جاوید ہاشمی کچی ٹہنی پر بیٹھنے کا انجام

اصل میں ہم خود بھی ایک سیڑھی ہیں اور وہ بھی پہلی سیڑھی اس لیے جب بھی سیڑھی کا ذکر آتا ہے.

barq@email.com

خبر یہ ہے کہ نواز شریف کو اپنا لیڈر کہنے والے جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف ۔۔۔ دل سے ۔۔۔ معاف نہ کر سکی، راویان فصیح البیان کا کہنا ہے کہ پچھلے سال کی طرح اب کے ان کو افطار پارٹیوں میں بھی نہیں بلایا جا رہا ہے اور پارٹی کی طرف سے ان کو صفر میں ضرب دیا جا رہا ہے ۔۔۔ ایسے ہی مواقع پر پشتو کا ایک ٹپہ کہا گیا ہے کہ

د لیونئی حاجت پورہ شو
پہ لارہ زی پہ کانڑوا ولی زیار تو نہ

ترجمہ : پگلی کی منت پوری ہو گئی تو اب وہ راہ چلتے ہوئے ''مزاروں'' کو پتھر مارتی ہے جن پر کبھی منتیں مانگا کرتی تھی۔ ویسے یہ ٹپہ بڑا حسب حال اس لیے بھی ہے کہ جاوید ہاشمی درحقیقت ایک مزاری ہیں نہ جانے کتنوں نے اس مزار پر منتیں مانیں اور پوری ہونے کے بعد ہاتھوں میں پتھر اٹھا لیے، ویسے بھی وہ تختہ دار کے سائے تلے ہی تمام ہو گئے تھے اس کے بعد اگر کچھ باقی ہے تو ان کا مزار ہی ہے، جب نواز شریف کے بن باس کا زمانہ تھا تو اس وقت جاوید ہاشمی ہی نے ''بھرت'' بن کر اس کی کھڑاویں مسلم لیگ کے راج سنگھاسن پر جمائے رکھیں، رام چندر تو برائے نام بن باس کے نام پر دنیا بھر کی سیریں کر رہے تھے لیکن بھرت تخت کے بجائے ''تختہ'' دار کے سائے میں جمے رہے، ''تختہ'' اس لیے کہ تخت پر تو رام جی کی کھڑاویں رکھی تھی، آخر کار رام جی کا بن باس ختم ہوا اور وہ ایودھیا لوٹ آئے تو اس پوری کہانی دیپاولی اور جشن میں کسی نے پوچھا بھی نہیں کہ یہاں ایک بھرت بھی ہوا کرتا تھا۔

تو مجھے بھول گیا ہو تو پتہ بتلا دوں
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا

لیکن دنیا کے کاروبار میں اور پھر خصوصی طور پر سیاست کے ایوانوں میں پہلی ''سیڑھی'' کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا جاتا جس پر قدم رکھ کر اوپر جانے والوں کو دوسری سیڑھی ملتی ہے، سیڑھیوں کا مقدر ہی یہ ہے کہ بام پر پہنچنے والے ان کو کبھی یاد نہیں کرتے، اسے صرف یہ یاد رہتا ہے کہ میں اوپر ہوں اور اس لیے اوپر ہوں کہ میں اوپر تھا اوپر ہوں اور اوپر ہی رہوں گا، اور بے چاری سیڑھیاں،

قدرِ سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں
کتنی ارزاں ہے گرانی میری

اور جاوید ہاشمی تو جیسے پیدائشی سیڑھی ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایوب خان سے لے کر بھٹو تک اور پھر ضیاء الحق تک کے ادوار میں وہ نہ جانے کتنوں کے لیے سیڑھی بنے رہے۔ ایسے میں یہ خبر بالکل فطری ہے کہ تحریک انصاف نے سیڑھی کو بھلا دیا ہے، بھلا کوئی سیڑھیوں کو بھی یاد رکھتا ہے۔ سیڑھیاں بھی کوئی یاد رکھنے کی چیز ہوتی ہیں۔ سیڑھیوں کا تو مقدر ہی یہی ہے کہ ہر کسی کو اوپر چڑھاتی رہیں اور خود وہیں کی وہیں پڑی رہیں۔

ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے
یاں تک مٹے کہ آپ ہی اپنی قسم ہوئے
سختی کشان عشق کی پوچھو ہو کیا خبر
وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا علم ہوئے

اور تحریک انصاف تو تیز رفتار بہت ہے، وہ بھلا پیچھے مڑ کر کیوں دیکھے گی۔ ان کے پیش نظر نیا پاکستان ہے اور نئے پاکستان میں پرانی چیزوں کی کیا ضرورت ہے۔ بقول خوش حال خان خٹک کے تو اب ''بڑے بڑے شکار'' پر نظر ہے، چھوٹی موٹی چیزوں پر نظر ڈال کر اپنی منزل کیوں کھوئی جائے۔


رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

اصل میں ہم خود بھی ایک سیڑھی ہیں اور وہ بھی پہلی سیڑھی اس لیے جب بھی سیڑھی کا ذکر آتا ہے تو ہم بھی اپنے جلے دل کے تھوڑے سے پھپھولے پھوڑ لیتے ہیں۔ سیڑھیوں میں ایک قسم کی سیڑھیاں تو وہ ہوتی ہیں جن پر ایک ایک قدم رکھ کر اوپر چڑھا جاتا ہے اور دوسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہی پہلی اور تیسری پر قدم رکھ کر دوسری سیڑھی کو کبھی کوئی یاد نہیں رکھتا۔ اور اب تو سیڑھیوں ہی کا تکلف سرے سے ختم ہو گیا ہے۔ اوپر چڑھنے کے لیے ''لفٹ'' سے کام لیا جاتا ہے۔ اس لیے سیڑھی کا وجود صرف سانپ سیڑھی کے کھیل ہی میں باقی رہ گیا ہے۔ سیڑھی چڑھنے والا یہاں بھی سیڑھی کو یوں بھلا دیتا ہے جسے جانتا ہی نہیں۔ لیکن جب کوئی سانپ اسے نگل کر جدہ پہنچاتا ہے تو وہ ایک مرتبہ پھر کسی سیڑھی کی تلاش میں محو ہو جاتا ہے

پھر ترے کوچہ کو جاتا ہے خیال
دل گم گشتہ مگر یاد آیا

پھر وہ پوچھتا ہے اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی۔ بے چارے جاوید ہاشمی بھی اگر سیڑھی کی طرح ایک طرف ڈال دیے گئے ہیں تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ بھلا کسی نے کسی ایسے بے وقوف کو بھی دیکھا ہو گا جو چھت پر پہنچ کر سیڑھی کو اپنے کاندھے پر رکھتا پھرے۔ معلوم نہیں نواز شریف کو اپنا لیڈر کہنے میں جاوید ہاشمی کے منہ سے ایسا کون سا کلمہ کفر سرزد ہو گیا کہ ان کو نہ صرف ''دائرہ انصاف'' سے خارج کر گیا بلکہ ان کا حقہ پانی بند کرنے کا بھی سبب بن گیا۔ لیکن اصل مسئلہ کچھ کہنے سننے کا نہیں بلکہ وہی ''پگلی'' کا ہے جس کی منت پوری ہو گئی تھی اور پھر وہ راہ چلتے ہوئے پتھر اٹھا اٹھا کر مزاروں کو نشانہ بناتی تھی۔ تحریک انصاف کے ارباب بست و کشاد بھی شاید اسی عارضے کا شکار ہو گئے ہیں جو سیاست میں اکثر لاحق ہو جاتا ہے۔ کچھ اتفاقی شکار ملنے پر اکثر لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سب کچھ میرے کمال کا نتیجہ ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ آج وہ راہ چلتے کسی جگہ آپ کو رقم کی ایک تھیلی مل جائے اور آپ کام کاج چھوڑ کر روزانہ اسی راستے پر ویسی ہی تھیلی ڈھونڈنے نکل پڑیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ رقم کی وہ تھیلی آپ کے کسی کمال کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور کی لاپروائی یا کوتاہی یا بدقسمتی سے گری تھی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ٹھیک اسی جگہ پھر بھی کسی کو ویسی ہی ''تھیلی'' ملی ہو۔ نہ ایم ایم اے کو دوبارہ وہ تھیلی ملی نہ اے این پی کو ملی اور نہ کسی اور کو ملے گی۔ تھیلیاں نہ روز روز گرتی ہیں نہ ملتی ہیں۔

غرہ اوج بنائے عالم امکان نہ ہو
اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن

ہاں وہ شخص البتہ کامیاب ہو گا جو اس تھیلی کو سنبھال سنبھال کر خرچ کرے گا۔ مال مفت دل بے رحم کا مظاہرہ کر کے یہاں وہاں نہیں پھینکے گا۔ تحریک انصاف کے نو آموز نعرہ بازوں کو شاید یہ علم نہیں کہ جاوید ہاشمی جیسے سکے خال خال تھیلیوں میں ملتے ہیں اور قسمت والوں کو ملتے ہیں لیکن رحمٰن بابا نے بھی تو سچ بولا ہے کہ

پہ دکان دنابیناؤ جوہر یانو
خر مہرہ لال او گوہر دریواڑہ یودی

یعنی نابینا جوہریوں کی دکان میں کنکر پتھر اور لال و گوہر ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ جہاں تک جاوید ہاشمی کا تعلق ہے تو ہم انھیں جانتے بھی ہیں اور پہچانتے بھی ہیں کیوں کہ اپنا ہی ہم قبیلہ ہے وہ بھی ۔۔۔ اس لیے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس نے کیا کہا اور کیا، گل نے صنوبر کے ساتھ کیا کیا اور صنوبر نے گل کے ساتھ کیا کیا۔

تیری وفا سے کیا ہو تلافی کے دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پر بہت سے ستم ہوئے
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں چکاں
پر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
چھوڑی اسد نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشق اہل کرم ہوئے
Load Next Story