اسد شفیق نے کارکردگی میں تسلسل لانے کا عزم کر لیا
کوچ مکی آرتھر کی ڈانٹ کا معاملہ اتنا بڑا نہیں تھا جتنا سامنے آیا، اسد شفیق
سینئربیٹسمین اسد شفیق نے کارکردگی میں تسلسل لانے کا عزم ظاہر کردیا۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کے سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو میں اسد شفیق نے کہاکہ جو چیزہاتھ میں نہ ہو میں اس کے بارے میں فکر یا افسوس نہیں کرتا، جہاں موقع ملے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتا ہوں، میں نے کبھی نہیں سوچا کہ کسی فارمیٹ میں کرکٹ ختم ہوگئی، صرف 2 یا 3 اچھی اننگز کسی بھی طرز میں کم بیک ممکن بنا سکتی ہیں، میں ون ڈے اسکواڈ میں واپسی سمیت کیریئر کے حوالے سے پُرعزم ہوں، اپنے لیے کسی بھی فارمیٹ کا دروازہ بند نہیں کیا، جب تک کرکٹ کھیل رہا ہوں ہر آپشن کھلا سمجھتا ہوں۔
ایک سوال پر انھوں نے تسلیم کیا کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران اپنی کارکردگی میں تسلسل برقرار نہیں رکھ سکے، اسد نے کہا کہ میں پوری کوشش کر رہا ہوں کہ پرفارمنس سے ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کروں، جنوبی افریقہ میں 3اننگز میں تو ابتدا میں ہی آؤٹ ہو گیا، یو اے ای میں 3 بار 40 کے قریب رنز بنانے کے بعد وکٹ گنوا دی، مجھے کریز پر سیٹ ہونے کے بعد بڑی اننگز کھیلنا چاہیے تھی، میں اپنی اس خامی پر قابو پانے کیلیے محنت کروں گا، انھوں نے کہا کہ میری 1،2انگلش کاؤنٹیز سے بات چیت چل رہی ہے، وہاں اپنی غلطیاں سدھارنے اور پرفارمنس میں نکھار لانے کا موقع ملے گا، اگر معاہدہ نہ ہوا تو کلب اور ڈومیسٹک کرکٹ میں محنت کروں گا۔
ایک سوال پر اسد شفیق نے کہا کہ مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد مجھ پر اضافی دباؤ بالکل نہیں، میری اور اظہر علی کی ذمہ داری ضرور بڑھ گئی لیکن ہم سینئرز کی طرح تسلسل کے ساتھ رنز نہیں بنا پا رہے، مجھے مصباح الحق سے جب بھی مشاورت کا موقع ملے وہ کنڈیشنز اور پچز کے بارے میں بتاتے ہیں۔
پاکستانی ٹاپ آرڈر کی مسلسل ناکامی کی وجہ سے دباؤ بڑھ جانے کے سوال پر اسد شفیق نے کہا کہ اوپنرز نئی گیند کی چمک ختم کرنے میں کامیاب ہو تو آنے والے بیٹسمینوں کیلیے آسانی اورحریف ٹیم پر دباؤ بھی بڑھتا ہے، تاہم یہ ہماری کارکردگی میں عدم تسلسل کا جواز نہیں، گیند نئی ہو یا پرانی سینئرز کے طور پر پرفارم کرنا اور رنز بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔
جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں مسلسل ناکامیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اسد شفیق نے کہا کہ پاکستان ٹیم دونوں شعبوں میں توقعات کے مطابق کارکردگی نہیں پیش کر پائی، بیٹنگ میں اچھی شراکتیں نہیں بن پائیں، سازگار کنڈیشنز میں فاسٹ بولرز بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے تاہم بیٹنگ نے زیادہ مایوس کیا، اگر ہم 300 سے زائد رنز بناتے تو بولرز دفاع کیلیے اچھی کوشش کرسکتے تھے لیکن اہم سیشنز میں وکٹیں گنوانے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا، دورہ جنوبی افریقہ میرے اور ٹیم کیلیے اچھا نہیں تھا لیکن بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
کوچ مکی آرتھر کی ڈانٹ کا معاملہ اتنا بڑا نہیں تھا جتنا سامنے آیا
