عمر بن عبدالعزیز ۲
اموی خلفاء نے بیت المال کو ذاتی خزانہ بنا لیا تھا۔ نئے خلیفہ نے اسے قومی خزانہ بنا دیا۔
عمر بن عبدالعزیزؒ مسجد سے نکلے تو شاہی سواری پیش کی گئی اور آج کی ''بلیو بک'' کے مطابق حفاظتی اقدامات سے آگاہ کیا گیا ۔ حکم ہوا تمام سواریاں بیچ دو اور قیمت بیت المال میں جمع کرا دو۔ اور پھر کہا میری سواری کے لیے میرا خچر ہی کافی ہے ۔ اس کے بعد جب خلافت اور حکمرانی کی کوئی نشانی باقی نہ رہی تو نہ جاننے والے پہچانتے نہیں تھے کہ امیر المومنین کون ہے۔ غریب ترین شہری کی زندگی اختیار کر لی۔ دن کو عوام کی خدمت اور راتوں کو گریہ و زاری معمول بن گئے ۔
محبوب بیوی فاطمہ بتاتی ہیں کہ جب کوئی مرد انتہائی خوشی اور طرب کے لمحے میں ہوتا ہے تو وہ اچانک چیخ پڑتے اور کہتے کہ بلا مطالبہ اور بن مانگے ہر ایک کا مجھ پر حق ہے ۔ میں مارا جائوںگا۔ احساس ذمے داری کی شدت نے امویوں کے اس شہزادے کو ادھ موا کر دیا۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے عوام کی چھینی ہوئی جائیدادوں کی واپسی کا طریق کار بہت آسان بنا دیا ۔جو کوئی مناسب شہادت پیش کرتا اسے اس کا چھینا ہوا حق مل جاتا۔ ہر صوبے میں یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا۔ تاریخ میں ہمیں ایسے کسی کارنامے کی مثال نہیں ملتی۔ بنو اُمیہ کے شاہی خاندان نے اپنے بھائی کو سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی، بزرگوں کو بھیجا اور آخری حربے کے طور پر ان کی سگی پھوپھی کو بھیجا، جن کا وہ بہت احترام کرتے تھے لیکن ان کا جواب تھا کہ میرے خاندان کا جو حق نہیں تھا اور نہیںہے وہ میں ان کو کیسے دے دوں ۔
ان کی پھوپھی نے مایوس لوٹ کر اپنے رشتے داروں سے کہا کہ میں نہ کہتی تھی کہ عمر بن خطاب کے خاندان میں رشتے داری نہ کرو۔ حضرت عمر ؓ ، عمر بن عبدالعزیز کے پرَنانا تھے۔ان کی دادی وہ لڑکی تھی جس کو ماںنے دودھ میں پانی ملانے کے لیے کہا تو اس نے جواب دیا کہ عمر نے منع کر رکھا ہے اس پر ماں نے کہا کہ وہ کب دیکھ رہا ہے۔ لڑکی نے جواب دیا کہ عمر نہیں تو اس کا خدا تو دیکھ رہا ہے ۔ حضرت عمرؓ جو اس وقت ان کے گھر کے باہر سستا رہے تھے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ گھر یاد رکھنا۔
دوسرے دن صبح کو اپنے غیر شادی شدہ بیٹے کو کہا کہ جائو اور فلاں گھر میں شادی کر لو ۔کیا پتہ تمہارے گھر کوئی بڑا آدمی پیدا ہو جائے۔ یہ لڑکی عمر بن عبدالعزیز کی دادی تھی ۔ ان کے اموی خاندان کو جاگیروں کے علاوہ بھاری وظائف بھی ملتے تھے وہ بھی بند کر دیے گئے۔ شکایت کی کہ بیت المال میں ہمارا بھی حق ہے اور آپ پر بھی ۔ جواب دیا کہ میرے مال میں اتنی گنجائش نہیں کہ کچھ دے سکوں اور بیت المال میں تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مملکت کی آخری حدود پر آباد کسی بدو کا۔
