تحریک انصاف اور ق لیگ میں اختلاف کی کہانی

اتحاد ٹوٹنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ کب اور کیسے کا سوال باقی ہے۔

msuherwardy@gmail.com

مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے درمیان اختلافات کی خبریں زبان زد عام ہیں۔مسلم لیگ (ق) کے بیانات واضح ہیں۔ اب اختیار چوہدری برادران کے پاس ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد چلانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ویسے یہ اختیار ہمیشہ سے ہی چوہدری برادران کے پاس ہی تھا۔ لیکن پھر بھی اب مسلم لیگ (ق) نے رسمی طور پر بھی یہ اختیار چوہدری برادران کو دے دیا ہے۔

سیدھا سوال تو یہی ہے کہ کیا چوہدری برادران یہ اتحاد توڑ دیں گے۔ میری رائے میں اس کی بنیاد پڑ گئی ہے۔ اتحاد ٹوٹنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ کب اور کیسے کا سوال باقی ہے۔

چوہدری برادران کوئی نا تجربہ کار سیاستدان نہیں ہیں۔ سیاست ان کے گھر سے شروع ہوتی ہے اور ان کے گھر پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ انھیں اتحاد بنانے اور توڑنے کا عمل بخوبی آتا ہے۔ وہ نہ کوئی جذباتی سیاست کرتے ہیں اور نہ ہی سیاست میں جذباتی فیصلہ کرنے کے عادی ہیں۔ سوچ سمجھ کر کھیلنا ہی ان کی پہچان ہے۔ وہ مشکل حالات میں بھی تحمل اور برداشت کا دامن نہیں چھوڑتے اور اچھے حا لات میں ان کے مزاج کی نرمی بڑھ جاتی ہے۔ غصہ کی ان کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے اندر سیاست نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ وہاں اتحاد چلانے کا کسی کو کئی تجربہ نہیں ہے۔بدتمیزی عروج پر ہے جس میں سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کی عزت بھی محفوظ نہیں ہے۔ہوش کا کوئی ذکر نہیں بلکہ ہر معاملہ جوش سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جذباتیت اور غصہ کا دور ہے۔ تحمل اور برداشت کا کوئی نام و نشان نہیں۔ ہر کسی کو نشانہ بنانے کا رواج عام ہے۔

ایسے میں یہ اتحاد کیسے چل سکتا تھا۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ اتحاد پہلے دن سے چوہدری برادران کے لیے گھاٹے کا سودا تھا۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی بننا چوہدری پرویز الہیٰ کے شایان شان نہیں تھا۔ وہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے لیے بہترین امیدوار تھے۔ ق لیگ کی عددی حیثیت کا بھی یہی تقاضہ تھا کہ ق لیگ وزارت اعلیٰ سے کم پر نہ مانتی۔ لیکن بہت سی ان کہی مجبوریوں نے چوہدری برادران کو اسپیکر کا عہدہ قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ ایک کڑوی گولی تھی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک انصاف چوہدری پرویز الٰہی کی اس قربانی پر ان کی شکر گزار ہوتی لیکن ناتجربہ کاروں کی یہ ٹیم یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ چوہدریوں کو بہت زیادہ اکاموڈیٹ کر دیا گیا ہے۔ چوہدری پرویز الہی کا شکر گزار ہونے کے بجائے انھیں نظر اندار کرنے کی حکمت عملی شروع کر دی گئی ۔ یہ تو چوہدریوں کی شرافت ہے کہ اب تک حکومت قائم ہے ورنہ حکومت گرانے کا فن چوہدری بخوبی جانتے ہیں۔

میرے خیال میں پنجاب میں سینیٹ کے انتخابات میں بھی تحریک انصاف نے چوہدریوں کو نظر انداز کیا ہے۔ چوہدری شجاعت کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا جانا چاہیے تھا۔ ان کی سینیٹ میں موجودگی حکومت کے لیے بہت فائدہ مند ہو سکتی تھی۔ وہ سینیٹ کا ماحول بہت بہتر کر سکتے ہیں۔ وہ ہر ایک کے لیے قابل احترام ہے۔ اور سینیٹ میں ایسی کوئی شخصیت نہیں جو سینیٹ میں حکومت کی کمزور پوزیشن کو سنبھال سکے۔ لیکن شاید تحریک انصاف کے اندر نہ تو سیاسی سوچ ہے اور نہ ہی سیاسی سمجھ بوجھ۔


اب سوال یہ ہے کہ ق لیگ کو کیا تحفظات ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ق لیگ کو اندازہ ہو گیا ہے کہ شرافت اور رواداری سے تحریک انصاف کو بات سمجھ نہیں آسکتی۔ اس وقت قومی اسمبلی اور پنجاب کا منظر نامہ ایسا ہے کہ اگر ق لیگ آج حکومتی اتحاد سے الگ ہو جائے تو مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ یہ دونوں حکومتیں ق لیگ کے ناتواں کندھوں کے ووٹوں پر کھڑی ہیں۔لیکن دیکھا جائے تو ق لیگ کو ہی حکومت میں سب سے کم حصہ ملا ہے۔ کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ جب مرکز میں سب اتحادیوں کو دو دو وزارتیں دی گئی ہیں تو ق لیگ کو تو دو وزارتیں نہیں دی گئی ہیں۔ اس امتیازی سلوک کی کیا وجہ ہے۔ ایم کیو ایم کے پاس بھی دو وزارتیں ہیں۔ لیکن ق لیگ کے پاس ایک وزارت ہے۔

