کام کے لوگ
عوام نااہلی، سرخ فیتے اور تاخیری حربوں سے اکتا چکے ہیں اور اسی سے بدعنوانی اور رشوت کا دروازہ کھلتا ہے۔
کرپشن کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ بہتر حکمرانی بھی پاکستان کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ بری حکمرانی کا مطلب ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے اپنی ذمے داریاں نہیں نبھا رہے۔
ایسی صورت حال جہاں شہریوں کے لیے خدمات کی فراہمی پر منفی اثرات مرتب کرکے ان کی زندگیوں کو دشوار بنا دیتی ہے وہیں سرمایہ کاری کے عمل کو تعطل ، بد انتظامی یا رکاوٹوں کا شکار کردیتی ہے، حکومتی وسائل کے ضیاع کا سبب بن کر معاشی نمو کو روک دیتی ہے۔
عوام نااہلی، سرخ فیتے اور تاخیری حربوں سے اکتا چکے ہیں اور اسی سے بدعنوانی اور رشوت کا دروازہ کھلتا ہے۔ جب عمران خان نے وزارت اعظمیٰ کا قلم دان سنبھالا تو لوگوں کو اس سب میں اضافے کی نہیں بلکہ کمی کی توقع تھی۔ بدقسمتی سے عوام میں یہ تاثر زائل ہوتا نظر آتا ہے، جس کا سبب عمران خان حکومت کی جانب سے خدمات کی فراہمی کے لیے کی گئی غیر مناسب تقرریاں ہیں۔
ریاست کی خدمت کا دائرہ اپنے ملازمین تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیش نظر پورا معاشرہ ہوتا ہے۔ اگر ریاست ایسا کرنے میں واضح طور پر ناکام رہے تو اسے ناکام ریاست کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے حالیہ مختصر دورے کے دوران پاکستان میں امریکا کے سابق سفیر اور ایسٹ ویسٹ سینٹر کے موجودہ صدر کیمرون منٹر نے ہماری اس داخلی حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ امریکا کی جانب سے فراہم کی جانے والی زیادہ تر ترقیاتی امداد اور کوششیں ضایع ہوتی رہی ہیں کیوں کہ رقوم اور منصوبوں کو پاکستانی ادارے موثر طور پر بروئے کار نہیں لاسکے۔ زیادہ تر معاملات میں امدادی رقوم کرپشن کی نذر ہوگئیں۔ لہذا ترقیاتی امداد بھی تب بے کار ہوجاتی ہے جب اس کو بروئے کار لانے والے ادارے نا اہل ہوں۔
حکمرانی کو بہتر بنانا ،کرپشن کے خلاف جنگ کے بعد، نئے پاکستان کے قیام کی جانب دوسرا اہم قدم ہے۔ ایسا دو طریقوںسے ہوسکتا ہے،ایک طریقہ ادارہ جاتی اصلاحات ہیں اور دوسرا طریقہ مناسب تقرریاں۔ادارہ جاتی اصلاحات اور سول سروسز کی تنظیمِ نو کے حوالے سے ڈاکٹر عشرت حسین کمیشن کام کر رہا ہے۔ذاتی مفادات کے پیش نظر یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ کمیشن کی تجاویز کو ان عناصر کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے جو اپنے اختیارات اور اثر و رسوخ میں کمی کے حوالے سے خوف زدہ ہیں۔اس تناظر میں یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ مناسب تقرریاں کیوں نہیں ہو رہیں۔ میرٹ، یعنی پیشہ ورانہ قابلیت،تجربے اور کردار وغیرہ کو کسی بھی سطح پر تقرریوں کے لیے واحد اصول ہونا چاہیے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں میرٹ نظر انداز کیا جاتا ہو اس اصول کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ جب تقرریوں کے لیے انتخاب کے طریقہ کار میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے تو یہ سب بہت تفصیل کے ساتھ واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔جو لوگ صرف قسمت یا اقرباء پروری کے سبب پہلے سے سسٹم میں موجود ہیں وہ میرٹ پر ہونے والی نئی تقرریوں سے عدم تحفظ کا شکار ہوں گے۔ نئے آنے والے زیادہ تر معاملوں میں بہتر قابلیت اور اہلیت کے حامل ہوں گے۔ مزید یہ کہ میرٹ پر آنے کے سبب وہ کسی ایسے سینیئر یا ہم کار کو برداشت نہیں کرسکیں گے جو میرٹ پر بھرتی نہیں ہوا۔ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے پرانے عناصر نئے آنے والوں کے لیے جگہ بناناحتٰی الامکان مشکل کردیں گے۔
