ایم اسماعیل 1940ء کی شاہکار فلم ’’یملا جٹ‘‘ کے ہیروبنے
1924 میں پہلی خاموش فلم ’’ڈاٹر آف ٹوڈے ‘‘میں کام کیا ، ’’ہیررانجھا‘‘ میں کیدو بنے
لاہور:
پاکستان کی فلمی تاریخ کے سنیئر ترین اداکار ایم اسماعیل کو لاہور میں 1924 میں بننے والی پہلی خاموش فلم ''ڈاٹر آف ٹوڈے '' میں کام کرنے کا اعزاز ملا اور پہلی ہی ٹاکی فلم ''ہیررانجھا'' 1932ء میں کردار نگاری کرنے کا اعزازحاصل رہا ہے۔
اپنی زندگی کی نصف صدی فلمی دنیا میں گزارنے اور ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں نظر آنے فلموں میں کام کرنیوالے یہ فنکار 1902ء میں اندرون بھاٹی گیٹ کے ایک راجپوت گھرانے میں پیداہوئے تھے ۔ ان کے خاندان کے بعض افراد سنار کے پیشے سے منسلک تھے ۔ خود ایم اسماعیل ایک بہترین خوشنویس اور مصور تھے اور مقامی جرائد میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے ۔ اسی دوران جب لاہور میں پہلی فلم بنی تو وہ بھی اس کے اداکاروں میں شامل تھے ۔اسی شوق میں وہ لاہور سے ممبئی چلے گئے جہاں بڑی تعداد میں خاموش فلمیں بنتی تھیں ۔
وہاں ان کی یادگار فلم ''ہیر رانجھا'' 1927ء میں بنی تھی جس میں انھوں نے پہلی بار کیدو کا رول کیا جو پسند کیا گیا۔ممبئی میں متعدد خاموش فلموں میں کام کرنے کے بعد وہ واپس لاہور آگئے تھے جہاں ان کے دیرینہ دوست اے آر کاردار نے بطور ہدایتکار پہلی بولتی فلم ''حور پنجاب'' بنائی جو پنجابی زبان میں ''ہیر رانجھا'' کے نام سے 1932 ء میں ریلیز ہوئی تھی ۔ اس فلم میں بھی انھوں نے کیدو کا ہی رول کیا جب کہ فلم کے ٹائٹل رولز انوری بیگم اور رفیق غزنوی نے کیے تھے جو معروف اداکارہ و گلوکارہ سلمی آغا کے نانا نانی تھے ۔
1937ء میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ''ہیر سیال'' میںبھی ایم اسماعیل نے کیدو ہی کا کردار کیا تھا ۔ اس فلم کے ہدایتکار کشن دیو مہرا تھے اور کہانی نویس ایف ڈی شرف تھے۔ 1939ء کی ایک بہت بڑی فلم پنچولی پکچرز کی ''گل بکاؤلی'' تھی جس کے فلم پوسٹر پر ایم اسماعیل کا دیگر اداکاروں کے مقابلے میں نمایاں نام حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ وہ اس وقت کس قدر مقبول ہونگے۔ اس فلم میں بے بی نورجہاں ان کے ساتھ تھیں جب کہ پاکستان کی فلموں کے ابتدائی دور کے نامور ولن سلیم رضا بھی اہم کرداروں میں شامل تھے۔
1940ء میں پنچولی آرٹ پکچرز کی ایک اور سپرہٹ پنجابی فلم ''یملا جٹ'' میں ایم اسماعیل نے ٹائٹل رول کیا تھا ، جس کی ہیروئن نورجہاں تھی جو اب چودہ برس کی بے بی نہیں رہی تھی۔1941 ء میں لاہور میں بننے والی پنچولی آرٹ پکچرز کی ایک اور شاہکار اردو فلم ''خزانچی'' میں بھی ایم اسماعیل کا ٹائٹل رول تھا۔ 1946ء میں ممبئی میں بننے والی فلمساز اور ہدایتکار ''نذیر'' کی مشہور زمانہ فلم ''وامق عذرا'' میں ایم اسماعیل نے ولن کا رول کیا تھا ۔قیام پاکستان کے بعد ایم اسماعیل نے عام طور پر کریکٹر ایکٹر رولز ہی کیے تھے یہاں ان کی پہلی فلم ''ہچکولے'' 1949ء تھی جو پاکستان کی دوسری ریلیز ہونے والی فلم ہے۔
پاٹے خان ، پتن ، قسمت، عشق لیلی، ناجی، ڈاچی، باؤ جی، آرزو جیسی یادگار فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں ۔ایم اسماعیل اپنی آخری عمر تک فلموں میں کام کرتے رہے تھے ۔51سالہ طویل فنی کیرئیر میں ان کی آخری فلم ''مان جوانی دا'' 1976ء میں ریلیز ہوئی تھی ۔ انھیں احترام سے ''بھائیا جی '' کہا جاتا تھا اور ایک لطیفہ بھی ان سے منسوب ہے کہ ایک ہی جیسے رولز کرکے اتنے تنگ آئے کہ ایک دن فلم کے سیٹ پر ہدایتکار سے کہنے لگے کہ ''مکالمے تو میں خود ہی بول لونگا ، تم یہ بتاؤ کہ میں ہیرو کا باپ ہو کہ ہیروئن کا'' ان کا انتقال 22نومبر 1975ء کو 73سال کی عمر میں ہوا تھا اور لاہور ہی میں دفن ہوئے تھے۔
