عمر بن عبدالعزیز ۳
اخبار ی کالم جو کہ عموماً سیاسی حوالوں اور سیاست سے بھرا ہوتا ہے یہ کالم ایسے حوالوں کے لیے موزوں نہیں۔
اسلامی دنیا کیسے یکسر بدل گئی ۔مختصر جواب یہ ہے کہ اسے ایک ایسا لیڈر مل گیا جو اپنے اثاثوں کا اعلان نہیں کرتا تھا ۔اپنے اثاثے بیت المال کو لوٹا دیتا تھا ۔ جو سب سے پہلے ہر اصلاح اپنی ذات سے شروع کرتا تھا ۔ جس نے اپنی سلطنت کی تمام زمینیں ان لوگوںکے حوالے کر دیں تھیں جو کاشتکار تھے بڑے زمیندار اور جاگیردار نہیں تھے ۔غیر آباد زمینیں ان کی تھیں جو کاشت کرتا تھا۔
بیت المال سے ایک پائی تک غائب نہیں ہوتی تھی ۔ ایک دُور کے صوبے سے اطلاع ملی کہ ایک اشرفی کم پڑ گئی ہے۔عامل کو خط لکھا کہ میں تم پر شک نہیں کرتا مگر تمہاری نااہلی ضرور ہے یہ اشرفی پوری کرو۔ سرکاری وسائل ہر شہری کا حق تھا اور یہ حق اسے ملتا تھا کوئی کسی کا حق چھین کر اسے ہضم نہیں کر سکتا تھا۔ امیر المومنین اور ان کا پورا خاندان ہر شہری سے زیادہ غریب تھا۔
میں نے انسانی تاریخ کے اس عوام دوست حکمران کی داستان میں صرف ان پہلوئوں کا نہایت اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے جو ملکی معیشت کی اصلاح اور نظام عدل کے بارے میں تھے۔ اس ہمہ گیر شخصیت کی علمی خدمات جن میں حدیثوں کا جمع کرنا سر فہرست ہے ذکر نہیں کیا اور نہ ہی دوسری قوموں کے علمی خزانوں کے ترجموں ذکر کیا ہے اسی طرح تعمیرات وغیرہ کا ذکر بھی نہیں کیا ۔ مقصد صرف یہ تھا کہ اگر کسی حکمران کے دل میں صداقت کا چراغ روشن ہو اور ذاتی ایثار کا جذبہ زندہ ہو تو وہ ناممکن کو ممکن اور محال کوآسان بنا دیتا ہے ۔ وقت اور اسباب کی حدودوقیود اس کے سامنے بے معنی ہو جاتی ہیں۔
جیسا کہ عرض کیا ہے کہ اس حکمران نے ہرنیکی اور ہر عمل اورپابندی کا آغاز اپنی ذات سے کیا ہے ۔ دن رات کام میں مصروف رہنے لگے ۔سیرو تفریح بالکل ختم کر دی بعض خیر خواہوں نے عرض کیا کہ کچھ وقت فرصت کا بھی نکال لیا کیجیے آخر اس قدر مصروفیت کب تک چل سکتی ہے جواب میں کہا فرصت کہاں؟ فرصت اب گئی تو صرف خدا کے ہاں نصیب ہو گی ۔رات کو جو تھوڑا ساوقت ملتا وہ ملاقاتوں میں صرف کر دیتے تھے اور کہتے تھے میل ملاقات اورمشورے کرنے سے رحمت کا دروازہ کھلتا ہے اور انسان گمراہی سے بچتا ہے ۔خلافت سے پہلے رنگین مزاج لوگوں سے صحبت رکھتے تھے اور خاصا وقت ایسے دوست احباب کے ساتھ گزارتے تھے لیکن خلافت کے بعد قطع تعلق کر لیا اور ایک بار لوگ ملنے آئے تو انھوں نے اپنے ایک پرانے دوست کو ملاقات سے محروم رکھا ۔ واقف کار لوگوں کو تعجب ہوا اور کسی نے اس کا ذکر بھی کر دیا یہ سن کر بولے جس طرح ہم نے رنگین کپڑوں کو چھوڑ دیا ہے اسی طرح ہم نے رنگین دوستوں کو بھی چھوڑ دیا ہے۔ انھوں نے جن لوگوں کو اپنی مجلسوں میں بٹھانا شروع کردیا ان کے بارے میں خود کہا تھا کہ وہ ایسے لوگ ہوں جو میں غلطی کروں تو مجھے ٹوک دیں اور پھرراہ راست بھی دکھائیں ۔نیکی کے کاموں میں میری مدد کریں جو لوگ مجھ تک اپنے مسائل نہیں پہنچا سکتے ان کے مسائل اور ضروریات سے مطلع کریں اور میرے پاس کسی کی غیبت نہ کریں ۔
زندگی کا تصور یہ بن گیا تھا کہ ابن عتبہ کے والد فوت ہو گئے تو ان کو تعزیت کا خط لکھا جس میں کہا گیا کہ ہم لوگ آخرت کے رہنے والے ہیں جنہوں نے دنیا میں آکر کچھ قیام کیا ہے ۔ہم خود مردے اور مردوں کے بیٹے ہیں ، کس قدر تعجب ہے اس مردے پر جو ایک دوسرے مردے کو خط لکھتا ہے اور ایک مردے کی تعزیت کرتا ہے ۔ زندگی سے بے پناہ پیارکے اس دور میں ہمیں شاید ان کی یہ بات سمجھ میں نہ آئے ۔
حضرت علیؓ نے اس دنیا کو مسافر خانہ کہا تھا اور احتیاط کا یہ عالم ہوگیاکہ سیب بہت پسند تھے ایک صاحب سیب لے آئے ۔ اخلاقاً کہا کہ یہ تحفہ پسند آیا ہے کہ قبول نہ کیا اس پر اس شخص نے کہا کہ یہ میرے اپنے باغ کے ہیں اور تحفہ تو حضور پاکﷺبھی قبول فرما لیتے تھے ۔جواب دیا کہ حضورﷺ کے لیے تحفہ اور ہدیہ ہوتا تھا لیکن ہمارے لیے رشوت ہے ۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ جب خلیفہ ہوئے تو ایک نئے قالب میں بدل دیئے گئے ۔ عدل وانصاف میں اپنے نانا عمر ؓبن خطاب ، زہدمیں حسن بسری اور علم میں امام زہری بن گئے ۔
محمد بن معبد کا بیان ہے کہ میں شاہ روم کے پاس گیا تو وہ نہایت رنج و غم کی حالت میں فرش پر بیٹھا تھا مجھے سخت تعجب ہوا یہ دیکھ کر اس بادشاہ نے کہا کہ تمہیںمعلوم نہیں کہ ایک نیک حکمران کا انتقال ہو گیا ۔ اگر عیسیٰ کے بعد کوئی مردوں کو زندہ کر سکتا تھا تو وہ عمر بن عبدالعزیز تھا۔ مجھے اس راہب کی حالت پر تعجب نہیں جس نے دنیا کوچھوڑ کر گوشہ نشینی اختیار کر لی مجھے اس شخص کی حالت پر تعجب ہے جس کے قدموں کے نیچے دنیا تھی اور اس نے اس کو پامال کر کے راہبانہ زندگی اختیار کر لی۔
اس شخصیت کے وقائع نگاروں نے ان کی حکمرانی کی طرح ان کی زندگی کی تفصیلات بھی جمع کر دی ہیںسمجھ میں نہیں آتا کہ کیانقل کریں اور کیا چھوڑ دیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے رشتہ داروں نے جو ان کی اصلاحات سے پریشان تھے ان کو زہر دلوا دیا ۔ مرض الموت میں پتہ چل گیا کہ کس نے زہر دیا ہے اسے بلایا وہ ایک غلام تھا اور اس سے پوچھا کہ کتنی رقم لے کر یہ کام کیا ہے اس نے بتایا کہ ایک ہزار درہم ، اس سے ایک ہزار درہم وصول کر کے بیت المال میں جمع کرادیئے اور اسے آزاد کرنے کا حکم دے دیا کہ بھاگ جائو اور کسی ایسے مقام پر زندگی گزارو جہاں تمہیں کوئی جانتا نہ ہو ۔ نہ صرف اس قاتل کو معاف کر دیا بلکہ اسے بدلے سے بھی بچا لیا ۔ اپنے پاس سے قبر کی جگہ خریدی پرانے کپڑوں سے کفن دینے کی تاکید کی اور آنحضرتﷺکے چند موئے مبارک اور تراشے ہوئے ناخن قبر میں ساتھ دفن کرنے کی ہدایت کی۔ 39,40 سال کی عمر میں 101 ہجری719 عیسوی سال میں وفات پائی۔
وہ ایک ایسے حکمران تھے جو خود بدلے ہوئے تھے انھوں نے دنیا بدل دی اس قدر انصاف پسند تھے کہ باوجود اہل بیت کے بد ترین دشمن خاندان بنی امیہ کے خلیفہ ہونے کے اہل بیت سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے اور خود کو حضر ت علی ؓ کاغلام کہتے تھے اور اس حدیث کا حوالہ دیا کرتے تھے کہ حضور رﷺ نے فرمایا کہ میں جس کا مولا ہوں علیؓ بھی اس کے مولا ہیں ۔کہا کرتے تھے کہ حضرت علیؓ سے بڑا زاہد پیدا نہیں ہوا ۔
اخبار ی کالم جو کہ عموماً سیاسی حوالوں اور سیاست سے بھرا ہوتا ہے یہ کالم ایسے حوالوں کے لیے موزوں نہیں۔ مقصود یہ بتانا تھا کہ یہ حکمران تمام طرح کے تعصبات سے محفوظ تھا ۔ ایک صاف ستھرا حکمران جو ہر اصلاح اور قربانی اپنی ذات سے شروع کرتا تھا اور پھر اس کا اعلان کرتا تھاکہ دوسرے بھی ایسا کریں ۔ آج کے حکمرانوں کو عمر بن عبدالعزیز کے دور حکمرانی کو پڑھ اور سمجھ کر ریاست مدینہ کی بات کرنا ہو گی تاکہ ان کو معلوم ہو کہ ریاست مدینہ اصل میں کیا تھی۔
بیت المال سے ایک پائی تک غائب نہیں ہوتی تھی ۔ ایک دُور کے صوبے سے اطلاع ملی کہ ایک اشرفی کم پڑ گئی ہے۔عامل کو خط لکھا کہ میں تم پر شک نہیں کرتا مگر تمہاری نااہلی ضرور ہے یہ اشرفی پوری کرو۔ سرکاری وسائل ہر شہری کا حق تھا اور یہ حق اسے ملتا تھا کوئی کسی کا حق چھین کر اسے ہضم نہیں کر سکتا تھا۔ امیر المومنین اور ان کا پورا خاندان ہر شہری سے زیادہ غریب تھا۔
میں نے انسانی تاریخ کے اس عوام دوست حکمران کی داستان میں صرف ان پہلوئوں کا نہایت اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے جو ملکی معیشت کی اصلاح اور نظام عدل کے بارے میں تھے۔ اس ہمہ گیر شخصیت کی علمی خدمات جن میں حدیثوں کا جمع کرنا سر فہرست ہے ذکر نہیں کیا اور نہ ہی دوسری قوموں کے علمی خزانوں کے ترجموں ذکر کیا ہے اسی طرح تعمیرات وغیرہ کا ذکر بھی نہیں کیا ۔ مقصد صرف یہ تھا کہ اگر کسی حکمران کے دل میں صداقت کا چراغ روشن ہو اور ذاتی ایثار کا جذبہ زندہ ہو تو وہ ناممکن کو ممکن اور محال کوآسان بنا دیتا ہے ۔ وقت اور اسباب کی حدودوقیود اس کے سامنے بے معنی ہو جاتی ہیں۔