اگرچہ یہ ایک بہت کٹھن کام ہے مگر کیا اس بنا پر اسے پس پشت ڈالا جاسکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! اقربا پروری سے نمٹنے کو تیار اور ایمان دار مرد و خواتین کی جانب سے بہت احتیاط کے ساتھ منتخب کی گئی نئی اور بہتر افرادی قوت سامنے لانے کا کوئی راستہ ڈھونڈنا ہی ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سرکاری عہدوںکے امیدواروں میں انکسار، لگن اور ٹیم ورک کی صلاحیت بھی جانچنا ہوگی۔
ایک اور طریقہ پہلے سے موجود بہتر افراد کو آگے لانا بھی ہوسکتا ہے۔اداروں میں موجودسب لوگ بے کار نہیں ہیں۔ بہت سے افراد کو صرف مطلوبہ معلومات تک رسائی اور بہتر تربیت کی ضرورت ہے۔ برسوں تک ملازمت کرنے کے بعد دوبارہ زیرِ تربیت آنا ان کے لیے مشکل ہوسکتا ہے جو جوان نہیں رہے اور ایک عرصے سے تربیتی عمل سے باہر ہیں۔ اس کے لیے جہاں اپنے ادارے اور ملازمت کے ساتھ لگاؤ، نیز چیلنج سے نمٹنے کی جرأت چاہیے، وہیں خود احتسابی کی ناگزیر صلاحیت بھی درکار ہے۔
یہ صلاحیتیں پاکستانی معاشرے میں قدرے کمیاب ہیں۔ انکسار اور تقویٰ کے بجائے ''غیرت '' زمانے کا رواج ہے۔ لوگ کسی قسم کے ذاتی محاسبے یا غور و فکر کے بغیر ہی تفاخر کا شکار نظر آتے ہیں۔سیاست میں یو ٹرنز کے حوالے سے اپوزیشن کی حالیہ تنقید بچکانہ ہے۔
حقیقی زندگی کی بھاگ دوڑ میں یوٹرن روانی کو یقینی بنانے کے لیے لازمی تصور کیے جاتے ہیں جب کہ سیاست میں سیاسی و معاشی فیصلوں پر نظر ثانی کو نامناسب اور بے اصولی پر مبنی قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مگر کیا غلطی کرنا یا غلط فیصلے کرنا انسانی فطرت کا حصہ نہیں؟ یقیناً کوئی غلطی نہ کرنا بہت بہتر ہوتا مگر ایسا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔کیا غلطی کا اعتراف کرلینا اور حالات کے بد سے بدتر ہوجانے سے قبل صورت حال میں تبدیلی لے آنا غلطیوں کا دفاع کرتے رہنے کی نسبت زیادہ ایمان دارانہ رویہ نہیں ہے؟
ہم سب اپنی زندگی میں غلطیاں کرتے ہیں۔ان کا اعتراف کرنا شرم کی بات نہیں بلکہ غلطیوں کو مان کر درست کرنے کی کوشش کرنا جرأت مندانہ فعل ہے۔ عمران خان حکومت زیادہ تر غیر تجربہ کار لوگوں اور ریاست کو چلانے کے لیے درکار تیاری کے بغیر آئی۔ مگر ایسا امریکا تک میں ہوتا ہے جہاں انتقالِ اقتدار کا عمل ایک طویل دورانیے پر محیط ہے۔ لہذا قہقہے لگانے یا اداروں اور وزارتوں پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے، ہمیں نئی حکومت کو سیکھنے میں مدد دینی چاہیے اور وہ معلومات فراہم کرنا چاہیے جو اس کے پاس نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سول سروس کو غیر سیاسی ہونا چاہیے اور جو بھی حکومت منتخب ہو، اس کی مدد کرنی چاہیے۔ دوسری جانب نئی حکومت کے لیے انکسار اور خود احتسابی لازم ہیں۔ نئے حکمرانوں کو سیکھنے اور مشورہ قبول کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