اسد شفیق نے کہا کہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر کی ڈانٹ کا معاملہ اتنا بڑا نہیں تھا، جتنا سامنے آیا، جنوبی افریقہ کیخلاف سنچورین ٹیسٹ میں ٹیم نے اہم موقع پر وکٹیں گنوائیں، اس وقت ذمے دارانہ کھیل کا مظاہرہ کرتے تو میچ جیت بھی سکتے تھے، کوچ نے بیٹسمینوں کے غلط اسٹروکس، پچ اورکنڈیشنز کے بارے میں بات کی، جو بہت زیادہ سنی گئی اوراس سے بھی زیادہ پاکستان میں پہنچی، بہرحال اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی۔
والدہ نے میرے لیے کچھ حدود متعین کیں، ہمیشہ ان میں رہتا ہوں
کیریئر میں کبھی کسی تنازع کا شکار نہ ہونے کے سوال پر اسد شفیق نے کہا کہ والدہ نے میرے لیے کچھ حدود متعین کی ہیں، میں ہمیشہ ان کے اندر رہنے کی کوشش کرتا ہوں، پاکستان کیلیے کھیلنے کا موقع ملنا بڑے اعزاز کی بات ہے، کوشش کرتا ہوں کہ نام اور مقام دینے والے ملک کی عزت کا خیال رکھوں، کوئی ایسی حرکت نہ کروں جس سے پاکستان، فیملی اور دوستوں کے جذبات مجروح ہوں۔
پاکستان کی نمائندگی کے باوجود کلب کرکٹ کھیلنے میں کوئی عار نہیں
اسد شفیق کا کہنا ہے کہ ملک کی نمائندگی کا اعزاز ملنے کے باوجود میں کلب کرکٹ کھیلنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا، جب اور جہاں موقع ملے ایکشن میں رہنے کی کوشش کرتا ہوں، پاکستان کرکٹ کلب کے اعظم خان نے فائنل کھیلنے کیلیے کہا تو جنوبی افریقہ سے واپسی سے دوسرے ہی دن ٹی ایم سی گراؤنڈ کراچی پہنچ گیا تھا۔
غیر اعلانیہ نائب کپتان نے قومی ٹیم کی قیادت کوسب سے بڑااعزازقراردیدیا
غیر اعلانیہ نائب کپتان اسد شفیق نے قومی ٹیم کی قیادت کو سب سے بڑا اعزاز قرار دیدیا۔ اس حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ مجھے غیر اعلانیہ نائب کپتان کہا جاتا ہے، اس حوالے سے فیصلہ تو پی سی بی کوکرنا ہے،البتہ پاکستان ٹیم کی قیادت کسی بھی کھلاڑی کیلیے سب سے بڑا اعزاز ہے، اگر کبھی موقع ملا تو ملک کی خدمت کرنے کی کوشش کرونگا، انھوں نے کہا کہ میں ڈومیسٹک اور کلب کرکٹ میں کپتان کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دے چکا، یہ تجربہ قومی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے بھی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔
گرین شرٹس ورلڈ کپ جیتنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں
اسد شفیق نے کہا کہ ورلڈ کپ میں پاکستان کی قوت کو نظراندازنہیں کیا جاسکتا، جنوبی افریقہ کیخلاف ون ڈے سیریز سے گرین شرٹس کی تیاریوں کا اندازہ ہوگا، پاکستان ٹیم کی اصل قوت یہ ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی کنڈیشنز اور حالات میں کم بیک کرنا جانتی ہے، صرف ایشیا کپ یا ایک سیریز میں کارکردگی خراب ہونے سے یہ نہیں کہاجا سکتا کہ ورلڈکپ کی مہم کمزور ہوگی، ایک اچھی سیریز سے ردھم بحال ہوسکتا ہے، انھوں نے کہا کہ گرین شرٹس دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک اور ورلڈ کپ جیتنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا میری آخری ترجیح ہے
اسد شفیق نے سوشل میڈیا کو آخری ترجیح قرار دیدیا، انھوں نے کہا کہ ٹوئٹر وغیرہ پر بھی میرا منیجر پیغامات جاری کرتا ہے، جب کوئی انٹرنیشنل ڈومیسٹک یاکلب مصروفیت نہ ہو اور صرف پریکٹس سیشن چل رہے ہو تو سوشل میڈیا کیلیے بھی تھوڑا وقت نکل آتا ہے، عام طور پر ان کاموں کیلیے مجھے فرصت نہیں ملتی۔
پی ایس ایل میں ملنے والے موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکا
اسد شفیق نے اعتراف کیا کہ وہ پی ایس ایل میں ملنے والے موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکے، ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے مجھے اس بار اپنے اسکواڈ میں برقرار کیوں نہیں رکھا، اگرچہ فرنچائز نے مجھے گزشتہ ایڈیشن میں صلاحیتوں کے اظہار کا پورا موقع دیا لیکن میں توقعات کے مطابق کارکردگی نہیں پیش کرپایا۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کے سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو میں اسد شفیق نے کہاکہ جو چیزہاتھ میں نہ ہو میں اس کے بارے میں فکر یا افسوس نہیں کرتا، جہاں موقع ملے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتا ہوں، میں نے کبھی نہیں سوچا کہ کسی فارمیٹ میں کرکٹ ختم ہوگئی، صرف 2 یا 3 اچھی اننگز کسی بھی طرز میں کم بیک ممکن بنا سکتی ہیں، میں ون ڈے اسکواڈ میں واپسی سمیت کیریئر کے حوالے سے پُرعزم ہوں، اپنے لیے کسی بھی فارمیٹ کا دروازہ بند نہیں کیا، جب تک کرکٹ کھیل رہا ہوں ہر آپشن کھلا سمجھتا ہوں۔
ایک سوال پر انھوں نے تسلیم کیا کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران اپنی کارکردگی میں تسلسل برقرار نہیں رکھ سکے، اسد نے کہا کہ میں پوری کوشش کر رہا ہوں کہ پرفارمنس سے ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کروں، جنوبی افریقہ میں 3اننگز میں تو ابتدا میں ہی آؤٹ ہو گیا، یو اے ای میں 3 بار 40 کے قریب رنز بنانے کے بعد وکٹ گنوا دی، مجھے کریز پر سیٹ ہونے کے بعد بڑی اننگز کھیلنا چاہیے تھی، میں اپنی اس خامی پر قابو پانے کیلیے محنت کروں گا، انھوں نے کہا کہ میری 1،2انگلش کاؤنٹیز سے بات چیت چل رہی ہے، وہاں اپنی غلطیاں سدھارنے اور پرفارمنس میں نکھار لانے کا موقع ملے گا، اگر معاہدہ نہ ہوا تو کلب اور ڈومیسٹک کرکٹ میں محنت کروں گا۔
ایک سوال پر اسد شفیق نے کہا کہ مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد مجھ پر اضافی دباؤ بالکل نہیں، میری اور اظہر علی کی ذمہ داری ضرور بڑھ گئی لیکن ہم سینئرز کی طرح تسلسل کے ساتھ رنز نہیں بنا پا رہے، مجھے مصباح الحق سے جب بھی مشاورت کا موقع ملے وہ کنڈیشنز اور پچز کے بارے میں بتاتے ہیں۔
پاکستانی ٹاپ آرڈر کی مسلسل ناکامی کی وجہ سے دباؤ بڑھ جانے کے سوال پر اسد شفیق نے کہا کہ اوپنرز نئی گیند کی چمک ختم کرنے میں کامیاب ہو تو آنے والے بیٹسمینوں کیلیے آسانی اورحریف ٹیم پر دباؤ بھی بڑھتا ہے، تاہم یہ ہماری کارکردگی میں عدم تسلسل کا جواز نہیں، گیند نئی ہو یا پرانی سینئرز کے طور پر پرفارم کرنا اور رنز بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔
جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں مسلسل ناکامیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اسد شفیق نے کہا کہ پاکستان ٹیم دونوں شعبوں میں توقعات کے مطابق کارکردگی نہیں پیش کر پائی، بیٹنگ میں اچھی شراکتیں نہیں بن پائیں، سازگار کنڈیشنز میں فاسٹ بولرز بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے تاہم بیٹنگ نے زیادہ مایوس کیا، اگر ہم 300 سے زائد رنز بناتے تو بولرز دفاع کیلیے اچھی کوشش کرسکتے تھے لیکن اہم سیشنز میں وکٹیں گنوانے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا، دورہ جنوبی افریقہ میرے اور ٹیم کیلیے اچھا نہیں تھا لیکن بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
کوچ مکی آرتھر کی ڈانٹ کا معاملہ اتنا بڑا نہیں تھا جتنا سامنے آیا
اسد شفیق نے کہا کہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر کی ڈانٹ کا معاملہ اتنا بڑا نہیں تھا، جتنا سامنے آیا، جنوبی افریقہ کیخلاف سنچورین ٹیسٹ میں ٹیم نے اہم موقع پر وکٹیں گنوائیں، اس وقت ذمے دارانہ کھیل کا مظاہرہ کرتے تو میچ جیت بھی سکتے تھے، کوچ نے بیٹسمینوں کے غلط اسٹروکس، پچ اورکنڈیشنز کے بارے میں بات کی، جو بہت زیادہ سنی گئی اوراس سے بھی زیادہ پاکستان میں پہنچی، بہرحال اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی۔
