اور کیا دیکھنے کو باقی ہے

ہر سمے، ہر لمحے سیاست اور ملک کے حالات پر بات ہورہی ہے

جب تاحد نظر سرسبز وادیاں ہوں، گاتے گنگناتے جھرنے، جب دل کا کنول نسیم صبح سے گلزار ہو، جب صدیوں کی مسافت طے کرکے بھی قدم نہ تھکتے ہوں، جب منزل سامنے ہو اور فضائیں امید کے گیت سناتی ہوں، جب انتظار کی صبر آزما ساعتیں اختتام پذیر ہوں تو ذہن و رسا کی کیا کیفیت ہوتی ہے، آنکھوں میں سنہری خواب سجائے لوگ ایک نئی زندگی کا آفتاب طلوع ہوتے دیکھ رہے ہوں تو راہ کے خار بھی پھول معلوم ہوتے ہیں، ہجر کے عذاب اٹھاکر جب ہم نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت مملکت پاکستان میں قدم رکھا تو ہمارے جذبات ان کیفیتوں سے مختلف نہ تھے، جان، مال، عزت و آبرو سب سے مقدم تھی اور اسی کی خاطر انجانے میں ہم سے وہ بھول ہوئی جس کا خمیازہ بھگتنے کا شاید وقت آگیا۔

ہر سمے، ہر لمحے سیاست اور ملک کے حالات پر بات ہورہی ہے، انفرادی مسائل، اجتماعی مصائب میں تبدیل ہوگئے، ہر گھر کی ایک کہانی ہے اور ہر کہانی کا انجام تقریباً ایک جیسا ہے یعنی وہی مایوسی، بیزاری، چڑچڑاہٹ اور ناامیدی جن کے وسائل ہیں وہ یہاں سے چلے گئے اور جو نہ جاسکے وہ حسرتوں کے سمندر میں گلے گلے ڈوب گئے کہ ان کے سامنے ان کی نسل تھی، وہ نوجوان نسل جو مجاز کی نظم آوارہ کی طرح دربدر پھر رہی ہے، جو جھلا گئی ہے، جھنجھلا گئی ہے جو دل و جان سے یہ کہتی نظر آتی ہے کہ

جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں
اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں
ایک دو کا ذکر کیا سارے کے سارے نوچ لوں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

پردے گرتے جارہے ہیں اور ان کے پس منظر میں پھر پردے نظر آرہے ہیں، کوئی واضح شکل سامنے نظر نہیں آتی، چہرے بھی کہاں بدل رہے ہیں، نظام بھی کہاں تبدیل ہورہا ہے، کوڑا جمال شاہی اور آنکھ مچولی کا کھیل چھ دہائیوں سے ملک میں مسلط ہے، اب تو بھاگتے بھاگتے قوم کے قدم بھی تھک گئے ہیں، ہر بار سوچتے ہیں شاید اس بار انداز حکمرانی بدل جائے مگر ہم گھوم پھر کر اسی مرکز پر آجاتے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ دل میں مصمم ارادہ کرتے ہیں کہ اس بار کسی دھوکے میں نہیں آئیں گے، کسی کا پرچم بلند نہیں کریں گے، کسی کے وعدوں پر اعتبار نہیں کریں گے، کسی کے دعوؤں پر کان نہیں دھریں گے، کسی کی محبت بھری باتوں پر یقین نہیں کریں گے مگر ٹھوکریں ہیں کہ ساتھ ہی نہیں چھوڑتیں جیسے ہم تسلسل سے، تواتر سے چلنا بھول گئے۔

جہاں شدید اضافے کی ضرورت تھی یعنی جو غریب لوگ قومی بچت میں بڑھاپے کے تحفظ کے لیے اپنی جمع پونجی ماہانہ بنیاد پر رکھتے تھے ان کے ہاں بھی کٹوتی ہوگئی کیونکہ یہ کٹوتی سرکاری خزانہ بھرنے کے لیے ضروری تھی، پھر حکومتوں کو یہ کب گوارا تھا کہ لوگ پٹرول کے بجائے سی این جی استعمال کریں سو سی این جی کی بندش نے جہاں عوام سے سفر کی سہولت چھینی وہیں ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو بھی تہہ و بالا کردیا۔

نور اور برکتوں کے اس مہینے میں جہاں ہندوستان جیسے ملک میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں گر جاتی ہیں، اس اسلامی جمہوری پاکستان میں لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے، کل سبزی والے نے ہرے دھنیے کی ایک چھوٹی گٹھی پچیس روپے میں بیچی ورنہ بیس تو عام ہے جب کہ چند دن پہلے ہی اس کی قیمت صرف پانچ روپے تھی، اسی طرح سبزیوں اور پھلوں کے داموں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا۔ حیرت ہے کہ مسجدیں نمازیوں سے بھر رہی ہیں، جگہ جگہ قرآن پڑھے جارہے ہیں، تراویح جاری ہے، مگر انھی میں سے بعض لوگ جو رمضان کا احترام کرنے کا درس دیتے ہیں اور ایک روزے کا ناغہ نہیں کرتے جب ناپ تول کرتے ہیں تو ڈنڈی مار جاتے ہیں، دعاؤں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں اور اناج کا ذخیرہ کرتے ہیں۔


