بچوں کا ادبی جشن
ہمارے بچے اپنی زبان پڑھنے‘ سیکھنے اور بعض صورتوں میں بولنے سے بھی دور ہو گئے ہیں۔
میں توڑ توڑ کے خود کو بناتا رہتا ہوں
اب ایک عمر ہوئی پھر بھی بچپنا نہ گیا
کھلنڈرا سا کوئی بچہ ہے دریا
سمندر تک اچھلتا جا رہا ہے
زندگی اک دکاں کھلونوں کی
وقت بگڑا ہوا سا بچہ ہے
اس طرح کے بہت سے اشعار ذوق شعر رکھنے والوں کی نظروں سے یقیناً گزرے ہوں گے اس کے ساتھ ساتھ بچوں سے محبت کے حوالے سے بہت سی روح کو چھونے والی باتیں بھی مختلف حوالوں سے کانوں میں پڑتی رہتی ہیں مگر ایک معاشرے اور قوم کے حوالے سے (جذباتی خطابت اور مظاہر کو چھوڑ کر) بچوں کے سلسلے میں جس عمومی غیر ذمے داری کا مظاہرہ ہم لوگ کرتے ہیں وہ بھی اپنی جگہ پر کسی مثال سے کم نہیں۔ درسی تعلیم سے متعلق مسائل اپنی جگہ مگر جہاں تک صحت' اخلاقیات' جمالیات اور معاشرتی آداب کے حوالے سے تربیت کا تعلق ہے۔
اس میں ہم تیسری دنیا کے لوگ کم و بیش ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ ایسے میں بچوں کے لیے ادبی جشن کا انعقاد یقیناً ایک خوشگوار حیرت کی حامل خبر ہے کہ اس میں بچوں کی ادبی صلاحیتوں کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ مختلف طرح کی دلچسپ اور تعمیری تفریحات کا انتظام بھی کیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پورے پروگرام میں ہر ہر سطح پر ''تربیت'' کے پہلو کو اہمیت اور فوقیت دی گئی ہے۔
انگلش میڈیم کو پرائمری سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے سے جو نقصانات ہمارے نظام تعلیم میں راہ پا رہے ہیں ان میں سے میرے نزدیک سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہمارے بچے اپنی زبان پڑھنے' سیکھنے اور بعض صورتوں میں بولنے سے بھی دور ہو گئے ہیں اور یوں وہ سارا تہذیبی خزانہ اور ماحول ان کے لیے ایک کہانی بن کر رہ گیا ہے جس کے وہ خود بھی ایک حوالے سے کردار ہیں۔ سو اپنے آپ اور اپنی تاریخ و تہذیب سے یہ بے خبری ان کو ایک ایسی دنیا میں لے گئی ہے جہاں کے آداب اگر کوئی ہیں بھی تو وہ ان کے خمیر کا حصہ نہیں ہیں۔
اس طرح کے میلے اور تقریبات اپنے پھیلاؤ اور دورانیے کی کمی کے باوجود بچوں سے زیادہ بڑوں کو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے تھا اور وہ کیا نہیں کر رہے۔ یوں تو تقریباً ہر لٹریری فیسٹیول میں بچوں کے ادب کو شامل کیا جاتا ہے مگر خاص طور پر بچوں کی ذہنی تربیت کے لیے بہت کم مواقعے پیدا کیے جاتے ہیں۔ بیلا رضا جمیل اور ان کے ساتھیوں کا ہدف صرف اور صرف بچے' ان کی تربیت' تفریح اور ادب ہے سو میں ان کی ترتیب یافتہ تقریبات میں شمولیت کو اپنی بیشتر مصروفیات پر ترجیح دیتا ہوں کہ یہ لوگ نئی اور پرانی نسل اور سابقہ اور موجودہ نظام ہائے تعلیم کے درمیان ایک پل بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں جو میرے نزدیک وقت اور اس مسئلے کے حل کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔
اتفاق سے اس بار کا یہ ادبی میلہ چلڈرن لائبریری کمپلیکس لاہور میں سجایا گیا (واضح رہے کہ اس سلسلے کا پہلا میلہ جو 2011ء میں ہوا اس کا وینیو بھی یہی ادارہ تھا) اس ادارے اور اس کی عمارت کے ساتھ میرا ایک ذاتی اور جذباتی تعلق یوں بھی بنتا ہے کہ میں 2000ء سے 2004ء تک اس ادارے کا پراجیکٹ ڈائریکٹر رہ چکا ہوں۔ اس زمانے کے بہت سے لوگ اب کسی نہ کسی وجہ سے وہاں نہیں ہیں مگر جو اب تک ہیں ان سے مل کر بہت اچھا لگا، اکثر کی شکلیں اور حلیے بہت بدل چکے ہیں اور کچھ کے نام بھی ذہن سے اتر گئے ہیں مگر ان کی محبت کے اظہار اور چہروں پر بکھری خوشی کو دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ انسانی رشتوں میں یہ باہمی محبت اور خوشگوار یادیں ہی سب سے زیادہ معنی رکھتی ہیں۔
اس دوران میں وہاں خصوصی بچوں کے لیے بنایا گیا وہ حصہ بھی مکمل اور فنکشنل ہو چکا ہے جس کا سنگ بنیاد میری موجودگی میں رکھا گیا تھا۔ اگرچہ فی الوقت بیلا جمیل اینڈ کمپنی نے ہر طرف بینر' پوسٹر اور اسٹالز وغیرہ لگا رکھے تھے جس کی وجہ سے عمارت کا حلیہ خاصا بدلا بدلا نظر آ رہا تھا مگر یہ جان اور دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس میں نہ صرف کئی نئے شعبوں کا اضافہ کیا گیا ہے بلکہ عمومی طور پر اسے زیادہ سے زیادہ بچوں کے لیے قابل استعمال بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
جہاں تک اس بچوں کے ادبی جشن کا تعلق ہے' اس کے ضمن میں بہت سے پروگرام عمارت کے اندر اور باہر بیک وقت چل رہے تھے۔ سردی اور بارش کے متوقع خطرات کے باوجود بہت بڑی تعداد میں بچے نہ صرف وہاں موجود تھے بلکہ مختلف اسکولوں کی بسیں اس میں مسلسل اضافہ بھی کرتی چلی جا رہی تھیں۔
پروگرام کی انچارج بیلا رضا جمیل اور چلڈرن کمپلیکس کی ڈائریکٹر ڈاکٹر عائشہ نے افتتاحی اجلاس میں اور باتوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادب کہانی نویسی اور لکھنے کی تربیت کے حوالے سے ترتیب دیے گئے مختلف پروگراموں کی تفصیل بتائی جو بہت دلچسپ اور خیال افروز تھی جب کہ میں نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم اور توجہ طلب بات بچوں کی اردو اور اپنی مادری زبانوں کے رسم الخط سے آگاہی اور ان میں لکھنے کی مشق ہے اور یہ کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے بجائے صرف ایک زبان کے طور پر پڑھایا جائے تاکہ بچوں کا ذہن مختلف اشیا اور تصورات کا براہ راست ادراک کر سکے اور یہ کہ ان کو سوال کرنے اور اپنے دماغ سے سوچنے کی تربیت دی جائے جس کا بہترین اور موثر ترین طریقہ وہی زبان ہو سکتی ہے جس کا تعلق ہماری اپنی تاریخ' جغرافیے' تہذیب اور معاشرت سے ہو اور یہ کہ وہ علم' زبان اور کتاب سے محبت کرنا سیکھ سکیں۔ سینئر اور محترم شاعرہ زہرہ نگاہ نے اس CLF یعنی چلڈرن لٹریری فیسٹیول کے لیے خصوصی طور پر ایک ترانہ لکھا ہے جو بچوں کی ادب سے محبت کا بھرپور اور مکمل ترجمان ہے اس کا کچھ حصہ اس طرح سے ہے کہ
ہمیں کتاب چاہیے' ہمیں کتاب چاہیے
جو زندگی بدل دے ہم کو وہ نصاب چاہیے
ہمارے ذہن و فکر کو جو علم کا دیا ملے
تو اس کی روشنی میں ہم کو ایک راستہ ملے
وہ راستہ کہ جس پہ چل کے ملک جگمگا اٹھے
جو زندگی بدل دے ہم کو وہ نصاب چاہیے
جہاں کو امن و آشتی کے گیت ہم سنائیں گے
محبتوں کے' پیار کے' دیے سدا جلائیں گے
جو نیند سے جگائے ہم کو ایسا خواب چاہیے
