ڈپریشن خطرناک صورتحال
ڈپریشن کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ماہر نفسیات پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔
پانی اور بجلی کی نایابی، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، اسٹریٹ کرائم اور غیر یقینی سیاسی ومعاشی صورتحال عام آدمی کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کررہی ہے، جس کی بناء پر ڈپریشن کا مرض بڑھ رہا ہے۔ ڈپریشن کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ماہر نفسیات پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔
پاکستان میں ماہرین نفسیات کی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن آف مینٹل ہیلتھ نے ڈپریشن کے مرض کے پھیلنے کوخطرناک علامت قرار دیا ہے۔ ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر ہارون احمد جنہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ نفسیاتی امراض پر تحقیق، مریضوں کے علاج اور نفسیاتی مریضوں کے لیے سماجی تحفظ کی کوششوں میں صرف کیا ، ان کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے مرض کا بڑھنا سماج کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر چوتھے گھر میں نفسیاتی مریض موجود ہے۔
ایک اور ماہر نفسیات ڈاکٹر سلامت کمال کہتے ہیں کہ عام زندگی کے مسائل عام آدمی کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کررہے ہیں۔ ایک اور ماہر نفسیات گل اقصیٰ ڈپریشن کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ڈپریشن ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ ڈپریشن کے مریض اکثر اداسی، خالی پن، مایوسی، بے بسی، پچھتاوے، غصہ اور چڑچڑا پن جیسی علامات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ڈپریشن کے مریض مزید ذہنی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوسکتے ہیں۔
جن ماہرین نفسیات نے ڈپریشن کے مرض کے اسباب پر تحقیق کی ہے ، ان کی تحقیق کے مطابق گھر اور خاندان سے لے کر کام کرنے کی جگہ اور اردگرد کی صورتحال سے عام آدمی تشویش میں مبتلا ہوتا ہے اور یہ تشویش دباؤ میں تبدیل ہوتی ہے۔ پھر ڈپریشن کا مرض پیدا ہوتا ہے۔ ڈپریسڈ آدمی روزمرہ کی زندگی سے کٹنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر ہارون کا کہنا ہے کہ ذہنی خلفشارکے مرض میں مبتلا 25 فیصد افراد ڈپریشن کے مرض کا شکار ہوتے ہیں۔
پی اے ایم ایچ نے ذہنی امراض کے بارے میں ایک مختصر رپورٹ تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈپریشن کے مریض منشیات کا شکار ہوتے ہیں اور بعض اوقات ڈپریشن اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ اس مرض میں مبتلا افراد خودکشی کا انتہائی اہم اقدام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی سمیت اندرون سندھ خودکشی کرنے والوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔
ماہرین نفسیات ڈپریشن کے مرض کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈپریشن فرد سے برادری میں منتقل ہوتا ہے جس کی بناء پر برادری اجتماعی طور پر منشیات کے استعمال، تشدد اور بیماریوں کا شکار ہوتی ہے۔ پاکستانی سماج میں ابھی تک ڈپریشن کے مرض کے خطرات اور اثرات کو محسوس نہیں کیا جاتا۔ میاں بیوی کے تعلقات میں تناؤ سے میاں بیوی کے علاوہ بچے بھی ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ پھر باپ یا ماں کی موت بچوں کو ڈپریشن میں مبتلا کرتی ہے۔
