امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان مذاکرات میں مثبت پیشرفت
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے ایٹمی نمایندے کے ساتھ ان کی ملاقات نہایت سود مند رہی۔
امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان تنازعہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی تنازعے پر انتہائی کشیدگی بھی دیکھنے میں آئی خصوصاً امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد صورتحال خاصی گمبھیر ہوئی لیکن دونوں ملکوں کی قیادت نے حالات کی نزاکت کو سمجھا اور معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں پہنچنے دیا۔
شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا، حالانکہ ان دونوں میں بھی اتنی ہی دشمنی پیدا ہو گئی تھی جتنی کہ علیحدہ ہونے والوں میں بالعموم ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا نے امریکا کے ساتھ بھی معاملات بہتر کرنے کی کوشش کی۔ اب شمالی کوریا کا اعلیٰ نمایندہ ایٹمی معاملے پر بات چیت کے لیے امریکا میں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے ایٹمی نمایندے کے ساتھ ان کی ملاقات نہایت سود مند رہی اور بات چیت میں قابل قدر کامیابی ملی ہے۔ امریکی ایوان صدارت وہائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ آن کے ساتھ فروری کے اواخر میں ایک اور سربراہ ملاقات بھی کریں گے لیکن پیانگ یانگ (شمالی کوریا کا دارالحکومت) پر اقتصادی پابندیاں بدستور جاری رہیں گی۔
امریکا اپنی اس پالیسی کو کیرٹ اینڈ اسٹک کا نام دیتا ہے یعنی ڈراؤ بھی اور ساتھ میں لالچ بھی دو۔ شمالی کورین لیڈروں سے اپنی ملاقات کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر ٹرمپ نے میڈیا کو بتایا کہ یہ بہت شاندار اور کامیاب ملاقات تھی۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ شمالی کورین صدر کے ساتھ ان کی ملاقاتوں میں جو پیش رفت ہوئی ہے میڈیا نے اسے صحیح معنوں میں شایع اور نشر نہیں کیا تاہم مستقبل میں اس کا پتہ چل جائے گا کہ اس حوالے سے ہمیں کتنی کامیابی ملی ہے اور اسی رفتار سے آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا اور شمالی کوریا کے لیڈر دوبارہ ملاقات کے اس قدر مشتاق ہیں جو معاملات کو آگے بڑھانے کی راہ ہموار کرنے کے لیے ضروری ہے۔ صدر ٹرمپ کے ان حوصلہ افزاء ریمارکس کے باوجود جو تبصرے سامنے آئے ہیں ان میں اس کامیابی کا کہیں کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور کسی تبصرے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ دونوں ملکوں کے مابین خلیج میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے یا ابھی نہیں۔
امریکا کا مطالبہ ہے کہ شمالی کوریا اپنا ایٹمی پروگرام یکسر منسوخ یا رول بیک کر دے کیونکہ جو امریکا کے لیے بھی خطرے کا باعث ہو سکتا ہے جب کہ شمالی کوریا کا موقف ہے کہ پہلے امریکا اقتصادی پابندیاں تو اٹھائے پھر آگے کی بات ہو گی۔ امریکا اور شمالی کوریا کے لیڈروں میں پہلی ملاقات میں جو بات کھل کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ شمالی کوریا پورے جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی اسلحے سے پاک کرنے کی خواہش رکھتا ہے لیکن امریکا کا کہنا ہے کہ پیانگ یانگ نے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے۔
اصل میں شمالی کوریا کا مطالبہ ہے کہ اگر امریکا اس کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرانا چاہتا ہے تو پھر جنوبی کوریا سے بھی ایٹمی میزائل ختم کرائے ورنہ شمالی کوریا مستقل طور پر خطرے میں رہے گا۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے پس منظر پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بھی مغربی سامراج کی گریٹ گیم کا شاخسانہ نظر آتا ہے۔ اس گریٹ گیم کی جھلکیاں مختلف شکلوں میں دیگر مقامات پر بھی نظر آتی ہیں جس کے لیے ہمیں تاریخ کے اوراق بھی پلٹنا پڑیں گے۔ جن قارئین کی نظر عالمی حالات پر رہتی ہے وہ بآسانی صورتحال کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
