افشائے راز
بھارت کے دو جاسوسی اداروں کے درمیان آج کل ایک نام نہاد ’’پولیس مقابلے‘‘ میں ہونے والی موت کی۔۔۔
بھارت کے دو جاسوسی اداروں کے درمیان آج کل ایک نام نہاد ''پولیس مقابلے'' میں ہونے والی موت کی ذمے داری کے حوالے سے شدید جھگڑا چل رہا ہے۔ مقدمہ عدالت میں ہے اور فریقین خود کو بری الذمہ قرار دینے کے بعد ساری ذمے داری دوسروں کے سرتھونپنے میں ہلکان ہوئے جارہے ہیں۔ اس مقدمے کے پیچھے حقائق جو بھی ہوں ہمیں ان کی تفصیل میں اُلجھنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے لیے اہم ترین خبر تو یہ ہے کہ اسی مقدمے کے حوالے سے بھارتی وزارتِ داخلہ کے ایک اہلکار نے ایک حلف نامہ داخل کروایا ہے۔
جس میں اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسے CBIکے ایک اہم عہدے دار نے بڑے اعتماد اور تفصیل کے ساتھ بتایا اور سمجھایا تھا کہ بھارتی خفیہ ادارے ممبئی جیسے واقعات خود کرواتے ہیں تاکہ دہشت گردی پر قابو پانے کے نام پر ان کی ریاست زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرسکے۔ اس افسر کے حلف نامے کی خبر بھارت میں انگریزی زبان کے سب سے زیادہ چھپنے اور بکنے والے ''ٹائمز آف انڈیا'' تک پہنچی تو اس نے اسے ''بریکنگ نیوز'' کی صورت اپنے صفحات پر ڈرامائی انداز میں شایع کردیا۔ بھارت میں یہ خبر رات گئی بات گئی ہوگئی۔ مگر ہمارے ہاں رونق لگ گئی۔
مختلف انٹرنیٹ اکائونٹس کے ذریعے پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی نگہبانی پر اپنے تئیں مامور بہت مستعد خواتین وحضرات نے اس خبر کے حوالے سے پاکستان کے ''بکائو میڈیا'' کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ انھیں دُکھ ہوا کہ ہمہ وقت چوکس رہنے کا دعوے دار یہ میڈیا اس خبر کو تقریباً نظرانداز کیے بیٹھا ہے۔ اس خبر کے عیاں ہونے سے چند روز پہلے پاکستان کے ایک مسلم برادر ملک کے مشہور زمانہ الجزیرہ ٹی وی نے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کی تحقیقات کے لیے بنائے کمیشن کی رپورٹ طشت ازبام کردی تھی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2مئی 2011ء کو ہونے والے امریکی آپریشن کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا جو ''ان کیمرہ'' اجلاس ہوا تھا اس کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیے میں واضح طورپر وعدہ کیا گیا تھا کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ جلدازجلد عوام کے منتخب ایوانوں کو پیش کردی جائے گی۔ مگر کمیشن نے اپنی رپورٹ مکمل کرنے میں بہت دیر لگادی۔ بالآخر2013ء کی فروری کے پہلے ہفتے میں یہ اس وقت کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو بھیج دی گئی۔ انھوں نے اس کی ایک کاپی اپنے وزیر قانون کو بھیج کر معلوم کرنا چاہا کہ رپورٹ کو من وعن عوام کے سامنے لانا مناسب ہوگا یا نہیں۔ غالباً فاروق نائیک صاحب نے رپورٹ دبا دینے کا مشورہ دیا۔ پھر عبوری حکومت آگئی اور ہم سب انتخابات کے شوروغوغا میں مصروف ہوگئے اور ان انتخابات کے بعد نواز شریف صاحب تیسری مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بنے۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ کارگل واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بنانے اور اسے پوری دُنیا کے سامنے لانے کے وعدے کرتے رہے۔ انھیں اپنے دفتر میں پہلے سے موجود ایک اور کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کرتے ہوئے پورا سچ بولنے کی ابتداء کردینا چاہیے تھی۔ وہ مگر بجلی کا بحران حل کرنے اور گوادر کو کاشغر سے بلٹ ٹرین کے ذریعے ملانے والے بڑے کاموں کی تکمیل میں مصروف ہوگئے۔ ایبٹ آباد کمیشن کے بارے میں آج کل حکومت یہ پتہ لگانے کی کوشش کررہی ہے کہ اس کی رپورٹ الجزیرہ کے ہاتھ کیسے آئی۔ امید ہے بہت جلد اس ''غدار'' کا سراغ لگاکر اسے نشانِ عبرت بنادیا جائے گا جس نے قومی راز اغیار کے حوالے کردیے۔ اس ''غدار'' کا سراغ لگانے میں تو دیر لگ جائے گی۔