حکمرانی بہتر بنانے کی بنیادی حکمت عملی ہر کام کے لیے موزوں ترین افراد کار کو ڈھونڈ نکالنا ہونی چاہیے۔ ابتدائی طور پر ہمیں ایمان دار لوگوں کا ایک ایسا گروہ ڈھونڈنا چاہیے جو جانچ پڑتال کرتے ہوئے امیدواروں کے خاندانی پس منظر اور اثر و رسوخ کے حامل تعلقات پر نظر کیے بغیر صرف ان کی پیشہ وارانہ و ذاتی اہلیت اور تجربے کو پیش نظر رکھے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اوردیگر اداروں کی مدد سے اسناد کی مکمل جانچ پڑتال اور داخلہ ٹیسٹ ، تعلیمی اداروں میں ہر سطح پر فراڈ کے پیش نظر ناگزیر ہوچکے ہیں۔ لگن، ٹیم ورک کی صلاحیت،تخلیقی صلاحیتیں اور رویے میں لچک جیسی خصوصیات جانچنے کے لیے ممکنہ امیدواروں کی فہرست تیار کرنے سے قبل انٹرویوز ضروری ہیں۔
یہ عمل قطعی طور پر جامع اور شفاف ہونا چاہیے تاکہ کامیاب اور ناکام ہونے والے امیدوار اپنی صلاحیتوں اور کوتاہیوں سے آگاہ ہوجائیں۔ اداروں اور انتظامی شعبوں کو بہترین امیدواروں کے انتخاب میں دلچسپی ہونی چاہیے، ان کمزور ترین امیدواروں میں نہیں جو تجاویز، اختراعات اور تبدیلیوں کے ساتھ اپنا فرسودہ معمول تبدیل کرنے کے لیے آمادہ ہی نہ ہوں۔ دنیا بدل رہی ہے اور تبدیلیاں وقت کی ضرورت ہیں۔ کاہلی اور نالائقی کی کوئی گنجائش نہیں۔
بلاشبہ جہانگیر ترین تحریک انصاف میں موجود اہل ترین فرد ہیں۔ وہ ان وجوہات کی بنیاد پر نااہلی کا سامنا کررہے ہیں جنھیں عدالت میں زیر سماعت ہونے کے سبب زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔ اس غیر یقینی کی صورتحال کے باوجود عمران خان کے سیاسی فریم ورک کی اس اہم شخصیت کو تحریک انصاف اور ملک کے مفاد میں کام کرنے سے باز نہیں رہنا چاہیے۔ جہانگیر ترین کو مناسب تقرریوں کے لیے جانچ پڑتال کرنے والے ایک دستے کی سربراہی کرنی چاہیے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو تحریک انصاف کی حکومت اپوزیشن کی پیش گوئیوں کے مطابق جلد ہی کسی صدمے کا شکار ہوجائے گی۔ عمران خان کی ایمانداری اور خلوص کے پیش نظر یہ ایک بڑا المیہ ہوگا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امورکے تجزیہ کار ہیں)
ایسی صورت حال جہاں شہریوں کے لیے خدمات کی فراہمی پر منفی اثرات مرتب کرکے ان کی زندگیوں کو دشوار بنا دیتی ہے وہیں سرمایہ کاری کے عمل کو تعطل ، بد انتظامی یا رکاوٹوں کا شکار کردیتی ہے، حکومتی وسائل کے ضیاع کا سبب بن کر معاشی نمو کو روک دیتی ہے۔
عوام نااہلی، سرخ فیتے اور تاخیری حربوں سے اکتا چکے ہیں اور اسی سے بدعنوانی اور رشوت کا دروازہ کھلتا ہے۔ جب عمران خان نے وزارت اعظمیٰ کا قلم دان سنبھالا تو لوگوں کو اس سب میں اضافے کی نہیں بلکہ کمی کی توقع تھی۔ بدقسمتی سے عوام میں یہ تاثر زائل ہوتا نظر آتا ہے، جس کا سبب عمران خان حکومت کی جانب سے خدمات کی فراہمی کے لیے کی گئی غیر مناسب تقرریاں ہیں۔
ریاست کی خدمت کا دائرہ اپنے ملازمین تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیش نظر پورا معاشرہ ہوتا ہے۔ اگر ریاست ایسا کرنے میں واضح طور پر ناکام رہے تو اسے ناکام ریاست کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے حالیہ مختصر دورے کے دوران پاکستان میں امریکا کے سابق سفیر اور ایسٹ ویسٹ سینٹر کے موجودہ صدر کیمرون منٹر نے ہماری اس داخلی حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ امریکا کی جانب سے فراہم کی جانے والی زیادہ تر ترقیاتی امداد اور کوششیں ضایع ہوتی رہی ہیں کیوں کہ رقوم اور منصوبوں کو پاکستانی ادارے موثر طور پر بروئے کار نہیں لاسکے۔ زیادہ تر معاملات میں امدادی رقوم کرپشن کی نذر ہوگئیں۔ لہذا ترقیاتی امداد بھی تب بے کار ہوجاتی ہے جب اس کو بروئے کار لانے والے ادارے نا اہل ہوں۔