جو زندگی بدل دے ہم کو وہ نصاب چاہیے
ہمیں کتاب چاہیے'ہمیں کتاب چاہیے
اب ایک عمر ہوئی پھر بھی بچپنا نہ گیا
کھلنڈرا سا کوئی بچہ ہے دریا
سمندر تک اچھلتا جا رہا ہے
زندگی اک دکاں کھلونوں کی
وقت بگڑا ہوا سا بچہ ہے
اس طرح کے بہت سے اشعار ذوق شعر رکھنے والوں کی نظروں سے یقیناً گزرے ہوں گے اس کے ساتھ ساتھ بچوں سے محبت کے حوالے سے بہت سی روح کو چھونے والی باتیں بھی مختلف حوالوں سے کانوں میں پڑتی رہتی ہیں مگر ایک معاشرے اور قوم کے حوالے سے (جذباتی خطابت اور مظاہر کو چھوڑ کر) بچوں کے سلسلے میں جس عمومی غیر ذمے داری کا مظاہرہ ہم لوگ کرتے ہیں وہ بھی اپنی جگہ پر کسی مثال سے کم نہیں۔ درسی تعلیم سے متعلق مسائل اپنی جگہ مگر جہاں تک صحت' اخلاقیات' جمالیات اور معاشرتی آداب کے حوالے سے تربیت کا تعلق ہے۔
اس میں ہم تیسری دنیا کے لوگ کم و بیش ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ ایسے میں بچوں کے لیے ادبی جشن کا انعقاد یقیناً ایک خوشگوار حیرت کی حامل خبر ہے کہ اس میں بچوں کی ادبی صلاحیتوں کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ مختلف طرح کی دلچسپ اور تعمیری تفریحات کا انتظام بھی کیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پورے پروگرام میں ہر ہر سطح پر ''تربیت'' کے پہلو کو اہمیت اور فوقیت دی گئی ہے۔
انگلش میڈیم کو پرائمری سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے سے جو نقصانات ہمارے نظام تعلیم میں راہ پا رہے ہیں ان میں سے میرے نزدیک سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہمارے بچے اپنی زبان پڑھنے' سیکھنے اور بعض صورتوں میں بولنے سے بھی دور ہو گئے ہیں اور یوں وہ سارا تہذیبی خزانہ اور ماحول ان کے لیے ایک کہانی بن کر رہ گیا ہے جس کے وہ خود بھی ایک حوالے سے کردار ہیں۔ سو اپنے آپ اور اپنی تاریخ و تہذیب سے یہ بے خبری ان کو ایک ایسی دنیا میں لے گئی ہے جہاں کے آداب اگر کوئی ہیں بھی تو وہ ان کے خمیر کا حصہ نہیں ہیں۔
اس طرح کے میلے اور تقریبات اپنے پھیلاؤ اور دورانیے کی کمی کے باوجود بچوں سے زیادہ بڑوں کو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے تھا اور وہ کیا نہیں کر رہے۔ یوں تو تقریباً ہر لٹریری فیسٹیول میں بچوں کے ادب کو شامل کیا جاتا ہے مگر خاص طور پر بچوں کی ذہنی تربیت کے لیے بہت کم مواقعے پیدا کیے جاتے ہیں۔ بیلا رضا جمیل اور ان کے ساتھیوں کا ہدف صرف اور صرف بچے' ان کی تربیت' تفریح اور ادب ہے سو میں ان کی ترتیب یافتہ تقریبات میں شمولیت کو اپنی بیشتر مصروفیات پر ترجیح دیتا ہوں کہ یہ لوگ نئی اور پرانی نسل اور سابقہ اور موجودہ نظام ہائے تعلیم کے درمیان ایک پل بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں جو میرے نزدیک وقت اور اس مسئلے کے حل کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔
اتفاق سے اس بار کا یہ ادبی میلہ چلڈرن لائبریری کمپلیکس لاہور میں سجایا گیا (واضح رہے کہ اس سلسلے کا پہلا میلہ جو 2011ء میں ہوا اس کا وینیو بھی یہی ادارہ تھا) اس ادارے اور اس کی عمارت کے ساتھ میرا ایک ذاتی اور جذباتی تعلق یوں بھی بنتا ہے کہ میں 2000ء سے 2004ء تک اس ادارے کا پراجیکٹ ڈائریکٹر رہ چکا ہوں۔ اس زمانے کے بہت سے لوگ اب کسی نہ کسی وجہ سے وہاں نہیں ہیں مگر جو اب تک ہیں ان سے مل کر بہت اچھا لگا، اکثر کی شکلیں اور حلیے بہت بدل چکے ہیں اور کچھ کے نام بھی ذہن سے اتر گئے ہیں مگر ان کی محبت کے اظہار اور چہروں پر بکھری خوشی کو دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ انسانی رشتوں میں یہ باہمی محبت اور خوشگوار یادیں ہی سب سے زیادہ معنی رکھتی ہیں۔
اس دوران میں وہاں خصوصی بچوں کے لیے بنایا گیا وہ حصہ بھی مکمل اور فنکشنل ہو چکا ہے جس کا سنگ بنیاد میری موجودگی میں رکھا گیا تھا۔ اگرچہ فی الوقت بیلا جمیل اینڈ کمپنی نے ہر طرف بینر' پوسٹر اور اسٹالز وغیرہ لگا رکھے تھے جس کی وجہ سے عمارت کا حلیہ خاصا بدلا بدلا نظر آ رہا تھا مگر یہ جان اور دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس میں نہ صرف کئی نئے شعبوں کا اضافہ کیا گیا ہے بلکہ عمومی طور پر اسے زیادہ سے زیادہ بچوں کے لیے قابل استعمال بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
جہاں تک اس بچوں کے ادبی جشن کا تعلق ہے' اس کے ضمن میں بہت سے پروگرام عمارت کے اندر اور باہر بیک وقت چل رہے تھے۔ سردی اور بارش کے متوقع خطرات کے باوجود بہت بڑی تعداد میں بچے نہ صرف وہاں موجود تھے بلکہ مختلف اسکولوں کی بسیں اس میں مسلسل اضافہ بھی کرتی چلی جا رہی تھیں۔
پروگرام کی انچارج بیلا رضا جمیل اور چلڈرن کمپلیکس کی ڈائریکٹر ڈاکٹر عائشہ نے افتتاحی اجلاس میں اور باتوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادب کہانی نویسی اور لکھنے کی تربیت کے حوالے سے ترتیب دیے گئے مختلف پروگراموں کی تفصیل بتائی جو بہت دلچسپ اور خیال افروز تھی جب کہ میں نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم اور توجہ طلب بات بچوں کی اردو اور اپنی مادری زبانوں کے رسم الخط سے آگاہی اور ان میں لکھنے کی مشق ہے اور یہ کہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے بجائے صرف ایک زبان کے طور پر پڑھایا جائے تاکہ بچوں کا ذہن مختلف اشیا اور تصورات کا براہ راست ادراک کر سکے اور یہ کہ ان کو سوال کرنے اور اپنے دماغ سے سوچنے کی تربیت دی جائے جس کا بہترین اور موثر ترین طریقہ وہی زبان ہو سکتی ہے جس کا تعلق ہماری اپنی تاریخ' جغرافیے' تہذیب اور معاشرت سے ہو اور یہ کہ وہ علم' زبان اور کتاب سے محبت کرنا سیکھ سکیں۔ سینئر اور محترم شاعرہ زہرہ نگاہ نے اس CLF یعنی چلڈرن لٹریری فیسٹیول کے لیے خصوصی طور پر ایک ترانہ لکھا ہے جو بچوں کی ادب سے محبت کا بھرپور اور مکمل ترجمان ہے اس کا کچھ حصہ اس طرح سے ہے کہ
ہمیں کتاب چاہیے' ہمیں کتاب چاہیے
جو زندگی بدل دے ہم کو وہ نصاب چاہیے
ہمارے ذہن و فکر کو جو علم کا دیا ملے
تو اس کی روشنی میں ہم کو ایک راستہ ملے
وہ راستہ کہ جس پہ چل کے ملک جگمگا اٹھے
جو زندگی بدل دے ہم کو وہ نصاب چاہیے
جہاں کو امن و آشتی کے گیت ہم سنائیں گے
محبتوں کے' پیار کے' دیے سدا جلائیں گے
جو نیند سے جگائے ہم کو ایسا خواب چاہیے
جو زندگی بدل دے ہم کو وہ نصاب چاہیے
ہمیں کتاب چاہیے'ہمیں کتاب چاہیے