نیا سورج کب طلوع ہو گا
ہر وزیر اپنے مسائل میں اتنا الجھا ہوا ہے کہ مل کر قومی ویژن کو ترتیب دینے کی ذمے داری کوئی اٹھانے کو تیار ہی نہیں ہے۔
پاکستان میں تیز رفتار مگر خوشگوار تبدیلی کی راہ دیکھنے والوں کی آنکھیں یقیناً ابھی سے تھک گئی ہوں گی۔ حالیہ انتخابات کے بعد امید کا جو ننھا پودا نظر کو تروتازگی بخش رہا تھا، اب جمود کی دھوپ میں پیلا پڑ تا ہوا نظر آ رہا ہے۔ قصور پودے کا نہیں اس ماحول کا ہے جس میں اُس کو نہ تو صحیح خوراک میسر ہے اور نہ ہی د یکھ بھال کرنے والے کوئی خاص چست واقع ہوئے ہیں۔
لہذا روزمرہ کے وہ مسائل جو عوام کو رزق اور تحفظ کے اطمینان سے محروم کرتے ہیں ایک قومی حزن یا بڑھتی ہوئی پژمردگی میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ اِس تصور کے سوا کچھ بھی نہیں تبد یل ہوا۔ نواز شریف کی حکومت نے اسے زائل کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر کاوش نہیں کی۔ چین کا دورہ، توانائی کے بحران کے حل کے اقدامات یا آئی ایس آئی کے دفتر آمد (ویسے اگر وزارت خارجہ بھی چلے جاتے تو کوئی حرج کی با ت نہیں تھی)۔ یہ سب تحریک اور توانا ئی کا استعمال کبھی رنگ لائے گا۔ مگر یہ سب کچھ مل کر بھی قوم کی امید پر پڑتی ہوئی اوس کو نہیں روک سکتا۔
میاں محمد نواز شریف نے قوم سے خطاب میں بہت تاخیر کر دی ہے۔ شاید وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ کیمر ے کے سا منے وہ کچھ ایسا مواد لے کر بیٹھیں جس سے سننے اور دیکھنے وا لوں کی فوری تسلی ہو جا ئے۔ مشکل یہ ہے کہ ایسا مواد پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ لہذا وہ جب بھی تقریر فرمائیں گے اُس میں جھو ل، کمی اور بہت سے نکات ایسے ہوں گے جن پر ٹھونک بجا کر تنقید کی گنجائش نکلے گی۔ بہترین تقریر کرنے کے چکر میں میاں نواز شریف نے اِس موقع کو بھی کھو دیا ہے، جس کے استعمال سے اور کچھ نہیں تو ڈھارس بندھانے کا اہتمام کیا جا سکتا تھا۔
وزیر اعظم کی ٹیم کو اپنے قائد کے سامنے آنے والے ہفتوں یا مہینوں میں عوام کے زاویے سے آسانی پیدا کرنے والے اقدامات کا ایک منصوبہ رکھنا تھا۔ وہ ابھی تک تیار نہیں ہوا، ہر وزیر اپنے مسائل میں اتنا الجھا ہوا ہے کہ مل کر قومی ویژن کو ترتیب دینے کی ذمے داری کوئی اٹھانے کو تیار ہی نہیں ہے۔ لہذا یہ تصور روز بروز زور پکڑتا جا رہا ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہم کچھ بھی نہیں کر پا رہے۔ وہ وزراء جو آئے دن ٹیلی وژن پر بیٹھے دانش مندانہ گفتگو کرتے ہوئے سنائی دیتے تھے، اب ڈ ھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ یقیناً قوم کو اُن کا چہرہ نہیں دیکھنا لیکن اُن سے یہ ضرور سننا ہے کہ وہ کیا وظیفہ پڑھ رہے ہیں۔ نہ وزیر اعظم بول رہا ہے نہ وزراء۔ پاکستان میں ہونے والی بحث کا خانہ شکایتوں سے بھر رہا ہے۔ وضاحتیں موجود نہیں۔
مگر دوسری طرف اِس سال چند ایسے واقعات یقیناً ہوں گے جن سے نظام میں عمومی اصلاح اور بہتری کا پہلو یقیناً تقویت پائے گا۔ صدر آصف علی زرداری کی جگہ اگلے دو ماہ میں نیا صدر آ جائے گا۔ اگرچہ صدر زرداری کی دانش مندی کو اُن کے دوستو ں نے ارسطو کے افکار سے بھی بلند درجہ د ے رکھا ہے۔ مگر اُن کی موجودگی سے یہ ملک کچھ خاص مستفید نہیں ہو پایا۔ شاید ہم ہی بد قسمت ہیں کہ ایسی عظیم شخصیت کی ذہانت کو اپنے فائد ے کے لیے استعمال نہ کر پائے۔ پر کچھ ایسا ہی حال پیپلز پارٹی کا بھی ہوا جو اُن کے سیاسی فلسفے کی رہنمائی کے باوجود سیاسی پہاڑ سے رائی میں تبدیل ہو گئی۔
