کیڑا تو پھر کیڑا ہوتا ہے

چند ایسے کِیڑے بھی ہوتے ہیں جنہیں ادب، دانش، عِلم، اِخلاق، زبان اور تَہذیب کی ہوا تک نہیں لگی

چند ایسے کِیڑے بھی ہوتے ہیں جنہیں ادب، دانش، عِلم، اِخلاق، زبان اور تَہذیب کی ہوا تک نہیں لگی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہُنر کوئی بھی ہو، نومشقی کی منزل سے گزرنے کے بعد ہی اعتماد بڑھتا ہے۔ اب وہ ہُنر چاہے کام بنانے کا ہو یا کام بِگاڑنے کا، کچھ ایسے خوش قسمت ہوتے ہیں جِنہیں اِس طرز کی پُختگی حاصل ہوتی ہے۔ میرا تو لکھنے کا یہ تجربہ رہا ہے کہ جب قلم اٹھایا، تو ایک ناشدنی خیال ستاتا رہا کہ ایسے افراد پر بھی کچھ لکھوں جو سڑیل طبیعت اور دوسروں کے کاموں میں کیڑے نکالتے ہیں۔ بہر حال اِن پر لکھنے کا موقع اس درویشِ بے نشاں کو نصیب ہوا۔

غالباً کوئی بڑا دانا تھا جس نے کہا تھا کہ ہر ایک میں کیڑا نکالنے والے لوگ بذات خود کیڑا ہوتے ہیں۔ ویسے کیڑے تو "حشرات الارض" ہیں جو اپنی مقبولیت کے ساتھ ہی ساتھ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ لیکن بعض کیڑے پیٹ میں بھی ہوتے ہیں جِن کے سبب زیادہ بھوک لگتی ہے، کیونکہ روزمرہ جو غِذا کھائی جاتی ہے، وہ معدے میں پہنچنے سے پہلے ہی اِن کیڑوں کی نذر ہوجاتی ہے۔ جب غِذا انسان کھا رہا ہوتا ہے، تو یہ کیڑے اس غِذا پر اپنی کڑی نظر رکھتے ہیں۔ جیسے ہی غِذا حلق کے راستے داخل ہوتی ہے تو یہ اسے نِگل جاتے ہیں۔ ان اُچکے کیڑوں کی حِرص مُستحق کو اِس کے حق سے اِس حَد تک محروم کردیتی ہے کہ شِکم سیری کے باوجود بھوک لگتی ہے۔ اِن کیڑوں کی ایک قسم دانتوں میں چِپک جاتی ہے جو آہستہ آہستہ ہیجان اور درد میں انسان کو مبتلا کر دیتی ہے۔ اگر جَبڑے کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اِس جگہ پر کبھی دانت ہوا کرتا تھا۔

ماہرین حشرات سے اِن کیڑوں کی اَن گِنت اقسام دریافت کی جاسکتی ہیں لیکن قبر اور منہ کے کیڑے اس لیے نایاب ہیں کہ جب تک ان دونوں کو کھول کر نہ دیکھا جائے، تب تک ان سے فطری گِھن محسوس کرنا ایک مُتجسس انسان کےلیے مَحض تصور کے سِوا اور کچھ نہیں۔ یہاں یہ وضاحت اس لیے کی ہے کیونکہ بعض انسان بھی اِن ہی کیڑوں سے مُماثلت رکھتے ہیں۔ جب تک ان کو ذاتی طور پر نہ پرکھا جائے، اِن کے مِزاج کا اندازہ کرنا بے حَد مشکل ہوتا ہے۔

یہ وہ کِیڑے نہیں جو ناقص صفائی کی بنا پر پیدا ہوجائیں بلکہ یہ تو کُلبلاتی سُنڈیوں کی مانند ہوتے ہیں۔ تعصب اور دریدہ دہنی کی وجہ سے انسانی آنکھ سے دیکھنا انہیں عبث ہوتا ہے۔ دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ ایسے کِیڑے اپنی بدکلامی اور بداخلاقی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہیں؛ اور دیکھنے کے خواہشمندوں کو ازخود موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ اپنی جبلت سے اِس قدر بدبودار ہوتے ہیں اور ڈنک مارنے والے خیالات ان کے اِتنے غلیظ ہوتے ہیں کہ اپنے احسان مَندوں کو کاٹنے سے باز نہیں آتے۔ ایسے کیڑے یہ سمجھتے کہ اِن کے چیتھڑے لیکچر سُن کر دنیا ان کو ارسطو سمجھنے لگی ہے، تو یہ سراسر احمق اور چُغد پَن کی نشانی ہے۔


