دہشت گردی کے باعث نقل مکانی کیوں

لاقانونیت اور قتل وغارت نے ناسور کی شکل اختیار کرلی ہے۔

جسٹس خلجی عارف حسین نے آبزرویشن دی کہ سیکیورٹی ادارے لیاری جیسے ایک چھوٹے علاقے میں امن قائم نہیں کرسکے تو شہرکوکیسے محفوظ بنائیں گے. فوٹو: عائشہ میر/ فائل

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ناکام آپریشنز سے جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، امن وامان کے قیام میںناکامی پر متعلقہ ڈی آئی جیزکے خلاف توہین عدالت کے الزام میں کارروائی ہوگی کیوں کہ انھوں نے قیام امن کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں حلفیہ بیان جمع کرائے ہیں۔

جسٹس خلجی عارف حسین نے آبزرویشن دی کہ سیکیورٹی ادارے لیاری جیسے ایک چھوٹے علاقے میں امن قائم نہیں کرسکے تو شہرکوکیسے محفوظ بنائیں گے؟ یہ ریمارکس بدھ کو جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین اور جسٹس امیرہانی مسلم پر مشتمل بینچ نے کراچی بے امنی کیس میں سرکاری محکموں کی جانب سے عدالت کے حکم پر عملدرآمد کی رپورٹس کی سماعت کے دوران دیے ۔ یہ ایک مسلمہ حوالہ ہے کہ کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے روبرو جتنی سرزنش سندھ اور کراچی پولیس و رینجرز حکام کی ہوئی ہے۔

اس کی ملکی عدالتی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی تاہم بعد از خرابیٔ بسیار ، تمام تر سخت ریمارکس اور واضح عدالتی فیصلوں کے باوجود دہشت گردی سے نجات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا بلکہ اب تو منی پاکستان کو سوات ہزارہ، جنوبی وزیرستان اور فاٹا کے دیگر علاقوں جیسی نقل مکانی کا سامنا ہے ، کچھی برادری بدین اور اندرون سندھ ہجرت کرگئی ہے،ان کی مظلوم خواتین نے گزشتہ روز سپریم کورٹ کے سامنے مظاہرہ بھی کیا۔وزیراعظم نوز شریف کی دورکنی کمیٹی نے اپنی رپورت بھی وفاقی حکومت کو پیش کردی ہے۔


اس پر فوری ایکشن ہونا چاہیے۔ اگر 1947ء میں برصغیر کے اسلامیان ہند نے ہجرت کی تھی تو اس کی کوئی وجہ اور تاریخی عوامل تھے مگر ایک قدیم برادری کا ملک کے سب سے بڑے تجارتی اور کاروباری مرکز اور اقتصادی شہ رگ میں بد امنی سے مجبور ہوکر نقل مکانی کرنا حکومت کی کمزور رٹ کا المیہ ہے۔ادھر بلوچستان کی مخدوش صورتحال پر بھی عدالت عظمٰی نے حکومتی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ صوبے کی صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔ جب کہ مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر اور سینئرصوبائی وزیر سردار ثناء اﷲ زہری کے مطابق صوبائی حکومت امن وامان کے قیام میں ناکام ہو گئی تو شام جیسی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔

امر واقعہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے سدباب کی ٹھوس اور مربوط حکمت عملی اور موثر میکانزم کے فقدان کے باعث اربن اور سنگلاخ کوہستانی ایریا ز میں بیشتر سویلین آپریشنز ناکامی سے دوچار ہوتے رہے، جس کے بعد دہشت گردوں اور بعض انتہا پسند کالعدم تنظیموں نے اسے اپنی فتح سمجھا۔ مگر سوات اور جنوبی و شمالی وزیرستان میں فوج نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور ان کے کمانڈرز کے خلاف موثر کارروائی کی اس سے کافی امن قائم ہوا ، پھر کیا وجہ ہے کہ پولیس ،رینجرز، لیویز اور ایف سی کو دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں کامیابی نہیں مل رہی۔ یہ سوچنے اور اپنا احتساب کرنے کا لمحہ ہے۔ لاقانونیت اور قتل وغارت نے ناسور کی شکل اختیار کرلی ہے، روز ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے، پشاور موٹروے انٹر چینج کے قریب مسافر بس کے نچھلے حصہ سے ڈرائیور کمال ہوشیاری سے مقناطیسی بم نہ ہٹواتا تو نہ جانے کتنی لرزہ خیز ہلاکتیں ہوتیں ۔ گن کلچر نے کراچی کے معاشی حب کو مقتل بنادیا ہے۔

گینگ وار وار لارڈ غفار ذکری پھر سے نمودار ہوگئے، گزشتہ شب ایک نجی چینل نے ان کا انٹرویو پیش کیا۔ بنوں میں ایک قبائلی ملک کو ریموٹ کنٹرول بم سے حملہ کرکے شدید زخمی کردیا گیا۔لیاری میں امن قائم کرنے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے لیاری کی کچھی اور بلوچ آبادیوں کے درمیان دیوار بنانے کے مضحکہ خیز اورنفرت انگیز فیصلے کی سیاسی حلقوں نے سخت مذمت کی ہے۔ علاقہ میں حقیقی امن قائم ہونا چاہیے تاہم اگر یہ اطلاع درست ہے کہ حکومت قومی سطح پرانسداد دہشتگردی ٹاسک فورس بنانے کے لیے امریکی فورس اسپیشل ویپنزاینڈ ٹیکٹس (سواٹ) کا بطورماڈل جائزہ لے رہی ہے تو اس پر عملدرآمد شروع کردے۔ کچھ تو کرے۔ جب ڈیرہ غازی خان کے ریجنل پولیس آفیسر کی قیادت میں چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کامیاب ہوسکتا ہے تو لیاری سمیت ملک بھر سے دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ بھی ناممکن نہیں۔ صرف سیاسی ارادہ ، جرات اور تدبر کی ضرورت ہے۔
Load Next Story