اقتصادی سروے رپورٹ اور ملکی ترقی
آئی ایم ایف کی اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق قرض ملنے کے باوجود پاکستان ملکی ترقی کا۔۔۔
آئی ایم ایف کی اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق قرض ملنے کے باوجود پاکستان ملکی ترقی کا ہدف حاصل نہیں کر سکے گا۔ ہدف 4.4 کے بجائے 3.7 فیصد حاصل ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق قرض کی نئی قسط لینے کے بعد بجلی مہنگی کرنے، ٹیکسوں میں اضافے سے ملکی صنعت کا پہیہ رکے گا۔
پاکستان میں بجٹ پیش کرنے سے ایک دن قبل ہر سال اقتصادی سروے رپورٹ جاری کی جاتی ہے جس کا تعلق رواں مالی سال کی معاشی کارکردگی سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس سال 11 جون کو اقتصادی سروے رپورٹ 2012-13ء جاری کی گئی۔ جب کہ 12 جون 2013ء کو بجٹ 2013-14ء پیش کیا گیا تھا۔ پیش کردہ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق معاشی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہی جب کہ ہدف 4 فی صد کا تھا جو کہ حاصل نہ ہو سکا فی کس آمدن 1368 ڈالر رہی۔
اس طرح ملکی ترقی کا کوئی ہدف حاصل نہ ہو سکا۔ مجموعی قرضہ 13626 ارب روپے تک جا پہنچا۔ گردشی قرضے اور سرکاری اخراجات میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ ملک کی زرعی اور صنعتی ترقی کا ہدف حاصل نہ ہو سکا لوگوں کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی۔ مالی خسارہ جسے 4.7 فیصد تک ہونا چاہیے تھا اس کے بجائے ساڑھے چھ تا ساڑھے سات فیصد کے درمیان رہا، دہشت گردی، کراچی میں بڑھتی ہوئی بدامنی، بجلی گیس بحران، امریکا سے کولیشن فنڈ کی رقم بروقت نہ ملنے سے معیشت کو نقصان پہنچا البتہ پٹرولیم مصنوعات کی ملکی پیداوار میں اضافہ ہوا لیکن بجلی کا بحران بڑھا جس وقت یہ سروے رپورٹ پیش کی جا رہی تھی انھی دنوں ملک میں لوڈ شیڈنگ میں مزید اضافہ ہو رہا تھا جس کے باعث مختلف شہروں میں پرتشدد مظاہرے ہوتے رہے۔
سڑکیں بلاک کی جاتی رہیں، ان پر ٹریفک جام ہوتا رہا، راستے بند کیے جاتے رہے، ٹریفک کا اژدھام بڑھتا رہا۔ مختلف گرڈ اسٹیشنوں پر جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری رہا۔ پولیس بھی شیلنگ اور لاٹھی چارج کرتی رہی۔ گرمی بھی خوب زوروں پر تھی لوگوں کے خوب پسینے بہتے رہے اور توانائی کا بحران بڑھتا ہی رہا۔ ملکی ترقی نہ ہونے کا ایک اہم سبب توانائی بحران کو قرار دیا جاتا رہا ہے۔ سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ سابقہ حکومت نے اپنے 5سالہ دور میں 1400 ارب روپے کے گردشی قرضے اتارے تھے۔ قرضوں کے حجم کے بارے میں بتایا گیا کہ 1999ء تک قرضوں کا حجم تین ہزار اب روپے تھا جو مارچ 2013ء تک بڑھ کر 13 ہزار ارب روپے سے بھی زائد ہو چکا ہے۔
اس سے قبل 2012ء میں جب اقتصادی سروے رپورٹ پیش کی گئی تھی تو بتایا گیا تھا کہ ترقی کی شرح3.7 فیصد رہی اور مہنگائی کی شرح 10.8 فیصد فی کس آمدن میں 2.3 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ٹیکس وصولی 1449 ارب روپے رہی اس وقت بھی یہ شکایت کی گئی تھی کہ طاقتور طبقے ٹیکس ادائیگی سے گریز کر رہے ہیں ان دنوں گندم کی پیداوار میں کمی ہوئی تھی 2کروڑ 35 لاکھ ٹن گندم پیدا ہوئی اور 6.7 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ 2011ء میں سروے رپورٹ پیش کرتے وقت بتایا گیا تھا کہ ٹیکس وصولی 1200 ارب روپے رہی جب کہ 2012 کے دوران ٹیکس ریکوری ٹارگٹ 1952 ارب روپے تھی البتہ 10 ماہ میں 1449 ارب روپے کی وصولی سے پہلے کی نسبت اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ٹیکس ملکی ترقی کے لیے خرچ کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں طاقتور طبقہ ٹیکس کی ادائیگی سے گریز کر رہا ہے یا کم ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔
اس کی اہم وجہ کرپشن ہے جس کے باعث کھربوں روپے کے ٹیکس چوری کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کا شمار کرپشن کرنیوالے نمایاں ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ نقصان میں چلنے والے قومی اداروں کی وجہ بھی کرپشن ہے۔ محض کرپشن میں مسلسل اور بے تحاشا اضافے کی وجہ سے یہ ادارے سرکاری خزانے پر بوجھ بن کر رہ گئے ہیں جس سے سب سے زیادہ متاثر عوام ہو رہے ہیں۔ کم ٹیکس وصولی کرپشن میں اضافے اور قومی اداروں کے لیے امدادی پیکیج میں اضافے۔ سود پر لیے گئے قرضوں کی قسطوں اور سود کی ادائیگی کے بعد حکومت کو اپنے اخراجات پورا کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے یا پھر ٹیکسوں میں اضافے کا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔
لہٰذا اقتصادی سروے رپورٹ پیش کرنے کے بعد اگلے روز جب عوام نے نئے مالی سال کا بجٹ سنا تو سکتے میں آ گئے کیونکہ اس میں پھر سے نئے قرضوں کے حصول کی خبر دی گئی۔ عوام سے پھر قربانی حاصل کر لی گئی۔ جی ایس ٹی میں مزید ایک فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کر دیا گیا یہ سب باتیں ملکی ترقی کو پھر زک پہنچانے کے برابر تھیں۔ ایک طرف لوگوں کی قوت خرید میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ غربت کی شرح میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، بیروزگاری بڑھتی چلی جا رہی ہے، اقتصادی سروے میں بتایا گیا کہ گزشتہ سالوں میں لیبر سروے نہیں کرایا گیا تھا لیکن موجودہ حکومت لیبر سروے کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ملکی ترقی کی یہ صورتحال ہے کہ گزشتہ 5 سال کے دوران جی ڈی پی کی اوسط شرح 3 فیصد رہی ہے۔ سروے میں اس بات کا اظہار کیا گیا کہ افراط زر کی شرح 8 فیصد تک لانے کی کوشش کی جائے گی لیکن اس کے لیے حکومتی اقدامات نظر نہیں آتے یا پھر اگر کہیں معمولی اقدامات اٹھائے بھی جاتے ہیں تو وہ بدانتظامی کے سبب ناکامی کا شکار ہو رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران مہنگائی جس طرح آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ادھر جی ایس ٹی میں اضافے نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ اس ماہ میں مہنگائی میں اضافے سے حکومتی دعویٰ محض اعلان ہو کر رہ جاتا ہے کہ افراط زر کی شرح 8 تک لائی جائے گی۔
مہنگائی کے سبب لوگوں کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ سخت مانیٹرنگ سسٹم نافذ کر کے ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری کو ختم کیا جائے گا البتہ اس سلسلے میں اکا دکا اقدامات اس طرح سے نظر آتے ہیں کہ کہیں چھاپے کے دوران سرکاری نرخ چیک کر لیے جاتے ہیں لیکن اس بات کا صحیح تعین ہو پاتا کہ فروخت کی جانیوالی شے اسی قدر معیاری یا جو درجہ بندی کی گئی ہے اسی کے مطابق ہے یا نہیں؟ اس طرح مختلف صورتوں میں فروخت کنندہ ہی فائدے میں رہتا ہے اور خریدار پہلے کی طرح نقصان اٹھاتا رہتا ہے۔
عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ ممالک جن میں روزگار، پیداوار آمدنیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ان ملکوں میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ دوسری طرف وہ ممالک جہاں غربت بڑھ رہی ہو، بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہو، لوگوں کی آمدنیاں کم ہوں اور ملکی پیداوار میں کمی کے ساتھ ملکی ترقی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں نہ صرف یہ مسائل موجود ہیں بلکہ ان کے اسباب بڑھتے چلے جا رہے ہیں مثلاً صنعتی ترقی نہ ہونے کے باعث بیروزگاری بڑھتی چلی جا رہی ہے اور وطن عزیز میں دہشت گردی، بدامنی اور توانائی کے بحران کے باعث صنعتیں ملک سے بیرون ملک منتقل کی جا رہی ہیں۔ کارخانوں کی بندش کے ساتھ بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
ملک میں جیسے ہی بیروزگاروں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔ غربت میں اضافہ شروع ہو جاتا ہے۔ لوگوں کی آمدن کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ٹیکس ادا کرنیوالی صنعتیں بند ہو جائیں گی تو صنعتکار ٹیکس بھی نہیں دیگا۔ حکومت کے تمام تر اقدامات میں یہ بات کہیں نظر نہیں آتی کہ وہ صنعت کار جو اپنی صنعتیں لے جا چکے ہیں یا اپنا کاروبار محدود کر لیا ہے یا پھر یہاں سے جانے کے لیے پر تول رہے ہیں ان مسائل کے حل کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔ صنعتوں کی افزائش سے ملکی ترقی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دہشتگردی کا خاتمہ بھی کیا جائے۔ توانائی کا بحران حل کیا جائے اور ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جس سے صنعت کاروں کا اعتماد بحال ہو اور ملک ترقی کی جانب گامزن ہو۔
پاکستان میں بجٹ پیش کرنے سے ایک دن قبل ہر سال اقتصادی سروے رپورٹ جاری کی جاتی ہے جس کا تعلق رواں مالی سال کی معاشی کارکردگی سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس سال 11 جون کو اقتصادی سروے رپورٹ 2012-13ء جاری کی گئی۔ جب کہ 12 جون 2013ء کو بجٹ 2013-14ء پیش کیا گیا تھا۔ پیش کردہ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق معاشی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہی جب کہ ہدف 4 فی صد کا تھا جو کہ حاصل نہ ہو سکا فی کس آمدن 1368 ڈالر رہی۔
اس طرح ملکی ترقی کا کوئی ہدف حاصل نہ ہو سکا۔ مجموعی قرضہ 13626 ارب روپے تک جا پہنچا۔ گردشی قرضے اور سرکاری اخراجات میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ ملک کی زرعی اور صنعتی ترقی کا ہدف حاصل نہ ہو سکا لوگوں کی قوت خرید میں کمی واقع ہوئی۔ مالی خسارہ جسے 4.7 فیصد تک ہونا چاہیے تھا اس کے بجائے ساڑھے چھ تا ساڑھے سات فیصد کے درمیان رہا، دہشت گردی، کراچی میں بڑھتی ہوئی بدامنی، بجلی گیس بحران، امریکا سے کولیشن فنڈ کی رقم بروقت نہ ملنے سے معیشت کو نقصان پہنچا البتہ پٹرولیم مصنوعات کی ملکی پیداوار میں اضافہ ہوا لیکن بجلی کا بحران بڑھا جس وقت یہ سروے رپورٹ پیش کی جا رہی تھی انھی دنوں ملک میں لوڈ شیڈنگ میں مزید اضافہ ہو رہا تھا جس کے باعث مختلف شہروں میں پرتشدد مظاہرے ہوتے رہے۔