حکمرانی کو بہتر بنانا ،کرپشن کے خلاف جنگ کے بعد، نئے پاکستان کے قیام کی جانب دوسرا اہم قدم ہے۔ ایسا دو طریقوںسے ہوسکتا ہے،ایک طریقہ ادارہ جاتی اصلاحات ہیں اور دوسرا طریقہ مناسب تقرریاں۔ادارہ جاتی اصلاحات اور سول سروسز کی تنظیمِ نو کے حوالے سے ڈاکٹر عشرت حسین کمیشن کام کر رہا ہے۔ذاتی مفادات کے پیش نظر یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ کمیشن کی تجاویز کو ان عناصر کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے جو اپنے اختیارات اور اثر و رسوخ میں کمی کے حوالے سے خوف زدہ ہیں۔اس تناظر میں یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ مناسب تقرریاں کیوں نہیں ہو رہیں۔ میرٹ، یعنی پیشہ ورانہ قابلیت،تجربے اور کردار وغیرہ کو کسی بھی سطح پر تقرریوں کے لیے واحد اصول ہونا چاہیے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں میرٹ نظر انداز کیا جاتا ہو اس اصول کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ جب تقرریوں کے لیے انتخاب کے طریقہ کار میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے تو یہ سب بہت تفصیل کے ساتھ واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔جو لوگ صرف قسمت یا اقرباء پروری کے سبب پہلے سے سسٹم میں موجود ہیں وہ میرٹ پر ہونے والی نئی تقرریوں سے عدم تحفظ کا شکار ہوں گے۔ نئے آنے والے زیادہ تر معاملوں میں بہتر قابلیت اور اہلیت کے حامل ہوں گے۔ مزید یہ کہ میرٹ پر آنے کے سبب وہ کسی ایسے سینیئر یا ہم کار کو برداشت نہیں کرسکیں گے جو میرٹ پر بھرتی نہیں ہوا۔ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے پرانے عناصر نئے آنے والوں کے لیے جگہ بناناحتٰی الامکان مشکل کردیں گے۔
اگرچہ یہ ایک بہت کٹھن کام ہے مگر کیا اس بنا پر اسے پس پشت ڈالا جاسکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! اقربا پروری سے نمٹنے کو تیار اور ایمان دار مرد و خواتین کی جانب سے بہت احتیاط کے ساتھ منتخب کی گئی نئی اور بہتر افرادی قوت سامنے لانے کا کوئی راستہ ڈھونڈنا ہی ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سرکاری عہدوںکے امیدواروں میں انکسار، لگن اور ٹیم ورک کی صلاحیت بھی جانچنا ہوگی۔
ایک اور طریقہ پہلے سے موجود بہتر افراد کو آگے لانا بھی ہوسکتا ہے۔اداروں میں موجودسب لوگ بے کار نہیں ہیں۔ بہت سے افراد کو صرف مطلوبہ معلومات تک رسائی اور بہتر تربیت کی ضرورت ہے۔ برسوں تک ملازمت کرنے کے بعد دوبارہ زیرِ تربیت آنا ان کے لیے مشکل ہوسکتا ہے جو جوان نہیں رہے اور ایک عرصے سے تربیتی عمل سے باہر ہیں۔ اس کے لیے جہاں اپنے ادارے اور ملازمت کے ساتھ لگاؤ، نیز چیلنج سے نمٹنے کی جرأت چاہیے، وہیں خود احتسابی کی ناگزیر صلاحیت بھی درکار ہے۔
یہ صلاحیتیں پاکستانی معاشرے میں قدرے کمیاب ہیں۔ انکسار اور تقویٰ کے بجائے ''غیرت '' زمانے کا رواج ہے۔ لوگ کسی قسم کے ذاتی محاسبے یا غور و فکر کے بغیر ہی تفاخر کا شکار نظر آتے ہیں۔سیاست میں یو ٹرنز کے حوالے سے اپوزیشن کی حالیہ تنقید بچکانہ ہے۔