جو خاندان ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں یا جن خاندانوں کے سربراہ یا کوئی اور فرد ٹارگٹ کلنگ ، کسی مرض یا حادثے کی صورت میں موت سے ہمکنار ہوتے ہیں ، ان کے قریبی رشتے دار ماں، باپ، بیوی، بھائی، بہن بچے ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس خاندان کے سربراہ کا روزگار نہ ہونے ، نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، ریاستی اداروں کا کسی فرد یا خاندان کے انسانی حقوق پامال کرنے، روزگار نہ ملنے اور ریاستی اداروں کا انصاف نہ فراہم کرنے سے بھی ڈپریشن کا مرض پھیلاتا ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم اور روزگار کے حق سے روکنے ، لڑکیوں کی شادیاں نہ ہونے، بلوغت کی عمر تک پہنچنے والے لڑکے اور لڑکیوں کی کاؤنسلنگ نہ ہونے سے بھی نوجوانوں میں ڈپریشن کا مرض پیدا ہوتا ہے۔ کام کرنے والی جگہ میں جنسی ہراسگی کے ماحول سے بھی لڑکیوں میں ڈپریشن کا مرض پھیلا ہے۔
والدین اور قریبی رشتے داروں کا اپنی لڑکیوں اور لڑکوں کو پسند کی شادی کا حق نہ دینے سے بھی لڑکیوں میں خاص طور پر ڈپریشن کا مرض پیدا ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ابھی تک ڈپریشن کے مریضوں کو ماہر نفسیات سے علاج کرانے کا تصور زیادہ عام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے ناخواندہ افراد سے لے کر امراء کے خاندانوں میں بھی اور بعض یورپ اور امریکا کے تعلیم یافتہ افراد اب بھی پھونک، تعویز گنڈے وغیرہ سے ڈپریشن کے مرض کا علاج کرتے ہیں ۔ صرف شہروں میں ڈپریشن کے مریضوں کو ماہرین نفسیات کے پاس لے جانے کا شعور پیدا ہوا ہے۔
عمومی طور پر مریض اور ان کے لواحقین جنرل پریکٹشنر (G.P) کے پاس جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جنرل پریکٹشنر کسی ٹیسٹ کے بعد اعصابی سکون کے انجکشن لگاتے ہیں یا ٹرینکولائزر دیتے ہیں۔ بعض مریض بغیر ڈاکٹر کے نسخے کے کیمسٹ سے یہ ٹرینکولائزر خریدتے ہیں۔ ماہرین نفسیات اس طرح دوا کے استعمال کو صحت کے لیے خطرناک قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ذہنی امراض کا ماہر ڈاکٹر ہی فیصلہ کرسکتا ہے کہ کسی مریض کی جسمانی ساخت اور بلڈ پریشر وشوگر کی مقدار وغیرہ کے مطابق ہی دوا کا تعین کرتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا شکوہ خاصا اہم ہے۔
پاکستان کی ریاست کی بنیادی ترجیحات میں عام آدمی شامل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کی تمام پالیسیاں عوام کے بجائے امراء کے مفاد کو مد نظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ ریاست زچہ وبچہ کو بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کرتی۔ پڑھے لکھے افراد میں حتیٰ کہ شہر میں رہنے والی برادریوں میں کم عمری میں شادی کا رواج آج بھی ہے۔ صنفی امتیازکی بناء پر خواتین کو خوراک، تعلیم اور صحت غرض زندگی کے ہر شعبے میں علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ کمسن لڑکیوں کی شادی کے بے تحاشا نقصانا ت ہیں، یوں ماں اور لڑکیوں کو کم کلورینز والی خوراک ملتی ہے۔ یوں بیمار لڑکی حاملہ ہوتی ہے تو اس کے بچے بیمار پیدا ہوتے ہیں۔
ماں اور نوزائیدہ بچوں میں شرح اموات اس خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ ماں ڈپریشن کا شکار ہوتی ہے جو خاص طور پر لڑکیوں میں منتقل ہوتا ہے۔ مردوں کا عورتوں پر تشدد اور کئی کئی شادیاں ڈپریشن کے مرض کو بڑھاتی ہیں ۔ ملک میں کثیر امراض قلب شوگر، جگر کی بیماریاں، گردے کے امراض، جلدی امراض، خواتین میں خون کی کمی جیسے امراض مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ان امراض کے علاج کے لیے ڈاکٹروں اور اسپتالوں کی کمی ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں بنیادی سہولتوں کی کمی ہے۔ ایکسرے اور خون کے ٹیسٹ اور الٹراساؤنڈ وغیرہ باہر کی لیب سے کرائے جاتے ہیں۔
