ملساں نال خیال دے
سندھ کی سرزمین پر کئی صوفیوں نے جنم لیا۔ انھوں نے اپنے کلام کے توسط سے محبت، امن و یکجہتی کا پیغام دیا۔۔۔
KARACHI:
سندھ کی سرزمین پر کئی صوفیوں نے جنم لیا۔ انھوں نے اپنے کلام کے توسط سے محبت، امن و یکجہتی کا پیغام دیا، جن میں حضرت سچل سرمست کا نام بھی شامل ہے جنھیں ہفت زبان شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری زمان و مکان کی حد بندیوں سے ماورا ہے۔ آپ کی ولادت 1739 میں ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب نادر شاہ نے سندھ پر حملہ کیا تھا۔ بڑی تباہی مچانے کے ساتھ اس نے سندھ کے علمی ذخیرے بھی تہس نہس کر ڈالے۔ سچل نے 15 سال کی عمر میں احمد شاہ ابدالی کو سندھ پر حملہ آور ہوتے دیکھا اور کئی سیاسی، سماجی و معاشرتی تبدیلیاں ان کے مشاہدے میں آئیں۔ ان کے ادبی دور میں سندھی شعر فارسی و عربی زبان کے لفظوں کے زیر اثر تھے۔ غزل گو شاعروں میں سچل سرمست، سید ثابت علی شاہ، میر نمیر خان، میر حسین علی خان، خلیفہ کرم اللہ کے نام نمایاں ہیں۔ اسی دور میں ہمیں مرثیہ نگاری، سلام، مسدس، مثنوی، رباعی اور منظوم قصہ گوئی کے فن پارے ملتے ہیں۔ حضرت سچل سرمست کی شاعری میں نئے تجربات کا عکس دکھائی دیتا ہے، جن میں کافی، گھڑولی، جھولنو، ڈوہیڑا وغیرہ شامل ہیں۔ وحدت الوجود، ہمہ اوست، وجد، فنا سے لے کر تصوف کی کئی گہرائیاں سچل کی شاعری کی مالا میں موتیوں کی طرح پروئی ہوئی ہیں۔
حضرت سچل سرمست نے سرائیکی زبان میں بامعنی اور خوبصورت شعر کہے ہیں۔ سرائیکی میں خواجہ غلام فرید، مولوی لطف علی، بیدل، رکھیل شاہ، حمل اور روحل کی شاعری انفرادیت کی حامل ہے۔ آپ کا اصلی نام عبدالوہاب تھا مگر سچائی سے محبت کی وجہ سے انھیں سچل کے تخلص سے نوازا گیا۔ سچائی، تصوف کی بنیادی خوبی ہے۔ عمل، قول و فعل کی سچائی انسان کو عظمت کی بلندیوں پر لے جاتی ہے۔ یہ ایک انتہائی کٹھن راستہ ہے، جو طالب کو مطلوب تک لے کر جاتا ہے۔ فرماتے ہیں:
عشق دو کار بداند ، اول از خود برھاند
سربشمشیر براند، جز خدا ھیچ نماند
پس بہ محبوب رساند ، غیر خیالات براند
(عشق دو کام کر دکھاتا ہے۔ ابتدا میں یہ اپنی ذات سے آزادی دلاتا ہے۔ پھر تلوار سے سر کاٹ دیتا ہے۔ اور پھر خدا کی ذات کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ پھر محبوب ملتا ہے۔ باقی تمام خیال دل سے نکال دیتا ہے)
عشق کی دو نشانیاں بتاتے ہیں۔ جسم کو فنا کرتا ہے۔ پھر ابدی زندگی بخشتا ہے۔ یہ وہ زندگی ہے، جو تزکیہ نفس سے حاصل ہوتی ہے۔ محبت ایک کلینزر کا کام کرتی ہے۔ ذہن و جسم کی آلودگیوں کو شفاف بنادیتی ہے۔ نفرت، ذات کی مبالغہ آرائی ہے۔ دوغلا پن سکھاتی ہے۔ نفرت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ نفرت کرنے والا شخص دنیا کا کمزور ترین انسان ہے، چاہے بظاہر کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سچل سرمست جا بجا محبت کا لفظ دہراتے ہیں۔ جو ذات کا آئینہ بن جاتی ہے۔ جس میں اپنے عکس کے بجائے محبوب کا جمال دکھائی دیتا ہے۔ مزید کہتے ہیں:
