شکوے شکایات اور مایوسی سے پیچھا چھڑائیں
بہت کچھ آپ کو میسر نہیں، مگر بہت سی خوشیوں کو آپ نے نظر انداز بھی کر رکھا ہے
یہی ہمیں زندگی اور اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ شاہ راہ حیات پر وہی لوگ مطمئن اور مسرور نظر آتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی اہمیت دیتے ہیں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو ہمیشہ کسی نہ کسی بات پر ناخوش اور ہر ایک سے شکایت کرتے رہتے ہیں۔
عام مشاہدہ ہے کہ اکثر خواتین افسردہ اور زندگی سے بیزار ہی نہیں ہوتیں بلکہ وہ کبھی مہنگائی کا رونا روتی ہیں تو کبھی بچوں سے نالاں نظر آتی ہیں، کبھی ساس سسر کی شکایتیں کرتی ہیں تو کبھی گھریلو کام کاج ان کی ناخوشی کی وجہ ہوتا ہے۔ الغرض ایسی بہت سی باتیں ہیں جن کو عورتیں سوچتی ہیں اور افسردہ اور ناخوش رہتی ہیں۔ کئی خواتین کو تمام مادی آسائشیں میسر ہونے کے باوجود دل میں حقیقی خوشی محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن وہ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ حقیقی خوشی کا تعلق شکر خداوندی اور اس کے باعث پیدا ہونے والے قلبی اطمینان سے ہے۔
مثال کے طور پر کئی عورتیں چھوٹے بچوں کے آپس کے لڑائی جھگڑوں سے پریشان رہتی ہیں اور روز ہی مار پیٹ بھی کرتی ہوں گی۔ اگر وہ لمحہ بھر بھی سوچیں تو ان پر کُھلے گا کہ زندگی کے تمام رنگ انہی بچوں کے دَم سے تو ہیں۔ کیا آپ نے کوئی بے اولاد جوڑا نہیں دیکھا؟ ان کا دکھ محسوس کریں، تب شاید آپ کو اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں، ضد اور فرمائشیں اور ان کا آپس میں لڑنا اتنا برا نہیں لگے گا۔ ڈانٹ ڈپٹ اور ایک حد میں رہ کر کسی بات پر مار پیٹ بھی ضروری ہے، مگر سوچیے کیا ہر وقت بچوں کی شکایت کرنا اور ان سے نالاں رہنا ناشکری نہیں ہے۔
بعض خواتین کو قیمتی ملبوسات، بڑی گاڑی اور دیگر آسائشیں متاثر کرتی ہیں، لیکن اپنے مالی حالات کی وجہ سے وہ یہ سب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں اور ہر وقت اپنی قسمت کو کوستی ہیں اور ناخوش رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑا بھی ہوتا ہے اور شوہر سے دوریاں بڑھ جاتی ہیں۔ اگر وہ خود کو میسر اور موجود سہولیات اور ضرورت پوری ہو جانے پر غور کریں اور اس کا شکر بجا لائیں تو کوفت اور ہر وقت کی بے چینی اور اصطراب سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ سوچیں بے شمار لوگوں کو یہ بھی میسر نہیں جو خدا نے آپ کو دے رکھا ہے۔
مہنگائی بھی خواتین کے مزاج پر اسی طرح اثر انداز ہوتی ہے کہ ہر مہینہ بجلی، گیس، پانی وغیرہ کے بلوں اور دوسرے اخراجات پر خاصی رقم ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ اس حوالے سے یہ سوچا جائے کہ یہ تمام چیزیں آپ ہی کے استعمال میں تو ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو زندگی کتنی مشکل ہوتی۔ اسی طرح کسی تقریب اور موقع کی مناسبت سے تحفے تحائف اور سلامی وغیرہ دینا گراں گزرتا ہے۔ یہ سوچیں کہ اگر یہ عزیز و اقارب یا احباب زندگی میں نہ ہوتے تو آپ کے دکھ سکھ میں کون شریک ہوتا، کس سے بات کرتیں اور کسے اپنے دل کا حال سناتیں۔
آپ کی زندگی کتنی بے رونق ہوتی۔ یہ احباب ایک نعمت ہیں۔ آپ اکثر ان سے مشورہ کرتی ہیں، اپنے گھر کے مسائل کا ذکر کرتی ہیں اور دل ہلکا کر لیتی ہیں۔ اسی طرح کسی گھریلو جھگڑے کے دوران جب حالات بہت کڑے ہوں تو ثالثی اور صلح صفائی کے لیے بھی اپنے ہی آگے بڑھتے ہیں اور آپ کی زندگی معمول پر آجاتی ہے۔ الغرض وہ معاملات جن کو ہم چھوٹی چھوٹی پریشانیاں سمجھتے ہیں۔ انہی میں اگر خوشیاں تلاش کی جائیں تو کسی قدر بہتر اور متوازن زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔
