اپنا جشن آزادی صرف سرکاری اداروں پر قومی پرچم لہرا کر معذرت خواہانہ طور پر محدود پیمانے پر منایا کرتے تھے۔
جنرل ایوب خان نے پہلی بار ملک میں پہلی بار بلدیاتی بی ڈی سسٹم نافذ کیا۔ جنرل ضیا نے ملک کو 1979ء کا بلدیاتی نظام دے کر تین بار بلدیاتی انتخابات کرائے۔ جنرل پرویز مشرف نے ملک سے کمشنری نظام ختم کر کے سب سے زیادہ بااختیار بلدیاتی نظام نافذ کر کے دو بار ضلعی حکومتوں کے لیے انتخابات کرا کر نچلی سطح پر بلدیاتی نمایندوں کو بااختیار بنایا۔ تینوں فوجی حکمرانوں پر آمریت کا الزام تو لگایا جاتا ہے مگر کرپشن کے الزامات فوجی حکومتوں میں کسی ایک پر بھی نہیں لگا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے تین تین بار حکومت کی اور دونوں کرپشن کے معاملات بھگت رہی ہیں جب کہ جنرل ضیا اور جنرل پرویز کے غیر جماعتی انتخابات میں دونوں کی سرپرستی میں قائم ہونے والی دو مسلم لیگی حکومتوں پر کرپشن کے الزامات اتنے نہیں لگے جتنے الزامات بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور آصف زرداری کی حکومتوں پر لگے اور موجودہ حکومت کرپشن مخالفت پر ہی قائم کی گئی ہے۔
پانچ پانچ سال کی مدت مکمل کرنے والی پی پی اور (ن) لیگ کے سربراہوں کے دعوؤں میں وزن ہے۔ آصف زرداری آئین کی بحالی اور صوبوں کو بااختیار بنانے کے دعویدار ہیں تو نواز شریف ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کرانے اور ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے دعوے میں حق بجانب ہیں اور دونوں کرپشن کے سنگین الزامات کی زد میں بھی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں کارکردگی کی قدر ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔
ایوب خان حکومت کی شاندار کارکردگی کے صلے میں انھیں ایوب کت کت کا خطاب ملا۔ ان کے دور میں صرف چینی معمولی مہنگی ہونے پر قوم سڑکوں پر آ گئی تھی اور ایوب حکومت جیسی کارکردگی نہ دکھانے والی سیاسی حکومتوں نے مہنگائی آسمان پر پہنچا دی مگر مہنگائی کے خلاف کبھی قوم سڑکوں پر نہیں آئی نہ سیاسی جماعتیں کچھ کر سکیں۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی دس سالہ حکومتی کارکردگی باقی تینوں حکومتوں سے بہترین تھی جس نے پنجاب کا نقشہ بدل دیا۔ انھیں ملک میں پہلی بار میٹرو چلانے کا اعزاز ملا تو میٹرو کو جنگلہ بس قرار دیا گیا اور پھر پشاور میں میٹرو شروع کرا کر اپنے الزام واپس لینے کی کسی کو اخلاقی توفیق نہیں ہوئی۔
کراچی کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے بڑھاپے میں زبردست کارکردگی دکھائی تھی مگر بعد میں الخدمت مسترد قرار پائی۔ کارکردگی پنجاب میں پرویز الٰہی حکومت کی بھی اچھی تھی مگر (ق) لیگ 2008ء کا الیکشن ہاری اور کارکردگی نہ دکھانے والی پی پی کی سندھ حکومت اقتدار کے تیسری بار مزے لے رہی ہے۔ کارکردگی کا طمانچہ کارکردگی دکھانے والوں پر لگ رہا ہے اور کام کرنے والے اپنے کاموں کی سزا بھگت رہے ہیں جس کے ذمے دار ان کی کارکردگی میں روڑے اٹکانے والے کارکردگی کا اعتراف سیاسی وجہ سے تسلیم نہ کرنے والوں کے علاوہ عوام بھی ہیں جو کارکردگی پر سیاست کو ترجیح دیتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد بد قسمتی سے بانی پاکستان 13 ماہ بعد ہی علالت کے باعث ہم سے جدا ہو گئے تھے اور ان کی سب سے بہترین کارکردگی اس ملک کی آزادی تھی اور بعد میں وزیر اعظم لیاقت علی خان نئے ملک کو سنبھالنے اور اس کی بنیادیں مضبوط نہ کر پائے تھے کہ سازشوں کا نشانہ بن کر شہید کر دیے گئے تھے جس کے بعد اقتدار کے خواہش مندوں کی ریشہ دوانیوں کے باعث جوتوں میں دال بٹنے لگی اور سیاستدانوں کے باہمی اختلافات کا بھرپور فائدہ بیوروکریٹس نے اٹھایا ۔
سیاسی اختلافات ختم نہ ہو سکے تو فوجی جنرل ایوب خان نے 1958ء ، 27 اکتوبرکو ملک میں مارشل لا نافذکر کے ایک طرف سیاستدانوں کو تگنی کا ناچ نچایا اور دوسری طرف ملک میں صنعتی، مواصلاتی اور معاشی ترقی کی کوشش کی ، جو ان کے دس سالہ اقتدارکا تاریخی ریکارڈ ہے، جو اب تک کوئی سیاسی حکومت نہ توڑ سکی ، البتہ صدر ایوب کے اقتدار چھوڑنے کے بعد جنرل یحییٰ کی فوجی حکومت نے 1970ء میں عام انتخابات تو کرائے مگر مغربی پاکستان میں اکثریت وہ بھی دو صوبوں میں حاصل کرنے کے بعد مشرقی پاکستان میں بھرپور اکثریت حاصل کرنے والے کو اقتدار منتقل کرنے نہیں دیا ۔
