فضائل رمضان انسانیت کا سوال

رمضان میں ماحول کچھ اس تیز رفتاری اور کمائی کا بن جاتا ہے کہ اب آگے کیا کہیے۔

رمضان کا مبارک کے مہینے میں پروردگار کی جانب سے اتنی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں کہ جس کا ہمیں اندازہ بھی نہیں اس لیے کہ اس کے پاس نعمتوں کی کمی نہیں وہ چاہے تو بے تحاشا دے اتنا کہ ہم اسے بہاتے بہاتے بھی تھک جائیں لیکن اس نے اپنے بندوں کو اس دنیا میں کچھ اصول و ضوابط کے تحت بھیجا ہے کہ ہم انسان ایسے زندگی گزاریں کہ ہم میں اور جانوروں میں واضح تمیز ہو، ہمارے اطوار زندگی اس طرح ترتیب سے ہوں کہ جن سے ڈسپلن جھلکتا نظر آئے۔۔۔ اور اگر ہم میں ڈسپلن نہیں تو ذرا تصور کریں انسان اور جانور میں قربت کتنی ہے۔

زر، زمین اور بہت کچھ کی دعائیں مانگتے مانگتے ہمارے حلق خشک ہو جاتے ہیں کبھی غور کریں، وسیع القلبی، رحم دلی، ایمان داری، انصاف، مساوات شکرگزاری، احسان مندی، محبت، سخاوت، حقوق العباد کتنا کچھ ہے مانگنے کے لیے لیکن ہم ان اوصاف کی جانب دیکھتے تک نہیں اور اپنے اپنے ضمیر کے مطابق مانگتے چلے جاتے ہیں اس مبارک مہینے کی فضیلتوں میں ہمیں بہت دھیان رہتا ہے کہ روزے سے بہت پہلے دفتر سے گھر نکل جائیں، تیز رفتاری سے اسکوٹریں اور گاڑیاں اڑاتی چلے جاتے ہیں روزے سے ذرا کچھ قبل ہونے والے حادثات کی تعداد پر غور فرمائیے روزہ کی جلدی ہوتی ہے یا شیطان کی شرارت اور شیطان تو اس مہینے قید کر دیا جاتا ہے پھر یہ کس کی شیطانی ہوتی ہے، رمضان کا غالباً پہلا روزہ تھا کسی کام سے گھر سے نکلنا پڑا ابھی تو روزے کا پہلا پہر ہی چل رہا تھا اور سڑک پر آنے جانے والوں کی تیز رفتاری کا یہ حال تھا کہ جیسے سڑک پر ہوائی جہاز اڑا رہے ہیں بلا ضرورت اوور ٹیکنگ، تیز رفتار ڈرائیونگ کی جا رہی تھی۔

رمضان میں ماحول کچھ اس تیز رفتاری اور کمائی کا بن جاتا ہے کہ اب آگے کیا کہیے۔ بدھ کے روزے کی امید تھی پر اوپر والے کی مرضی لیکن اس روز بازار کے بھاؤ ایسے تھے کہ جیسے اس رمضان کے بعد پھر دکانداروں کو خاص کر پھل فروشوں کو بکری کا موقع نہیں ملے گا آم کی قیمت پوچھی آگے سے جو جواب ملا خاصا تندرست تھا ذرا اعتراض کیا تو پھر سننے کو ملا کہ اب عید کے بعد ہی آم کھایئے گا۔۔۔ دس کی چیز بیس میں فروخت ہو رہی تھی کیا یہی رمضان کی شان ہے جو ایک عام انسان کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے۔۔۔ رمضان سے پہلے ہی رشوت ستانی کا زور کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتا ہے سب یہی کہتے نظر آتے ہیں رمضان آ رہے ہیں ناں۔۔۔کیا یہ مہینے مغرب کے وقت مزے مزے کی چیزوں سے پیٹ بھرنے کا ہے۔۔۔۔ اپنے دستر خوان بھرنے کی خاطر کیسے کیسے پاپڑ بیلتے ہیں اور پھر جب مسجد سے اذان کی آواز ابھرتی ہے تو خوب کھا پی کر سر پر ٹوپی لگا کر بڑے زعم سے نکلتے ہیں کہ جیسے ساری رحمتیں لوٹ کر لے آئیں گے۔

ہمارے یہاں رمضان کا تصور بہت غلط انداز سے لیا جاتا ہے جو کچھ بڑے کرتے آئے اب اپنی نئی نسل میں بھی اس کو منتقل کیا جا رہا ہے۔رمضان شروع ہوئے تو موبائل فونز پر پیغامات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہر دوسرے پیغام میں اصرار ہوتا ہے کہ اسے ضرور آگے بڑھائیے مہنگائی کے اس دور میں فون رکھنا ہی محال ہو گیا ہے اوپر سے ان اصرار کی تکرار جس میں خدا رسول کا واسطہ دیا جاتا ہے یہی نہیں دوزخ کے عذاب سے بھی خوب ڈرایا جاتا ہے کہ اگر آگے نہ شیئر کیا تو۔۔۔۔ہائے یہ سادگی میرا رب تو ان سب باتوں سے بے نیاز ہے۔ بس یہی بھول جاتے ہیں ہم۔۔۔۔ایک اور دلچسپ بات عبادات میں اب نئے جدید دور میں جو حساب کتاب چلا ہے کہ ہر دعا کی آپ باآسانی جانچ کر سکتے ہیں کہ آپ کو اسے پڑھنے کے بعد کتنا ثواب مل سکتا ہے۔