پنجاب کا منظر نامہ تو سارا ق لیگ پر ہی مرکوز ہے۔ مرکز میں تو دوسری جماعتیں بھی تحریک انصاف کی اتحادی ہیں لیکن پنجاب میں تو ق لیگ تحریک انصاف کی واحد اتحادی ہے۔ اور پنجاب حکومت کا سارا دارومدار ہی ق لیگ پر ہے۔ آج ق لیگ منہ موڑ لے تو تحریک انصاف کی پنجاب حکومت ختم۔ ایسے میں وزارت اعلیٰ ق لیگ کا حق بنتا تھا۔ لیکن نہ دی گئی۔ اس کے بعد آدھی وزارتیں ق لیگ کا حق تھا۔ ان کے بغیر یہ حکومت بن ہی نہیں سکتی تھی۔ بلکہ وعدے کے مطابق دو وزارتیں بھی نہ دی گئیں۔

تحریک انصاف کے ذمے داران سے جب ق لیگ سے اختلاف کے بارے میں پوچھا تو آف دی ریکارڈ بتاتے ہیں کہ دو وزارتیں مانگ رہے ہیں۔ جب ہم پوچھتے ہیں کہ کیا حصے سے زیادہ مانگ رہے ہیں تو وہ کہتے ہیں نہیں وعدہ کیا تھا لیکن حکمت عملی یہی ہے کہ ذرا ترسا ترسا کر دی جائیں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیا حکمت عملی ہے۔ یہ کوئی حکمت عملی نہیں بلکہ سیاسی خود کشی ہے۔ اس کو اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مارنا کہتے ہیں۔

ق لیگ کو یہ بھی گلہ ہے کہ ان کے ارکان اسمبلی کے انتخابی حلقوں میں بے جا مداخلت کی جا رہی ہے۔ ذرایع کے مطابق تحریک انصاف ایک حکمت عملی کے تحت ق لیگ کے ارکان اسمبلی کے انتخابی حلقوں میں اپنے لوگوں کو مضبوط کر رہی ہے تاکہ اگلے انتخابات میں ق لیگ سے یہ حلقے بھی چھینے جا سکیں۔ یہ کیسا اتحاد ہے جس میں ایک بڑا اتحادی اپنے دوسرے چھوٹے اتحادی کا گلا دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔اس کو جان سے مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں اگر ق لیگ کو اپنے حلقے بچانے ہیں تو تحریک انصاف سے جان چھڑانی ہوگی ۔

اس وقت ملک کا سیاسی منظر نامہ بدل رہا ہے۔ مینگل اپوزیشن کی طرف جا چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کے انداز بھی بدل رہے ہیں۔ ایسے میں ق لیگ کے ہاتھ میں ساری گیم ہے۔ آج ق لیگ یہ اعلان کر دے کہ وہ بھی جا رہی ہے۔ تو گیم ختم۔ لیکن مجال ہے تحریک انصاف کو اس کا احساس بھی ہو۔ وہ کہتے ہیں نا جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ آج بھی یہی صورتحال ہے۔

چوہدری پرویز الہی کل بھی اس پوزیشن میں تھے کہ وہ اپوزیشن کی مدد سے وزیر اعلیٰ بن سکتے تھے۔ ن لیگ انھیںگھر آکر وزارت اعلیٰ دینے کے لیے تیار تھی۔ وہ زرداری کو قابل قبول ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ دیر چوہدری پرویز الہی کی طرف سے ہی ہے۔ تحریک انصاف کے ناعاقبت اندیش پنجاب میں بزدار کو تبدیل کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ انھیں یہ اندازہ نہیں اب پنجاب میں وزارت اعلیٰ تبدیل ہوئی تو چوہدری پرویز الہی ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہونگے۔ ایسا بھی منظر نامہ بن سکتا ہے کہ چوہدری پرویز الہیٰ پنجاب کے متفقہ وزیر اعلیٰ بن جائیں ۔ پرویز الہیٰ کے وزیر اعلیٰ بننے سے پنجاب کا سیاسی درجہ حرارت کنٹرول میں آجائے گا۔ کسی بھی قومی حکومت کے اسکرپٹ میں بھی پنجاب اور مرکز میں ق لیگ کی کلیدی حیثیت ہو گی۔

ن لیگ اور ق لیگ کے درمیان برف پگھل چکی ہے۔ گلے شکوے دور ہو گئے ہیں۔ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہ کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ باہمی احترام کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ سیاست پر نظر رکھنے والے اس فرق کو سمجھ رہے ہیں۔ انھیں خواجہ سلمان رفیق کے پروڈکشن آرڈر پر ن لیگ کی خوشیاں بھی نظر آرہی ہیں۔ ن لیگ کے ساتھ مل کر چوہدری نثار علی خان کا راستہ بھی روکا جا رہاہے۔ یہ صرف چوہدری نثار علی خان کا راستہ نہیں روکا گیا بلکہ چوہدری پرویز الہی کے لیے راستہ صاف کیا گیا ہے۔
Load Next Story