چند ایسے کِیڑے بھی ہوتے ہیں جنہیں ادب، دانش، عِلم، اِخلاق، زبان اور تَہذیب کی ہوا تک نہیں لگی۔ منہ میں پَان ڈال کر اور اِدھر اُدھر کے دوچار چُٹکلے مارکر ہرگز صاحبِ دانش نہیں کہلوایا جا سکتا۔ اگر یہ اپنے اوپر سے اہل دانش ہونے کا لِباده اُتار دیں تو ایسے کِیڑوں کو تو اِن کی گَلی کا کُتا تک بھی نہیں پہچانے گا۔ ایسے کیڑے خداداد صلاحیتوں کے مَالک ہوتے ہیں۔ یہ وہ ہینڈ گرینیڈ ہوتے ہیں جو کھلے پن کے ساتھ جہاں جاتے ہیں، بربادی پھیلا آتے ہیں۔ یہ اپنی دنیا کے کیڑوں میں خاصے معتبر ہوتے ہیں اور اپنا ایک الگ "بِل" بنا کر رہتے ہیں۔ ہر مخالف سمت سے آنے والے کو دلیل کے بجائے فضول اور بے بنیاد باتوں سے زیر کرنا چاہتے ہیں۔ غیرمستحکم توازن کے باوجود اپنی انتہائی ہلکی اور گِری ہوئی بات کو وزنی قرار دے کر اٹھانے کی ضِد کرتے ہیں۔ پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک یہ ان کا محبوب مَشغلہ ہوتا ہے۔

ہاں! ایک بات تو لکھنا ہی بھول گیا کہ اِن کے سامنے اگر کوئی خوشگوار موڈ میں پھر رہا ہو تو یہ بلاوجہ "کچیچیاں وٹنے" لگتے ہیں۔ اِن کو بے شک "آپ جناب" کہہ کر بلایا جائے یہ آگے سے ''تو" ہی کہتے ہیں۔ اِن کی طبیعت دیکھ کر یوں لگتاہے جیسے یہ ابھی لڑ پڑیں گے، لیکن ایسی نوبت کبھی نہیں آتی۔ اِن کا تمام تر غیض و غَضب زبانی کلامی ہوتا ہے اور اگر اگلا آستینیں چڑھا کر لڑائی پر اُتر آئے تو اِن کا سارا غصہ ڈاؤن لوڈ ہوجاتا ہے۔

پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ ہائی بلڈ پریشر کے شِکار ہوتے ہیں، لیکن ایسی کوئی بات نہیں۔ نارمل کیفیت میں بھی یہ فریضہ بَخوبی سَرانجام دیتے ہیں۔

ان کیڑوں کو اپنی دانشمندی پر بڑا ناز ہوتا ہے۔ سامع کو چاہیے کہ ایسے کیڑے جب بولیں (اپنی مِنمِناتی آواز میں) تو ان کو مِن و عَن تسلیم کرلیا جائے۔ ان کی کچھ دیر کی خاموشی سے ذہنی سکون تو ملے گا۔ نہیں تو ان کی عَجیب و غریب آواز سن کر خون ہی کھولتا ہے۔ ایسے کیڑے ایک نمبر کے کاذب ہوتے ہیں، جو اپنی بات سے ایسے مکر جاتے ہیں جیسے کبھی کہی نہ ہو۔ یہ اپنی ناقص تاریخی معلومات کو دوسروں پر تھوپتے ہیں۔ یہ دوسروں کی باتوں میں سے اپنے مطلب کی بات نکال کر نفرت اور عَداوت کا زَہر اُگلتے ہیں۔ ان کا عجیب مِزاج ہوتا ہے۔ جو ان کے باؤلے پَن کو سمجھے وہ انہیں اچھا نہیں لگتا اور جس کو ان کی زہریلی گفتگو سے نِیت کا اندازہ ہوجائے تو وہ اِن کو بُرا لگتا ہے۔ اکثر ایسے کِیڑوں کو لوگ کہہ ہی دیتے ہیں کہ اے کیڑے "انسان بہت کچھ باتیں جلدی بھول جاتا ہے ان میں سے ایک اس کی اوقات بھی ہے۔" آخر میں ایسے کیڑوں سے اتنا کہوں گا کہ انسان کو اپنی عادت بدل لینی چاہیے تاکہ عاقبت بہتر ہوسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story