حکومت نے ایک دفعہ پھر ادویات کی قیمتوں میں 15فیصد اضافے کی اجازت دی ہے، یوں لوگوں کے لیے دوائیاں خریدنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی بناء پر امراء کے علاوہ متوسط طبقے حتیٰ کہ نچلے متوسطہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے خاندان غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں کو تعلیم دلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کی فیسوں، کتابوں، یونیفارم اور بسوں کے کرائے کی مد میں متوسطہ طبقے کے فرد کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ صرف ہوجاتا ہے۔ پھر مکان کا کرایہ، ٹرانسپورٹ کے اخراجات علیحدہ ہوتے ہیں۔
ملک میں سرکاری شعبے کا سائزکم ہوا ہے۔ نجی شعبے کا سائز بڑھ گیا ہے۔ اب ملازمتوں کا انحصار نجی شعبے پر ہے۔ نجی شعبہ گزشتہ تین برسوں سے عجیب قسم کے بحران کا شکار ہے۔ پہلے بجلی اور گیس کی کمی نجی شعبے کی ترقی کو روک رہی تھی، اب نیب، ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیاں ناجائز دولت اور وسائل سے زیادہ طرز زندگی کے بارے میں تحقیقات میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں معیشت کمزور ہورہی ہے جس کا سارا نقصان ملازمت پیشہ افراد کو ہورہا ہے۔
یوں عام آدمی کے لیے مسائل بڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوا جس کا نقصان یہ ہے کہ ڈپریشن کا مرض بڑھ رہا ہے۔ پاکستان ایسوسی ایشن آف مینٹل ہیلتھ ڈپریشن اور دیگر ذہنی امراض کی آگاہی کے لیے 4 ہفتے کی مہم چلارہی ہے۔ یہ ایک مثبت کوشش ہے۔ اس کوشش سے عام آدمی خاص طور پر خواتین میں ذہنی امراض کے بارے میں شعور پیدا ہوگا مگر ڈپریشن سے نجات اس وقت ملے گی جب ریاست ذہنی امراض کے اسباب کے خاتمے پر توجہ دے گی۔ ورنہ یہ مرض پوری قوم کوکھوکھلا کردے گا۔
پاکستان میں ماہرین نفسیات کی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن آف مینٹل ہیلتھ نے ڈپریشن کے مرض کے پھیلنے کوخطرناک علامت قرار دیا ہے۔ ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر ہارون احمد جنہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ نفسیاتی امراض پر تحقیق، مریضوں کے علاج اور نفسیاتی مریضوں کے لیے سماجی تحفظ کی کوششوں میں صرف کیا ، ان کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے مرض کا بڑھنا سماج کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر چوتھے گھر میں نفسیاتی مریض موجود ہے۔
ایک اور ماہر نفسیات ڈاکٹر سلامت کمال کہتے ہیں کہ عام زندگی کے مسائل عام آدمی کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کررہے ہیں۔ ایک اور ماہر نفسیات گل اقصیٰ ڈپریشن کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ڈپریشن ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ ڈپریشن کے مریض اکثر اداسی، خالی پن، مایوسی، بے بسی، پچھتاوے، غصہ اور چڑچڑا پن جیسی علامات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ ڈپریشن کے مریض مزید ذہنی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوسکتے ہیں۔