والدہ نے میرے لیے کچھ حدود متعین کیں، ہمیشہ ان میں رہتا ہوں
کیریئر میں کبھی کسی تنازع کا شکار نہ ہونے کے سوال پر اسد شفیق نے کہا کہ والدہ نے میرے لیے کچھ حدود متعین کی ہیں، میں ہمیشہ ان کے اندر رہنے کی کوشش کرتا ہوں، پاکستان کیلیے کھیلنے کا موقع ملنا بڑے اعزاز کی بات ہے، کوشش کرتا ہوں کہ نام اور مقام دینے والے ملک کی عزت کا خیال رکھوں، کوئی ایسی حرکت نہ کروں جس سے پاکستان، فیملی اور دوستوں کے جذبات مجروح ہوں۔
پاکستان کی نمائندگی کے باوجود کلب کرکٹ کھیلنے میں کوئی عار نہیں
اسد شفیق کا کہنا ہے کہ ملک کی نمائندگی کا اعزاز ملنے کے باوجود میں کلب کرکٹ کھیلنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا، جب اور جہاں موقع ملے ایکشن میں رہنے کی کوشش کرتا ہوں، پاکستان کرکٹ کلب کے اعظم خان نے فائنل کھیلنے کیلیے کہا تو جنوبی افریقہ سے واپسی سے دوسرے ہی دن ٹی ایم سی گراؤنڈ کراچی پہنچ گیا تھا۔
غیر اعلانیہ نائب کپتان نے قومی ٹیم کی قیادت کوسب سے بڑااعزازقراردیدیا
غیر اعلانیہ نائب کپتان اسد شفیق نے قومی ٹیم کی قیادت کو سب سے بڑا اعزاز قرار دیدیا۔ اس حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ مجھے غیر اعلانیہ نائب کپتان کہا جاتا ہے، اس حوالے سے فیصلہ تو پی سی بی کوکرنا ہے،البتہ پاکستان ٹیم کی قیادت کسی بھی کھلاڑی کیلیے سب سے بڑا اعزاز ہے، اگر کبھی موقع ملا تو ملک کی خدمت کرنے کی کوشش کرونگا، انھوں نے کہا کہ میں ڈومیسٹک اور کلب کرکٹ میں کپتان کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دے چکا، یہ تجربہ قومی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے بھی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔
گرین شرٹس ورلڈ کپ جیتنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں
اسد شفیق نے کہا کہ ورلڈ کپ میں پاکستان کی قوت کو نظراندازنہیں کیا جاسکتا، جنوبی افریقہ کیخلاف ون ڈے سیریز سے گرین شرٹس کی تیاریوں کا اندازہ ہوگا، پاکستان ٹیم کی اصل قوت یہ ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی کنڈیشنز اور حالات میں کم بیک کرنا جانتی ہے، صرف ایشیا کپ یا ایک سیریز میں کارکردگی خراب ہونے سے یہ نہیں کہاجا سکتا کہ ورلڈکپ کی مہم کمزور ہوگی، ایک اچھی سیریز سے ردھم بحال ہوسکتا ہے، انھوں نے کہا کہ گرین شرٹس دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک اور ورلڈ کپ جیتنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا میری آخری ترجیح ہے
اسد شفیق نے سوشل میڈیا کو آخری ترجیح قرار دیدیا، انھوں نے کہا کہ ٹوئٹر وغیرہ پر بھی میرا منیجر پیغامات جاری کرتا ہے، جب کوئی انٹرنیشنل ڈومیسٹک یاکلب مصروفیت نہ ہو اور صرف پریکٹس سیشن چل رہے ہو تو سوشل میڈیا کیلیے بھی تھوڑا وقت نکل آتا ہے، عام طور پر ان کاموں کیلیے مجھے فرصت نہیں ملتی۔
پی ایس ایل میں ملنے والے موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکا
اسد شفیق نے اعتراف کیا کہ وہ پی ایس ایل میں ملنے والے موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکے، ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے مجھے اس بار اپنے اسکواڈ میں برقرار کیوں نہیں رکھا، اگرچہ فرنچائز نے مجھے گزشتہ ایڈیشن میں صلاحیتوں کے اظہار کا پورا موقع دیا لیکن میں توقعات کے مطابق کارکردگی نہیں پیش کرپایا۔