اموی خلفاء نے بیت المال کو ذاتی خزانہ بنا لیا تھا۔ نئے خلیفہ نے اسے قومی خزانہ بنا دیا۔ غصب شدہ املاک کے علاوہ اپنا ذاتی سامان تک بیت المال میں جمع کرا دیا۔ حکم جاری کیا کہ حجاج کے ظالمانہ اقدامات منسوخ اور کسی نو مسلم سے جزیہ نہ لیا جائے اس پر غیر مسلم اس تعداد میں مسلمان ہونا شروع ہوئے کہ خزانہ خالی ہونے لگا۔آمدنی بہت کم ہو گئی، مصر کے حاکم نے لکھ بھیجا کہ مجھے اب قرض لے کر مسلمانوں کے وظیفے ادا کرنے پڑتے ہیں جواب میں لکھا کہ جزیہ موقوف سمجھو اور پھر یہ تاریخی جملہ کہا کہ رسول پاکﷺ رہنماء بنا کر بھیجے گئے تھے تحصیلدار بنا کر نہیں۔ اس کے علاوہ تمام ناجائز ٹیکس معاف کر دیے جن میں دکانوں کا ٹیکس، تہواروں کا ٹیکس، مکانوں کا ٹیکس ، مختلف پیشوں کا ٹیکس حتیٰ کہ نکاح نامے تک کا ٹیکس شامل تھے ۔ صرف زکوۃ باقی رہنے دی گئی۔
وہ حجاج بن یوسف کے سخت خلاف تھے فرماتے تھے کہ خدا حجاج پر لعنت بھیجے اس کو نہ تو دین کی لیاقت تھی نہ دنیا کی۔حضرت عمر بن خطاب ؓ نے عراق سے دس کروڑ اٹھائیس لاکھ درہم وصول کیے جب کہ حجاج نے سخت ظلم کے باوجود صرف دو کروڑ اسی لاکھ درہم وصول کیے۔ عمر بن عبدالعزیز نے تمام مراعات کے باوجود حضرت عمرؓ کے لگ بھگ محصولات وصول کیے اور کہا کرتے تھے کہ موقع ملا تو بہت زیادہ وصولی ہو گی۔
عوام کو اس قدر مراعات دیں کہ ملک کا کاروبار چل نکلا، زمینیں آباد ہونا شروع ہوگئیں، تجارت بڑھنے لگی عوام میںبے حد اعتماد پیدا ہوا۔ہر شہری کا وظیفہ مقرر ہوا۔ معذوروں اور اندھوں کو ملازم دیے گئے ۔ہر حاجت مند کی حاجت روائی کا حکم ہوا یہاں تک کہ نادار قرضداروں کے قرض تک بیت المال سے ادا کیے گئے ۔ لوگ اپنے اپنے کاروبار میں لگ گئے۔خیرات اور مالی امداد دینے والوں کا بیان ہے کہ گزشتہ سال جو لوگ خیرات لیتے تھے وہ اس سال خیرات دینے والے بن گئے ۔ امدادی رقوم واپس بیت المال میں آجاتی تھیں۔
حجاج کا خاندان ظلم کا نمونہ بن گیا تھا اس کو یمن کی طرف جلا وطن کر دیا گیا اور وہاں کے حاکم کو لکھا کہ آل عقیل کو بھیج رہا ہوں جو بدترین لوگ ہیں ان کو ادھر اُدھر منتشر کر دو۔ خود اپنے ارد گرد اچھے افراد کو جمع کیا ۔ شروع میں جب اچھے لوگوں کی جستجو ہوئی تو ایک دوست نے کہا آپ اس کی فکر نہ کریں ۔ آپ ایک بازار ہیں اور بازار میں وہی مال آتا ہے جو چلتا ہو جب معلوم ہو گا کہ آپ کے ہاں صرف کھرا مال چلتا ہے تو سب کھر امال لے کر آئیںگے۔تنخواہیں بہت بڑھا دیں۔ اپنی تنخواہ تو روزانہ دو درہم تھی لیکن افسروں کو دودو سو اشرفیاں دی جاتی تھیں اور فرماتے تھے کہ میں ان کو بے فکر کر دینا چاہتا ہوں ۔ہر طرف عدل اور انصاف قائم کر دیا۔ایک گورنر نے لکھا کہ میرا شہر ویران ہو گیا ہے کچھ رقم مرمت کے لیے بجھوایئے ۔ جواب میں لکھا اس شہر کو عدل و انصاف سے قلعہ بند کرو اور ظلم سے اس کے راستوں کو صاف کرو یہی اس کی مرمت ہے ۔
