ان پراور تم نہ ڈھاؤ زیادتی کا شکارخواتین سے متعلق معاشرے کو اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے
آج ہمارے معاشرے میں طاقت ور کم زور پر حاوی ہے۔
اس حقیقت سے کسی طرح بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام دین فطرت ہے، جس میں ایسے ضوابط پائے جاتے ہیں جو انسانی مزاج اور ضروریات کے عین مطابق ہیں۔ اسلام عورت کی عزت و توقیر کا درس دیتا ہے۔ عورت کی عزت اور وقار کا تحفظ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ ایک عورت کی بے توقیری بہ یک وقت کئی حوالوں سے معاشرے کے دوسرے افراد کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ ایک عورت بہ یک وقت کسی کی بیٹی، کسی کی بہن، کسی کی ماں اور کسی کی بیوی ہوتی ہے۔ اس طرح ایک فرد کے متاثر ہونے سے کئی خاندان براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ اسی فطری ضرورت کے پیش نظر اسلام عورت کی عزت اور احترام کی تاکید کرتا ہے۔
گو کہ اسلام معاشرے کے تمام افراد کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور طبقے، گروہ یا جنس کی بنیاد پر امتیاز اسلام کی روح کے خلاف ہے ، اس کے باوجود ہمارے ملک کی عورت قوانین کے معاملے میں امتیازی سلوک کا شکار اور دیگر معاملات میں انصاف کی طالب ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت ونی، قرآن سے شادی، غیرت کے نام پر قتل ، زبردستی شادی اور وراثت سے محرومی جیسے گمبھیر مسائل سے دوچار ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں طاقت ور کم زور پر حاوی ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے کاروکاری اور زیادتی کے واقعات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ سالانہ ایک دو نہیں سیکڑوں خواتین اور کم سن بچیاں انسانی درندگی کا شکار ہوتی ہیں۔ اس ظلم و جبر کی جڑیں ملک کے قبائلی اور سرداری علاقوں میں زیادہ مضبوط دکھائی دیتی ہیں، جہاں پولیس کی ملی بھگت اور عدالتوں کے انتہائی سست رفتار فیصلوں نے سرداری نظام کو مزید طاقت بخشی ہے۔ عورت کی مظلومیت کا عکاس اگست 2008ء میں رونما ہونے والا وہ انتہائی لرزہ خیز واقع بھی ہے کہ جب بلوچستان میں عمرانی قبیلے کے سرداروں کے حکم پر پانچ خواتین کو غیرت کے نام پر زندہ دفن کر دیا گیا۔
ان میں سے تین کی عمریں 20 برس سے کم تھیں اور دو درمیانی عمر کی تھیں۔ وہ اس جرم کی پاداش میں قتل کردی گئیں کہ انہوں نے شادی کے حوالے سے قبائلی سرداروں کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا۔ جرگوں کے بعض فیصلے انسانی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ غیرت کے نام پر قتل کا ہو یا جنسی زیادتی کا، عموماً کم سن معصوم بچیاں یا نوجوان لڑکیاں متاثر ہوتی ہے۔ آپس کی دشمنیوں اور ونی جیسی فرسودہ رسوم کی بھینٹ اکثر کم سن بچیاں ہی چڑھتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زیادتی کا شکار ہونے والی معصوم بچیاں یا نوجوان لڑکیاں معاشرے کے کس قسم کے رویے کا شکار ہوتی ہیں؟ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زیادتی کا شکار لڑکیاں معاشرے میں کوئی مقام نہیں رکھتیں۔ لوگ انھیں عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں، ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے جیسے اس سارے معاملے میں خود ان کا اپنا قصور ہو۔ سماجی تنظیمیں اس ظلم کے اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھاتی بھی ہیں تو جیت طاقتور کی ہی ہوتی ہے۔ سونیا ناز اور شازیہ خالد سمیت بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جنھیں دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا قانون کس قدر بے حس یا مجبور ہے۔ طاقت ور لوگوں کے ہاتھوں ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے والی عورت کا معاشرے ان کی نظر میں کوئی وقعت اور احترام ہی نہیں ہے۔ تحفظ حقوق نسواں کے نام پر بننے والے قوانین بھی خواتین کو کسی قسم کا تحفظ فراہم کرنے میں تا حال مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔
اس ضمن میں میڈیا کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، اور اسے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا کی مثبت سمت کا تعین کیا جائے تو ظلم و زیادتی کا شکار بننے والی خواتین کی کچھ داد رسی کی جاسکتی ہے۔ اس کی بہترین مثال مختاراں مائی ہے جواب ایک تحریک بن چکی ہے۔ مختاراں مائی کی اپنی کہانی بھی بڑی دکھ بھری ہے جو نہ صرف مختاراں مائی کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک اذیت ناک و شرم ناک واقعہ ہے جو جر گہ سسٹم کا پیدا کردہ ہے۔ ''مختاراں مائی وومن آرگنائزیشن'' (MMWO)کے پروگرام ڈائریکٹر فرحان احمد خان کے مطابق ''مختاراں بی بی نے بہادری سے درست قدم اٹھاکر نہ صرف اپنی جان بچالی بل کہ اپنے خاندان والوں کو بھی نئی زندگی دی۔ ''