جیسا کہ عرض کیا ہے کہ اس حکمران نے ہرنیکی اور ہر عمل اورپابندی کا آغاز اپنی ذات سے کیا ہے ۔ دن رات کام میں مصروف رہنے لگے ۔سیرو تفریح بالکل ختم کر دی بعض خیر خواہوں نے عرض کیا کہ کچھ وقت فرصت کا بھی نکال لیا کیجیے آخر اس قدر مصروفیت کب تک چل سکتی ہے جواب میں کہا فرصت کہاں؟ فرصت اب گئی تو صرف خدا کے ہاں نصیب ہو گی ۔رات کو جو تھوڑا ساوقت ملتا وہ ملاقاتوں میں صرف کر دیتے تھے اور کہتے تھے میل ملاقات اورمشورے کرنے سے رحمت کا دروازہ کھلتا ہے اور انسان گمراہی سے بچتا ہے ۔خلافت سے پہلے رنگین مزاج لوگوں سے صحبت رکھتے تھے اور خاصا وقت ایسے دوست احباب کے ساتھ گزارتے تھے لیکن خلافت کے بعد قطع تعلق کر لیا اور ایک بار لوگ ملنے آئے تو انھوں نے اپنے ایک پرانے دوست کو ملاقات سے محروم رکھا ۔ واقف کار لوگوں کو تعجب ہوا اور کسی نے اس کا ذکر بھی کر دیا یہ سن کر بولے جس طرح ہم نے رنگین کپڑوں کو چھوڑ دیا ہے اسی طرح ہم نے رنگین دوستوں کو بھی چھوڑ دیا ہے۔ انھوں نے جن لوگوں کو اپنی مجلسوں میں بٹھانا شروع کردیا ان کے بارے میں خود کہا تھا کہ وہ ایسے لوگ ہوں جو میں غلطی کروں تو مجھے ٹوک دیں اور پھرراہ راست بھی دکھائیں ۔نیکی کے کاموں میں میری مدد کریں جو لوگ مجھ تک اپنے مسائل نہیں پہنچا سکتے ان کے مسائل اور ضروریات سے مطلع کریں اور میرے پاس کسی کی غیبت نہ کریں ۔
زندگی کا تصور یہ بن گیا تھا کہ ابن عتبہ کے والد فوت ہو گئے تو ان کو تعزیت کا خط لکھا جس میں کہا گیا کہ ہم لوگ آخرت کے رہنے والے ہیں جنہوں نے دنیا میں آکر کچھ قیام کیا ہے ۔ہم خود مردے اور مردوں کے بیٹے ہیں ، کس قدر تعجب ہے اس مردے پر جو ایک دوسرے مردے کو خط لکھتا ہے اور ایک مردے کی تعزیت کرتا ہے ۔ زندگی سے بے پناہ پیارکے اس دور میں ہمیں شاید ان کی یہ بات سمجھ میں نہ آئے ۔
حضرت علیؓ نے اس دنیا کو مسافر خانہ کہا تھا اور احتیاط کا یہ عالم ہوگیاکہ سیب بہت پسند تھے ایک صاحب سیب لے آئے ۔ اخلاقاً کہا کہ یہ تحفہ پسند آیا ہے کہ قبول نہ کیا اس پر اس شخص نے کہا کہ یہ میرے اپنے باغ کے ہیں اور تحفہ تو حضور پاکﷺبھی قبول فرما لیتے تھے ۔جواب دیا کہ حضورﷺ کے لیے تحفہ اور ہدیہ ہوتا تھا لیکن ہمارے لیے رشوت ہے ۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ جب خلیفہ ہوئے تو ایک نئے قالب میں بدل دیئے گئے ۔ عدل وانصاف میں اپنے نانا عمر ؓبن خطاب ، زہدمیں حسن بسری اور علم میں امام زہری بن گئے ۔