آخر یہ سب کیسے ہو گیا ۔اتنی خوشحالی کیسے آگئی اس قدر امن کیسے قائم ہو گیا ۔مملکت کے مسلمان اور غیر مسلم شہری کے مابین حقوق کی تمیز کیسے ختم ہو گئی۔حکومتی سطح پر ظلم اور ناانصافی کیسے ختم ہو گئی ۔ہاتھ پھیلانے والے کہاں گم ہو گئے اور ہاتھ سے دینے والے کہاں سے آگئے ۔
(جاری ہے)
محبوب بیوی فاطمہ بتاتی ہیں کہ جب کوئی مرد انتہائی خوشی اور طرب کے لمحے میں ہوتا ہے تو وہ اچانک چیخ پڑتے اور کہتے کہ بلا مطالبہ اور بن مانگے ہر ایک کا مجھ پر حق ہے ۔ میں مارا جائوںگا۔ احساس ذمے داری کی شدت نے امویوں کے اس شہزادے کو ادھ موا کر دیا۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے عوام کی چھینی ہوئی جائیدادوں کی واپسی کا طریق کار بہت آسان بنا دیا ۔جو کوئی مناسب شہادت پیش کرتا اسے اس کا چھینا ہوا حق مل جاتا۔ ہر صوبے میں یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا۔ تاریخ میں ہمیں ایسے کسی کارنامے کی مثال نہیں ملتی۔ بنو اُمیہ کے شاہی خاندان نے اپنے بھائی کو سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی، بزرگوں کو بھیجا اور آخری حربے کے طور پر ان کی سگی پھوپھی کو بھیجا، جن کا وہ بہت احترام کرتے تھے لیکن ان کا جواب تھا کہ میرے خاندان کا جو حق نہیں تھا اور نہیںہے وہ میں ان کو کیسے دے دوں ۔
ان کی پھوپھی نے مایوس لوٹ کر اپنے رشتے داروں سے کہا کہ میں نہ کہتی تھی کہ عمر بن خطاب کے خاندان میں رشتے داری نہ کرو۔ حضرت عمر ؓ ، عمر بن عبدالعزیز کے پرَنانا تھے۔ان کی دادی وہ لڑکی تھی جس کو ماںنے دودھ میں پانی ملانے کے لیے کہا تو اس نے جواب دیا کہ عمر نے منع کر رکھا ہے اس پر ماں نے کہا کہ وہ کب دیکھ رہا ہے۔ لڑکی نے جواب دیا کہ عمر نہیں تو اس کا خدا تو دیکھ رہا ہے ۔ حضرت عمرؓ جو اس وقت ان کے گھر کے باہر سستا رہے تھے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ گھر یاد رکھنا۔
دوسرے دن صبح کو اپنے غیر شادی شدہ بیٹے کو کہا کہ جائو اور فلاں گھر میں شادی کر لو ۔کیا پتہ تمہارے گھر کوئی بڑا آدمی پیدا ہو جائے۔ یہ لڑکی عمر بن عبدالعزیز کی دادی تھی ۔ ان کے اموی خاندان کو جاگیروں کے علاوہ بھاری وظائف بھی ملتے تھے وہ بھی بند کر دیے گئے۔ شکایت کی کہ بیت المال میں ہمارا بھی حق ہے اور آپ پر بھی ۔ جواب دیا کہ میرے مال میں اتنی گنجائش نہیں کہ کچھ دے سکوں اور بیت المال میں تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مملکت کی آخری حدود پر آباد کسی بدو کا۔