بسا اوقات ہمیں مختلف مواقع پر رویے بھی ناخوش رکھتے ہیں۔ درج ذیل چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو رویے میں بہتری کے ساتھ اپنی پریشانیوں اور مسائل کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے اور بہت سی خوشیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔
منفی سوچ:
کسی بھی معاملے کا تاریک پہلو دیکھنے اور ہر بات پر منفی انداز سے سوچنے والی خواتین عموماً ناخوش رہتی ہیں۔ زندگی میں بہتری کے لیے مثبت سوچ کو اپنانا ازحد ضروری ہے۔
ماضی میں رہنا:
ماضی میں ہونے والے تلخ واقعات کی یاد ہمیشہ ناخوش رکھتی ہے۔ حال میں جینا انسان کو خوش رکھتا ہے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ جو لوگ خوش رہتے ہیں ان کو ماضی کے ناخوش گوار واقعات یاد نہیں آتے، بلکہ خوش مزاجی اور حال میں جینے کی عادت آپ کو مطمئن اور مسرور رکھتی ہے۔
دوسروں سے موازنہ
تقریبات میں یا سوشل ویب سائٹس پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر دیکھ کر اکثر خواتین احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہیں یا وہ اسے اپنی محرومیوں اور مسائل پر کڑھنے کی بنیاد بنا لیتی ہیں۔ اپنی ذات، شخصیت یا حالات کا دوسروں سے مقابلہ کرنے کے بجائے اپنے سے بہتر حالات میں جینے والے کو دعا دیں۔ اس کی کام یابی پر خوشی کا اظہار کریں اور ہمیشہ اپنے رب کی شکرِگزار رہیں۔ اس طرح آپ اپنے اندر ایک قسم کی توانائی اور مثبت تبدیلی محسوس کریں گی۔
حادثاتی اور اختیار سے باہر معاملات پر کڑھنا:
ٹریفک جام، کوئی معمولی یا بڑا حادثہ، کسی بھی قسم کے نقصان، اشیاء کی بڑھتی قیمتیں یا لوگوں کے رویے وغیرہ یہ کچھ ایسی مثالیں ہیں جن کے متعلق مسلسل سوچنا آپ کی تکلیف ہی بڑھائے گا اور یہ ایسے معاملات ہیں جو آپ کے اختیار میں نہیں یا آپ ان پر قابو نہیں پا سکتیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ زمینی حقائق پر نظر رکھیں۔ کسی بھی معاملے کی حقیقت کو سمجھیں اور اس پر کڑھنے کے بجائے اپنا راستہ نکالنے کی کوشش کریں۔ آپ کے سوچنے اور فکر مند رہنے سے معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ خود کو ہلکان نہ کیا جائے اور خوش رہا جائے۔
احساسِ کم تری:
بیشتر خواتین اپنے ظاہری سراپے، رنگ روپ کا دیگر خواتین سے موازنہ کرتی ہیں۔ اکثریت کو اپنی ذات میں کوئی نہ کوئی کمی نظر آتی ہے۔ مثلاً سانولی رنگت کی خاتون گورا ہونا چاہتی ہیں۔ چھوٹا قد ہو تو اس پر کڑھتی ہیں جب کہ کوئی بھی عورت چاہے وہ کسی بھی رنگ روپ کی مالک ہو اگر پُراعتماد اور بااخلاق ہو تو اسے سب اہمیت دیتے ہیں اور وہ باوقار اور منفرد سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں اور سب کو اپنا گرویدہ بنا لیں۔
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمام مادی آسائشوں کے باوجود اور اوپر بیان کی گئی تمام باتوں کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود خواتین ناخوش ہوتی ہیں اور اس کی کوئی وجہ نہیں جان پاتیں۔ روح میں ایک خلا سا محسوس ہوتا ہے۔ اس جمود کو توڑنے اور حقیقی خوشی حاصل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ عبادت اور انسانیت کی فلاح اور لوگوں کی خدمت کے کام ہیں۔ کسی کو اچھا مشورہ دینا، کسی بیمار کی عیادت کرنا، غریب کی مالی مدد کرنا، کسی یتیم بچے کی کفالت جیسے بے شمار کام سچی خوشی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ پڑوسیوں کی خبر گیری کرنا، رشتے داروں سے ملنا یقیناً خوشی اور اطمینان کا وہ احساس عطا کریں گے جن کا الفاظ میں بیان ممکن ہی نہیں۔