شمالی کوریا کے صدر کم جونگ آن نے ایٹمی قوت ہونے کے باوجود حالات کا درست ادراک کیا کہ اگر انھوں نے امریکا سے جنگ چھیڑی تو شمالی کوریا کا انجام عراق جیسا ہوگا۔اب شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان بات چیت کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ معاملات میں بہتری آئے گی۔
شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا، حالانکہ ان دونوں میں بھی اتنی ہی دشمنی پیدا ہو گئی تھی جتنی کہ علیحدہ ہونے والوں میں بالعموم ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا نے امریکا کے ساتھ بھی معاملات بہتر کرنے کی کوشش کی۔ اب شمالی کوریا کا اعلیٰ نمایندہ ایٹمی معاملے پر بات چیت کے لیے امریکا میں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے ایٹمی نمایندے کے ساتھ ان کی ملاقات نہایت سود مند رہی اور بات چیت میں قابل قدر کامیابی ملی ہے۔ امریکی ایوان صدارت وہائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ آن کے ساتھ فروری کے اواخر میں ایک اور سربراہ ملاقات بھی کریں گے لیکن پیانگ یانگ (شمالی کوریا کا دارالحکومت) پر اقتصادی پابندیاں بدستور جاری رہیں گی۔
امریکا اپنی اس پالیسی کو کیرٹ اینڈ اسٹک کا نام دیتا ہے یعنی ڈراؤ بھی اور ساتھ میں لالچ بھی دو۔ شمالی کورین لیڈروں سے اپنی ملاقات کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر ٹرمپ نے میڈیا کو بتایا کہ یہ بہت شاندار اور کامیاب ملاقات تھی۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ شمالی کورین صدر کے ساتھ ان کی ملاقاتوں میں جو پیش رفت ہوئی ہے میڈیا نے اسے صحیح معنوں میں شایع اور نشر نہیں کیا تاہم مستقبل میں اس کا پتہ چل جائے گا کہ اس حوالے سے ہمیں کتنی کامیابی ملی ہے اور اسی رفتار سے آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا اور شمالی کوریا کے لیڈر دوبارہ ملاقات کے اس قدر مشتاق ہیں جو معاملات کو آگے بڑھانے کی راہ ہموار کرنے کے لیے ضروری ہے۔ صدر ٹرمپ کے ان حوصلہ افزاء ریمارکس کے باوجود جو تبصرے سامنے آئے ہیں ان میں اس کامیابی کا کہیں کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور کسی تبصرے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ دونوں ملکوں کے مابین خلیج میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے یا ابھی نہیں۔
امریکا کا مطالبہ ہے کہ شمالی کوریا اپنا ایٹمی پروگرام یکسر منسوخ یا رول بیک کر دے کیونکہ جو امریکا کے لیے بھی خطرے کا باعث ہو سکتا ہے جب کہ شمالی کوریا کا موقف ہے کہ پہلے امریکا اقتصادی پابندیاں تو اٹھائے پھر آگے کی بات ہو گی۔ امریکا اور شمالی کوریا کے لیڈروں میں پہلی ملاقات میں جو بات کھل کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ شمالی کوریا پورے جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی اسلحے سے پاک کرنے کی خواہش رکھتا ہے لیکن امریکا کا کہنا ہے کہ پیانگ یانگ نے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے۔
اصل میں شمالی کوریا کا مطالبہ ہے کہ اگر امریکا اس کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرانا چاہتا ہے تو پھر جنوبی کوریا سے بھی ایٹمی میزائل ختم کرائے ورنہ شمالی کوریا مستقل طور پر خطرے میں رہے گا۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے پس منظر پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بھی مغربی سامراج کی گریٹ گیم کا شاخسانہ نظر آتا ہے۔ اس گریٹ گیم کی جھلکیاں مختلف شکلوں میں دیگر مقامات پر بھی نظر آتی ہیں جس کے لیے ہمیں تاریخ کے اوراق بھی پلٹنا پڑیں گے۔ جن قارئین کی نظر عالمی حالات پر رہتی ہے وہ بآسانی صورتحال کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
شمالی کوریا کے صدر کم جونگ آن نے ایٹمی قوت ہونے کے باوجود حالات کا درست ادراک کیا کہ اگر انھوں نے امریکا سے جنگ چھیڑی تو شمالی کوریا کا انجام عراق جیسا ہوگا۔اب شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان بات چیت کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ معاملات میں بہتری آئے گی۔