اموی خلفاء نے بیت المال کو ذاتی خزانہ بنا لیا تھا۔ نئے خلیفہ نے اسے قومی خزانہ بنا دیا۔ غصب شدہ املاک کے علاوہ اپنا ذاتی سامان تک بیت المال میں جمع کرا دیا۔ حکم جاری کیا کہ حجاج کے ظالمانہ اقدامات منسوخ اور کسی نو مسلم سے جزیہ نہ لیا جائے اس پر غیر مسلم اس تعداد میں مسلمان ہونا شروع ہوئے کہ خزانہ خالی ہونے لگا۔آمدنی بہت کم ہو گئی، مصر کے حاکم نے لکھ بھیجا کہ مجھے اب قرض لے کر مسلمانوں کے وظیفے ادا کرنے پڑتے ہیں جواب میں لکھا کہ جزیہ موقوف سمجھو اور پھر یہ تاریخی جملہ کہا کہ رسول پاکﷺ رہنماء بنا کر بھیجے گئے تھے تحصیلدار بنا کر نہیں۔ اس کے علاوہ تمام ناجائز ٹیکس معاف کر دیے جن میں دکانوں کا ٹیکس، تہواروں کا ٹیکس، مکانوں کا ٹیکس ، مختلف پیشوں کا ٹیکس حتیٰ کہ نکاح نامے تک کا ٹیکس شامل تھے ۔ صرف زکوۃ باقی رہنے دی گئی۔
وہ حجاج بن یوسف کے سخت خلاف تھے فرماتے تھے کہ خدا حجاج پر لعنت بھیجے اس کو نہ تو دین کی لیاقت تھی نہ دنیا کی۔حضرت عمر بن خطاب ؓ نے عراق سے دس کروڑ اٹھائیس لاکھ درہم وصول کیے جب کہ حجاج نے سخت ظلم کے باوجود صرف دو کروڑ اسی لاکھ درہم وصول کیے۔ عمر بن عبدالعزیز نے تمام مراعات کے باوجود حضرت عمرؓ کے لگ بھگ محصولات وصول کیے اور کہا کرتے تھے کہ موقع ملا تو بہت زیادہ وصولی ہو گی۔
عوام کو اس قدر مراعات دیں کہ ملک کا کاروبار چل نکلا، زمینیں آباد ہونا شروع ہوگئیں، تجارت بڑھنے لگی عوام میںبے حد اعتماد پیدا ہوا۔ہر شہری کا وظیفہ مقرر ہوا۔ معذوروں اور اندھوں کو ملازم دیے گئے ۔ہر حاجت مند کی حاجت روائی کا حکم ہوا یہاں تک کہ نادار قرضداروں کے قرض تک بیت المال سے ادا کیے گئے ۔ لوگ اپنے اپنے کاروبار میں لگ گئے۔خیرات اور مالی امداد دینے والوں کا بیان ہے کہ گزشتہ سال جو لوگ خیرات لیتے تھے وہ اس سال خیرات دینے والے بن گئے ۔ امدادی رقوم واپس بیت المال میں آجاتی تھیں۔
حجاج کا خاندان ظلم کا نمونہ بن گیا تھا اس کو یمن کی طرف جلا وطن کر دیا گیا اور وہاں کے حاکم کو لکھا کہ آل عقیل کو بھیج رہا ہوں جو بدترین لوگ ہیں ان کو ادھر اُدھر منتشر کر دو۔ خود اپنے ارد گرد اچھے افراد کو جمع کیا ۔ شروع میں جب اچھے لوگوں کی جستجو ہوئی تو ایک دوست نے کہا آپ اس کی فکر نہ کریں ۔ آپ ایک بازار ہیں اور بازار میں وہی مال آتا ہے جو چلتا ہو جب معلوم ہو گا کہ آپ کے ہاں صرف کھرا مال چلتا ہے تو سب کھر امال لے کر آئیںگے۔تنخواہیں بہت بڑھا دیں۔ اپنی تنخواہ تو روزانہ دو درہم تھی لیکن افسروں کو دودو سو اشرفیاں دی جاتی تھیں اور فرماتے تھے کہ میں ان کو بے فکر کر دینا چاہتا ہوں ۔ہر طرف عدل اور انصاف قائم کر دیا۔ایک گورنر نے لکھا کہ میرا شہر ویران ہو گیا ہے کچھ رقم مرمت کے لیے بجھوایئے ۔ جواب میں لکھا اس شہر کو عدل و انصاف سے قلعہ بند کرو اور ظلم سے اس کے راستوں کو صاف کرو یہی اس کی مرمت ہے ۔
آخر یہ سب کیسے ہو گیا ۔اتنی خوشحالی کیسے آگئی اس قدر امن کیسے قائم ہو گیا ۔مملکت کے مسلمان اور غیر مسلم شہری کے مابین حقوق کی تمیز کیسے ختم ہو گئی۔حکومتی سطح پر ظلم اور ناانصافی کیسے ختم ہو گئی ۔ہاتھ پھیلانے والے کہاں گم ہو گئے اور ہاتھ سے دینے والے کہاں سے آگئے ۔
(جاری ہے)