محمد بن معبد کا بیان ہے کہ میں شاہ روم کے پاس گیا تو وہ نہایت رنج و غم کی حالت میں فرش پر بیٹھا تھا مجھے سخت تعجب ہوا یہ دیکھ کر اس بادشاہ نے کہا کہ تمہیںمعلوم نہیں کہ ایک نیک حکمران کا انتقال ہو گیا ۔ اگر عیسیٰ کے بعد کوئی مردوں کو زندہ کر سکتا تھا تو وہ عمر بن عبدالعزیز تھا۔ مجھے اس راہب کی حالت پر تعجب نہیں جس نے دنیا کوچھوڑ کر گوشہ نشینی اختیار کر لی مجھے اس شخص کی حالت پر تعجب ہے جس کے قدموں کے نیچے دنیا تھی اور اس نے اس کو پامال کر کے راہبانہ زندگی اختیار کر لی۔
اس شخصیت کے وقائع نگاروں نے ان کی حکمرانی کی طرح ان کی زندگی کی تفصیلات بھی جمع کر دی ہیںسمجھ میں نہیں آتا کہ کیانقل کریں اور کیا چھوڑ دیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے رشتہ داروں نے جو ان کی اصلاحات سے پریشان تھے ان کو زہر دلوا دیا ۔ مرض الموت میں پتہ چل گیا کہ کس نے زہر دیا ہے اسے بلایا وہ ایک غلام تھا اور اس سے پوچھا کہ کتنی رقم لے کر یہ کام کیا ہے اس نے بتایا کہ ایک ہزار درہم ، اس سے ایک ہزار درہم وصول کر کے بیت المال میں جمع کرادیئے اور اسے آزاد کرنے کا حکم دے دیا کہ بھاگ جائو اور کسی ایسے مقام پر زندگی گزارو جہاں تمہیں کوئی جانتا نہ ہو ۔ نہ صرف اس قاتل کو معاف کر دیا بلکہ اسے بدلے سے بھی بچا لیا ۔ اپنے پاس سے قبر کی جگہ خریدی پرانے کپڑوں سے کفن دینے کی تاکید کی اور آنحضرتﷺکے چند موئے مبارک اور تراشے ہوئے ناخن قبر میں ساتھ دفن کرنے کی ہدایت کی۔ 39,40 سال کی عمر میں 101 ہجری719 عیسوی سال میں وفات پائی۔
وہ ایک ایسے حکمران تھے جو خود بدلے ہوئے تھے انھوں نے دنیا بدل دی اس قدر انصاف پسند تھے کہ باوجود اہل بیت کے بد ترین دشمن خاندان بنی امیہ کے خلیفہ ہونے کے اہل بیت سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے اور خود کو حضر ت علی ؓ کاغلام کہتے تھے اور اس حدیث کا حوالہ دیا کرتے تھے کہ حضور رﷺ نے فرمایا کہ میں جس کا مولا ہوں علیؓ بھی اس کے مولا ہیں ۔کہا کرتے تھے کہ حضرت علیؓ سے بڑا زاہد پیدا نہیں ہوا ۔
اخبار ی کالم جو کہ عموماً سیاسی حوالوں اور سیاست سے بھرا ہوتا ہے یہ کالم ایسے حوالوں کے لیے موزوں نہیں۔ مقصود یہ بتانا تھا کہ یہ حکمران تمام طرح کے تعصبات سے محفوظ تھا ۔ ایک صاف ستھرا حکمران جو ہر اصلاح اور قربانی اپنی ذات سے شروع کرتا تھا اور پھر اس کا اعلان کرتا تھاکہ دوسرے بھی ایسا کریں ۔ آج کے حکمرانوں کو عمر بن عبدالعزیز کے دور حکمرانی کو پڑھ اور سمجھ کر ریاست مدینہ کی بات کرنا ہو گی تاکہ ان کو معلوم ہو کہ ریاست مدینہ اصل میں کیا تھی۔