کارکردگی صفر مطالبہ کروڑوں کا

کوئی پاکستان ہاکی فیڈریشن کا سفید ہاتھی پالنے کو تیار نہیں۔

کوئی پاکستان ہاکی فیڈریشن کا سفید ہاتھی پالنے کو تیار نہیں۔ فوٹو: فائل

بلاشبہ اختر رسول کا شمار دنیائے ہاکی کے بڑے کھلاڑیوں میں ہوتا ہے،ان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم ممبئی ورلڈ کپ 1982ء جیت کر وطن واپس پہنچی تو لاہور ایئرپورٹ سے داتا دربار تک گرین شرٹس کا تاریخی استقبال کیا گیا۔

سابق کپتان کی ہاکی خدمات کو ہی دیکھتے ہوئے انہیں 1999ء میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کا صدر بنا دیا گیا، وزیر اعظم اس وقت نواز شریف تھے،حکومتی منشاء کے بغیر اختر رسول چودہ سال کے بعد دوبارہ صدر پی ایچ ایف بنے تو اس وقت بھی وزارت عظمیٰ کا منصب نواز شریف کے پاس ہی تھا، پھر کیا تھا۔

حکومت سے فنڈز کے حصول کیلئے اختر رسول سیکرٹری فیڈریشن رانا مجاہد علی کے ساتھ تین سال تک اسلام آباد کے چکر پر چکر لگاتے رہے لیکن انہیں شرمندگی اور رسوائی کے سوا کچھ نہ ملا، اس وقت حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ اختر رسول کی سربراہی میں قائم پی ایچ ایف عہدیداروں کو فارٖغ نہ کیا جائے بلکہ حالات ایسے پیدا کر دیئے جائیں کہ یہ خود ہی فیڈریشن کو ''گڈبائے'' کہہ دیں اور حکومت اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی رہی۔

تین سال کے بعد تاریخ خود کو ایک بار پھر دہرا رہی ہے،جب سے تحریک انصاف کی گورنمنٹ آئی ہے، صدر پی ایچ ایف بریٖگیڈیئر خالد سجاد کھوکھر فنڈز کے حصول کیلئے درخواست پر درخواست دے رہے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے جواب انکار کی صورت میں ہی مل رہا ہے۔

حکومت کا خیال ہے کہ پی ایچ ایف کو جب بھی فنڈز دیئے جاتے ہیں تو اس کے درست استعمال کی بجائے اپنوں کو نوازا جاتا ہے، بریگیڈیئر خالد سجاد کھوکھر سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے پی ایچ ایف کا صدر بننے میں کامیاب رہے، ان کے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے وہ حکومت سے 50 کروڑ روپے سے زائد کی گرانٹ لینے میں کامیاب بھی رہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے دور میں بھی صدر فیڈریشن 20 کروڑ روپے کی مزید گرانٹ منظور کروانے میں کامیاب ہو گئے تھے تاہم چیمپئنز ٹرافی میں گرین شرٹس کی مایوس کن کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اس وقت کی نگران حکومت نے یہ فنڈز روک لئے، حکومت کی طرف سے گرانٹ روکے جانے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

حکومتی حلقوں سے خوشگوار تعلقات کی امید کے ساتھ صدر پی ایچ ایف خالد کھوکھر اور سیکرٹری شہباز احمد سینئر آئی پی سی منسٹر فہمیدہ مرزا سے ملنے کیلئے خاصی تگ و دو کرتے رہے لیکن بھر پور کوششوں کے باوجود فیڈریشن حکام اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔

حکومت کے بدلتے تیور دیکھتے ہوئے شہباز سینئر تو سیکرٹری کے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں تاہم بریگیڈیئر(ر) خالد کھوکھر اپنے محاذ پر ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں،ان کے ہی تعینات کر دہ ایسوسی ایٹ سیکرٹری ایاز محمود پریس کانفرنس میں پروہاکی لیگ میں حکومت سے فنڈز کے حصول کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں، گرانٹ نہ ملنے کی صورت میں قومی کھیل کو ہونے والے مستقبل کے نقصان سے بھی آگاہ کر چکے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے فنڈز ملتے نظر نہیں آتے۔