بہر حال اُن کے جانے کے بعد اگر ایک ایسا صدر منتخب ہو جائے جو ہماری دانائی کے ادنیٰ معیار پر پورا اترتا ہو اور عمومی طور پر اتفاق رائے سے ایوان صدر میں اپنی سیٹ سنبھالے تو اُس سے قومی معاملات اور سیاسی نظام میں وہ یکسوئی آ جائے گی جو ابھی تک موجود نہیں۔ اس سال پاکستان آرمی کی بھی کمان تبدیل ہو جائے گی۔
چیف آف آرمی اسٹاف اشفاق پرویز کیانی کی جگہ کوئی اور لے لے گا۔ اِس حوالے سے ذرایع ابلاغ میں دلچسپ اور نت نئے تجزیے بھی ہو رہے ہیں۔ ایسی خبریں چھپ رہی ہیں جن میں شامل معلومات انتہائی تجربہ کار صحافیوں کے لیے اکٹھا کرنا محال ہے۔ ظاہر ہے بہت سی بیرونی اور اندرونی لابیاں اپنے اپنے زاویے ذرایع ابلاغ کے ذریعے سامنے لا رہی ہیں۔ مگر ہونا وہی ہے جو طے پا چکا ہے (کس کا نا م حقیقی فہر ست میں اول ہے میں جانتے ہو ئے بھی نہیں لکھو ں گا ورنہ مجھ پر بھی لابنگ کا الزام لگ جائے گا)۔
تیسری بڑی تبدیلی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ اور سنیارٹی کے اصول کے تحت عدالت عظمیٰ میں اُن کے جانشین کی تعنیاتی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عدلیہ کے لیے بیش قیمت اور تاریخ ساز خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان کا نام عدالتی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ نئے چیف جسٹس کے لیے وہ ایک قا بل تقلید مگر مشکل ورثہ چھوڑ کر جائیں گے۔ مگر پھر ہر عہد ے کا ایک اختتا م متعین ہے۔ اہم ترین شخصیات بھی نظا م پر بھاری نہیں ہو سکتیں۔ نیا صدر، نیا آرمی چیف اور نیا چیف جسٹس مل کر تبدیلی کے اس کا م کو تیز ی سے آگے بڑھا سکتے ہیں جو اِس وقت سست روی کا شکار ہے۔
لہذا روزمرہ کے وہ مسائل جو عوام کو رزق اور تحفظ کے اطمینان سے محروم کرتے ہیں ایک قومی حزن یا بڑھتی ہوئی پژمردگی میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ اِس تصور کے سوا کچھ بھی نہیں تبد یل ہوا۔ نواز شریف کی حکومت نے اسے زائل کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر کاوش نہیں کی۔ چین کا دورہ، توانائی کے بحران کے حل کے اقدامات یا آئی ایس آئی کے دفتر آمد (ویسے اگر وزارت خارجہ بھی چلے جاتے تو کوئی حرج کی با ت نہیں تھی)۔ یہ سب تحریک اور توانا ئی کا استعمال کبھی رنگ لائے گا۔ مگر یہ سب کچھ مل کر بھی قوم کی امید پر پڑتی ہوئی اوس کو نہیں روک سکتا۔
میاں محمد نواز شریف نے قوم سے خطاب میں بہت تاخیر کر دی ہے۔ شاید وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ کیمر ے کے سا منے وہ کچھ ایسا مواد لے کر بیٹھیں جس سے سننے اور دیکھنے وا لوں کی فوری تسلی ہو جا ئے۔ مشکل یہ ہے کہ ایسا مواد پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ لہذا وہ جب بھی تقریر فرمائیں گے اُس میں جھو ل، کمی اور بہت سے نکات ایسے ہوں گے جن پر ٹھونک بجا کر تنقید کی گنجائش نکلے گی۔ بہترین تقریر کرنے کے چکر میں میاں نواز شریف نے اِس موقع کو بھی کھو دیا ہے، جس کے استعمال سے اور کچھ نہیں تو ڈھارس بندھانے کا اہتمام کیا جا سکتا تھا۔