جسم ہست ایں یک خانہ ، جائی پاکیزہ شھانہ
درصدف چوں دردانہ ، این نباشد بتخانہ
بیشکن سو مردانہ ، تا شوی یار یگانہ
(یہ جسم ایک گھر کی طرح ہے جو دیکھنے میں بہت اچھا اور شاندار نظر آتا ہے۔ اور اس میں روح اس طرح ہے سیپ میں کوئی موتی ہو جیسے، کیا یہ گھر بت خانہ نہیں ہے؟ ہمت سے کام لے کر اسے توڑدو، تاکہ تم منفرد بن جاؤ)
سچل سرمست اس کائنات کی گہرائی میں محو ہوجاتے ہیں۔ یہ ارتکاز کے لمحے الہامی کیفیت میں بدل جاتے ہیں۔ جو انھیں ابدی سچ کی گہرائی میں لے کر جاتا ہے۔ جو زندگی کی بے ثباتی سے عبارت ہے۔ زندگی جہاں ایک واہمہ ہے۔ محض ایک فریب جو مکڑی کے جالے کی طرح ذہن سے لپٹتا چلا جاتا ہے۔ افلاطون نے بھی یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ یہ کائنات ایک اصلی خیال کی نقل ہے جو پرفریب ہے۔ سچل سرمست خود کو بھی ایک خیال کی طرح سمجھتے ہیں جوکہ دوبارہ ابدی سوچ کے محور سے جاملے گا۔ زندگی کی اس تلخ سچائی کی وجہ سے سچل ذات کی نفی اور فنا کے راستوں کو دائمی سچائی سے منسوب کرتے ہیں۔ صوفی وجود رکھتا ہے مگر اس کے وجود میں ذات کی نفی سانس لیتی ہے اور اس نفی میں محبوب کا عکس نمایاں ہے۔
میں نے اپنی ذات سے آزادی حاصل کرلی ہے
اور یہ سچ بولا ہے۔ میری آنکھوں سے اشک
رواں ہیں۔ میں درد دل بیان کررہا ہوں
میں نہ یہ ہوں اور نہ وہ ہوں بلکہ
سراپا الاہی راز ہوں میں
فنا، انفرادیت کی نفی ہے لہٰذا طالب اپنے مزاج و خواہشوں کی قید سے آزادی کے بعد عرفان حاصل کرتا ہے۔ دوسرے درجے میں نفس کی کشش سے باہر نکلنے کی کوشش شامل ہے۔ تیسرے درجے میں طالب نور الاہی کے سحر میں کھوکر وجود کی حقیقت سے بے بہرہ ہوجاتا ہے۔ اس حد تک کہ وہ اپنی منزل پر پہنچنے کے شعور سے بھی غافل ہوکر رہ جائے۔ کاملیت کا احساس اس کے قدم ڈگمگا دے گا۔ اس کی طلب میں کمی واقع ہوجائے گی۔ بے خبری میں عافیت ہے۔ کیونکہ طالب کو صلے کی تمنا نہیں ہوتی، جو عشق مجازی کی اولین ترجیح کہلاتی ہے۔ یہی کیفیت بلھے شاہ کے شعر میں بھی پائی جاتی ہے۔
چل بلھیا چل اوتھے چلیے جتھے سارے انھے
نا کوئی ساڈی ذات پہچانے نا کوئی سانوں منے
حقیقی طالب گمنام رہنا چاہتے ہیں۔ حقیقت کے بجائے ایک خیال کی صورت یا احساس کی پرچھائیں بن کر تاکہ وہ عشق کی روشنی کے سمندر میں بغیر کسی رکاوٹ کے اتر جائیں۔ خاموشی، خیال کو جلا بخشتی ہے۔ گمنامی، فنا کے خیال کو تقویت عطا کرتی ہے۔ حضرت سچل سرمست اس خیال کے حامی ہیں کہ کائنات کی ہر چیز خدا کی ذات کا پرتو ہے۔ لہٰذا صفات یا کثرت خیال ہے کوئی حقیقت نہیں ۔ سچل فرماتے ہیں:
میں تہ کوئی خیال ہاں ملساں نال خیال دے
وہ خود کو نفی کی صورت خیال کے روپ میں دیکھتے ہیں جو سوچ کے اس زاویے سے جاملے گا جس کی کڑیاں ذات مطلق سے جاملتی ہیں۔
سچل کی شاعری اس رابطے کی نشاندہی کرتی ہے جو انسانوں کے درمیان یکجہتی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ انسان کے مختلف روپ، رنگ اور پہچان کے ذریعے عارضی ہیں۔