اس تلخ نوائی پر مجھے معاف کیجیے گا کہ سر پر جالی کی سفید ٹوپی رکھنے، شرعی پاجامہ پہننے اور کاندھے پر رومال رکھنے سے کوئی مسلمان نہیں ہوجاتا کہ دیانت داری اور ایمانداری مومن کی جان بھی ہے اور پہچان بھی۔ ہر آنے والا دن جانے والے دن سے بدتر ہورہا ہے۔

بریکنگ نیوز کی کوئی ویلیو نہیں رہی، لوگ یہی کہتے ہوئے پائے جارہے ہیں کہ کوئی بم پھٹا ہوگا، کوئی کرپشن میں ملوث ہوا ہوگا، کہیں غیرت کے نام پر قتل ہوا ہوگا، کہیں سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہوگا، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اخبار پڑھنا بند کرنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی کا نیوز چینل بھی بند کردیا جائے تو اس بے خبری میں ہی امان ہے مگر اس کا کیا کیجیے کہ جب گھر کی دہلیز کی چوکھٹ سے سرٹکائے کھڑکی کا پٹ کھولے کوئی ماں، بہن یا بیٹی کسی کی راہ تکتی ہے تو زندہ آنے والے کے بجائے ایک ایمبولینس دروازے پر رک جاتی ہے کہ یہ نامعلوم افراد کا کارنامہ ہے۔ یہ نامعلوم افراد کون ہیں اور لاپتہ افراد کی اصطلاح کب ایجاد ہوئی اس کی تاریخ کا تو پتہ نہیں ہاں اتنا معلوم ہے کہ اس کی دریافت ہمارے ملک میں ہوئی، کولمبس نے امریکا دریافت کیا اور ہم نے نامعلوم افراد۔

کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی لگانے سے بھی جرائم نہ رک سکے البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ٹرانسپورٹ کی شدید تکلیفوں سے بھرے اس شہر میں مسائل مزید بڑھ گئے، لوگ دفاتر دیر سے پہنچنے لگے، ایمبولینس میں اسپتال جانے والے مریضوں کے مرنے کی تعداد میں اضافہ ہوگیا، ٹریفک جام ہونے کی صورت میں لوٹ مار کے واقعات بڑھنے لگے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کے مسائل ہولناک حد تک جنم لینے لگے، فضائی آلودگی، پریشر ہارن، بے ہنگم شور شرابے، جابجا پھیلی ہوئی تجاوزات، غلط پارکنگ کے باوجود اوورٹیکنگ اور منزل تک پہنچنے کی جلدی نے منیر نیازی کا یہ شعر یاد دلادیا۔

منیر اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

کراچی کے بارونق علاقے لیاری کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اپنے وطن میں رہ کر بے وطن ہونے والے اہل لیاری ٹھٹھہ کے ویران میدانوں میں کھلے آسمان تلے عزت و آبرو کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں، یہاں ظلم و بربریت نے اپنے پنجے گاڑ دیے۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق وزیراعظم صاحب نے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی صاحب کو متاثرہ علاقے میں فوری پہنچنے کا حکم صادر فرمایا ورنہ تو سندھ حکومت تو نیرو کی طرح چین کی بانسری بجا رہی تھی۔ مگر پھر بھی کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ شر انگیزیاں اور فتنہ سامانیاں کب کنٹرول ہوں گی، کراچی شہر میں ایسے کتنے ہی علاقے ہیں جو نو گوایریاز میں تبدیل ہوگئے ہیں جہاں پولیس جانے سے گھبراتی ہے۔ ہر محکمے میں کرپشن اور ہر شعبے میں دھاندلی ہے، صرف اہل ثروت اور سیاستدانوں کو الزام کیا دیجیے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری قوم ہی پیسے کے پیچھے بھاگ رہی ہے اور اس ریس میں اپنی تہذیب کھو چکی ہے۔

بھری مسجدوں میں خودکش حملے ہورہے ہیں اور حملے کرنے والے بھی وہ ہیں جو باریش ہیں، اسلام کا پرچار کرتے ہیں، شریعت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ اختیار صرف رب کون و مکاں کو حاصل ہے کہ کون اپنے اعمال کے بدلے جنت میں جائے گا اور کون جہنم رسید ہوگا مگر یہ تو خودکش بمبار کو پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ اگر تم نے یہ ''نیک'' فریضہ انجام دیا تو براہ راست جنت میں جاؤگے جہاں حسین حوریں تمہارا استقبال کریں گی، پھر کچھ بیرونی ہاتھ اس تباہی کے ذمے دار ہیں، اگر ان کی بیخ کنی نہ کی گئی تو پھر داغ داغ اجالا ہوگا، راستے گم اور منزلیں معدوم ہوجائیں گی اب تو زندگی مفلس کی قبا بن گئی ہے جس میں بقول فیض صاحب ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جارہے ہیں۔

پھر بھی ہم اندھیروں کے چیختے چلاتے صحراؤں میں امیدوں کے دیے روشن کرتے ہیں، اس آسرے پر کہ
کہیں تو قافلہ نو بہار ٹھہرے گا
Load Next Story