حقیقی زندگی کی بھاگ دوڑ میں یوٹرن روانی کو یقینی بنانے کے لیے لازمی تصور کیے جاتے ہیں جب کہ سیاست میں سیاسی و معاشی فیصلوں پر نظر ثانی کو نامناسب اور بے اصولی پر مبنی قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مگر کیا غلطی کرنا یا غلط فیصلے کرنا انسانی فطرت کا حصہ نہیں؟ یقیناً کوئی غلطی نہ کرنا بہت بہتر ہوتا مگر ایسا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔کیا غلطی کا اعتراف کرلینا اور حالات کے بد سے بدتر ہوجانے سے قبل صورت حال میں تبدیلی لے آنا غلطیوں کا دفاع کرتے رہنے کی نسبت زیادہ ایمان دارانہ رویہ نہیں ہے؟
ہم سب اپنی زندگی میں غلطیاں کرتے ہیں۔ان کا اعتراف کرنا شرم کی بات نہیں بلکہ غلطیوں کو مان کر درست کرنے کی کوشش کرنا جرأت مندانہ فعل ہے۔ عمران خان حکومت زیادہ تر غیر تجربہ کار لوگوں اور ریاست کو چلانے کے لیے درکار تیاری کے بغیر آئی۔ مگر ایسا امریکا تک میں ہوتا ہے جہاں انتقالِ اقتدار کا عمل ایک طویل دورانیے پر محیط ہے۔ لہذا قہقہے لگانے یا اداروں اور وزارتوں پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے، ہمیں نئی حکومت کو سیکھنے میں مدد دینی چاہیے اور وہ معلومات فراہم کرنا چاہیے جو اس کے پاس نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سول سروس کو غیر سیاسی ہونا چاہیے اور جو بھی حکومت منتخب ہو، اس کی مدد کرنی چاہیے۔ دوسری جانب نئی حکومت کے لیے انکسار اور خود احتسابی لازم ہیں۔ نئے حکمرانوں کو سیکھنے اور مشورہ قبول کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
حکمرانی بہتر بنانے کی بنیادی حکمت عملی ہر کام کے لیے موزوں ترین افراد کار کو ڈھونڈ نکالنا ہونی چاہیے۔ ابتدائی طور پر ہمیں ایمان دار لوگوں کا ایک ایسا گروہ ڈھونڈنا چاہیے جو جانچ پڑتال کرتے ہوئے امیدواروں کے خاندانی پس منظر اور اثر و رسوخ کے حامل تعلقات پر نظر کیے بغیر صرف ان کی پیشہ وارانہ و ذاتی اہلیت اور تجربے کو پیش نظر رکھے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اوردیگر اداروں کی مدد سے اسناد کی مکمل جانچ پڑتال اور داخلہ ٹیسٹ ، تعلیمی اداروں میں ہر سطح پر فراڈ کے پیش نظر ناگزیر ہوچکے ہیں۔ لگن، ٹیم ورک کی صلاحیت،تخلیقی صلاحیتیں اور رویے میں لچک جیسی خصوصیات جانچنے کے لیے ممکنہ امیدواروں کی فہرست تیار کرنے سے قبل انٹرویوز ضروری ہیں۔
یہ عمل قطعی طور پر جامع اور شفاف ہونا چاہیے تاکہ کامیاب اور ناکام ہونے والے امیدوار اپنی صلاحیتوں اور کوتاہیوں سے آگاہ ہوجائیں۔ اداروں اور انتظامی شعبوں کو بہترین امیدواروں کے انتخاب میں دلچسپی ہونی چاہیے، ان کمزور ترین امیدواروں میں نہیں جو تجاویز، اختراعات اور تبدیلیوں کے ساتھ اپنا فرسودہ معمول تبدیل کرنے کے لیے آمادہ ہی نہ ہوں۔ دنیا بدل رہی ہے اور تبدیلیاں وقت کی ضرورت ہیں۔ کاہلی اور نالائقی کی کوئی گنجائش نہیں۔
بلاشبہ جہانگیر ترین تحریک انصاف میں موجود اہل ترین فرد ہیں۔ وہ ان وجوہات کی بنیاد پر نااہلی کا سامنا کررہے ہیں جنھیں عدالت میں زیر سماعت ہونے کے سبب زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔ اس غیر یقینی کی صورتحال کے باوجود عمران خان کے سیاسی فریم ورک کی اس اہم شخصیت کو تحریک انصاف اور ملک کے مفاد میں کام کرنے سے باز نہیں رہنا چاہیے۔ جہانگیر ترین کو مناسب تقرریوں کے لیے جانچ پڑتال کرنے والے ایک دستے کی سربراہی کرنی چاہیے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو تحریک انصاف کی حکومت اپوزیشن کی پیش گوئیوں کے مطابق جلد ہی کسی صدمے کا شکار ہوجائے گی۔ عمران خان کی ایمانداری اور خلوص کے پیش نظر یہ ایک بڑا المیہ ہوگا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امورکے تجزیہ کار ہیں)