مگر الجزیرہ کے ذریعے آنے والی اس رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا صاحب نے کمیشن کو واضح الفاظ میں بتادیا تھا کہ پاکستانیوں کی اکثریت اور خاص کر میڈیا والے ملک دشمنوں کی بڑے سستے داموں خدمت کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ پاشا صاحب کے ایک پیش رو جاوید اشرف قاضی صاحب نے بھی آج سے سات سال پہلے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں دو قسم کے صحافی پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو شراب وشباب کے لالچ میں اسلام آباد میں متعین سفارتکاروں کی چاکری کرتے ہیں اور دوسرے نیک اور صالح صحافی جو نظریہ پاکستان کی ہر صورت حفاظت کو اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔
قاضی صاحب نے البتہ یہ وضاحت نہیں کی تھی کہ پاکستانی صحافیوں کی اکثریت کا تعلق کس گروہ سے ہے۔ پاشا صاحب کے خیال میں البتہ صحافیوں کی کثیر تعداد اب صراطِ مستقیم سے بھٹک چکی ہے۔ اپنے دورِ اقتدار میں پاشا صاحب اگرچہ انھیں سیدھے راستے پر رکھنے کی کاوشوں میں مبتلا نظر نہ آئے۔ انھیں شاید ضرورت بھی نہ تھی۔ اس لیے کہ ہمارے ایمان پرور نوجوانوں کے پاس انٹرنیٹ جیسا موثر ہتھیار ہے اور وہ اس کے ذریعے پاکستان کے ''بکائو میڈیا'' میں بیٹھی کالی بھیڑوں کو ہر روز بے نقاب کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ایک قبلہ اس فکری جہاد کے سب سے نمایاں کمانڈر ہیں۔ ''ٹائمز آف انڈیا'' میں خبر شایع ہونے کے بعد سے ہر شام بیک وقت کئی چینلوں پر بیٹھ کر ملک دشمنوں کو بے نقاب کررہے ہیں۔ خدا انھیں لمبی عمر عطاء فرمائے اور ٹیلی وژن اسکرینوں کو پُررونق بنانے کی صلاحیتوں سے نوازتا رہے۔
ان کے خیالات بڑے غور سے سننے کے بعد میری نواز شریف صاحب سے دست بستہ التجا ہے کہ وہ فوری طورپر ان کمانڈر کو اپنا خصوصی مشیر برائے قومی سلامتی اور خارجہ امور مقرر کریں۔ انھیں مناسب فنڈز فراہم کرنے کے بعد واشنگٹن بھیجا جائے تاکہ وہ اپنی لاثانی طاقتِ لسانی سے وہاں کے میڈیا کے ذریعے امریکی عوام کو بتائیں کہ ممبئی حملے کے دوران ان کے جو ہم وطن مارے گئے تھے اس کے اصل ذمے دار بھارت کے جاسوسی ادارے ہیں۔ اسرائیل سے ہمارے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ مگر روابط تو کسی نہ کسی طور بنائے جاسکتے ہیں۔ چند اسرائیلی سیاح بھی اس حملے میں مارے گئے تھے۔
امریکی اور اسرائیلی شہریوں کو ممبئی حملے کی حقیقت بتا کر ہم وہاں کی رائے عامہ کو اپنی حکومتوں کو اس امر پر مجبور کرنے میں مدد دے سکتے ہیں کہ وہ اس واقع کے ''اصل حقائق'' آجانے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلوائیں اور وہاں بھارت کو دہشت گردی کا سرپرست ٹھہرانے کی قرارداد منظور کروائی جائے۔ قبلہ کمانڈر صاحب نے پاکستان کے ''بکائو میڈیا'' میں بیٹھی کالی بھیڑوں کو پوری طرح بے نقاب کردیا ہے۔ معاملہ مگر یہاں ختم نہیں ہونا چاہیے۔ اسے منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا اور یہ فریضہ صرف قبلہ کمانڈر کی سرکار ہی انجام دے سکتی ہے۔ نواز شریف نے ان سے رجوع نہ کیا تو اچھی بات نہیں ہے۔ ''ٹائمز آف انڈیا'' میں خبر چھپنے کے بعد وہ کیوں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے اور اس سے تجارت کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