وزیر اعظم کی ٹیم کو اپنے قائد کے سامنے آنے والے ہفتوں یا مہینوں میں عوام کے زاویے سے آسانی پیدا کرنے والے اقدامات کا ایک منصوبہ رکھنا تھا۔ وہ ابھی تک تیار نہیں ہوا، ہر وزیر اپنے مسائل میں اتنا الجھا ہوا ہے کہ مل کر قومی ویژن کو ترتیب دینے کی ذمے داری کوئی اٹھانے کو تیار ہی نہیں ہے۔ لہذا یہ تصور روز بروز زور پکڑتا جا رہا ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہم کچھ بھی نہیں کر پا رہے۔ وہ وزراء جو آئے دن ٹیلی وژن پر بیٹھے دانش مندانہ گفتگو کرتے ہوئے سنائی دیتے تھے، اب ڈ ھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ یقیناً قوم کو اُن کا چہرہ نہیں دیکھنا لیکن اُن سے یہ ضرور سننا ہے کہ وہ کیا وظیفہ پڑھ رہے ہیں۔ نہ وزیر اعظم بول رہا ہے نہ وزراء۔ پاکستان میں ہونے والی بحث کا خانہ شکایتوں سے بھر رہا ہے۔ وضاحتیں موجود نہیں۔
مگر دوسری طرف اِس سال چند ایسے واقعات یقیناً ہوں گے جن سے نظام میں عمومی اصلاح اور بہتری کا پہلو یقیناً تقویت پائے گا۔ صدر آصف علی زرداری کی جگہ اگلے دو ماہ میں نیا صدر آ جائے گا۔ اگرچہ صدر زرداری کی دانش مندی کو اُن کے دوستو ں نے ارسطو کے افکار سے بھی بلند درجہ د ے رکھا ہے۔ مگر اُن کی موجودگی سے یہ ملک کچھ خاص مستفید نہیں ہو پایا۔ شاید ہم ہی بد قسمت ہیں کہ ایسی عظیم شخصیت کی ذہانت کو اپنے فائد ے کے لیے استعمال نہ کر پائے۔ پر کچھ ایسا ہی حال پیپلز پارٹی کا بھی ہوا جو اُن کے سیاسی فلسفے کی رہنمائی کے باوجود سیاسی پہاڑ سے رائی میں تبدیل ہو گئی۔
بہر حال اُن کے جانے کے بعد اگر ایک ایسا صدر منتخب ہو جائے جو ہماری دانائی کے ادنیٰ معیار پر پورا اترتا ہو اور عمومی طور پر اتفاق رائے سے ایوان صدر میں اپنی سیٹ سنبھالے تو اُس سے قومی معاملات اور سیاسی نظام میں وہ یکسوئی آ جائے گی جو ابھی تک موجود نہیں۔ اس سال پاکستان آرمی کی بھی کمان تبدیل ہو جائے گی۔
چیف آف آرمی اسٹاف اشفاق پرویز کیانی کی جگہ کوئی اور لے لے گا۔ اِس حوالے سے ذرایع ابلاغ میں دلچسپ اور نت نئے تجزیے بھی ہو رہے ہیں۔ ایسی خبریں چھپ رہی ہیں جن میں شامل معلومات انتہائی تجربہ کار صحافیوں کے لیے اکٹھا کرنا محال ہے۔ ظاہر ہے بہت سی بیرونی اور اندرونی لابیاں اپنے اپنے زاویے ذرایع ابلاغ کے ذریعے سامنے لا رہی ہیں۔ مگر ہونا وہی ہے جو طے پا چکا ہے (کس کا نا م حقیقی فہر ست میں اول ہے میں جانتے ہو ئے بھی نہیں لکھو ں گا ورنہ مجھ پر بھی لابنگ کا الزام لگ جائے گا)۔
تیسری بڑی تبدیلی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ اور سنیارٹی کے اصول کے تحت عدالت عظمیٰ میں اُن کے جانشین کی تعنیاتی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عدلیہ کے لیے بیش قیمت اور تاریخ ساز خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان کا نام عدالتی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ نئے چیف جسٹس کے لیے وہ ایک قا بل تقلید مگر مشکل ورثہ چھوڑ کر جائیں گے۔ مگر پھر ہر عہد ے کا ایک اختتا م متعین ہے۔ اہم ترین شخصیات بھی نظا م پر بھاری نہیں ہو سکتیں۔ نیا صدر، نیا آرمی چیف اور نیا چیف جسٹس مل کر تبدیلی کے اس کا م کو تیز ی سے آگے بڑھا سکتے ہیں جو اِس وقت سست روی کا شکار ہے۔