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی وہ خواتین جو زیادتی کا شکار ہوچکی ہیں، وہ بھی مختاراں مائی کی طرح معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے اپنے اندر ہمت ، حوصلہ اور عزم پیدا کرسکتی ہیں؟ مردوں کے اس معاشرے میں عورت کو جینے کے لیے اپنا راستہ خود بنانا ہوگا۔ اس ضمن میں ملک بھر میں قائم این جی اوز کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا اور میڈیا کو بھی۔ ساتھ ہی معاشرے کو بھی اس حوالے سے باشعور اور باضمیر ہونے کا ثبوت دینے ہوگا۔ نہ صرف متاثرہ لڑکی یا عورت کے اہل خانہ بل کہ اس کے اردگرد موجود دیگر لوگوں کو بھی اس کے سر پر ہاتھ رکھنا اور اس کی ہمت بڑھانی چاہیے، کہ وہ اپنے اوپر ظلم ڈھانے والے درندوں کو بے نقاب کرسکے اور انہیں عدالت کے کٹہرے میں لاسکے۔
گو کہ اسلام معاشرے کے تمام افراد کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور طبقے، گروہ یا جنس کی بنیاد پر امتیاز اسلام کی روح کے خلاف ہے ، اس کے باوجود ہمارے ملک کی عورت قوانین کے معاملے میں امتیازی سلوک کا شکار اور دیگر معاملات میں انصاف کی طالب ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت ونی، قرآن سے شادی، غیرت کے نام پر قتل ، زبردستی شادی اور وراثت سے محرومی جیسے گمبھیر مسائل سے دوچار ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں طاقت ور کم زور پر حاوی ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے کاروکاری اور زیادتی کے واقعات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ سالانہ ایک دو نہیں سیکڑوں خواتین اور کم سن بچیاں انسانی درندگی کا شکار ہوتی ہیں۔ اس ظلم و جبر کی جڑیں ملک کے قبائلی اور سرداری علاقوں میں زیادہ مضبوط دکھائی دیتی ہیں، جہاں پولیس کی ملی بھگت اور عدالتوں کے انتہائی سست رفتار فیصلوں نے سرداری نظام کو مزید طاقت بخشی ہے۔ عورت کی مظلومیت کا عکاس اگست 2008ء میں رونما ہونے والا وہ انتہائی لرزہ خیز واقع بھی ہے کہ جب بلوچستان میں عمرانی قبیلے کے سرداروں کے حکم پر پانچ خواتین کو غیرت کے نام پر زندہ دفن کر دیا گیا۔
ان میں سے تین کی عمریں 20 برس سے کم تھیں اور دو درمیانی عمر کی تھیں۔ وہ اس جرم کی پاداش میں قتل کردی گئیں کہ انہوں نے شادی کے حوالے سے قبائلی سرداروں کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا۔ جرگوں کے بعض فیصلے انسانی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں معاملہ غیرت کے نام پر قتل کا ہو یا جنسی زیادتی کا، عموماً کم سن معصوم بچیاں یا نوجوان لڑکیاں متاثر ہوتی ہے۔ آپس کی دشمنیوں اور ونی جیسی فرسودہ رسوم کی بھینٹ اکثر کم سن بچیاں ہی چڑھتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زیادتی کا شکار ہونے والی معصوم بچیاں یا نوجوان لڑکیاں معاشرے کے کس قسم کے رویے کا شکار ہوتی ہیں؟ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زیادتی کا شکار لڑکیاں معاشرے میں کوئی مقام نہیں رکھتیں۔ لوگ انھیں عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں، ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے جیسے اس سارے معاملے میں خود ان کا اپنا قصور ہو۔ سماجی تنظیمیں اس ظلم کے اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھاتی بھی ہیں تو جیت طاقتور کی ہی ہوتی ہے۔ سونیا ناز اور شازیہ خالد سمیت بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جنھیں دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا قانون کس قدر بے حس یا مجبور ہے۔ طاقت ور لوگوں کے ہاتھوں ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے والی عورت کا معاشرے ان کی نظر میں کوئی وقعت اور احترام ہی نہیں ہے۔ تحفظ حقوق نسواں کے نام پر بننے والے قوانین بھی خواتین کو کسی قسم کا تحفظ فراہم کرنے میں تا حال مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔
اس ضمن میں میڈیا کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، اور اسے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ میڈیا کی مثبت سمت کا تعین کیا جائے تو ظلم و زیادتی کا شکار بننے والی خواتین کی کچھ داد رسی کی جاسکتی ہے۔ اس کی بہترین مثال مختاراں مائی ہے جواب ایک تحریک بن چکی ہے۔ مختاراں مائی کی اپنی کہانی بھی بڑی دکھ بھری ہے جو نہ صرف مختاراں مائی کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک اذیت ناک و شرم ناک واقعہ ہے جو جر گہ سسٹم کا پیدا کردہ ہے۔ ''مختاراں مائی وومن آرگنائزیشن'' (MMWO)کے پروگرام ڈائریکٹر فرحان احمد خان کے مطابق ''مختاراں بی بی نے بہادری سے درست قدم اٹھاکر نہ صرف اپنی جان بچالی بل کہ اپنے خاندان والوں کو بھی نئی زندگی دی۔ ''
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی وہ خواتین جو زیادتی کا شکار ہوچکی ہیں، وہ بھی مختاراں مائی کی طرح معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے اپنے اندر ہمت ، حوصلہ اور عزم پیدا کرسکتی ہیں؟ مردوں کے اس معاشرے میں عورت کو جینے کے لیے اپنا راستہ خود بنانا ہوگا۔ اس ضمن میں ملک بھر میں قائم این جی اوز کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا اور میڈیا کو بھی۔ ساتھ ہی معاشرے کو بھی اس حوالے سے باشعور اور باضمیر ہونے کا ثبوت دینے ہوگا۔ نہ صرف متاثرہ لڑکی یا عورت کے اہل خانہ بل کہ اس کے اردگرد موجود دیگر لوگوں کو بھی اس کے سر پر ہاتھ رکھنا اور اس کی ہمت بڑھانی چاہیے، کہ وہ اپنے اوپر ظلم ڈھانے والے درندوں کو بے نقاب کرسکے اور انہیں عدالت کے کٹہرے میں لاسکے۔