جن ماہرین نفسیات نے ڈپریشن کے مرض کے اسباب پر تحقیق کی ہے ، ان کی تحقیق کے مطابق گھر اور خاندان سے لے کر کام کرنے کی جگہ اور اردگرد کی صورتحال سے عام آدمی تشویش میں مبتلا ہوتا ہے اور یہ تشویش دباؤ میں تبدیل ہوتی ہے۔ پھر ڈپریشن کا مرض پیدا ہوتا ہے۔ ڈپریسڈ آدمی روزمرہ کی زندگی سے کٹنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر ہارون کا کہنا ہے کہ ذہنی خلفشارکے مرض میں مبتلا 25 فیصد افراد ڈپریشن کے مرض کا شکار ہوتے ہیں۔
پی اے ایم ایچ نے ذہنی امراض کے بارے میں ایک مختصر رپورٹ تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈپریشن کے مریض منشیات کا شکار ہوتے ہیں اور بعض اوقات ڈپریشن اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ اس مرض میں مبتلا افراد خودکشی کا انتہائی اہم اقدام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی سمیت اندرون سندھ خودکشی کرنے والوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔
ماہرین نفسیات ڈپریشن کے مرض کی سنگینی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈپریشن فرد سے برادری میں منتقل ہوتا ہے جس کی بناء پر برادری اجتماعی طور پر منشیات کے استعمال، تشدد اور بیماریوں کا شکار ہوتی ہے۔ پاکستانی سماج میں ابھی تک ڈپریشن کے مرض کے خطرات اور اثرات کو محسوس نہیں کیا جاتا۔ میاں بیوی کے تعلقات میں تناؤ سے میاں بیوی کے علاوہ بچے بھی ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ پھر باپ یا ماں کی موت بچوں کو ڈپریشن میں مبتلا کرتی ہے۔
جو خاندان ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں یا جن خاندانوں کے سربراہ یا کوئی اور فرد ٹارگٹ کلنگ ، کسی مرض یا حادثے کی صورت میں موت سے ہمکنار ہوتے ہیں ، ان کے قریبی رشتے دار ماں، باپ، بیوی، بھائی، بہن بچے ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس خاندان کے سربراہ کا روزگار نہ ہونے ، نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، ریاستی اداروں کا کسی فرد یا خاندان کے انسانی حقوق پامال کرنے، روزگار نہ ملنے اور ریاستی اداروں کا انصاف نہ فراہم کرنے سے بھی ڈپریشن کا مرض پھیلاتا ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم اور روزگار کے حق سے روکنے ، لڑکیوں کی شادیاں نہ ہونے، بلوغت کی عمر تک پہنچنے والے لڑکے اور لڑکیوں کی کاؤنسلنگ نہ ہونے سے بھی نوجوانوں میں ڈپریشن کا مرض پیدا ہوتا ہے۔ کام کرنے والی جگہ میں جنسی ہراسگی کے ماحول سے بھی لڑکیوں میں ڈپریشن کا مرض پھیلا ہے۔
والدین اور قریبی رشتے داروں کا اپنی لڑکیوں اور لڑکوں کو پسند کی شادی کا حق نہ دینے سے بھی لڑکیوں میں خاص طور پر ڈپریشن کا مرض پیدا ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ابھی تک ڈپریشن کے مریضوں کو ماہر نفسیات سے علاج کرانے کا تصور زیادہ عام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے ناخواندہ افراد سے لے کر امراء کے خاندانوں میں بھی اور بعض یورپ اور امریکا کے تعلیم یافتہ افراد اب بھی پھونک، تعویز گنڈے وغیرہ سے ڈپریشن کے مرض کا علاج کرتے ہیں ۔ صرف شہروں میں ڈپریشن کے مریضوں کو ماہرین نفسیات کے پاس لے جانے کا شعور پیدا ہوا ہے۔
عمومی طور پر مریض اور ان کے لواحقین جنرل پریکٹشنر (G.P) کے پاس جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جنرل پریکٹشنر کسی ٹیسٹ کے بعد اعصابی سکون کے انجکشن لگاتے ہیں یا ٹرینکولائزر دیتے ہیں۔ بعض مریض بغیر ڈاکٹر کے نسخے کے کیمسٹ سے یہ ٹرینکولائزر خریدتے ہیں۔ ماہرین نفسیات اس طرح دوا کے استعمال کو صحت کے لیے خطرناک قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ذہنی امراض کا ماہر ڈاکٹر ہی فیصلہ کرسکتا ہے کہ کسی مریض کی جسمانی ساخت اور بلڈ پریشر وشوگر کی مقدار وغیرہ کے مطابق ہی دوا کا تعین کرتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا شکوہ خاصا اہم ہے۔