سندھ کی سرزمین پر کئی صوفیوں نے جنم لیا۔ انھوں نے اپنے کلام کے توسط سے محبت، امن و یکجہتی کا پیغام دیا، جن میں حضرت سچل سرمست کا نام بھی شامل ہے جنھیں ہفت زبان شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری زمان و مکان کی حد بندیوں سے ماورا ہے۔ آپ کی ولادت 1739 میں ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب نادر شاہ نے سندھ پر حملہ کیا تھا۔ بڑی تباہی مچانے کے ساتھ اس نے سندھ کے علمی ذخیرے بھی تہس نہس کر ڈالے۔ سچل نے 15 سال کی عمر میں احمد شاہ ابدالی کو سندھ پر حملہ آور ہوتے دیکھا اور کئی سیاسی، سماجی و معاشرتی تبدیلیاں ان کے مشاہدے میں آئیں۔ ان کے ادبی دور میں سندھی شعر فارسی و عربی زبان کے لفظوں کے زیر اثر تھے۔ غزل گو شاعروں میں سچل سرمست، سید ثابت علی شاہ، میر نمیر خان، میر حسین علی خان، خلیفہ کرم اللہ کے نام نمایاں ہیں۔ اسی دور میں ہمیں مرثیہ نگاری، سلام، مسدس، مثنوی، رباعی اور منظوم قصہ گوئی کے فن پارے ملتے ہیں۔ حضرت سچل سرمست کی شاعری میں نئے تجربات کا عکس دکھائی دیتا ہے، جن میں کافی، گھڑولی، جھولنو، ڈوہیڑا وغیرہ شامل ہیں۔ وحدت الوجود، ہمہ اوست، وجد، فنا سے لے کر تصوف کی کئی گہرائیاں سچل کی شاعری کی مالا میں موتیوں کی طرح پروئی ہوئی ہیں۔
حضرت سچل سرمست نے سرائیکی زبان میں بامعنی اور خوبصورت شعر کہے ہیں۔ سرائیکی میں خواجہ غلام فرید، مولوی لطف علی، بیدل، رکھیل شاہ، حمل اور روحل کی شاعری انفرادیت کی حامل ہے۔ آپ کا اصلی نام عبدالوہاب تھا مگر سچائی سے محبت کی وجہ سے انھیں سچل کے تخلص سے نوازا گیا۔ سچائی، تصوف کی بنیادی خوبی ہے۔ عمل، قول و فعل کی سچائی انسان کو عظمت کی بلندیوں پر لے جاتی ہے۔ یہ ایک انتہائی کٹھن راستہ ہے، جو طالب کو مطلوب تک لے کر جاتا ہے۔ فرماتے ہیں:
عشق دو کار بداند ، اول از خود برھاند
سربشمشیر براند، جز خدا ھیچ نماند
پس بہ محبوب رساند ، غیر خیالات براند
(عشق دو کام کر دکھاتا ہے۔ ابتدا میں یہ اپنی ذات سے آزادی دلاتا ہے۔ پھر تلوار سے سر کاٹ دیتا ہے۔ اور پھر خدا کی ذات کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ پھر محبوب ملتا ہے۔ باقی تمام خیال دل سے نکال دیتا ہے)
عشق کی دو نشانیاں بتاتے ہیں۔ جسم کو فنا کرتا ہے۔ پھر ابدی زندگی بخشتا ہے۔ یہ وہ زندگی ہے، جو تزکیہ نفس سے حاصل ہوتی ہے۔ محبت ایک کلینزر کا کام کرتی ہے۔ ذہن و جسم کی آلودگیوں کو شفاف بنادیتی ہے۔ نفرت، ذات کی مبالغہ آرائی ہے۔ دوغلا پن سکھاتی ہے۔ نفرت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ نفرت کرنے والا شخص دنیا کا کمزور ترین انسان ہے، چاہے بظاہر کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سچل سرمست جا بجا محبت کا لفظ دہراتے ہیں۔ جو ذات کا آئینہ بن جاتی ہے۔ جس میں اپنے عکس کے بجائے محبوب کا جمال دکھائی دیتا ہے۔ مزید کہتے ہیں:
جسم ہست ایں یک خانہ ، جائی پاکیزہ شھانہ
درصدف چوں دردانہ ، این نباشد بتخانہ
بیشکن سو مردانہ ، تا شوی یار یگانہ
(یہ جسم ایک گھر کی طرح ہے جو دیکھنے میں بہت اچھا اور شاندار نظر آتا ہے۔ اور اس میں روح اس طرح ہے سیپ میں کوئی موتی ہو جیسے، کیا یہ گھر بت خانہ نہیں ہے؟ ہمت سے کام لے کر اسے توڑدو، تاکہ تم منفرد بن جاؤ)
سچل سرمست اس کائنات کی گہرائی میں محو ہوجاتے ہیں۔ یہ ارتکاز کے لمحے الہامی کیفیت میں بدل جاتے ہیں۔ جو انھیں ابدی سچ کی گہرائی میں لے کر جاتا ہے۔ جو زندگی کی بے ثباتی سے عبارت ہے۔ زندگی جہاں ایک واہمہ ہے۔ محض ایک فریب جو مکڑی کے جالے کی طرح ذہن سے لپٹتا چلا جاتا ہے۔ افلاطون نے بھی یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ یہ کائنات ایک اصلی خیال کی نقل ہے جو پرفریب ہے۔ سچل سرمست خود کو بھی ایک خیال کی طرح سمجھتے ہیں جوکہ دوبارہ ابدی سوچ کے محور سے جاملے گا۔ زندگی کی اس تلخ سچائی کی وجہ سے سچل ذات کی نفی اور فنا کے راستوں کو دائمی سچائی سے منسوب کرتے ہیں۔ صوفی وجود رکھتا ہے مگر اس کے وجود میں ذات کی نفی سانس لیتی ہے اور اس نفی میں محبوب کا عکس نمایاں ہے۔
میں نے اپنی ذات سے آزادی حاصل کرلی ہے
اور یہ سچ بولا ہے۔ میری آنکھوں سے اشک
رواں ہیں۔ میں درد دل بیان کررہا ہوں
میں نہ یہ ہوں اور نہ وہ ہوں بلکہ
سراپا الاہی راز ہوں میں
فنا، انفرادیت کی نفی ہے لہٰذا طالب اپنے مزاج و خواہشوں کی قید سے آزادی کے بعد عرفان حاصل کرتا ہے۔ دوسرے درجے میں نفس کی کشش سے باہر نکلنے کی کوشش شامل ہے۔ تیسرے درجے میں طالب نور الاہی کے سحر میں کھوکر وجود کی حقیقت سے بے بہرہ ہوجاتا ہے۔ اس حد تک کہ وہ اپنی منزل پر پہنچنے کے شعور سے بھی غافل ہوکر رہ جائے۔ کاملیت کا احساس اس کے قدم ڈگمگا دے گا۔ اس کی طلب میں کمی واقع ہوجائے گی۔ بے خبری میں عافیت ہے۔ کیونکہ طالب کو صلے کی تمنا نہیں ہوتی، جو عشق مجازی کی اولین ترجیح کہلاتی ہے۔ یہی کیفیت بلھے شاہ کے شعر میں بھی پائی جاتی ہے۔
چل بلھیا چل اوتھے چلیے جتھے سارے انھے
نا کوئی ساڈی ذات پہچانے نا کوئی سانوں منے
حقیقی طالب گمنام رہنا چاہتے ہیں۔ حقیقت کے بجائے ایک خیال کی صورت یا احساس کی پرچھائیں بن کر تاکہ وہ عشق کی روشنی کے سمندر میں بغیر کسی رکاوٹ کے اتر جائیں۔ خاموشی، خیال کو جلا بخشتی ہے۔ گمنامی، فنا کے خیال کو تقویت عطا کرتی ہے۔ حضرت سچل سرمست اس خیال کے حامی ہیں کہ کائنات کی ہر چیز خدا کی ذات کا پرتو ہے۔ لہٰذا صفات یا کثرت خیال ہے کوئی حقیقت نہیں ۔ سچل فرماتے ہیں:
میں تہ کوئی خیال ہاں ملساں نال خیال دے
وہ خود کو نفی کی صورت خیال کے روپ میں دیکھتے ہیں جو سوچ کے اس زاویے سے جاملے گا جس کی کڑیاں ذات مطلق سے جاملتی ہیں۔
سچل کی شاعری اس رابطے کی نشاندہی کرتی ہے جو انسانوں کے درمیان یکجہتی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ انسان کے مختلف روپ، رنگ اور پہچان کے ذریعے عارضی ہیں۔