جس میں اس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسے CBIکے ایک اہم عہدے دار نے بڑے اعتماد اور تفصیل کے ساتھ بتایا اور سمجھایا تھا کہ بھارتی خفیہ ادارے ممبئی جیسے واقعات خود کرواتے ہیں تاکہ دہشت گردی پر قابو پانے کے نام پر ان کی ریاست زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرسکے۔ اس افسر کے حلف نامے کی خبر بھارت میں انگریزی زبان کے سب سے زیادہ چھپنے اور بکنے والے ''ٹائمز آف انڈیا'' تک پہنچی تو اس نے اسے ''بریکنگ نیوز'' کی صورت اپنے صفحات پر ڈرامائی انداز میں شایع کردیا۔ بھارت میں یہ خبر رات گئی بات گئی ہوگئی۔ مگر ہمارے ہاں رونق لگ گئی۔
مختلف انٹرنیٹ اکائونٹس کے ذریعے پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی نگہبانی پر اپنے تئیں مامور بہت مستعد خواتین وحضرات نے اس خبر کے حوالے سے پاکستان کے ''بکائو میڈیا'' کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ انھیں دُکھ ہوا کہ ہمہ وقت چوکس رہنے کا دعوے دار یہ میڈیا اس خبر کو تقریباً نظرانداز کیے بیٹھا ہے۔ اس خبر کے عیاں ہونے سے چند روز پہلے پاکستان کے ایک مسلم برادر ملک کے مشہور زمانہ الجزیرہ ٹی وی نے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کی تحقیقات کے لیے بنائے کمیشن کی رپورٹ طشت ازبام کردی تھی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2مئی 2011ء کو ہونے والے امریکی آپریشن کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا جو ''ان کیمرہ'' اجلاس ہوا تھا اس کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیے میں واضح طورپر وعدہ کیا گیا تھا کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ جلدازجلد عوام کے منتخب ایوانوں کو پیش کردی جائے گی۔ مگر کمیشن نے اپنی رپورٹ مکمل کرنے میں بہت دیر لگادی۔ بالآخر2013ء کی فروری کے پہلے ہفتے میں یہ اس وقت کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو بھیج دی گئی۔ انھوں نے اس کی ایک کاپی اپنے وزیر قانون کو بھیج کر معلوم کرنا چاہا کہ رپورٹ کو من وعن عوام کے سامنے لانا مناسب ہوگا یا نہیں۔ غالباً فاروق نائیک صاحب نے رپورٹ دبا دینے کا مشورہ دیا۔ پھر عبوری حکومت آگئی اور ہم سب انتخابات کے شوروغوغا میں مصروف ہوگئے اور ان انتخابات کے بعد نواز شریف صاحب تیسری مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بنے۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ کارگل واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بنانے اور اسے پوری دُنیا کے سامنے لانے کے وعدے کرتے رہے۔ انھیں اپنے دفتر میں پہلے سے موجود ایک اور کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کرتے ہوئے پورا سچ بولنے کی ابتداء کردینا چاہیے تھی۔ وہ مگر بجلی کا بحران حل کرنے اور گوادر کو کاشغر سے بلٹ ٹرین کے ذریعے ملانے والے بڑے کاموں کی تکمیل میں مصروف ہوگئے۔ ایبٹ آباد کمیشن کے بارے میں آج کل حکومت یہ پتہ لگانے کی کوشش کررہی ہے کہ اس کی رپورٹ الجزیرہ کے ہاتھ کیسے آئی۔ امید ہے بہت جلد اس ''غدار'' کا سراغ لگاکر اسے نشانِ عبرت بنادیا جائے گا جس نے قومی راز اغیار کے حوالے کردیے۔ اس ''غدار'' کا سراغ لگانے میں تو دیر لگ جائے گی۔