عام مشاہدہ ہے کہ اکثر خواتین افسردہ اور زندگی سے بیزار ہی نہیں ہوتیں بلکہ وہ کبھی مہنگائی کا رونا روتی ہیں تو کبھی بچوں سے نالاں نظر آتی ہیں، کبھی ساس سسر کی شکایتیں کرتی ہیں تو کبھی گھریلو کام کاج ان کی ناخوشی کی وجہ ہوتا ہے۔ الغرض ایسی بہت سی باتیں ہیں جن کو عورتیں سوچتی ہیں اور افسردہ اور ناخوش رہتی ہیں۔ کئی خواتین کو تمام مادی آسائشیں میسر ہونے کے باوجود دل میں حقیقی خوشی محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن وہ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ حقیقی خوشی کا تعلق شکر خداوندی اور اس کے باعث پیدا ہونے والے قلبی اطمینان سے ہے۔
مثال کے طور پر کئی عورتیں چھوٹے بچوں کے آپس کے لڑائی جھگڑوں سے پریشان رہتی ہیں اور روز ہی مار پیٹ بھی کرتی ہوں گی۔ اگر وہ لمحہ بھر بھی سوچیں تو ان پر کُھلے گا کہ زندگی کے تمام رنگ انہی بچوں کے دَم سے تو ہیں۔ کیا آپ نے کوئی بے اولاد جوڑا نہیں دیکھا؟ ان کا دکھ محسوس کریں، تب شاید آپ کو اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں، ضد اور فرمائشیں اور ان کا آپس میں لڑنا اتنا برا نہیں لگے گا۔ ڈانٹ ڈپٹ اور ایک حد میں رہ کر کسی بات پر مار پیٹ بھی ضروری ہے، مگر سوچیے کیا ہر وقت بچوں کی شکایت کرنا اور ان سے نالاں رہنا ناشکری نہیں ہے۔
بعض خواتین کو قیمتی ملبوسات، بڑی گاڑی اور دیگر آسائشیں متاثر کرتی ہیں، لیکن اپنے مالی حالات کی وجہ سے وہ یہ سب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں اور ہر وقت اپنی قسمت کو کوستی ہیں اور ناخوش رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑا بھی ہوتا ہے اور شوہر سے دوریاں بڑھ جاتی ہیں۔ اگر وہ خود کو میسر اور موجود سہولیات اور ضرورت پوری ہو جانے پر غور کریں اور اس کا شکر بجا لائیں تو کوفت اور ہر وقت کی بے چینی اور اصطراب سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ سوچیں بے شمار لوگوں کو یہ بھی میسر نہیں جو خدا نے آپ کو دے رکھا ہے۔
مہنگائی بھی خواتین کے مزاج پر اسی طرح اثر انداز ہوتی ہے کہ ہر مہینہ بجلی، گیس، پانی وغیرہ کے بلوں اور دوسرے اخراجات پر خاصی رقم ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ اس حوالے سے یہ سوچا جائے کہ یہ تمام چیزیں آپ ہی کے استعمال میں تو ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو زندگی کتنی مشکل ہوتی۔ اسی طرح کسی تقریب اور موقع کی مناسبت سے تحفے تحائف اور سلامی وغیرہ دینا گراں گزرتا ہے۔ یہ سوچیں کہ اگر یہ عزیز و اقارب یا احباب زندگی میں نہ ہوتے تو آپ کے دکھ سکھ میں کون شریک ہوتا، کس سے بات کرتیں اور کسے اپنے دل کا حال سناتیں۔
آپ کی زندگی کتنی بے رونق ہوتی۔ یہ احباب ایک نعمت ہیں۔ آپ اکثر ان سے مشورہ کرتی ہیں، اپنے گھر کے مسائل کا ذکر کرتی ہیں اور دل ہلکا کر لیتی ہیں۔ اسی طرح کسی گھریلو جھگڑے کے دوران جب حالات بہت کڑے ہوں تو ثالثی اور صلح صفائی کے لیے بھی اپنے ہی آگے بڑھتے ہیں اور آپ کی زندگی معمول پر آجاتی ہے۔ الغرض وہ معاملات جن کو ہم چھوٹی چھوٹی پریشانیاں سمجھتے ہیں۔ انہی میں اگر خوشیاں تلاش کی جائیں تو کسی قدر بہتر اور متوازن زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔
بسا اوقات ہمیں مختلف مواقع پر رویے بھی ناخوش رکھتے ہیں۔ درج ذیل چند باتوں کا خیال رکھا جائے تو رویے میں بہتری کے ساتھ اپنی پریشانیوں اور مسائل کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے اور بہت سی خوشیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔
منفی سوچ:
کسی بھی معاملے کا تاریک پہلو دیکھنے اور ہر بات پر منفی انداز سے سوچنے والی خواتین عموماً ناخوش رہتی ہیں۔ زندگی میں بہتری کے لیے مثبت سوچ کو اپنانا ازحد ضروری ہے۔
ماضی میں رہنا:
ماضی میں ہونے والے تلخ واقعات کی یاد ہمیشہ ناخوش رکھتی ہے۔ حال میں جینا انسان کو خوش رکھتا ہے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ جو لوگ خوش رہتے ہیں ان کو ماضی کے ناخوش گوار واقعات یاد نہیں آتے، بلکہ خوش مزاجی اور حال میں جینے کی عادت آپ کو مطمئن اور مسرور رکھتی ہے۔
دوسروں سے موازنہ
تقریبات میں یا سوشل ویب سائٹس پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر دیکھ کر اکثر خواتین احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہیں یا وہ اسے اپنی محرومیوں اور مسائل پر کڑھنے کی بنیاد بنا لیتی ہیں۔ اپنی ذات، شخصیت یا حالات کا دوسروں سے مقابلہ کرنے کے بجائے اپنے سے بہتر حالات میں جینے والے کو دعا دیں۔ اس کی کام یابی پر خوشی کا اظہار کریں اور ہمیشہ اپنے رب کی شکرِگزار رہیں۔ اس طرح آپ اپنے اندر ایک قسم کی توانائی اور مثبت تبدیلی محسوس کریں گی۔
حادثاتی اور اختیار سے باہر معاملات پر کڑھنا:
ٹریفک جام، کوئی معمولی یا بڑا حادثہ، کسی بھی قسم کے نقصان، اشیاء کی بڑھتی قیمتیں یا لوگوں کے رویے وغیرہ یہ کچھ ایسی مثالیں ہیں جن کے متعلق مسلسل سوچنا آپ کی تکلیف ہی بڑھائے گا اور یہ ایسے معاملات ہیں جو آپ کے اختیار میں نہیں یا آپ ان پر قابو نہیں پا سکتیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ زمینی حقائق پر نظر رکھیں۔ کسی بھی معاملے کی حقیقت کو سمجھیں اور اس پر کڑھنے کے بجائے اپنا راستہ نکالنے کی کوشش کریں۔ آپ کے سوچنے اور فکر مند رہنے سے معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ خود کو ہلکان نہ کیا جائے اور خوش رہا جائے۔
احساسِ کم تری:
بیشتر خواتین اپنے ظاہری سراپے، رنگ روپ کا دیگر خواتین سے موازنہ کرتی ہیں۔ اکثریت کو اپنی ذات میں کوئی نہ کوئی کمی نظر آتی ہے۔ مثلاً سانولی رنگت کی خاتون گورا ہونا چاہتی ہیں۔ چھوٹا قد ہو تو اس پر کڑھتی ہیں جب کہ کوئی بھی عورت چاہے وہ کسی بھی رنگ روپ کی مالک ہو اگر پُراعتماد اور بااخلاق ہو تو اسے سب اہمیت دیتے ہیں اور وہ باوقار اور منفرد سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں اور سب کو اپنا گرویدہ بنا لیں۔
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تمام مادی آسائشوں کے باوجود اور اوپر بیان کی گئی تمام باتوں کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود خواتین ناخوش ہوتی ہیں اور اس کی کوئی وجہ نہیں جان پاتیں۔ روح میں ایک خلا سا محسوس ہوتا ہے۔ اس جمود کو توڑنے اور حقیقی خوشی حاصل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ عبادت اور انسانیت کی فلاح اور لوگوں کی خدمت کے کام ہیں۔ کسی کو اچھا مشورہ دینا، کسی بیمار کی عیادت کرنا، غریب کی مالی مدد کرنا، کسی یتیم بچے کی کفالت جیسے بے شمار کام سچی خوشی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ پڑوسیوں کی خبر گیری کرنا، رشتے داروں سے ملنا یقیناً خوشی اور اطمینان کا وہ احساس عطا کریں گے جن کا الفاظ میں بیان ممکن ہی نہیں۔