پچاس بار، سو گنا، دو سو گنا اور اسی طرح تعداد بڑھتی رہتی ہے یوں ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ ایک سال کی عبادات سے حاصل ہونے والی عبادات کا ثواب با آسانی گن سکتے ہیں مثلاً ایک لاکھ چھپن ہزار یا دس ہزار کچھ سو یا دس لاکھ دو یہ تعداد تو کچھ بھی ہو سکتی ہے ہم اتنے حسابی ہو چکے ہیں کہ اب ثواب کو بھی کاؤنٹ کرتے ہیں اور گناہ۔۔۔۔ہر درود کی تسبیح پڑھنے کے بعد خود بھی مطمئن ہو سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے خوابوں کے اکاؤنٹ میں خاص رقم جمع کرا لی لیکن شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے رب کو ہماری ایسی عبادات کی قطعاً ضرورت نہیں بلکہ ہمیں اس کی توجہ، چاہت، محبت، سخاوت اور نعمتوں کی ضرورت ہے وہ تو دینے والا ہے اور ہم لینے والے ہیں پھر اس کے اتنا کچھ دینے کے بعد ان چند ہزاروں اور لاکھوں گنا میں اسے لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں یہ کیسا احمقانہ حساب کتاب ہے تب ہی رب العزت نے فرمایا ہے کہ ''بے شک انسان خسارے میں ہے'' لیکن ہم غور ہی نہیں کرتے کہ اگر ہم اپنے تئیں اپنی نیکیوں کے انبار بھی لگا دیں تو وہ یہ سب ٹھکرا سکتا ہے صرف ہمارے ایک برے عمل کے نتیجے میں اور یہ بھی کہ وہ ہمارے ایک اچھے عمل سے خوش ہو کر ہمیں جنت عطا کر دے اس کے دربار میں یہ حساب کتاب نہیں چلتا کہ اتنا لو اور اتنا دو وہ تو سخی ہے پر ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس نے جن اصولوں اور ضوابط کو ہم پر مسلمان ہونے کے ناطے لاگو کیا ہے ان پر عمل پیرا ہوں۔

ابھی چند روز پہلے کی بات ہے اس بڑی شاہراہ پر سب تیز رفتاری سے رواں دواں تھے اور ایک فقیر سڑک پر زخمی پڑا تھا سب ادھر ادھر سے اپنی گاڑیاں بچاتے گزر رہے تھے ایک آدھ نے ذرا رک کر بھی دیکھا لیکن اپنی گاڑی روک کر اسے اٹھانے کی زحمت نہ کی، نہ ہی کسی نے ایمبولینس سروس سے مدد طلب کی کیا کوئی مسلمان رمضان کی فضیلتوں سے مستفید ہونے کی خاطر ہی اس زخمی بابا کی مدد کر دیتا تو کسی کا بھلا ہو جاتا، لیکن تیز رفتاری، دوڑ، عجلت، بے فکری، بے رحمی، کٹھور پن اس رمضان کی برکتوں کا ذرا بھی تو اثر نہ ہوا تھا۔ سب اپنے اپنے گھر اسی روزے کی دوڑ میں بھاگ رہے تھے پھر اس کی فضیلتوں سے مستفید ہونے کا ذرا بھی نہ سوچا وہ زخمی فقیر تو کسی نیک دل کی مدد سے اسپتال پہنچ ہی گیا لیکن ان پیٹ کے بھوکوں کے لیے ایک سوال چھوڑ گیا۔۔۔۔ کیا یہی انسانیت ہے؟

ابھی رحمتوں کا پہر جاری ہے اس کے بعد بھی پورا مہینہ اسی طرح فیض پہنچاتا رہے گا لیکن مہینے کے آخری درجے میں جب فضیلتیں پوری عروج پر ہوتی ہیں تو ہمارے ہاں عید کی تیاریوں کا جوش و خروش ایسے ابلتا ہے کہ جیسے پھر دوبارہ انجوائے کرنے کا موقع نہ ملے گا۔ مادیت پرستی کے جس دور میں ہم داخل ہو چکے ہیں اس میں اللہ سے محبت کے ذکر اور حضرت محمد مصطفیؐ نے عقیدت کو اس ربن کی طرح سمجھا جاتا ہے جسے قینچی سے کاٹ کر معزز مہمان کسی تقریب یا کسی بڑی چیز کا اختتام کرتا ہے کہ جناب یہ تو ضروری ہے کہ اللہ محمد کا نام لے کر شروع کیا جائے برکت رہتی ہے لیکن جن برکتوں سے ہم محروم رہ جاتے ہیں، ہمیں خیال ہی نہیں رہتا ہم سوچنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے کہ یہ تو ہماری آتی جاتی سانسوں سے بھی اہم اور ہماری ضرورت ہے۔

آج ہماری قوم ایمانداری، مساوات، انصاف، حقوق العباد، رحم دلی، شکر گزاری جیسے خوبصورت اور اہم اوصاف سے محروم ہوتی جا رہی ہے، ہم غربت، کرپشن اور مہنگائی کے پاتال میں دھنستے ہی جا رہے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اس مبارک مہینے سے ہی اپنی دعاؤں میں اپنے گھر، بڑی سی گاڑی، اچھی سی نوکری، بڑا کاروبار کے ساتھ ان اوصاف کو بھی شریک کر لیں اور وہ تو بڑا غفور الرحیم ہے ایسے دیتا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا اور جیسے گود میں آ کر گرتا ہے پھر دیکھئے تو سہی ہم کیسے ایک مہذب امیر اور طاقتور قوم بن کر ابھرتے ہیں۔۔۔۔آزمائش شرط ہے۔
Load Next Story