پاکستان کی فلمی تاریخ کے سنیئر ترین اداکار ایم اسماعیل کو لاہور میں 1924 میں بننے والی پہلی خاموش فلم ''ڈاٹر آف ٹوڈے '' میں کام کرنے کا اعزاز ملا اور پہلی ہی ٹاکی فلم ''ہیررانجھا'' 1932ء میں کردار نگاری کرنے کا اعزازحاصل رہا ہے۔
اپنی زندگی کی نصف صدی فلمی دنیا میں گزارنے اور ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں نظر آنے فلموں میں کام کرنیوالے یہ فنکار 1902ء میں اندرون بھاٹی گیٹ کے ایک راجپوت گھرانے میں پیداہوئے تھے ۔ ان کے خاندان کے بعض افراد سنار کے پیشے سے منسلک تھے ۔ خود ایم اسماعیل ایک بہترین خوشنویس اور مصور تھے اور مقامی جرائد میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے ۔ اسی دوران جب لاہور میں پہلی فلم بنی تو وہ بھی اس کے اداکاروں میں شامل تھے ۔اسی شوق میں وہ لاہور سے ممبئی چلے گئے جہاں بڑی تعداد میں خاموش فلمیں بنتی تھیں ۔
وہاں ان کی یادگار فلم ''ہیر رانجھا'' 1927ء میں بنی تھی جس میں انھوں نے پہلی بار کیدو کا رول کیا جو پسند کیا گیا۔ممبئی میں متعدد خاموش فلموں میں کام کرنے کے بعد وہ واپس لاہور آگئے تھے جہاں ان کے دیرینہ دوست اے آر کاردار نے بطور ہدایتکار پہلی بولتی فلم ''حور پنجاب'' بنائی جو پنجابی زبان میں ''ہیر رانجھا'' کے نام سے 1932 ء میں ریلیز ہوئی تھی ۔ اس فلم میں بھی انھوں نے کیدو کا ہی رول کیا جب کہ فلم کے ٹائٹل رولز انوری بیگم اور رفیق غزنوی نے کیے تھے جو معروف اداکارہ و گلوکارہ سلمی آغا کے نانا نانی تھے ۔
1937ء میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ''ہیر سیال'' میںبھی ایم اسماعیل نے کیدو ہی کا کردار کیا تھا ۔ اس فلم کے ہدایتکار کشن دیو مہرا تھے اور کہانی نویس ایف ڈی شرف تھے۔ 1939ء کی ایک بہت بڑی فلم پنچولی پکچرز کی ''گل بکاؤلی'' تھی جس کے فلم پوسٹر پر ایم اسماعیل کا دیگر اداکاروں کے مقابلے میں نمایاں نام حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ وہ اس وقت کس قدر مقبول ہونگے۔ اس فلم میں بے بی نورجہاں ان کے ساتھ تھیں جب کہ پاکستان کی فلموں کے ابتدائی دور کے نامور ولن سلیم رضا بھی اہم کرداروں میں شامل تھے۔
1940ء میں پنچولی آرٹ پکچرز کی ایک اور سپرہٹ پنجابی فلم ''یملا جٹ'' میں ایم اسماعیل نے ٹائٹل رول کیا تھا ، جس کی ہیروئن نورجہاں تھی جو اب چودہ برس کی بے بی نہیں رہی تھی۔1941 ء میں لاہور میں بننے والی پنچولی آرٹ پکچرز کی ایک اور شاہکار اردو فلم ''خزانچی'' میں بھی ایم اسماعیل کا ٹائٹل رول تھا۔ 1946ء میں ممبئی میں بننے والی فلمساز اور ہدایتکار ''نذیر'' کی مشہور زمانہ فلم ''وامق عذرا'' میں ایم اسماعیل نے ولن کا رول کیا تھا ۔قیام پاکستان کے بعد ایم اسماعیل نے عام طور پر کریکٹر ایکٹر رولز ہی کیے تھے یہاں ان کی پہلی فلم ''ہچکولے'' 1949ء تھی جو پاکستان کی دوسری ریلیز ہونے والی فلم ہے۔
پاٹے خان ، پتن ، قسمت، عشق لیلی، ناجی، ڈاچی، باؤ جی، آرزو جیسی یادگار فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں ۔ایم اسماعیل اپنی آخری عمر تک فلموں میں کام کرتے رہے تھے ۔51سالہ طویل فنی کیرئیر میں ان کی آخری فلم ''مان جوانی دا'' 1976ء میں ریلیز ہوئی تھی ۔ انھیں احترام سے ''بھائیا جی '' کہا جاتا تھا اور ایک لطیفہ بھی ان سے منسوب ہے کہ ایک ہی جیسے رولز کرکے اتنے تنگ آئے کہ ایک دن فلم کے سیٹ پر ہدایتکار سے کہنے لگے کہ ''مکالمے تو میں خود ہی بول لونگا ، تم یہ بتاؤ کہ میں ہیرو کا باپ ہو کہ ہیروئن کا'' ان کا انتقال 22نومبر 1975ء کو 73سال کی عمر میں ہوا تھا اور لاہور ہی میں دفن ہوئے تھے۔