سڑکیں بلاک کی جاتی رہیں، ان پر ٹریفک جام ہوتا رہا، راستے بند کیے جاتے رہے، ٹریفک کا اژدھام بڑھتا رہا۔ مختلف گرڈ اسٹیشنوں پر جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری رہا۔ پولیس بھی شیلنگ اور لاٹھی چارج کرتی رہی۔ گرمی بھی خوب زوروں پر تھی لوگوں کے خوب پسینے بہتے رہے اور توانائی کا بحران بڑھتا ہی رہا۔ ملکی ترقی نہ ہونے کا ایک اہم سبب توانائی بحران کو قرار دیا جاتا رہا ہے۔ سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ سابقہ حکومت نے اپنے 5سالہ دور میں 1400 ارب روپے کے گردشی قرضے اتارے تھے۔ قرضوں کے حجم کے بارے میں بتایا گیا کہ 1999ء تک قرضوں کا حجم تین ہزار اب روپے تھا جو مارچ 2013ء تک بڑھ کر 13 ہزار ارب روپے سے بھی زائد ہو چکا ہے۔
اس سے قبل 2012ء میں جب اقتصادی سروے رپورٹ پیش کی گئی تھی تو بتایا گیا تھا کہ ترقی کی شرح3.7 فیصد رہی اور مہنگائی کی شرح 10.8 فیصد فی کس آمدن میں 2.3 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ٹیکس وصولی 1449 ارب روپے رہی اس وقت بھی یہ شکایت کی گئی تھی کہ طاقتور طبقے ٹیکس ادائیگی سے گریز کر رہے ہیں ان دنوں گندم کی پیداوار میں کمی ہوئی تھی 2کروڑ 35 لاکھ ٹن گندم پیدا ہوئی اور 6.7 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ 2011ء میں سروے رپورٹ پیش کرتے وقت بتایا گیا تھا کہ ٹیکس وصولی 1200 ارب روپے رہی جب کہ 2012 کے دوران ٹیکس ریکوری ٹارگٹ 1952 ارب روپے تھی البتہ 10 ماہ میں 1449 ارب روپے کی وصولی سے پہلے کی نسبت اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ٹیکس ملکی ترقی کے لیے خرچ کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں طاقتور طبقہ ٹیکس کی ادائیگی سے گریز کر رہا ہے یا کم ٹیکس ادا کیا جاتا ہے۔
اس کی اہم وجہ کرپشن ہے جس کے باعث کھربوں روپے کے ٹیکس چوری کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کا شمار کرپشن کرنیوالے نمایاں ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ نقصان میں چلنے والے قومی اداروں کی وجہ بھی کرپشن ہے۔ محض کرپشن میں مسلسل اور بے تحاشا اضافے کی وجہ سے یہ ادارے سرکاری خزانے پر بوجھ بن کر رہ گئے ہیں جس سے سب سے زیادہ متاثر عوام ہو رہے ہیں۔ کم ٹیکس وصولی کرپشن میں اضافے اور قومی اداروں کے لیے امدادی پیکیج میں اضافے۔ سود پر لیے گئے قرضوں کی قسطوں اور سود کی ادائیگی کے بعد حکومت کو اپنے اخراجات پورا کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے یا پھر ٹیکسوں میں اضافے کا بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔
لہٰذا اقتصادی سروے رپورٹ پیش کرنے کے بعد اگلے روز جب عوام نے نئے مالی سال کا بجٹ سنا تو سکتے میں آ گئے کیونکہ اس میں پھر سے نئے قرضوں کے حصول کی خبر دی گئی۔ عوام سے پھر قربانی حاصل کر لی گئی۔ جی ایس ٹی میں مزید ایک فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کر دیا گیا یہ سب باتیں ملکی ترقی کو پھر زک پہنچانے کے برابر تھیں۔ ایک طرف لوگوں کی قوت خرید میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ غربت کی شرح میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، بیروزگاری بڑھتی چلی جا رہی ہے، اقتصادی سروے میں بتایا گیا کہ گزشتہ سالوں میں لیبر سروے نہیں کرایا گیا تھا لیکن موجودہ حکومت لیبر سروے کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ملکی ترقی کی یہ صورتحال ہے کہ گزشتہ 5 سال کے دوران جی ڈی پی کی اوسط شرح 3 فیصد رہی ہے۔ سروے میں اس بات کا اظہار کیا گیا کہ افراط زر کی شرح 8 فیصد تک لانے کی کوشش کی جائے گی لیکن اس کے لیے حکومتی اقدامات نظر نہیں آتے یا پھر اگر کہیں معمولی اقدامات اٹھائے بھی جاتے ہیں تو وہ بدانتظامی کے سبب ناکامی کا شکار ہو رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران مہنگائی جس طرح آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ادھر جی ایس ٹی میں اضافے نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ اس ماہ میں مہنگائی میں اضافے سے حکومتی دعویٰ محض اعلان ہو کر رہ جاتا ہے کہ افراط زر کی شرح 8 تک لائی جائے گی۔
مہنگائی کے سبب لوگوں کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔ حکومت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ سخت مانیٹرنگ سسٹم نافذ کر کے ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری کو ختم کیا جائے گا البتہ اس سلسلے میں اکا دکا اقدامات اس طرح سے نظر آتے ہیں کہ کہیں چھاپے کے دوران سرکاری نرخ چیک کر لیے جاتے ہیں لیکن اس بات کا صحیح تعین ہو پاتا کہ فروخت کی جانیوالی شے اسی قدر معیاری یا جو درجہ بندی کی گئی ہے اسی کے مطابق ہے یا نہیں؟ اس طرح مختلف صورتوں میں فروخت کنندہ ہی فائدے میں رہتا ہے اور خریدار پہلے کی طرح نقصان اٹھاتا رہتا ہے۔
عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ ممالک جن میں روزگار، پیداوار آمدنیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ان ملکوں میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ دوسری طرف وہ ممالک جہاں غربت بڑھ رہی ہو، بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہو، لوگوں کی آمدنیاں کم ہوں اور ملکی پیداوار میں کمی کے ساتھ ملکی ترقی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں نہ صرف یہ مسائل موجود ہیں بلکہ ان کے اسباب بڑھتے چلے جا رہے ہیں مثلاً صنعتی ترقی نہ ہونے کے باعث بیروزگاری بڑھتی چلی جا رہی ہے اور وطن عزیز میں دہشت گردی، بدامنی اور توانائی کے بحران کے باعث صنعتیں ملک سے بیرون ملک منتقل کی جا رہی ہیں۔ کارخانوں کی بندش کے ساتھ بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
ملک میں جیسے ہی بیروزگاروں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔ غربت میں اضافہ شروع ہو جاتا ہے۔ لوگوں کی آمدن کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ٹیکس ادا کرنیوالی صنعتیں بند ہو جائیں گی تو صنعتکار ٹیکس بھی نہیں دیگا۔ حکومت کے تمام تر اقدامات میں یہ بات کہیں نظر نہیں آتی کہ وہ صنعت کار جو اپنی صنعتیں لے جا چکے ہیں یا اپنا کاروبار محدود کر لیا ہے یا پھر یہاں سے جانے کے لیے پر تول رہے ہیں ان مسائل کے حل کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔ صنعتوں کی افزائش سے ملکی ترقی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دہشتگردی کا خاتمہ بھی کیا جائے۔ توانائی کا بحران حل کیا جائے اور ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جس سے صنعت کاروں کا اعتماد بحال ہو اور ملک ترقی کی جانب گامزن ہو۔