مگر الجزیرہ کے ذریعے آنے والی اس رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا صاحب نے کمیشن کو واضح الفاظ میں بتادیا تھا کہ پاکستانیوں کی اکثریت اور خاص کر میڈیا والے ملک دشمنوں کی بڑے سستے داموں خدمت کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ پاشا صاحب کے ایک پیش رو جاوید اشرف قاضی صاحب نے بھی آج سے سات سال پہلے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں دو قسم کے صحافی پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو شراب وشباب کے لالچ میں اسلام آباد میں متعین سفارتکاروں کی چاکری کرتے ہیں اور دوسرے نیک اور صالح صحافی جو نظریہ پاکستان کی ہر صورت حفاظت کو اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔
قاضی صاحب نے البتہ یہ وضاحت نہیں کی تھی کہ پاکستانی صحافیوں کی اکثریت کا تعلق کس گروہ سے ہے۔ پاشا صاحب کے خیال میں البتہ صحافیوں کی کثیر تعداد اب صراطِ مستقیم سے بھٹک چکی ہے۔ اپنے دورِ اقتدار میں پاشا صاحب اگرچہ انھیں سیدھے راستے پر رکھنے کی کاوشوں میں مبتلا نظر نہ آئے۔ انھیں شاید ضرورت بھی نہ تھی۔ اس لیے کہ ہمارے ایمان پرور نوجوانوں کے پاس انٹرنیٹ جیسا موثر ہتھیار ہے اور وہ اس کے ذریعے پاکستان کے ''بکائو میڈیا'' میں بیٹھی کالی بھیڑوں کو ہر روز بے نقاب کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ایک قبلہ اس فکری جہاد کے سب سے نمایاں کمانڈر ہیں۔ ''ٹائمز آف انڈیا'' میں خبر شایع ہونے کے بعد سے ہر شام بیک وقت کئی چینلوں پر بیٹھ کر ملک دشمنوں کو بے نقاب کررہے ہیں۔ خدا انھیں لمبی عمر عطاء فرمائے اور ٹیلی وژن اسکرینوں کو پُررونق بنانے کی صلاحیتوں سے نوازتا رہے۔
ان کے خیالات بڑے غور سے سننے کے بعد میری نواز شریف صاحب سے دست بستہ التجا ہے کہ وہ فوری طورپر ان کمانڈر کو اپنا خصوصی مشیر برائے قومی سلامتی اور خارجہ امور مقرر کریں۔ انھیں مناسب فنڈز فراہم کرنے کے بعد واشنگٹن بھیجا جائے تاکہ وہ اپنی لاثانی طاقتِ لسانی سے وہاں کے میڈیا کے ذریعے امریکی عوام کو بتائیں کہ ممبئی حملے کے دوران ان کے جو ہم وطن مارے گئے تھے اس کے اصل ذمے دار بھارت کے جاسوسی ادارے ہیں۔ اسرائیل سے ہمارے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ مگر روابط تو کسی نہ کسی طور بنائے جاسکتے ہیں۔ چند اسرائیلی سیاح بھی اس حملے میں مارے گئے تھے۔
امریکی اور اسرائیلی شہریوں کو ممبئی حملے کی حقیقت بتا کر ہم وہاں کی رائے عامہ کو اپنی حکومتوں کو اس امر پر مجبور کرنے میں مدد دے سکتے ہیں کہ وہ اس واقع کے ''اصل حقائق'' آجانے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلوائیں اور وہاں بھارت کو دہشت گردی کا سرپرست ٹھہرانے کی قرارداد منظور کروائی جائے۔ قبلہ کمانڈر صاحب نے پاکستان کے ''بکائو میڈیا'' میں بیٹھی کالی بھیڑوں کو پوری طرح بے نقاب کردیا ہے۔ معاملہ مگر یہاں ختم نہیں ہونا چاہیے۔ اسے منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا اور یہ فریضہ صرف قبلہ کمانڈر کی سرکار ہی انجام دے سکتی ہے۔ نواز شریف نے ان سے رجوع نہ کیا تو اچھی بات نہیں ہے۔ ''ٹائمز آف انڈیا'' میں خبر چھپنے کے بعد وہ کیوں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے اور اس سے تجارت کرنے کی بات کر رہے ہیں۔