ادھر ہم ادھر تم کی پیشکش نے ملک دو لخت کرا دیا اور مغربی پاکستان ہی پاکستان بن گیا۔ سیاسی سازشوں اور حصول اقتدار کی خواہش ملک ٹوٹنے کی وجہ بنی مگر اپنی سیاست بچانے کے لیے الزام جنرل یحییٰ پر ڈال دیا جن میں اخلاقی برائیاں تو تھیں مگر ان پر اور دو سابق بیورو کریٹس حکمرانوں غلام محمد اور اسکندر مرزا پر سیاستدانوں کی طرح کرپشن کا کوئی الزام نہیں اور کرپشن کے الزامات سے محفوظ جنرل ایوب کی دس سالہ کارکردگی اور ترقی کے طمانچے کا جواب اب تک ملک کا کوئی سیاسی حکمران نہیں دے سکا ہے۔
طویل عرصہ اقتدار میں رہنے والے جنرل ایوب خان نے اپنے دور میں ملک میں ریکارڈ ترقی دلائی۔ جنرل ضیا الحق نے ملک میں اسلامی تشخص اجاگر کرنے کے علاوہ جشن آزادی دھوم دھام سے منانے کی روایت ڈالی جو ہر سال مسلسل بڑھ رہی ہے جب کہ اس سے قبل ہم اپنا جشن آزادی صرف سرکاری اداروں پر قومی پرچم لہرا کر معذرت خواہانہ طور پر محدود پیمانے پر منایا کرتے تھے۔
جنرل ایوب خان نے پہلی بار ملک میں پہلی بار بلدیاتی بی ڈی سسٹم نافذ کیا۔ جنرل ضیا نے ملک کو 1979ء کا بلدیاتی نظام دے کر تین بار بلدیاتی انتخابات کرائے۔ جنرل پرویز مشرف نے ملک سے کمشنری نظام ختم کر کے سب سے زیادہ بااختیار بلدیاتی نظام نافذ کر کے دو بار ضلعی حکومتوں کے لیے انتخابات کرا کر نچلی سطح پر بلدیاتی نمایندوں کو بااختیار بنایا۔ تینوں فوجی حکمرانوں پر آمریت کا الزام تو لگایا جاتا ہے مگر کرپشن کے الزامات فوجی حکومتوں میں کسی ایک پر بھی نہیں لگا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے تین تین بار حکومت کی اور دونوں کرپشن کے معاملات بھگت رہی ہیں جب کہ جنرل ضیا اور جنرل پرویز کے غیر جماعتی انتخابات میں دونوں کی سرپرستی میں قائم ہونے والی دو مسلم لیگی حکومتوں پر کرپشن کے الزامات اتنے نہیں لگے جتنے الزامات بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور آصف زرداری کی حکومتوں پر لگے اور موجودہ حکومت کرپشن مخالفت پر ہی قائم کی گئی ہے۔
پانچ پانچ سال کی مدت مکمل کرنے والی پی پی اور (ن) لیگ کے سربراہوں کے دعوؤں میں وزن ہے۔ آصف زرداری آئین کی بحالی اور صوبوں کو بااختیار بنانے کے دعویدار ہیں تو نواز شریف ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کرانے اور ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے دعوے میں حق بجانب ہیں اور دونوں کرپشن کے سنگین الزامات کی زد میں بھی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں کارکردگی کی قدر ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔
ایوب خان حکومت کی شاندار کارکردگی کے صلے میں انھیں ایوب کت کت کا خطاب ملا۔ ان کے دور میں صرف چینی معمولی مہنگی ہونے پر قوم سڑکوں پر آ گئی تھی اور ایوب حکومت جیسی کارکردگی نہ دکھانے والی سیاسی حکومتوں نے مہنگائی آسمان پر پہنچا دی مگر مہنگائی کے خلاف کبھی قوم سڑکوں پر نہیں آئی نہ سیاسی جماعتیں کچھ کر سکیں۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی دس سالہ حکومتی کارکردگی باقی تینوں حکومتوں سے بہترین تھی جس نے پنجاب کا نقشہ بدل دیا۔ انھیں ملک میں پہلی بار میٹرو چلانے کا اعزاز ملا تو میٹرو کو جنگلہ بس قرار دیا گیا اور پھر پشاور میں میٹرو شروع کرا کر اپنے الزام واپس لینے کی کسی کو اخلاقی توفیق نہیں ہوئی۔
کراچی کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے بڑھاپے میں زبردست کارکردگی دکھائی تھی مگر بعد میں الخدمت مسترد قرار پائی۔ کارکردگی پنجاب میں پرویز الٰہی حکومت کی بھی اچھی تھی مگر (ق) لیگ 2008ء کا الیکشن ہاری اور کارکردگی نہ دکھانے والی پی پی کی سندھ حکومت اقتدار کے تیسری بار مزے لے رہی ہے۔ کارکردگی کا طمانچہ کارکردگی دکھانے والوں پر لگ رہا ہے اور کام کرنے والے اپنے کاموں کی سزا بھگت رہے ہیں جس کے ذمے دار ان کی کارکردگی میں روڑے اٹکانے والے کارکردگی کا اعتراف سیاسی وجہ سے تسلیم نہ کرنے والوں کے علاوہ عوام بھی ہیں جو کارکردگی پر سیاست کو ترجیح دیتے ہیں۔