اگرحقائق کو دیکھا جائے تو یہ غلط نہ ہو گا کہ ملکی ہاکی کو جتنا نقصان موجود پی ایچ ایف حکام نے پہنچایا شاید ہی کسی اور نے پہنچایا ہو، تین سال کے عرصہ کے دوران کوئی ایک بھی انٹرنیشنل ٹورنامنٹ نہیں ملے گا جس کا ٹائٹل گرین شرٹس نے اپنے نام کیا ہو، ایف آئی ایچ چیمپئنز ٹرافی کے دوران قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی نے پاکستانی شائقین کا سر شرم سے جھکا دیا، رہی سہی کسر بھارت میں شیڈول ورلڈ کپ نے پوری کر دی جس میں قومی ٹیم 16ٹیموں کے ایونٹ میں بارہویں پوزیشن ہی حاصل کر سکی۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن جو قومی کھیل کا منتظم ادارہ ہے اس صورتحال پر دم بخود ایک ایسے پریشان حال بزنس مین کی طرح کھڑا ہے، جس کو اپنے ہی کئے غلط فیصلے بھگتنے پڑتے ہیں، کروڑوں روپے کی گرانٹس اور دیگر فنڈز کی مد میں وصول کرنے والی پاکستان ہاکی فیڈریشن نے قومی کھیل کو نیا ٹیلنٹ دینے کی بجائے گھسے پٹے عمررسید کھلاڑیوں کو ترجیح دیتے ہوئے دنیا کا سب سے بڑا ایونٹ کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا اور اب اپنے ہی فیصلے پر یوٹرن لیتے ہوئے پروہاکی لیگ کیلیے تمام سینئر کھلاڑیوں کو قومی سکواڈ سے باہر بھی کر دیا گیا ہے۔

سابق دور حکومت میں عہدوں کی خاطرملک بھرمیں متوازی تنظیم سازی کرکے ڈومیسٹک انفراسٹرکچرکو تباہ کردیا گیا، اس متوازی تنظیم سازی میں پنجاب سمیت سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان سمیت پاکستان کے تمام لگ بھگ چھوٹے بڑے اضلاع شامل ہیں، ویمنز ونگ کے نام پر پاکستان ہاکی کے ارباب اختیار نے جو کالا کھیل کھیلا اس کا اندازہ ماضی قریب میں ہونے والی قومی ویمنز ہاکی چیمپئن شپ میں 25 ،25 گول کھانے والی ٹیموں کی کارکردگی سے لگایا جاسکتا ہے۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے موجودہ ارباب اختیار نے جس بیدردی سے قومی کھیل کیلئے مہیا گی گئی گرانٹس کا استعمال کیا اس کا خمیازہ آنے والے 10 سال تک پاکستان ہاکی کو برداشت کرنا پڑے گا، پلاننگ، مینجمنٹ اور ہاکی ویژن سے عاری پی ایچ ایف عہدیداراوں نے قومی خزانے کو پانی کی طرح بہادیا، ایک روشن مستقبل کا خواب دکھا کرہاکی ویژن، ہاکی فیملی اور ہاکی کی بہتری کے بلند وبانگ دعوے کئے جو کھوکھلے ثابت ہوئے۔

قومی کھیل میں ٹیلنٹ ہنٹ سکیم، ٹیلنٹ کو نکھارنے کی پلاننگ، سپورٹس ایجوکیشن پروگرام، فیڈریشن کے زیرانتظام ہاکی اکیڈمیز کا سیٹ اَپ، ٹیکنیکل آفیشلزکی ٹریننگ کا ادارہ، ہاکی کے ڈومیسٹک ایونٹس کرانے کا جامع پلان، نیشنل سینئر اورجونیئر ٹیموں کی تیاری سمیت قومی کھیل کی بہتری کے ایک بھی پروگرام پر جامع عمل درآمد نہ ہوسکا۔

پاکستان ہاکی کو ترقی دینے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی نہیں بلکہ ایماندار، مخلص اور پیشہ وارانہ قیادت کی ضرورت ہے جس کا ایجنڈاذاتی مفاد کی بجائے صرف اور صرف قومی مفاد ہو۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن میں سپورٹس سائنسز کے ماہرین سمیت ڈومیسٹک انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے گراس روٹ لیول پر مخلصانہ کام کرنے والے افراد کے تعین کی ضرورت ہے، ایک مخصوص سیاسی ٹولے نے اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر قومی کھیل کو تباہی کے اس اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہے جس کے آگے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

ایونٹ مینجمنٹ، فنانشل مینجمنٹ، آرگنائزیشنل آفیئرز مینجمنٹ، مورال مینجمنٹ، سائینٹفک ٹریننگ اور کوچنگ کے شعبہ جات سے عاری ہاکی فیڈریشن اسپورٹس مرچنڈائزنگ، سپورٹس مارکیٹنگ کے شعبہ جات کو بھی مسلسل نظر انداز کرکے چوراہے کے سگنل پر کھڑی بھکارن کی مانند بچے(کھلاڑی) دکھا کر ہر آنے جانے والی گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹا کر امداد مانگتی نظر آتی ہے، سچ تو یہ ہے کہ پی ایچ ایف انتظامیہ کی موجودہ کارکردگی صفر ہے، جس کی جواب طلبی حکومت پاکستان ہی کرسکتی ہے جو شاید اب اس سفید ہاتھی کو پالنے کیلئے تیار نہیں۔

 
Load Next Story