پاکستان کی ریاست کی بنیادی ترجیحات میں عام آدمی شامل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کی تمام پالیسیاں عوام کے بجائے امراء کے مفاد کو مد نظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ ریاست زچہ وبچہ کو بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کرتی۔ پڑھے لکھے افراد میں حتیٰ کہ شہر میں رہنے والی برادریوں میں کم عمری میں شادی کا رواج آج بھی ہے۔ صنفی امتیازکی بناء پر خواتین کو خوراک، تعلیم اور صحت غرض زندگی کے ہر شعبے میں علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ کمسن لڑکیوں کی شادی کے بے تحاشا نقصانا ت ہیں، یوں ماں اور لڑکیوں کو کم کلورینز والی خوراک ملتی ہے۔ یوں بیمار لڑکی حاملہ ہوتی ہے تو اس کے بچے بیمار پیدا ہوتے ہیں۔
ماں اور نوزائیدہ بچوں میں شرح اموات اس خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ ماں ڈپریشن کا شکار ہوتی ہے جو خاص طور پر لڑکیوں میں منتقل ہوتا ہے۔ مردوں کا عورتوں پر تشدد اور کئی کئی شادیاں ڈپریشن کے مرض کو بڑھاتی ہیں ۔ ملک میں کثیر امراض قلب شوگر، جگر کی بیماریاں، گردے کے امراض، جلدی امراض، خواتین میں خون کی کمی جیسے امراض مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ان امراض کے علاج کے لیے ڈاکٹروں اور اسپتالوں کی کمی ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں بنیادی سہولتوں کی کمی ہے۔ ایکسرے اور خون کے ٹیسٹ اور الٹراساؤنڈ وغیرہ باہر کی لیب سے کرائے جاتے ہیں۔
حکومت نے ایک دفعہ پھر ادویات کی قیمتوں میں 15فیصد اضافے کی اجازت دی ہے، یوں لوگوں کے لیے دوائیاں خریدنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی بناء پر امراء کے علاوہ متوسط طبقے حتیٰ کہ نچلے متوسطہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے خاندان غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں کو تعلیم دلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کی فیسوں، کتابوں، یونیفارم اور بسوں کے کرائے کی مد میں متوسطہ طبقے کے فرد کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ صرف ہوجاتا ہے۔ پھر مکان کا کرایہ، ٹرانسپورٹ کے اخراجات علیحدہ ہوتے ہیں۔
ملک میں سرکاری شعبے کا سائزکم ہوا ہے۔ نجی شعبے کا سائز بڑھ گیا ہے۔ اب ملازمتوں کا انحصار نجی شعبے پر ہے۔ نجی شعبہ گزشتہ تین برسوں سے عجیب قسم کے بحران کا شکار ہے۔ پہلے بجلی اور گیس کی کمی نجی شعبے کی ترقی کو روک رہی تھی، اب نیب، ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیاں ناجائز دولت اور وسائل سے زیادہ طرز زندگی کے بارے میں تحقیقات میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں معیشت کمزور ہورہی ہے جس کا سارا نقصان ملازمت پیشہ افراد کو ہورہا ہے۔
یوں عام آدمی کے لیے مسائل بڑھنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوا جس کا نقصان یہ ہے کہ ڈپریشن کا مرض بڑھ رہا ہے۔ پاکستان ایسوسی ایشن آف مینٹل ہیلتھ ڈپریشن اور دیگر ذہنی امراض کی آگاہی کے لیے 4 ہفتے کی مہم چلارہی ہے۔ یہ ایک مثبت کوشش ہے۔ اس کوشش سے عام آدمی خاص طور پر خواتین میں ذہنی امراض کے بارے میں شعور پیدا ہوگا مگر ڈپریشن سے نجات اس وقت ملے گی جب ریاست ذہنی امراض کے اسباب کے خاتمے پر توجہ دے گی۔ ورنہ یہ مرض پوری قوم کوکھوکھلا کردے گا۔